مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں مسجد کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کی صورت گری کرنے والے جملہ امور مسجد میں طئے پاتے ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں کی زندگی میں معنویت کو داخل کرنے کا کام مسجد ہی سے انجام پاتا ہے۔ احادیث میں مسجد سے دل لگانے والے اور مسجد کی نگہبانی اور خدمت کرنے والے کے ایمان کے بارے میں بڑی بشارتوںکا تذکرہ ملتا ہے۔ اس لئے گویا یہ تقاضائے ایمانی ہے کہ ہر مسلمان مسجد سے اپنے آپ کو جوڑے رکھے۔
مسجد کی یہ حیثیت کے علی الرغم یہ بات شریعت پورے زور و شور سے کہتی ہے کہ اصل چیز انصاف ہے۔ اس لئے غصب شدہ زمین پراور ناجائز مال سے مسجد کی تعمیر درست نہیں۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر شریعت کا حکم ہے کہ اگر کوئی مسجد غصب شدہ زمین پر تعمیر کی جاتی ہے تو اسے گرا دیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں سے اہل ثروت ہوں یا فقراء، انہوں نے مسجد کی تعمیر کے سلسلے میں شریعت کی اس تعلیم کا بجا طور پر لحاظ رکھا ہے۔ خود اللہ کے رسولؐ نے مسجد نبوی کی زمین کو ہدیہ میں قبول کرنے کے بجائے قیمت ادا کرکےاسے مسجد کی تحویل میں دینے کی مثال ہمارے سامنے رکھی ہے۔
ان دونوں باتوں سے ہٹ کر یہ بات ہم جانتے ہیں ہندوستان میں دیگر کئی علاقوں میں بہت سے مندر اور گرجے آج مسجد کی صورت میں موجود ہیں۔ ہندو، یہودی اور عیسائی عوام نے جب جوق در جوق اسلام قبول کیا تو ان کی عبادت گاہیں بھی اسلام کے دامن میں گر گئیں اور شرک کے مراکز کی جگہ اللہ کی کبریائی بیان کرنے والی مساجد نے لے لی۔ چھوٹے چھوٹے گاؤں میں آپ کو کئی ایسی مساجد مل جائیں گی، جن میں ہندوی طرز تعمیر کے نقوش ملتے ہیں۔ کئی ایسے بوڑھے مل جائیں گے جنہوں نے مندروں اور پجاریوں کو مسجد وں اور اماموں میں تبدیل ہوتے دیکھا ہے۔ یہ تبدیلی ایک ایسی تبدیلی ہے جو کہ جبر و کراہت کے ساتھ نہیں لائی جا سکتی۔ اس لئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان مسجدوں کی تعمیر غصب کی زمین پر نہیں بلکہ پجاریوں اور عوام کی مرضی کے تحت عمل میں لائی گئی۔
رام ایک افسانوی کردار ہے۔ تو اس کا پیدا ہونا بھی ایک افسانہ ہے۔ اس کی جائے پیدائش بھی ایک افسانہ ہی ہونی چاہئے۔ لیکن مَت ماری گئی ان بت پرستوں کی جو یہ سمجھتے ہیں کہ ایک افسانوی کردار بالحقیقت پیدا بھی ہوسکتا ہے۔ تخیل سے سفر کرتے ہوئے حقیقت کی دنیا میں بھی واقع ہوسکتا ہے۔ اگر ان کی بات درست ہے تو ہیری پاٹر کا گھر4،پرائیویٹ ڈرائیو، سَرّی میں اور شرلاک ہومس کا گھر221B بیکر اسٹریٹ لنڈن میں ہے۔کیا ہوگا اگر ہیری پاٹر کے ماننے والے اور شرلاک ہومس کے پیروکار عدالت میں مقدمہ دائر کردیں کہ ان گھروں کے اصل مالکان کو نکال باہر کرکے انہیں ان کی آستھا کی بنیاد پر ان علاقوں کی ملکیت دے دی جائے؟ بالکل اسی طرح رام بھکتوں کا یہ مطالبہ کہ ان کی آستھا کی بنیاد پر انہیں مسجد کو گراکر رام کی پوجا
کرنے کی سہولت دی جائے۔کسی صورت میں یہ مطالبہ معقول نہیں ہے۔ اور نہ ہی حق و انصاف پر مبنی ہے۔
ہندوستان کی عدالت عظمیٰ گوکہ ایک قابل عزت ادارہ ہے لیکن یہ عیب سےپاک نہیں ہے۔ اس ادارہ کے اعلیٰ ترین ذمہ داران رشوت خوری، بزدلی، تعصبات اور میڈیا و حکومت کے دباؤ کے تحت فیصلے سناتے آئے ہیں۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لئے متعدد مقامات پر آپ کو شواہد مل جائیں گے۔ مطلب یہ کہ جہاں عدالت عظمیٰ سے ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ درست فیصلہ سنائے گی وہیں اس بات کا امکان بھی ہے کہ بہت سی معمولی وجوہات کو بنیاد بناکر عدالت ویسا ہی احمقانہ فیصلہ سنائے جو کہ الہ آباد کورٹ نے سنایا تھا ، بلکہ اسے بھی آگے بڑھ کر کوئی اور ظالمانہ فیصلہ بھی سنادے۔اس لئے ہمیں بہر حال ہر قسم کے فیصلہ کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ اس امید پر کہ سارے شواہد مسجد ہی کے حق میں ہیںاس لئے مسجدوہیں قائم رہے گی، یہ کوئی یقینی بات نہیں ہے۔
محکمۂ آثار قدیمہ نے بابری مسجد کے نیچے جو کھدائی کی ہے اور’شواہد‘ فراہم کئے ہیں وہ تمام شواہد جھوٹے ہیں۔ کئی ذریعوں سے اس بات کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔ عدالت جب فیصلہ سنائے گی تو ان ہی شواہد کی بنیاد پر سنائے گی۔ اسی لئے متعصب ذمہ داران اور ’ماہرین‘ کا استعمال کرکے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ فی الاصل بابری مسجد کے نیچے کوئی مندر تھا۔ لیکن ان جھوٹے ثبوتوں کو جھوٹا ثابت کرنا اب ایک مشکل کام ہوگیا ہے۔ اس پوری صورت حال کو سمجھنا اور آئندہ پیدا ہونے والی پیچیدہ صورتحال کا محاکمہ کرنا بے حد ضروری ہے۔اس شمارہ میں ہم نے ایک تحقیق کو پیش کیا ہے جو کہ ان ثبوتوں کے جھوٹ اور ملاوٹ کو ثابت کرتی ہے۔ جہاں ایسی مزید تحقیقات درکار ہیں وہیں موجودہ تحقیقات کی بنیاد پر ایک مضبوط تحریک کھڑی کرنے کی ضرورت ہے جس کے ذریعے عدالت کو مجبور کیا جاسکے کہ وہ گھڑ دئے جانے والے ثبوتوں کو رد کرے اور از سر نو غیر جانب دارانہ تحقیقات کرے۔
مسلم قیادتیں ماضی کی طرح اب بھی توڑ جوڑ کی سیاست میں گرم ہیں۔ اور نہ ہی کوئی ادارہ، نہ کوئی جماعت ، نہ کوئی نیتا اور نہ ہی کوئی خود ساختہ نمائندہ اس اہم مسئلہ پر کوئی نظر رکھتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس معاملہ کو بڑی آسانی کے ساتھ ثبوتوں اور شہادتوں کی بنیاد پر حل کیا جا سکتا تھا۔ لیکن مسلمانوں کی کوئی جماعت اس قسم کا کوئی ٹھوس ریسرچ کرنے کے مؤقف میں نظر نہیں آتی۔ اس لئے اگر بابری مسجد سے متعلق کوئی ظالمانہ فیصلہ سامنے آ جائے تو ہمیں براہ راست مسلم جماعتوں ، اداروں اور علماء کو اس کا ذمہ دار ٹہرانا چاہیے۔