انٹونی بلنکن: بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے

عالمی بساط پر مسئلہ فلسطین ، اسرائیل اور امریکہ

ڈاکٹر سلیم خان

یہ سوال پیدا ہوتا ہے جو بائیڈن انتظامیہ سے اتنی بڑی غلطی کیونکر سرزدہوئی کہ ساری دنیا میں پوری قوم  کی مٹی پلید ہوگئی؟ 

7؍ اکتوبر کی مزاحمت اور اس کے بعد بے مثال استقامت  نے اسرائیل کے ساتھ امریکہ کی رعونت  کو  بھی پاش پاش کردیا ۔  اسرائیلی بربریت میں امریکی  شراکت داری   کا انکشاف  امریکہ کے واٹسن انسٹی ٹیوٹ کی ایک رپورٹ میں درج ہے۔ اس کے مطابق   غزہ کی جنگ میں 7؍ اکتوبر 2023ء سے  نومبر  2024ء تک امریکہ نے اسرائیل کو تقریباً 18؍ ارب ڈالر کی فوجی امداد فراہم کی لیکن اس کے باوجود ’ الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا‘۔اسرائیل کے سارے اہداف  میں ناکامی  کا اعتراف خود  اسرائیلی سیاستدانوں سمیت فوجی سربراہ بھی کرچکاہے ۔  امریکی صد رجو بائیڈن کو اس  جنگ نے انتخاب  میں بھی  شکست فاش سے دوچارکردیا ۔ جب  انہیں ہوش آیا تو انہوں نے  اپنی چار سالہ مدت  کے اختتام پر قصرِ ابیض میں  ٹیلی ویژن پر  براہ راست آخری عوامی  خطاب  کا آغاز  غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی سے کیا ۔ اس امن معاہدے کا  حوالہ دیتے ہوئے وہ بولے کہ یہ جنگ بندی ان کے مئی میں پیش کردہ مسودے کے مطابق ہے اور یہ ان کی ٹیم کی کامیابی ہے۔

امن کا کریڈٹ لینے والے بائیڈن بھول گئے کہ نسل کشی کے دوران مئی 2024ء میں بائیڈن انتظامیہ نے کانگریس کو بتایا تھا کہ وہ اسرائیل کو 8400 کروڑ روپے سے زیادہ کے ہتھیار بھیجنے کا منصوبہ بنا رہا ہے اور آگے چل کر اس  پر عمل درآمد بھی کیا گیا۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس پیکج میں 70 لاکھ ڈالر مالیت کے ٹینک اور گولہ بارود شامل تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا امن قائم کرنے والے کھلے عام نسل کشی میں ملوث   سفاک حکمراں کو اس طرح اسلحہ فراہم کرتے ہیں؟  بائیڈن کا یہ دعویٰ درست ہے کہ   بڑی ردو کد کے بعد  پچھلے سال جون میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پاگیا تھالیکن سوال یہ ہے کہ امریکہ اس کو نافذ کرنے میں کیوں ناکام رہا ؟ سچ تو یہ ہے کہ اگر جو بائیڈن کو اس مقصد میں کامیابی مل جاتی تو آج ڈونلڈ ٹرمپ کے ہاتھوں انہیں آئے دن رسوائی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ۔ امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ تو ان کی تردید میں  یہ  کہتے پھر رہے  ہیں کہ  غزہ معاہدہ ان کی تاریخی فتح کا نتیجہ ہے ۔ ٹرمپ جنگ بندی معاہدے کو وسعت دینا چاہتے ہیں۔  اس کا ثبوت ان کے ذریعے  اسرائیل کو لبنان سے نکل جانے کا حکم اور ایران کے ساتھ سفارتی گفتگو کا عندیہ ہے۔

 سچائی یہ ہے کہ جو بائیڈن کی خود اپنے پیش کردہ امن معاہدے کے نفاذ میں ناکامی  کا ٹرمپ نے خوب فائدہ اٹھایا۔۶؍ ماہ قبل   اس معاہدے کی مخالفت  اسرائیل کے  انتہا پسند وزیر داخلہ  ایتماربن گوئر  اور وزیر خزانہ  بزالل اسموتریچ   نے کی تھی۔ نیتن یاہو کو چونکہ  اقتدار گنوانے کے بعد جیل جانے کا  خوف ستا رہا تھا اس لیے انہوں  نے  امن کو پامال کرکے ان دونوں کے آگے ہتھیار ڈال دئیے ۔ اس اقدام کی  خود اسرائیل   میں سخت مخالفت ہوئی ۔ ا سے  اپنی ۶؍ رکنی جنگی کابینہ تحلیل کر نا پڑی کیونکہ  حزبِ اختلاف کے رہنما بینی گینٹز اور گادی آئزنکوٹ نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ وہ  دونوں  موقع پرست سیاستداں  نہیں بلکہ سابق چیف آف اسٹاف ہیں۔ ا ن کا الزام  تھا کہ حکمتِ عملی کا فقدان اور وزیر اعظم کی قیادت  ہی حقیقی فتح میں  رکاوٹ  ہے۔  اس سنگین  صورتحال میں انہیں سمجھانے بجھانے  کی کوشش کرنے کے بجائے  الٹا  بن گویر،  نیتن یاہو سے خود  کوجنگی کابینہ میں شامل کرنے کا مطالبہ کرنے لگا ۔ اس وقت وزیر دفاع یواو گیلنٹ نے جنگ کو غیر ضروری طول دینے سے فوجیوں میں بے چینی پر تشویش کا اظہار کیا مگر اس کے جواب میں   نیتن یاہو نے انہیں کووزارت سے نکال باہر کیا  ۔فوجیوں نے  اجتماعی خطوط لکھ کر یہاں تک کہاتھا کہ اگر امن معاہدے پر عمل نہیں ہوا تو وہ  جنگ لڑنے سے انکار کردیں گے۔  عوام سڑکوں پر احتجاج کرتے رہے مگر امریکہ نیتن یاہو کی پشت پناہی کرتا رہا۔

ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے جو بائیڈن انتظامیہ سے اتنی بڑی غلطی کیونکر سرزدہوئی کہ ساری دنیا میں پوری قوم  کی مٹی پلید ہوگئی؟  اس کی بنیادی وجہ جو بائیڈن کے ذریعے انٹونی بلنکن جیسے یہودی   کو وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز کرنا اور ان کی ہر بات کو مان لینا ہے۔ ۷؍ اکتوبر کے ۵؍ دن بعد  جو بائیڈن نے بلنکن کو  مشرقِ وسطیٰ کے دورے پر روانہ کیا تو وہ سب سے پہلے اسرائیل پہنچے۔ انہوں نے وہاں موجود صحافیوں  کے سامنے پہلے تو ہولوکاسٹ سے بچنے کے اپنے خاندان کی تاریخ بیان کی اور پھر   کہا  کہ وہ  ”صرف سیکرٹری آف اسٹیٹ کے طور پر نہیں، بلکہ ایک یہودی کے طور پر بھی“ آئے ہیں ۔  بلنکن نے لیپا پوتی کے لیے  غزہ کی شہری آبادی کے تحفظ کا مطالبہ کرنے سے پہلے یہ  کہا کہ ، ”وزیر اعظم (نیتن یاہو) ، میں ذاتی سطح پر سمجھتا ہوں کہ حماس کے قتل عام کی وجہ سے ہر جگہ اسرائیلی یہودیوں کے ساتھ ساتھ (دیگر)  یہودیوں کے لیے بھی دردناک بازگشت ہے۔“ وہ بولے :”میں اسرائیل کے لیے یہ  پیغام لاتا ہوں  کہ  آپ اپنے دفاع کے لیے اپنے طور پر کافی مضبوط ہو سکتے ہیں۔ لیکن جب تک امریکہ موجود ہے، آپ کو کبھی بھی ایسا نہیں کرنا پڑے گا“۔

انٹونی بلنکن کی جانبداری نے یہ ثابت کردیا کہ وہ اسرائیل اورفلسطین کے  درمیان امن و انصاف قائم کرنے کے لیے اہل نہیں ہیں  اس کے باوجود  انہیں نکال باہر کرنے کے بجائے صدر بائیڈن نے 2021ء سے لے کر پوری مدت کار تک سیکرٹری آف اسٹیٹ کی ذمہ داری  ادا کرنے کا موقع دیا اور  وہی غلطی بائیڈن سمیت  پارٹی کو  لے ڈوبی ۔  بلنکن نے ان پندرہ ماہ میں مشرق وسطیٰ کے بے شمار دورے کیے اور خوب چکنی چپڑی باتیں کیں، مثلاً ایک بار کہا ”اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق ہے، درحقیقت یہ اس کی ذمہ داری ہے،“لیکن پھر یہ شرط لگائی  کہ ”اسرائیل یہ کیسے کرتا ہے، اہم ہے۔ ہم جمہوریتیں انسانی جانوں کی قیمت لگا کر خود کو دہشت گردوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ اس لیے ہر طرح کی احتیاط برتنا ضروری ہے۔ ہم ہر جان کے ضیاع پر ماتم کرتے ہیں۔“ غزہ میں اسرائیل بربریت نے  یہ ثابت  کردیا کہ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد اسرائیل  ہے اور اسے امریکہ کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے اس لیے وہ بھی اس میں برابر کا شریکِ کار ہے۔   جمہوریت کی پذیرائی اور امن و سلامتی کا یہ راگ  دراصل انگور نہیں ملے تو کھٹے والی کہاوت کی مصداق  ہے  کیونکہ حماس نے بیک وقت اسرائیل اور امریکہ سمیت سارے حواریوں  کے دانت کھٹے کردئیے ۔ حماس نے اپنے جہاد سے مغربی جمہوریت کی نیلم پری کو بے نقاب کردیا ۔ اس کے چہرے پر پڑی چمک دارنقاب  کو ہٹایا گیا تو  اس کابدنما چہرا سب کے سامنے آگیا  ۔بقول اقبال ؎

تُو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہُوری نظام

چہرہ روشن، اندرُوں چنگیز سے تاریک تر!

انٹونی بلنکن سے ایک مرتبہ انٹرویو میں سوال کیا گیا کہ کیا وہ اسرائیل کے ’’حماس کو پوری طرح نیست و نابود کردینے کے موقف سے اتفاق کرتے ہیں ‘‘تو ان کا جواب’ہاں ‘ تھا ۔لیکن یہ مشیت ایزدی کا کرارہ طمانچہ ہے  کہ بے آبرو ہو کراقتدار سے بے  دخل ہو تے ہوتے  انہیں اعتراف کرنا پڑا کہ، حماس نے تقریباً اتنے جنگجو بھرتی کرلیے  جتنے جنگ میں مارے جا چکے ہیں۔بلنکن کا یہ بیان، اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے اس عہد کی ذلت آمیز شکست تھا  جس میں انہوں نے غزہ سے حماس کے خاتمہ کو مکمل فتح  سے منسلک  کیا تھا ۔یہ اس بات کا اعتراف بھی ہے کہ اس جنگ میں اپنے کئی اعلیٰ رہنماوں کی شہادت کے باوجود  حماس کمزور ہونے کے بجائے مضبوط تر ہوگیا ۔ جنگ بندی کے بعد یرغمالیوں اور ان کے عوض  تیس مقابلے نوےّ اور پھر چار کے بدلے دوسو فلسطینی قیدیوں کی رہائی  کے وقت ہتھیا ربند مجاہدین اسلام کی ویڈیوز، ان کی قوت اور زبردست عوامی تائید کا منہ بولتا ثبوت ہے  ۔ یہ مقبولیت نہ تو نیتن یاہو کو حاصل ہے اور نہ ٹرمپ  کو۔  جہاں تک بائیڈن اور بلنکن کا تعلق ہے وہ تو ذلیل ہوکر رخصت ہوگئے جبکہ حماس نے اسرائیل کو اپنی شرائط پر جھکنے کے لیے مجبور کردیا ۔

امریکہ کی تاریخ میں کسی وزیر خارجہ کا الوداعیہ  انٹونی بلنکن  جیسا رسوا کن نہیں تھا ۔ اٹلانٹک کاونسل میں انہوں نے  تسلیم کیا تھا  کہ عام شہریوں کا تحفظ ضروری ہے اور اسرائیل نے غزہ پر حملے کے دوران عام شہریوں کے تحفظ میں کوتاہی کی ہے۔ وہ بولے اسرائیل  ہر علاقے پر حملہ  کر رہا ہے اورپورا غزہ  عام شہریوں کے لئے غیر  محفوظ ہو گیا ہے۔ بلنکن نے  یہ بھی کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ عام شہریوں کے تحفظ کے لئے زیادہ کوشش کی جانی چاہیے کیونکہ  اسرائیل نے  عام شہریوں کے تحفظ کا  جووعدہ کیا ہے اس میں اورزمینی  حقائق میں بہت فرق ہے۔ ہزاروں افراد مارے گئے ہيں۔ اس لیپا پوتی کے خلاف پریس کانفرنس میں موجود ایک شخص نے فلسطین کی حمایت میں نعرے لگا کر انٹونی بلنکن کو جنگی جرائم کا مرتکب مجرم  قرار دے دیا۔ پولیس نے احتجاج کرنے والے کو باہر نکالا۔ امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن کے اختتامی ایام  ان کے گلے کی ہڈی بن گئے تھے ۔ انہیں  آخری  48 گھنٹوں میں غزہ اور اسرائیلی جنگ پر شدید ردعمل  نیز بڑی بے عزتی اور شرمندگی  کا سامنا کرنا پڑا۔

 امریکی وزیرِ خارجہ تو  اپنی الوداعی پریس کانفرنس کو یادگار  بنانا چاہتے تھے لیکن وہ ایک  ڈراؤنا خواب بن گئی ـ اس پریس کانفرنس میں موجود 2 صحافیوں اور ایک خاتون نے غزہ جنگ پر شدید احتجاج کیا اور انٹونی بلنکن کو خوب کھری کھری سنا ڈالی جس سے افرا تفری  پھیل گئی۔ پریس کانفرنس کے دوران جب  انہوں  نےغزہ میں 15 ماہ کی جنگ کے دوران بائیڈن انتظامیہ کے فیصلوں اور پالیسیوں کا دفاع کرنا شروع کیا تو  اس کے خلاف  صحافی سام حسینی نے کھڑے ہوکرکہا ایمنسٹی انٹرنیشنل سے لے کر آئی سی جے تک ہر کوئی اسرائیل کونسل کشی اور قتل و غارت کامجرم پاتا  ہے۔  اس کے باوجود آپ مجھے اس کی کارروائی  کا احترام کرنے کو کہہ رہے ہیں؟اس  احتجاج کو نظر انداز کردیا جاتا تو امریکہ میں اظہار رائے کی آزادی کا  ڈنکا پٹتا، لیکن تھوڑی دیر بعد  حفاظتی  اہل کارحسینی کو وہاں سے زبردستی کرتے ہوئے باہر لے جانے لگے۔ اس دوران صحافی نے کہا چھوڑو مجھے، مجھے تکلیف ہو رہی ہے، کیا تم اس کو آزاد میڈیا کہتے ہو؟ میرے ساتھ بدتمیزی مت کرو، مگر اہل کاروں نے انہیں گھسیٹا اور اٹھا کر باہر لے گئے۔حسینی نے  جاتے جاتے غصے سے امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن کو مجرم کہہ کر امریکہ کے اندر اظہار رائے کی آزادی کاپول کھول دیا ۔

اس کے بعد بھی  امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن غزہ میں امریکہ کی پالیسیوں کے ساتھ  اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے لیے امریکہ کی حمایت کا  دفاع کرنے لگے  تو ایک اور صحافی نے سوال کیا کہ جب مئی میں معاہدہ ہو گیا تھا تو پھر آپ غزہ میں بم کیوں برسا رہے تھے؟اس کے بعد صحافی نے امریکی وزیرِ خارجہ سے کئی سوالات کیے اور انہیں صہیونی قرار دے دیا۔صحافی زور زور سے پوچھتے رہے کہ آپ نے میرے دوستوں کا قتلِ عام کیوں ہونے دیا؟ آپ نے ان کے گھر کیوں تباہ ہونے دیئے؟اس احتجاج کے خلاف  پھر ایک بار  محکمۂ خارجہ کے اہل کار حرکت میں آئے اور  اس صحافی کو بھی زبردستی وہاں سے اٹھا کر باہر لے گئے۔ اس نے بھی  جاتے ہوئے انٹونی بلنکن کو ’نسل کشی کا سیکریٹری‘ کے لقب سے نواز دیا۔ان کا کہنا تھا کہ آپ کے سسر اور آپ کے دادا اسرائیل کے حامی تھے، کیا آپ اسرائیل سے سمجھوتہ کر رہے ہیں؟صحافی نے یہ بھی کہا کہ آپ نے ہمارے دور کے ہولوکاسٹ کو کیوں ہونے دیا؟ آپ کی وراثت کو نسل کشی ہونے پر کیسا لگتا ہے؟  بلنکن بظاہرامن کا چولا اوڑھ  ظلم کی حمایت کرتے رہے اور بالآخر سیکریٹری آف اسٹیٹ کے بجائے سیکریٹری آف جینو سائیڈ کا تمغہ پاکر رخصت ہوئے ۔ ان کے وداعی پر غالب کا شعر صادق آتاہے؎

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن

بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے

 جنگ میں فتح و شکست کی کسوٹی تباہی و بربادی نہیں بلکہ اہداف کی حصولیابی ہوتا ہے۔ اس تناظر میں  دیکھا جائے تو  حماس کا 33 یرغمالیوں کے بدلے 2000 فلسطینیوں کی رہائی کی شرط کو منوانا اس کی فتح کا  زندہ ثبوت ہے۔ فلسطینیوں نے یقیناً  اس جنگ کی تباہ کن قیمت چکائی مگر دنیا کی توجہ فلسطینی کاز کی جانب مبذول  کرنے میں حماس  کامیاب رہی۔اس نے سات اکتوبر کے حوالے سے ا علان کیا تھا کہ حملے کا مقصد فلسطینی کاز کو بین الاقوامی ایجنڈے کی صف اول میں واپس لانا، مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کو اس کے اقدامات کی سزا دینا اور فلسطینی قیدیوں کو رہا کرانا ہے۔ان تینوں اہداف کی حصولیابی  میں اسے خاطر خواہ کامیابی  ملی۔ اس کے برعکس  اس جنگ کی آڑ میں ہیرو بننے کا خواب دیکھنے والا نیتن یاہو دنیا تو دور اپنے ملک میں بھی  وِلن بن گیا ۔ اب قریبی اتحادی  بھی اس کی    مذمت  کرنے پر مجبور ہیں ۔اسرائیل کی غزہ میں وحشیانہ کارروائیوں نے یورپی یونین سمیت کئی مغربی ممالک کو اسرائیل سے نالاں کر دیا ہے۔

 اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی قراردادپرووٹنگ نے  اسرائیل کی عالمی   تنہائی پر مہر لگا دی ۔ بین الاقوامی عدالت انصاف نے نسل کشی کے الزامات میں  نیتن یاہو کی گرفتاری کا وارنٹ جاری  کرکے اسے اوقات دکھا دی ۔ اسرائیلی عوام نے نیتن یاہو کے خلاف  بے شمار مظاہرےکیے اور تین وزراء کے استعفیٰ نے ان کی  حکومت کو عدم ا ستحکام کاشکارکردیاجبکہ حماس کے بغیر غزہ کے مستقبل کا تصور محال ہوگیا ہے۔حماس کو مٹانے کا خواب دیکھنے والی اسرائیلی حکومت اب خود حالت نزع میں گرفتار ہوگئی ہے۔عصرِ حاضر کایہ معجزہ کیونکر رونما ہوگیا ؟ اس سوال کا جواب قرآن مجید میں یہ ہے کہ :’’وہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پوا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔ امریکہ سمیت اسرائیل کی ناکامی اس آیت کی تائید کرتی ہے۔ آگے فرمایا  یہ تو ہونا ہی تھا کیونکہ :’’وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کر دے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔

 اس بشارت کا اپنے آپ کو حقدار بنانے کی خاطر اہلیان غزہ نے آگے والی آیت پر عمل کرکے دکھایا:’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، میں بتاؤں تم کو وہ تجارت جو تمہیں عذاب الیم سے بچا دے؟ ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر، اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو‘‘۔ انہیں یقین تھا کہ اس کے عوض :’’ اللہ  گناہ معاف کر دے گا، اور ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر عطا فرمائے گا ۔یہ ہے بڑی کامیابی‘‘۔ اس کے ساتھ انہیں اللہ تبار ک و تعالیٰ کے اس وعدے پر بھی پورا اعتماد  تھا کہ :’’ اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو وہ بھی تمہیں دے گا، اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہو جانے والی فتح۔  اے نبیؐ، اہل ایمان کو اِس کی بشارت دے دو‘‘۔  یہ واقعات  اللہ کی مددو نصرت اور قریب حاصل ہونے والی فتح کا پیش خیمہ ہےجس میں فلسطین آزاد ہوگا اور مسجد اقصیٰ کی حرمت بحال ہوجائے گی۔ بقول اقبال  ؎

آسماں ہوگا سحَر کے نور سے آئینہ پوش

اور ظُلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گ 

پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغامِ سجود

پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہو جائے گی

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں