پیشکش: نجم السحر
یہ کہانی جو میں سنانے جا رہا ہوں بہت پرانی نہیں ہے۔ مارچ کی پندرہویں تاریخ کم ازکم نیوزی لینڈ کی عوام نہیں بھول سکتی۔ جمعہ کے اس روز ایک سنکی آسٹریلیائی حملہ آور نے 49 لوگوں کی جان لے لی تھی۔ اس گھناؤنے کام کے لئے اس شخص کو اس کے جسم میں خون کی جگہ دوڑ رہے نسلی عصبیت کے زہر نے تیار کیا تھا۔ لیکن یہ کہانی اس خوفناک حادثے کی نہیں ہے۔ یہ کہانی 17 سال کے ایک ایسے آسٹریلیائی جرات مند لڑکے کی ہے جو سنکی جارحیت کو برداشت نہیں کر سکتا ہے۔ وہ تو ان لوگوں سے بڑھ کر دشمنی مول لیتا ہے جو قتل و غارت گری کی کسی درجہ میں بھی وکالت کرتے ہیں اور اسے ”اگر – مگر“کے ساتھ جائز ٹھہرانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہوا یوں کہ نیوزی لینڈ کے کرائسٹ چرچ میں ہوئے غارت گر حملے کے اگلے ہی روزایک آسٹریلیائی سینیٹر جس کا نام فریزر ایننگ ہے،صحافیوں سے بات کر رہا تھا۔ فریزر آسٹریلیا میں پہلے سے نسلی عصبیت کو بڑھاوا دینے کے لئے مشہور ہے۔ اپنی گفتگو میں اس نے نیوزی لینڈ کے حادثے کو جائز بتانے کی کوشش کی۔ اس نے کہا کہ ”مسلم انتہا پسندوں کا یورپی ممالک میں جس طریقہ سے داخلہ بڑھا ہے اسی وجہ سے ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔“ایک سترہ سال کا لڑکا جس کا نام وِل کنالی ہے، اس کے پیچھے ہی کھڑا ہوا تھا۔ وِل کے ہاتھ میں مرغی کا انڈا تھا۔ اس نوجوان کو ایسے خونی واقعات کو جائز قراردینا برداشت نہیں ہوا۔ وہ انڈا اس نے آسٹریلیائی سینیٹر کے سر پر دے مارا۔ یہ کوئی معمولی جرات نہیں تھی۔ وِل کو اس بڑے سیاست دان کے سر پر انڈا مارنے کا انجام معلوم تھا۔ اسے پولیس نے گرفتار کر لیا۔ لیکن یہ حقیقت خوش کرنے والی ہے کہ نوجوانوں کی ایسی تعداد آگے بڑھ رہی ہے جو نفرت سے نفرت کرتے ہیں۔ جو کشت و خون کو پسند نہیں کرتے اور اس کے خلاف ہر ممکن کاروائی کے لئے تیار رہتے ہیں۔
تعلیم اور انسانیت
”پڑھے لکھے ہو کر ایسی حرکت کرتے ہو!“ یہ جملہ ہر اس موقعہ پر آپ کو سننے کو ملے گا جب آپ سے کچھ ایسا سرزد ہوگا جو پڑھے لکھے لوگوں کو زیب نہیں دیتا۔ آپ نے کبھی سوچا ہے کہ پڑھے لکھے لوگ بھی قاتل ہو سکتے ہیں۔ تو سنیے! ایک اسکول کے پرنسپل جو ہٹلر کے نازی کیمپ سے کسی طرح بچ نکلے تھے انہوں نے لکھا ہے ”میں ہٹلر کے موت والے کیمپ سے بچ کر نکلا تھا اور میری آنکھوں نے وہاں جو دیکھا تھا میں چاہتا ہوں کہ اسے دنیا میں اور کوئی کبھی نہ دیکھے۔ ان بھیانک گیس چیمبرز کو ماہر انجینئروں نے بنایا تھا۔ قابل اور ہنر مند ڈاکٹر ہی وہاں بچوں کو زہر دیتے تھے۔ تربیت یافتہ نرسیں وہاں نوزائیدہ بچوں کو جان سے مارتی تھیں۔ عورتوں اور بچوں کو کالج سے پڑھے ہوئے گریجویٹ اور ڈگری ہولڈر گولی سے مارتے تھے۔ لہٰذا یہ سب دیکھنے کے بعد اب میں تعلیم کو لے کر بہت کشمکش میں ہوں اور خوفزدہ ہوں۔ میں آپ سب سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنے طلبہ اور بچوں کی انسان بننے میں مدد کیجیے۔ دھیان رکھئے کہ کہیں آپ کی تعلیم بچوں کو روشن خیال راکشس، ہنر مند نفسیاتی مریض اور قابل پاگل تو نہیں بنا رہی ہے۔ پڑھنا، لکھنا، تاریخ، ریاضی تبھی تک ضروری ہے جب تک وہ طلبہ کے دماغوں میں روشنی اور دلوں میں خوشبو بھرے۔ ان کے اندر انسانوں کی قیمت اور انسانی قدروں کا ارتقاء ہو۔ اگر یہ نہیں ہوتا ہے تو ساری تعلیم بے کار ہے۔