کہیں مصری جو دیکھیں گے تو ڈلی یاد آئے گی
’بڑے‘ ہم کو تری ایک ایک بوٹی یاد آئے گی
کلیجہ ہوگا یوں چھلنی کلیجی یاد آئے گی
کوئی زلفوں کو جھٹکے گا تو نلی یاد آئے گی
لڑا کرتے تھے جس کے واسطے آپس میں مولانا
وہی عید الاضحی پر کھال پیاری یاد آئے گی
دوا کے کار خانوں کو شکر کے کار خانوں کو
گلی کے کُتے سے بھی بڑھ کے ہڈی یاد آئے گی
گنہ گاروں کو جس سے موت کی کچھ یاد آتی تھی
نسوں میں جمنے والی اب وہ چربی یاد آئے گی
جوانوں کو ادھر لیدر کے پٹے یاد آئیں گے
حسینوں کو اُدھر چمڑے کی جوتی یاد آئے گی
بہت کلیا گرایا کرتے دعوت میں شادی کی
جو نعمت چھن گئی تو اب یہ غلطی یاد آئے گی
کرے گی جانور پر رحم کی باتیں جو بی جے پی
ہمیں گجرات کی وہ خونی ہولی یاد آئے گی
قریشی دیکھ کر سب سود خوروں مئے فروشوں کو
بہت روئے گا اپنی پاک روزی یاد آئے گی
کبھی جوڑوں میں جب تکلیف ہوگی اے نبیل اپنے
وہ گودا یاد آئے گا وہ نلّی یاد آئے گی
انس نبیل،مہاراشٹر
8087282020موبائیل نمبر:
غزل
ہنستے ہنستے دوستو وہ چڑھ گیا جب دار پر
ہو گئی قربان دہلی اس کے اس ایثار پر
مسکراتا ہی رہا وہ آپ کے ہر وار پر
ہاں نظر رکھے ہوئے تھا آپ کی تلوار پر
جس کو گنگا میں ڈبونے کی بڑی کوشش کری
اس کو پہنچایا ہے قدرت نے قطب مینار پر
تبصرہ نادان تیری سوچ پر میں کیا کروں
پڑھ لے خود لکھا ہوا تو سامنے دیوار پر
اس نے تو لفظوں سے بس تصویر تیری کھینچ دی
آپ غصہ ہو رہے ہیں بے وجہ فنکار پر
سوچ بھی سکتے نہیں تھے یہ بھی ہو سکتا ہے کل
سر بدل جائیں گے تیرے اک ذرا سی ہار پر
میں سمجھتا ہوں کہ ہے بیکار ایسی شاعری
کہہ دیئے کچھ شعر میں نے آپ کے اصرار پر
زندگی بھر کی کمائی پل میں ہی چھن جائے گی
کوئی دھبّہ لگ گیا جو آپ کے کردار پر
بیٹھ کر گھر میں ہی سلجھا لے تو گھر کے اختلاف
تالیاں دشمن بجائیں گے تیری تکرار پر
سیج پھولوں کی نہیں کانٹوں بھری یہ راہ ہے
تجھ کو رکھنی ہے نظر رستہ کے ہر اک خار پر
تیر کر دریا کو خود ہی پار کرنا سیکھ اب
آسرا کب تک کرے گا غیر کی پتوار پر
دل میں جب نفرت بھری ہے، پیار کی باتیں نہ کر
ساری دنیا ہنس رہی ہے تیرے اس اظہار پر
پہلے جاکر ان کو دھوئیں پھر کریں کچھ گفتگو
خون کے دھبّے بہت ہیں آپ کی تلوار پر
دیکھتا ہوجو پڑوسی کو حقارت سے وحیدؔ
آپ لعنت بھیجئے ایسے ہر اک پریوار پر
عبد الوحید خاں وحیدؔ
شاہ آباد ، ضلع ہردوئی، یوپی