کیا بابری مسجد کے نیچے مندر تھا؟

ایڈمن

ایودھیا میں ۲۰۰۳؁ء میں بابری مسجد۔رام جن بھومی کے متنازعہ مقام پر ASI(شعبہ آثار قدیمہ۔Archeological Survey of India) نے عدالتی فرمان کے مطابق کھدائی کی کاروائی کی۔ جس کے مشاہدین کی حیثیت سے مصنفات نے، ، اس مضمون میں اس کاروائی کی بے ضابطگیوں اور متروک اور دقیانوسی طریقہ کا ر کے استعمال کا جائزہ لیا ہے۔ ASI کے غیر مناسب طریقہ کار اور رپورٹ پرمصنفات کی جانب سے درج کرائے گئے اعتراضات کے حوالے بھی اس مضمون میں شامل ہیں۔ جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ASI محض ایک مسمار شدہ مندر کے ’’مفروضہ‘‘ کے حق میں شواہد تخلیق کرنے کی غرض سے کام کر رہی تھی۔اور اس بات پر بھی زوردیا گیا ہے کہ ASI کا انداز کار ایک علمی و تحقیقی ادارہ کے بجائے ایک نوکر شاہی ادارہ کا ہے۔
سپریا ورما ،کا تعلق جواہر نہرو یونیورسٹی کے مرکز برائے مطالعہ تاریخ سے ہے۔
جیا مینن، شعبہ تاریخ ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے منسلک ہیں۔

سال 1961ء میں بابری مسجد۔رام جنم بھومی تنازعہ، مقدمہ برائے حق ملکیت کی حیثیت سے شروع ہوا۔ اس مقدمہ میں مسلم تنظیموں نے سال 1528ء سے اس مقام پر مسجد کی عمارت کی موجودگی کی بنیاد پر اپنا دعویٰ ملکیت پیش کیا۔ اگلے 28 سالوں میں (1989ء) میں اس مقدمے میں شر پسندوں نے ایک نیا پہلو داخل کرتے ہوئے کہا کہ بابری مسجد کی تعمیر، وہاں موجود ایک مندر کو مسمار کرنے کے بعد کی گئی۔ جس کے باعث مقدمہ ملکیت کے دائرہ میں تاریخ اور آثار قدیمہ(Archeology) کے مباحث کو داخلہ ملا۔
زیر نظر مضمون آثار قدیمہ کے حوالے سے معاملے کو حل کرنے یا نیا رخ دینے کے نقطہ نظر سے بحث کرتا ہے۔ یہ ایک عام مفروضہ ہے کہ ’’علم آثار قدیمہ‘‘ (Archeology) ایک سائنس ہے، اور یہ کہ محض کھدائی اور اس سے دریافت شدہ نمونوں کی بنیاد پر حقیقی تاریخی معلومات کا تعین ہو سکتا ہے۔ اس طرح کی کھدائی میںدیوار اور فرش کےجزوی نشانات، جانداروں کی ہڈیاں، استعمال ہونے والے برتن اور دیگر اشیاء وغیر کے جزوی باقیات دریافت ہوتے ہیں۔ اور انہی باقیات کی بنیاد پر ماہرین آثار قدیمہ، ماضی میں ہوئی تعمیرات، سرگرمیوں اور واقعات کا اندازہ لگاتے ہیں۔ کھدائی سے حاصل ہونے والے یہ باقیات ہی اس تحقیق کی بنیادی معلومات (Data) ہیں، اور اکثر و بیشتر جس بکھری ہوئی شکل میں یہ باقیات ہوتے ہیں، پہلے مرحلے پر ہی ایک معمہ قائم کر دیتے ہیں۔ لہٰذا کھدائی کے مرحلے میں تمام چھوٹے بڑے باقیات کی انتہائی احتیاط کے ساتھ بازیافت کرنا اور اس کا ریکارڈ محفوظ کرنا انتہائی اہم ہوتا ہے، ساتھ ہی ان ذخائر (Deposits) اور ان کی نوعیت، کو محفوظ کرنا بھی اہم ہوتا ہے، جن کے درمیان سے باقیات دریافت ہوتے ہیں۔ اگلا مرحلہ اس مجموعہ باقیات کی معلومات اور اس کا عمیق تجزیہ کا ہوتا ہے۔ لیکن اکثر ماہرین چند منتخبہ نوادرات اور ان کے پہلے سے قائم شدہ تصورات پر قیاس کرتے ہوئے، تشریحات پیش کردیتے ہیں۔
بابری مسجد کے مقدمہ کے دوران علوم آثار قدیمہ سےمسلم فریقین کی ناواقفیت کے باعث انہوں نے، اس کھدائی میں مشاہدہ کی غرض سے پیشہ ورانہ خدمات حاصل کیں۔ نیز یہ اندیشہ بھی بدستور باقی تھا کہ کھدائی کا سارا انتظام چونکہ حکومت ہند کے شعبہ آثار قدیمہ (ASI-Archelogical Survey of India) کے ذمہ دیا گیا تھا، (جواس وقت کی این ڈی اے (NDA) کی مرکزی حکومت کے زیر نگرانی وزارت برائے ثقافت کو جوابدہ تھا)، لہٰذا ماہرین کے لئے غیر جانبدارنہ خطوط پر کام کرنا، مرکزی حکومت کی خواہشات کے خلاف جانا تھا۔


جس وقت کھدائی کی شروعات ہوئی، بحیثیت آرکیالوجسٹ، ہم (مصنفات) نے براہ راست اس کاروائی کا مشاہدہ کرنے کی غرض سے دلچسپی دکھائی، اور اسی وقت سنّی مرکزی وقف بورڈ کی جانب سے ہم سے اس سلسلے میںرابطہ بھی کیا گیا۔ لہٰذا جس وقت الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنو بنچ نے 2003ء میں کھدائی کا حکم دیا، اس وقت سے ہم اس مقدمے کا حصہ بنے، اور مارچ تا اگست 2003ء کے درمیان جو کھدائی کی گئی اس کا براہ راست مشاہدہ کیا۔


زیر نظر مضمون میں 30 ستمبر 2010ء کو الٰہ آباد ہائی کورٹ کی خصوصی بنچ کے سامنے آثار قدیمہ کے ’’شواہد و دلائل‘‘ کی بنیاد پر پیش کئے گئے مدعا کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ جس کے لئےمتنازعہ جگہ پر آثار قدیمہ کی کاروائی کے احوال جاننا بھی ضروری ہے۔ نیز جو مشاہدات کھدائی کے دوران محفوظ کیے گئے، ان کا تفصیلی جائزہ بھی اس مضمون کا حصہ ہے۔ اور ASI-Archelogical Survey of India کی جانب سے اس سارے عمل کے طریقہ کار پر جو اعتراضات ہماری جانب سے اٹھائے گئے، مزید ASI نے جو حتمی رپورٹ عدالت میں جمع کی اس پر کئے گئے اعتراضات (جو عدالت میں جمع کئے گئے) کا تذکرہ بھی اس مضمون میں شامل ہے۔ ASIکی رپورٹ میں شامل ان تشریحات کا تجزیہ ( 1970ء کی دہائی کے سیاق میں جب کہ ASI اس معاملے میں ڈائرکٹر جنرل بی بی لعل کے زیر نگرانی شامل تھی) بھی اس مضمون کا حصہ ہے۔مزید ایک قابل توجہ بات یہ کہ ایک نوکر شاہی ادارہ ہونے کے باعث ASI-Archelogical Survey of India آثار قدیمہ کی کاروائیوں میں کیسی بندشوں اور رکاوٹوں کے حصار میں ہوتا ہے۔


ایودھیا تنازع کی مختصر تاریخ:


ایودھیا تنازع کی ابتدا سال 1857ء سے ہوتی ہے۔ جب ہنومان گڑھی( ہندو طبقہ’’ویشنو بیراگیوں‘‘کا مرکز) کے ایک مہنت نے مسجد کےصحن کے مشرقی حصہ پر قبضہ کر لیا، اور اس کے جنوب مشرقی حصہ پر ’’رام چبوترہ‘‘ (رام کی پیدائش کی جگہ) کی تعمیر کر ڈالی۔ اسی سال مسجد کے موذن مولوی محمد اصغر نے مجسٹریٹ کو اس غاصبانہ قبضہ کے سلسلے میں درخواست دی۔ 1859ء میں برطانوی حکومت کے زیر انتظام ہندو اور مسلمانوں کی عبادت کی جگہوں کے درمیان ایک دیوار تعمیر کر دی گئی۔ اور ہندووں کے داخلہ کے لئے مشرقی دروازہ اور مسلمانوں کے لئے شمالی دروازہ مختص کر دیا گیا۔ اس غیر منصفانہ فیصلہ کے پیش نظر اگلے کئی سالوں (1860، 1877، 1883، 1884ء) میں مسلمانوں کی جانب سے مزید کئی پیٹیشن دائر کی گئیں، مگر تمام کو خارج کر دیا گیا۔ بالآخر 1885ء میں مہنت رگھوبر داس نے زمین کی قانونی ملکیت کو اپنے حق میں کرنے کے لئے مقدمہ دائر کیا، تا کہ رام چبوترہ پر مندر تعمیر کیا جا سکے۔
اس مقدمہ کے چند اہم نکات یہ تھے۔
(1) رگھوبر داس، اس جنم استھان (رام کی جگہ پیدائش) کے مہنت یعنی اعلیٰ پجاری ہیں۔
(2) چبوترہ کی جگہ ہی را م کا جنم استھان ہے۔
(3) مسجد کی جگہ پر مندر ہونے کے سلسلے میں کوئی تذکرہ نہیں تھا۔

دوسری جانب 1870ء سے 1923ء کے دوران کئی سرکاری جرائد میں، ایودھیا کے حوالے سے مندر مسمار کر کے بنائی جانے والی کم از کم تین مساجد کے ریکارڈ شمار کئے گئے، جس میں بابری مسجد کا نام بھی شامل تھا۔اس بات کو عام کرنے کے لئے مسجد کے صدر دروازے پر ایک پتھر کے کتبہ پر ’’رام جنم بھومی:1‘‘ لکھ کر لگا دیا گیا۔ دسمبر 1949ء میں تلسی داس کے رام چرتمانس کے ورد کی غرض سے ایک 9 روزہ مجلس کا انعقاد کیا گیا۔ جسے ’’اکھل بھارتیہ رامائن مہاسبھا‘‘ نامی تنظیم نے منعقد کیا۔ اس مجلس کے اختتام پر 22 اور 23 دسمبر کی درمیانی رات میںرام اور سیتا کی مورتیاں مسجد کے اندر رکھ دی گئیں۔ 29 دسمبر کو بابری مسجد کو متنازعہ جگہ قرار دے کرایک حکم نامے کے ذریعے مسلمانوں کے لئے بند کر دیا گیا، اور صدر دروازے پر قفل ڈال دیے گئے۔ جبکہ دوسری جانب ہندووں کو ایک طرف کے دروازے سے درشن (زیارت) کی اجازت دی گئی، مزید یہ کہ چار پجاریوں کو مورتیوں تک جانے کی اجازت بھی تھی۔


16 جنوری 1950ء کو گوپال سنگھ وشارد (رکن ہندو مہا سبھا) نے ایک دیوانی مقدمہ عدالت میں دائر کیا کہ پوجا پاٹ کی غرض سے مورتیوں تک بلا رکاوٹ رسائی کا انتظام کیا جائے۔ اور ساتھ ہی مورتیوں کو ہٹائے جانے کے کسی بھی اندیشے کو خارج کرنے کی غرض سے دائمی حکم امتناع نافذ کیا جائے۔ 1959ء میں نرموہی اکھاڑہ کی جانب سے مسجد کی عمارت کو ان کے حوالے کرنے کے لئے مقدمہ دائر کیا گیا، جس کی بنیاد یہ بتائی گئی کہ یہ درحقیقت ایک مندر ہے۔ 18 دسمبر 1961ء کو سنی سینٹرل وقف بورڈ نے مسجد کی حوالگی کے لئے مقدمہ دائر کیا۔ 7 اور 8 اپریل 1984ء کو وشو ہندو پریشد نے ایک نشست میں ایودھیا، کاشی اور متھرا میں مساجد ہٹا کر مندر تعمیر کرنے کا عزم کیا، جس میں ایودھیا کے معاملے کو متفقہ طور پر ترجیح دی گئی۔ 1986ء میں بابری مسجد کے تالے کھول دیے گئے اور معاملات کو الٰہ آباد کورٹ کی فیض آباد بنچ سے لکھنو بنچ منتقل کر دیا گیا۔ گوپال سنگھ وشارد کا مقدمہ پہلا مقدمہ قرار پایا۔ اسی نوعیت کا ایک مقدمہ (مقدمہ نمبر ۲) جسے پرمہانس رام چندر داس نے داخل کیا تھا، جسے بالآخر نکال لیا گیا۔ نرموہی اکھاڑہ اور سنی مرکزی وقف بورڈ کے مقدمات بالترتیب تیسرے اور چوتھے شمار کیے گئے۔ 1989ء میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج اور وشو ہندو پریشد کے سابق صدردیوکی نندن اگروال نے رام للا براجمان (ننھے رام) کی جانب سے پانچواں مقدمہ داخل کیا ، جس میں اگروال کی حیثیت رام للا سکھا (دوست، قانونی نمائندہ) کی تھی۔ جس کی موت کے بعد ٹی پی ورما اور اس کے بعدابھی ایک آر ایس ایس کارکن ترلوکی ناتھ پانڈے کو حاصل ہے۔ اس پانچویں مقدمے کی پیروی میں روی شنکر پرساد (موجودہ مرکزی وزیر برائے قانون و انصاف) بحیثیت سینئر کاونسل شامل ہیں۔


ایودھیا کا تاریخی پس منظر (آثار قدیمہ کی کاروائیوں کے تناظر میں)


1862-63 ء میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (ASI) کے ڈائرکٹر جنرل بننے بعد الیکزنڈر کنگہم (Alexender Cunningham) نے ایودھیا کا سروے کیا۔ ان کی بنیادی دلچسپی، بودھ مذہب کے مقدس مقامات کی شناخت تھا، جن کی نشاندہی چین کے بودھ راہب اور سیاح زانزنگ (Xuanzang) اور فیکسی آن (Faxian) نے کی تھی۔ انہوں نے تین ٹیلوں کو تاریخی اہمیت کا حامل بتایا، جن میں منی پربت، کوبیر پربت اور سُگریوا پربت شامل تھے۔جس میں بالترتیب پہلا اشوکا کا استوپا، دوسرا استوپا جس میں گوتم بدھ کے بال اور ناخن وغیرہ تھے، اور تیسری کو ایک بدھ خانقاہ کی حیثیت سے شناخت کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے رامائن کی کہانیوں کے مطابق رام کے جنم استھان اور کچھ زبانی روایتوں کا بھی ریکارڈ محفوظ کیا۔ الیکزنڈر کنگہم لکھتے ہیں’’ (1871:321) تراشے ہوئے ستونوں اور مورتیوں کے ڈھیر سے بنے ٹیلے (ایودھیامیں) نہیں ہیں۔ جیسا کہ بالعموم دیگر قدیم شہروں کے معاملے میں ہوتا ہے۔ بلکہ یہاں کچرے اور مٹی کے ڈھیر پر مشتمل چھوٹے، بے قاعدہ ٹیلے ہیں، جن میں سے اینٹیں نکال کر پڑوسی شہر فیض آباد میں گھروں کی تعمیر میں استعمال کیا گیاہے۔‘‘ انہوں نے چند براہمن مندروں کی طرف اشارہ کیا ہےاور لکھا ہے کہ یہ جدید فن تعمیر کے نمونے ہیں، جنہیں مسلمان حکمرانوں کے ذریعے مسمار کیے گئے قدیم مندروں کی جگہ تعمیر کر لیا گیا۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ رام کے جنم استھان کا تذکرہ کرنے کے باوجود انہوں نے بابری مسجد یا اس جگہ سے اس تعلق کا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔ دوسرے لفظوں میں انہوں نے رام جنم استھان کی روایتوں کو جمع کیا مگر ایسے کسی مندر کی تباہ کاری اور اس پر مسجد کی عمارت کی موجودگی کا ذرہ برابر بھی تذکرہ نہیں۔
کم و بیش ایک صدی کے بعد اے کے نرائن، ٹی این رائے اور پی سنگھ پر مشتمل، بنارس ہندو یونیورسٹی کی ایک ٹیم نے اس جگہ کی تصرفی تاریخ کی معلومات کی غرض سےکھدائی کی۔ (IAR-1969-70:40-41) ۔ جین گھاٹ، لکشمن ٹیکری اور نال ٹیلا پر مشقی کاٹ (Trial Cuttings) کی گئیں۔ جس کی بنیاد پر تین ثقافتی ادوار (Cultural Periods) کی نشاندہی کی گئی۔ جس میں دو، یکے بعد دیگرے جب کہ تیسرا کچھ علٰحدگی کے ساتھ پایا گیا۔ البتہ یہاں سے دریافت شدہ سامان یا زمانی تاریخ کے حوالے سے کچھ تفصیلات نہیں دی گئی، سوائے چند ایک نوادرات کے جو تینوں میں سے قدیم ترین ثقافت سے ماخوذ، سیاہ پالش والے نوادرات تھے۔ اسی ٹیم نے کوبیر پربت(’’کوبیر ٹیلہ‘‘ جس کا الیکزنڈر کنگہم نے بھی سروے کیا تھا) کے نیچے سے اینٹ کی تعمیرات کے بارے میں بتایا، مگر کسی قسم کی کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی۔


دوسری طرف 1972ء میں اے ایس آئی ASI کے ڈائرکٹر جنرل کی حیثیت سے ریٹائر ہو کر، جیواجی یونیورسٹی، گوالیار میں تقرری حاصل کرنے والے بی بی لعل نے 1975ء میں ایک پروجیکٹ بنام ’’رامائن کے مقامات کا آثار قدیمہ کے تناظر میں مطالعہ‘‘ (The Archeology of Ramayana Sites) شروع کیا، جس کا افتتاح اس وقت کے مرکزی وزیر تعلیم و ثقافت، ایس نورالحسن نےایودھیا میں کیا۔ مگر کچھ ہی عرصہ میںپروفیسر لعل کے، شملہ میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانس اسٹڈیز میں منتقل ہوجانے کے باعث کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہ ہوئی۔ لیکن 1977ء میں اس پراجیکٹ کو دوبارہ اسی انسٹی ٹیوٹ کی نگرانی میں، اے ایس آئی ASI کے ساتھ مل شروع کیا گیا۔ جس میں اے ایس آئی کے ذمے اخراجات اور افراد کی فراہمی تھی۔ 1986ء میں یہ پراجیکٹ اپنے اختتام کو پہونچا۔ جس کے تحت ایودھیا کے علاوہ سرینگاویراپور، بھاردواج آشرم، نندی گرام اور چترکوٹ میں بھی کھدائی کی گئی۔ (Lal 2002:42) آج اتنا عرصہ بیت جانے کےبعد بھی سرینگاویراپور میں ایک ٹنکی کے علاوہ اور کوئی بھی رپورٹ شائع نہیں کی گئی۔ ایودھیا کی کھدائی کے تعلق سےبھی محض چند معلومات IAR 1976-77 اور IAR 1979-80 سے دستیاب ہیں۔ لعل نے اس کاروائی کے دوران رام جنم بھومی کے ٹیلہ اور ہنومان گڑھی کے مغرب میں واقع کھلے میدان پر توجہ دی، جس میں سیتا کی رسوئی کے بھی چند گڑھے شامل تھے۔ جس میں اسے ساتویں صدی قبل مسیح سے تیسری صدی عیسوی تک کے آثار ملے۔ جبکہ گپتا عہد (چوتھی تا چھٹی صدی عیسوی) کے آثار واضح نہیں ہوئے۔ تاریخ کے شروعاتی ادوار (چھٹی صدی قبل مسیح تا چھٹی صدی عیسوی) کے بعد محض مٹی اور گڑھے تھے، حتیٰ کہ گیارہویں صدی کے آثار بر آمد ہوئے۔ بعد میں عہد وسطیٰ کے اواخر کے چند تعمیراتی مواد جیسے اینٹ، چونا، پتھر وغیرہ کے علاوہ اواخر کے دور سے کوئی خاص اور قابل ذکر آثار دریافت نہیں ہوئے (IAR 1976-77:53)۔ رپورٹ IAR 1979-80 بھی ایودھیا میں عہد وسطیٰ کےآثار و ذخائر کے تذکرہ سے خالی ہے۔

اکتوبر 1990ء میں لعل نے آر ایس ایس کے رسالے ’’منتھن‘‘ میں ایک مضمون لکھا۔ لعل نے اپنے مضمون میں 1975 تا 80ء کی کھدائی کے دوران لی گئی ایک تصویر بھی شامل کی۔ تصویر میں اینٹ کے کچھ ٹکڑوں کا ڈھیر تھا، جس پر اس نے یہ دعویٰ کیا کہ یہ مندر کے ستونوں کی بنیاد ہے، جسے بابر نے مسمار کیا۔ ان ستونی بنیادوں کو مندر کے اہم ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا۔ حیرت کی بات یہ ہے اگر یہ اتنی ہی اہم بات ہے تو بجائے آثار قدیمہ سے متعلق کسی علمی جریدہ کے، ایک سیاسی میگزین میں کیوں شائع کی گئی۔ (کیا یہ بھی محض ایک اتفاق ہی تھا کہ 1989ء کے اواخر میں آثار قدیمہ کے مباحث کو مقدمہ میں داخلی کیا گیا اور اس وقت 1990ء میں پہلے ایس پی گپتا، ریٹائرڈ ڈائرکٹر نیشنل میوزیم اور پھر لعل کے مضامین شائع ہونے لگے؟)
3 تا 7 مئی 1998ء میں کروشیا میں ’’ورلڈ آرکیالوجیکل انٹر کانگریس‘‘ میں اس نے ایک مقالہ پڑھتے وقت اپنے ایک پرانے بیان (10 فروری 1991ء کو وجئے واڑہ میںدیے گئے ) کا حوالہ دیا اور کہا کہ جن ستونی بنیادوں کو اس نے دریافت کیا ہے، ان کے اور مسجد کے پتھروں سے تعمیر شدہ ستونوں کے بیچ کے تعلق، اور مندر کی آثار کی موجودگی کا ادراک، مسجد کے نیچے کھدائی کرنے پر ہی کیا جا سکتا ہے۔ 11 فروری 1991ء کواخبار ’’ ہندوستان ٹائمز‘‘ میں اس بیان کی اشاعت اور تنقیدوں کو دیکھتے ہوئے، اس نے 13 فروری 1991ء کو ’’دی اسٹیٹس مین‘‘ اخبار میں جوابی بیان شائع کرایا اور دوبارہ مسجد کے نیچے کھدائی کی بات دہرائی۔ ظاہر ہے اے ایس آئی کے سابق ڈائرکٹر جنرل، کی ایسی بات کے مضمرات نظر انداز نہیں کیے جاسکتے۔ بالآخر اسی ادارے یعنی ASI نے اس مرحلہ کو بھی عدالت کے کہنے پر مکمل کیا۔ اتنا سب ہونے کے بعد،یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ ASI کھدائی کے حوالے سے کیا رپورٹ پیش کرتی؟
ایودھیا میں سال 2003ء میں کھدائی کی کاروائی


1 اگست 2002ء میں ہائی کورٹ کے حکم پر ASI نے ایودھیا میں آثار قدیمہ کا سروے کیا۔ اس وقت تک فریقین کے دلائل و اعتراضات عدالت نے محفوظ کر لئے تھے، اور مسجد کی اصل عمارت کے نیچے کا سروے (Ground Penetrating Survey) کیا جانا تھا۔ اس زمین دوز سروے کے لئے ASI نے ٹوجو انٹرنیشنل (Tojo International) نامی ادارے سے بیرونی خدمات حاصل کی۔ یہ سروے 30 دسمبر 2002ء سے 17 جنوری 2003ء تک جاری رہا، جس کے بعد اس ادارے نے اپنی رپورٹ ASI کے حوالے کر دی۔


اس رپورٹ کے مطابق زمین میں آدھا میٹر سے ساڑھے پانچ میٹر تک، ایک بڑے رقبہ میںعمومی بے قاعدگیاں (Anomalies) (ایک راڈار Ground Penetrating Radarکے ذریعے زمین میں ریڈیائی لہریں بھیجی جاتی ہیں، جب ان لہروں کے راستے میں رکاوٹوں کو Anomalies یا بے قاعدگیاں کہا جاتا ہے، جو زیر زمین عمارتی ڈھانچہ کی موجودگی کا پتہ دیتی ہیں )پائی گئیں،جو قدیم و جدید تعمیرات کے ستون، بنیاد کی دیواریں، فرش وغیرہ پر مشتمل تھیں۔ تا ہم ان بے قاعدگیوں کی اصل صورتحال کی تصدیق لئے Ground Truthing (مزید عملی تجربات کے ذریعے شواہد جمع کرنے کا عمل) درکار ہے۔ جسے Archeological Trenching (مجوزہ مقام اور اطراف میں لمبے گڑھوں کی کھدائی) کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ (Robillard et al 2003:31)۔ فرش اور دیواروں کے بے قاعدہ ملبے کا اشارہ دینے والی ایسی کوئی بھی رپورٹ ایک عام 10 میٹر کے ٹیلے کی زمین کے نیچے کی عمومی صورتحال کا بیان ہو سکتی ہے۔ مزید یہ کہ GPR سروے کی ایسی رپورٹس میں محاصلات کے ذریعے عمارت کی نوعیت بیان نہ ہونا بھی ایک عام بات ہے۔ در حقیقت رپورٹ کا اصل لب لباب محض، مختلف سطحوں پر باقاعدگی کا پایا جانا تھا۔
رپورٹ میں زیر زمین ستونوں کی موجودگی کی خبر دی گئی تھی، حالانکہ کھدائی کے دوران کوئی ستون نہیں بر آمد ہوئے۔ اس کے بالمقابل بابری مسجد (مسجد کی مسماری کے باعث) کے ملبے سے مسجد کے دو ستون برآمد ہوئے۔ (Manjhi and Mani 2003:140, 148)۔ 6 دسمبر 1992ء کو بابری مسجد کی مسماری کے موقع پر مسجد کے ملبے کو ہی جمع کر کے اس پررام للا کی مورتی رکھ کر مندر کا عارضی انتظام کیا گیا تھا۔ مسجد کی شہادت کے وقت تین دنوں تک لاء اینڈ آرڈر کی دھجیاں اڑائی گئیں، اور عام لوگ مسماری کے وقت سے مندر بنائے جانے تک کے عمل سے بے خبر ہی رہے۔ ایسے میں فرش یا زمین کی سطح پر پائے جانے والی اشیا، آثار قدیمہ کے شواہد کی حیثیت سے کوئی وقعت نہیں رکھتیں۔


رپورٹ کے ساتھ منسلک Annexure A میں جو Geophysical Interpretation Map (طبعی زمینی خصوصیات کی تشریح کے مطابق مرتب کردہ نقشہ) موجود ہے، اس میں ASIکے ذریعے نشان زدہ ستونی بنیادیں کسی بھی طرح کی سیدھ یا خطی ترتیب(Grid) کے امکان سے خالی ہیں۔
GPR سروے میں نشان زدہ بے قاعدگیوں کے حوالے سے ASIىنے بتایا ’’184 میں سے 39 مقامات پر جہاں بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی گئی تھی، مطلوبہ گہرائی اور مقام تک کھودنے پر تصدیق ہو گئی، جبکہ بقیہ 74 جگہوں پرمطلوبہ گہرائی تک کھدائی کے باوجود رپورٹ کے مطابق شواہد نہیں ملے۔ (Manjhi and Mani 2003:19)۔در حقیقت ASIکے ایجنڈا میں اوپری سطح کی کچھ تعمیرات زیادہ اہم تھیں، لہٰذا 27 مقامات کی جانچ کے حوالے سے مزید کھدائی اور تصدیق کی زحمت ہی نہیں اٹھائی گئی۔ بہر حال ASIکے اس دعویٰ کی جانچ کے لئے جب ہم نے مشاہدہ کیا تو محض 21 بے قاعدگیوں کی جانچ (20 سینٹی میٹر تک) کی گئی تھی، جس میں سے 10 فرش کے پتھر، 5 ستون کی بنیادیں، دو تعمیری سجاوٹ کے حصے، تین عمارتی ڈھانچہ کے حصہ اور ایک دیوار تھے۔ بقیہ جن کی تصدیق کی خبر دی گئی تھی وہ اپنے مقام پر، لیکن گہرائی کے اعتبار رپورٹ کے بر خلاف مختلف گہرائیوں(50 سم تا 2 میٹر ) پر پائے گئے۔
فرش، دیوار اور ستون جیسےآثار کی برآمدات کی بنیاد پر ہائی کورٹ نے ASIکو 5 مارچ 2003ء کوسروے (کھدائی) کا حکم دیا تا کہGPR رپورٹ میں نشاندہ ان بے قاعدہ برآمدات کی اصل نوعیت معلوم کی جا سکے (Manjhi and Mani 2003:8) ۔ اورمسجد کی تعمیر سے قبل کسی مندر کی مسماری کے تعلق سے کوئی حتمی بات کہی جا سکے۔ 12

مارچ 2003 کو ASIنے سروے کا آغاز کیا،یہ کاروائی 7 اگست 2003ء تک جاری رہی۔ کھدائی وہیلر Wheeler Method کے طریقے پر شروع کی گئی، جس میں 4×4 میٹر کے گڑھے بنائے گئے (اس طریقے میں جس حصہ پر کاروائی مطلوب ہوتی ہے اس میں مساوی سائز کے متعدد چوکور ایک میٹر کے فاصلے سے نشان لگا کر کھودے جاتے ہیں، بیچ کا ایک میٹر کا حصہ جو چلنے پھرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے اسے Baulkکہتے ہیں، گڑھوں میں عمودی تراش کا حصہ Sectionsکہلاتا ہے، جس میں مختلف عہد کی زمینی پرتیں دکھائی دیتی ہیں اور ان پرتوں کے مطالعہ کو Stratigraphy کہتے ہیں)، جن کے درمیان ایک میٹر کا فاصلہ تھا۔مشینوں کے بجائے مزدوروں کے ذریعے کھدائی کی گئی اور ہر گڑھے کا ایک نگران Supervisorمقرر کیا گیا۔ جس کے ذمہ کھدائی کے روزانہکےریکارڈکا اندراج کرنا تھا۔ چونکہ سپر وائزرس کے متعینہ گڑھے بدلے جاتے تھے، لہٰذا ایک گڑھا کی نگرانی، کئی لوگوں کے ذمہ بھی آتی۔ لہٰذا معلومات کے اندراج کے لئے دی گئی نوٹ بک (Site Note Book) میں ایک سے زائد گڑھوں کے تعلق سے معلومات ہوتی تھی۔ معلومات میں یہ نکات شامل تھے۔ کھدائی کی شروعاتی اور اختتامی گہرائی، پرتوں کا شمار، اور دن بھر میں برآمد ہونے والے نوادرات اور ان کی خاصیتیں۔
آثارِقدیمہ کی کھدائی کے وقت عام طور سے یہ طریقہ اپنایا جاتا ہے کہ پس منظر اور ہر سطح اور پرت کی کھوج کے بعد دستاویزی ثبوت کی تفصیل جمع کی جاتی ہے۔ لیکن اس معاملہ میں کسی بھی قسم کی کوئی کھوج کا دستاویزی ثبوت مہیا نہیں ہے۔


نوٹ بک کے علاوہ، ایک رجسٹر میں بھی روز کی کاروائیکے حوالے سے معلومات درج کی جاتی تھی، جیسے روزانہ کھودے گئے گڑھے، شروعاتی اور اختتامی گہرائی، اور بر آمد ہونے والے نوادرات، ہڈیاں، چکنی مٹی کے برتن وغیرہ۔ روزانہ کام ختم کرنے سے قبل فریقین کے نمائندوں کو برآمدات دکھا کر رجسٹر پر بطور تصدیق ان کے دستخط لیے جاتے تھے۔ ایک رجسٹر نوادرات کے اندراج کے لئے بھی مخصوص تھا۔ جس میں نوادرات کی تفصیلات جیسے گڑھا، پرت، گہرائی، ناپ اور دیگر وضاحت۔ان نوادرات کو ایک رجسٹریشن نمبر دیا جاتا تھا۔ اس کاروائی میں کل 90 گڑھے کھودے گئے تھے، جو تقریباً کل رقبہ کے برابر تھا۔
اگست 2003ء میںرپورٹ دو حصوں میں عدالت میں جمع کی گئی۔ پہلے حصے میں تحریری معلومات اور دوسرے حصے میں پلیٹیں (نوادرات کے نمونے پر مشتمل)۔ مروجہ طریقہ کے مطابق رپورٹ میں تعارف کا باب، کھدائی کے متعلق ابواب، طبقات الارضی Stratigraphy اور زمانی معلومات Chronology، ظروف، تعمیری آرائش کی اشیا، مٹی کے مجسموں کے ٹکڑے، کتبہ کاری کے نمونے، مہر، سکےّ، وغیرہ پر مبنی ابواب اور نتائج کا خلاصہ موجود تھے۔ حیرت کی بات یہ رہی کہ ASI کی دیگر رپورٹوں کے بر خلاف اس رپورٹ میں نتائج کے خلاصہ پر کسی مصنف کا نام غائب تھا، جب کہ بقیہ سارے ابواب پر ایک یا کئی مصنفین کے نام درج تھے۔ مزید یہ کہ جانوروں اور انسانی ہڈیوں اور ڈھانچےپر مبنی کوئی باب نہیں تھا۔ (Manjhi and Mani 2003: Plate 58) ۔ موخر الذکر میں مسجد کے شمالی اور جنوبی حصے میں موجود قبرستان کے باقیات رہے ہوں گے۔


بابری مسجد کے نیچے عمارتی ڈھانچے


رپورٹ کے خلاصہ نتائج کے باب کے آخری پیراگراف سے درج ذیل عبارت ملاحظہ فرمائیں۔
اب بحیثیت مجموعی، مسجد کی عمارت کے نیچے پائے جانے والی قدیم عمارت کے آثار کی بنیاد پر، اور دسویں صدی سے لے کر تا حال مسجد کی عمارت کی تعمیر تک عمارتی ڈھانچے میںپائے جانے والے استمرار، اور ساتھ ہی پتھر اور مزینہ اینٹوں کے نمونے، رام اور سیتا کی جوڑی کی مسخ شدہ مورتی اور تعمیراتی عناصر پر بیل بوٹوں کا نقش،املکا (مخروطی برج کے بالائی حصے پر سجاوٹ کے لئے استعمال ہونے والا عنصر)، کپو تپالی طرز کی چوکھٹ، نصف دائروی دیواری ستون، پرت دارستون کا مثنثی دستہ، کنول نماسانچہ (شاکلہ)، دائروی مندر جس کے شمالی حصہ میں پرنالہ( پانی کی نکاسی کا جھرنا)، بڑے عمارتی ڈھانچے سے منسلکہ 50 ستونی بنیادیں ایسے باقیات کی جانب اشارہ کرتے ہیں، جن کا تعلق شمالی ہند کے مندروں کی تعمیری خصوصیات سے ہے۔ (Manjhi and Mani 2003:272) ۔
بنیادی طور پر مسجد کی عمارت(بابری مسجد کو رپورٹ میں ہر جگہ’’ متنازعہ عمارت‘‘ لکھا گیا ہے، جب کہ رام چبوترہ وغیرہ کے باقاعدہ نام موجود ہیں) کے نیچے مندر کی موجودگی کے بارے میں جو ثبوت پیش کیے گئے وہ دو نوعیت کے تھے۔ ایک تعمیراتی عناصرکے باقیات (Architectural Fragments) ، دوسرے ایک بڑا عمارتی ڈھانچہ، جس کی مغربی دیوار (۱ء۷۷ میٹر چوڑی) کے صرف 50 ستونی بنیادوں کے حصے ملے۔


تعمیراتی عناصر کے باقیات کے باب میں 445 باقیات کا تذکرہ ہے، جبکہ منظم زمینی پرتوں سے 40 باقیات ہی حاصل ہوئے ہیں، نیز ان کا کوئی تعلق مندر کے فن تعمیر سے نہیں۔ مزید جن 12 عناصر کا تذکرہ رپورٹ میں ہے، یہ تمام ہی زمین کے اوپری ملبے سے برآمد ہوئے ہیں، نہ کہ کھدائی سے۔ جنہیں آرکیالوجی میں کوئی درست شواہد کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ لہٰذا اصولی طور پر بابری مسجد کے فرش کے نیچے کی سطحوں سے برآمدات کو شواہد کی حیثیت سے تسلیم کرنا ہی درست ہے، نہ کہ فرش پر پائی جانے والی اشیا، جنہیں کسی اور جگہ سے بھی لا کر ڈالا جا سکتا تھا۔ جن 12 چیزوں کا خصوصی تذکرہ آیا ان کے مندرجہ ذیل مشمولات ہیں۔ سریواست (ابدی گرہ کی نشانی) کے نشان سے مزین پتھر کا فرش، جس کا تعلق جین مذہب سے ہے؛ معین نما نقش والے پتھر کا فرش (جو کہ خود بابری مسجد کا حصہ ہو سکتا تھا، کیونکہ یہ مسجد کے اندر عربی کندہ کاری کے نچلے حصے سے کافی مماثلت رکھتا تھا)؛ املکا (مخروطی برج کے بالائی حصے پر سجاوٹ کے لئے استعمال ہونے والا عنصر)، نصف دائروی دیواری ستون کے ساتھ دروازے کی شکستہ چوکھٹ، کنول کے پھول و پتی پر مشتمل سانچے کے ذریعے بنائے گئے نقش،پتھر کے پھول نما تراشے گئے ڈیزائن، انسانی جسم کے کمر کے حصے پر مشتمل دو مجسموں کے باقیات جسے خدائی جوڑی (رام اور سیتا) بتایا گیا۔


سائٹ نوٹ بک نمبر7، کے صفحے 36 پر ایک اندراج اس طرح ہے، ’’اہم دریافت، انسانی مجسموں کے مسخ شدہ حصہ؟ (2.1 میٹر کی گہرائی پر روشنی میں آیا)، سیدھا پیر واضح (طور پر مسخ)، بیٹھنے کی سی وضع۔‘‘ روزانہ اندراج کے رجسٹر آئی (I)کے صفحہ نمبر 276 پر اسی شئے کابیان ایسے ہے ’’بلوا پتھر کا مجسمہ (ٹوٹا ہوا)۔‘‘ جبکہ نوادرات کے خصوصی اندراج کے رجسٹر میںکچھ ایسا بیان ہے ’’مجسمہ کا حصہ (بنا چہرہ کا)‘‘ اور ریمارکس کے کالم میں ’’مسخ شدہ جوڑا‘‘۔ جبکہ رپورٹ میں صفحہ 130 پر دیے گئے جدول میں بیان کچھ ایسا ہے ’’انتہائی مسخ شدہ خدائی جوڑا، جو النگن مدرا طرز پر بیٹھا ہے۔ موجودہ حصہ کمر، ران اور پیر کا معلوم ہوتا ہے۔‘‘ نوادرات کے اندراج والے رجسٹر کے لیے اس شئے کا 17 جولائی 2003ء ( رجسٹر میں نوادرات کے بیگ کو کھولنے کی تاریخ کے مطابق)کو مشاہدہ کیا گیا، اور بعد میں اس نوٹ کے ساتھ مہر بند(سیل) کیا گیا کہ تصویریں لینے کے کھولنے کے بعد اسے دوبارہ مہر بند کیا جائے گا۔ 22 جولائی 2003ء کو تصویر کشی کے لئے بیگ کھولا گیا اس نوٹ کے ساتھ بند ہوا ’’دو برآمدات کی تصویر کشی کے لیے کھولا گیا، دوبارہ اور اس کے بعد مہر بند کیا گیا‘‘۔ لہٰذا یہ واضح ہے کہ 6 جولائی 2003ء کواس کی دریافت کے وقت اس کا مشاہدہ ہوا، پھر نوادرات کے رجسٹر میں اندراج کے وقت یعنی 17 جولائی 2003ء کو اس کا مشاہدہ ہوا۔ اور بالآخر 17 جولائی 2003ء کو تصویریں لی گئیں۔ بظاہر اس کے علاوہ تو کوئی اور اسٹڈی نہیں کی گئی، تو کیا وجہ ہے کہ رپورٹ میں اس کے تعلق سے اس قدر مختلف بیان موجود ہے۔ رپورٹ کی تحریر دریافت کرنے والے کی تحریر، یا اندراج کرنے والے کی تحریر سے اس درجہ مختلف کیوں ہے۔آخر کس نے بعد میں رپورٹ میں اس شئے کو تقدیس (خدائی جوڑا) عطا کر دی۔ حتیٰ کہ پلیٹ میں (Manjhi and Mani 2003:Plate235) ابتداً سے اس شئے کو اومامہیشوری لکھا گیا تھا، جسے بعد میں سفیدی کا استعمال کر کے ’’خدائی جوڑا‘‘ میں تبدیل کر دیا گیا۔ پلیٹ میں سفیدی کے استعمال سے کی گئی یہ تبدیلی، متذکرہ پلیٹ کو روشنی کے مقابل بغور دیکھنے سے واضح ہو جاتی ہے۔ کیا یہ تبدیلی اس غرض سے کی گئی تھی کہ ایک ویشنو کے مندر میں اوما مہیشوری کی مورتی معاملات کو مزید مشکل بنا دیتی۔

مندر کی موجودگی کے نظریہ کو بالخصوص ’’ستونی بنیادوں‘‘ کے حوالے قائم کرنے کی کوشش کی گئی، جو بالقیاس 2003ء کی کھدائی میں ASIنے دریافت کی۔ جیسا کہ اس سےقبل تذکرہ آیا سابق ڈائرکٹر لعل، وہ شخص ہے جس نے ’’منتھن‘‘ میں اپنے مضمون میں ستونی بنیادوں کو مندر کی موجودگی کے لئے اہم بنا کر پیش کیا۔ جس کے مطابق ان بنیادوں پر پتھر کے ستون استوار تھے، اور ان ستونوں کے سہارے چھت موجود تھی۔ لہٰذا ان بنیادوں پر اس قیاسی عمارت کا سارا وزن پڑنا تھا۔ محسوس ہوتا ہے کہ لعل کے اسی مفروضہ کو حقیقت بنانے کے لئے ASIنے یہ 50 ستونی بنیادیں تخلیق کر کے دریافت کر لیں۔ ورنہ یہ لعل کا مفروضہ، محض مفروضہ ہی رہ جاتا۔


یہ ستونی بنیادیں بے ترتیب اینٹ کے ٹکڑوں اور مٹی (کیچڑ) سے بنی ہوئی ہیں، سائز اور بناوٹ کے اعتبار ایک دوسرے سے قدرے مختلف، اور ان کا درمیانی فاصلہ بھی بدلتا ہوا تھا ( 98.1 تا 5 میٹر کے بیچ)۔ASI نے ان 50 ستونی بنیادوں کو شمالی حصے میں دریافت ہونے والی 10 ستونی بنیادوں (جو تکنیکی اعتبار سے واقعی بنیادیں ہیں) کے موافق بالکل حقیقی ثابت کرنے کی کوشش کی۔ شمالی حصہ کی ستونی بنیادوں میںچوکور بلوا چٹانی پتھروں کے جوڑسے مکعب نما بنیادیں بنتی ہیں، جو اوپر سے کھلی رہتی، جس میں ستون فٹ ہو جاتے۔ یعنی ان 10 بنیادوں کا ڈھانچہ ان دیگر 50 بنیادوں سے قطعی مختلف تھا۔ شکل نمبر 1 میں ستونی بنیاد نمبر 7، شمالی حصے میں دریافت شدہ بنیاد کا نمونہ ہے، جبکہ نمبر 10 بقیہ گھڑی گئیں بنیادوں کا نمونہ ہے۔ سیاہ پتھروں کے جو ستون بابری مسجد کا حصہ ہیں، انہیں ASI اور لعل نے اس مندر کے اصل ستون بتایا جو مسجد کے نیچے دفن ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اگر یہ اس مندر کے ستون ہیں تو شمالی حصہ میں دریافت ہونے والی ان بنیادوں میں فٹ ہو جاتے۔ جبکہ سائز کے اعتبار سے ستون اور بنیادوں میں بڑا فرق ہے۔ بنیادوں کے خانہ کے سائز 48.5×43سم، 50×50 سم، 47×46سم، 48×56سم، 49.5×49سم اور 51×51سم تھے۔ جبکہ ستونوں کے سائز 21×21سم اور 24×24سم تھے۔ یہ تو بہر حال واضح ہو جاتا ہے کہ مسجد کے سیاہ پتھر کے ستون ان بنیادوں میں فٹ ہونے سے رہے۔ لہٰذا ان بنیادوں کا کیا تصرف رہا ہوگا، مضمون میں آگے اس کا تذکرہ آئے گا۔


جیسا کہ تذکرہ آیا شمالی حصہ کی بنیادوں کے علاوہ باقی بتائی جانے والی ستونی بنیادیں اصلاً کسی ستون کی بنیادیں ہیں ہی نہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر اینٹ کے ٹکڑوں پر مشتمل ان ڈھیروں کی اصل کیا ہے۔ ہمارے مشاہدے کے مطابق یہ سرخ چونے کے بنے فرش کی نچلی پرت کی اینٹیںہیں، جس پر مسطح فرش تعمیر کیا گیا ہے۔ بابری مسجد کے فرش (فرش نمبر1)کے نیچے تین سرخ چونے (چونا، اینٹ کی دھول کی ملاوٹ اور نمی سے حفاظت کرنے والے چند عناصر سے بننے والے)کے فرش کی تین پرتیں برآمد ہوئیں۔ فرش نمبر 1 سے فرش نمبر2 کے درمیان 40 سم کا فاصلہ، فرش نمبر2 تا فرش نمبر3 کے درمیان 20سم کا فاصلہ، اور فرش نمبر3 تا فرش نمبر کے درمیان 40 سم کا فاصلہ پایا گیا۔ سرخ چونے کی ان پرتوں (فرش) کے نیچے اینٹ کے ٹکڑوں، مٹی اور چند ایک پتھر پر مشتمل ایک پرت موجود تھی، جو اس فرش کی نچلی سطح یا بنیاد بناتی ہے۔ اسی نچلی سطح یا فرش کی بنیاد سے منتخبہ اینٹ کے ٹکڑوں کو نکال ستونی بنیادوں کو بنایا گیا تھا۔جس کی تشریح آگے موجود ہے۔


جیسا کہ تذکرہ آیا ہم (مصنفات) 5 اپریل 2003ء تا 26 جولائی 2003ء تک باری باری کھدائی کے وقت موجود تھے۔ کبھی ہم سے کوئی ایک اور کسی وقت دونوں موجود رہے۔ اس وقفہ میں ہونے والی کاروائی کے دوران ہم نے 21 مئ تا 26 جولائی 2003ء کے دورانیہ میں 14 شکایتیں درج کیں، جو کھدائی کی اس کاروائی میں ہونے والی گڑبڑ کے حوالے سے تھیں۔ یہ شکایتیں قانونی عمل کی پیچیدگیوں کے باعث مقدمہ نمبر4 کے مدعی کے نام سے درج کی گئیں۔ان شکایتوں میں جن غلطیوں کی جانب نشاندہی کی گئی وہ یہ ہیں۔ گڑھوں کی گہرائی ناپنے میں غلطی؛ محض چند منتخبہ نوادرات کو جمع کرنا؛ ہڈیوں اورچکنی مٹی کے برتنوں اور ٹائل کو نظر انداز کرنا؛ ایک ہی ذخیرہ کے برآمدات کا مختلف اندراج (مثلاً مولڈڈ اینٹیں، مجسمہ کے حصہ، سرخ پختہ مٹی کی مورتیاں ایک ہی سیاق کے تحت درج کی گئیں جبکہ ہڈیاں اور چکنی مٹی کے ٹائل اور برتنوں کو محض ملبہ کی بر آمدات میں درج کر دیا گیا)؛ انسانی کھوپڑی کی ہڈیوں کو رد کیا گیا؛ طبقات الارضی کے مسائل (ایک ہی عمارتی ڈھانچہ کی پرتوں کو الگ الگ زمانی پرتوں کی حیثیت سے درج کیا گیایہی معاملہ نوادرات کے اندراج کا بھی رہا، جس کے باعث ادوار تاریخ کے تعین میںالجھن پیدا ہوئی)۔ تاہم بیشتر شکایتیں ASI کے ذریعے اینٹوں کے ڈھیر پر مشتمل ستونی بنیادوں کی ’’تخلیق‘‘ کے تعلق سے تھیں، جو کئی مواقعوں پر گڑھوں میں بالکل ہی اچھوتی معلوم ہو رہی تھیں۔

مشاہدے کے مطابق، سرخ چونے کے فرش کی کھدائی کے نیچے اینٹ کے ٹکروں پر مشتمل نچلی پرت (جیسا کہ اوپر تذکرہ آیا) میں جہاں کہیں بھی درمیان میں پتھر آجاتا، تو کھدائی کرنے والی ٹیم اس پتھر کے اطراف کی چند اینٹوں کو چھوڑ کر بقیہ اینٹوں کو کھدائی میں صاف کر دیتی۔ اور بالآخر بدلتے درمیانی فاصلوں پرچھوڑے گئے ان اینٹوں کے ڈھیروں (جن کے درمیان میں پتھر ہیں) کو ستونی بنیادیں بتایا گیا۔ ہم نے اس تفصیلی مشاہدہ کے بعد شکایتیں درج کیں جس کے ساتھ ڈرائنگس بھی منسلک تھیں۔(گڑھا نمبر ZF1, G5, F2/G2,F3 اور G2)
گڑھوں میں تراشی گئی عمودی سطحوں (Sections) کے مشاہدہ سے بھی منتخبہ اینٹوں کے نکالے جانے (ستونی بنیادوں کو گھڑنے کی خاطر) کا پتہ چلتا ہے۔ اس طرح کی کاروائیوں میں عمودی تراش کی سطح سے اگرچیزیں(اینٹ، پتھرکے ٹکڑے یا دیگر نوادرات) سطح سے آگے نکلتی ہوں تو ان کو توڑ کر ہموار کرنے یا نکالنے کے بجائے، جوں کا توں رہنے دیا جاتا ہے، تا کہ اس تراش کی صحیح تصویر اور اس مواد سے ثقافت کا صحیح اندازہ کیا جا سکے۔ کچھ شکایتوں پر گو توجہ دی گئی لیکن کوئی خاص جواب نہیں دیا گیا۔ دوران کھدائی ASIنے بس اتنا کہا کہ درست ضابطوں کی پابندی کی جارہی ہے۔ ان میں سے کئی دعووں کو کورٹ کے فیصلوں نے مسترد کردیا۔


ایک اعتراض ہم پر یہ کسا گیا کہ ہم نے روزانہ اندراج کے رجسٹر پر باقاعدگی سے دستخط نہیں کیے۔ درحقیقت ہم نے ایسا جان بوجھ کر کیا( ہمارے لئے لازمی بھی نہیں تھا) کیونکہ ASIکی اس کاروائی اور ستونی بنیادوں کے گھڑنے پر ہمیں سخت اعتراض تھا، اور دستخط کرنے کا مطلب ان کی اس طریقہ کار پر رضا مندی دکھانے کا ہوتا۔ دوسرا اعتراض ہماری سائٹ نوٹ بک کے اندراج کے حوالے سے تھا، مگر یہ ایک قابل نظر انداز بات ہے کیونکہ اس میں نتائج (برآمدات) کا اندراج ہوتا ہے، اور طریقہ کار کا کوئی تذکرہ نہیں ہوتا۔ گڑھے F9 میں مشرق کے رخ پر موجود عمودی سطح سے اینٹوں کے ٹکڑے نکالے جانے کے حوالے سے شکایت درج کرنے پر بھی دو مہینے تک کوئی شکایت نہیں لی گئی، جبکہ اس پر روزانہ اندراج کے رجسٹر میں 9 لوگ دستخط کرتے تھے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کاروائی ’’خصوصی نگرانی‘‘ میں جاری تھی، نیز ان 9 دستخط کنندگان میں سے کوئی بھی آرکیالوجسٹ نہیں تھے۔ بعد میں بھی اس شکایت کو گڑھوں کی جانچ کی بنیاد پرشامل کیا گیانہ کہ کھدائی کے مشاہدہ کے حوالےسے ۔ایک اور قابل حیرت بات یہ کہ اعلیٰ عدالتی جانچ کے حوالےسے کاروائی میں شفافیت برقرار رکھنے کے لیے دو مشاہدین کو عدالت نے مقرر کیا تھا، مگر ستم یہ کہ دونوں میں سے کوئی بھی آرکیالوجسٹ نہیں تھا، اور کاروائی کے دوران دن کے وقت شاید ہی کبھی وہ دونوں اپنے نشست گاہوں سے نکلتے۔ یہ بھی واضح ہے کہ ستونی بنیادوں کے گھڑے افسانے کے حوالے سے جتنی بھی شکایتیں ہم نے درج کی تھیں، ان تمام کو مجتمع کر کے مبہم انداز میں پیش کیا گیا، بجائے اس کے کہ تمام شکایتوں اور ان کی انفرادیت اور نزاکت کو واضح کیا جاتا۔


ستونی بنیادوں کے افسانے کے سلسلے میں ایک شکایت گڑھے نمبر F3 کے حوالے سے یہاں پیش کی جارہی ہے، جو ہم نے درج کرائی تھی۔ اس سے حتی الامکان قارئین کو اندازہ ہو جائے گا کہ کس طرح کاروائی سے قبل ہی ASI کےکارکنان، ان ستونی بنیادوں کے مفروضے کو حقیقت کی شکل دینے کے خیال سے کام کر رہے تھے۔


26 جولائی 2003ء کو گڑھا نمبر F3 میں ستونی بنیادوں کے حوالے سے درج کی گئی شکایت
پروگریس رپورٹ (22.05.03 تا 05.06.03) میں، گڑھے نمبر F3 میں ایک ایل نما (L Shaped) دیوار کے نیچے ایک دائروی ستون کی بنیاد کا تذکرہ ہےجو اینٹ کے ٹکڑوں پر مشتمل ہے۔ متذکرہ گڑھے میں کھدائی کا کام 6 جون 2003ء کو روک کر اس میں ریت کی بوریاں ڈال دی گئیں۔ 8 جولائی 2003ء کو ان بوریوں کو نکال کر کام دوبارہ شروع کیا گیا۔ تا حال اس گڑھے کو زمینی سطح سے 3.08 میٹر کی گہرائی تک کھودا جا چکا ہے، جو اوپری منزلہ سے 0.95 میٹر کی گہرائی پر موجود ہے۔ کھدائی کی جگہ میں اب تک کوئی صفائی نہیں کی گئی ہے، اور دھول مٹی کی تہوں سے گڑھے میں موجود نوادرات اور دیگر خصوصیات ناقابل امتیاز ہیں۔ کھودے گئے حصے کے جنوب مشرقی کونے میں ایک ایل نما دیوار کا حصہ صاف نظر آتا ہے۔ اسی طرح گڑھے کے شمال مغربی کونے سے بلوا چٹانی پتھر کا ایک فرش نما ٹکڑا اس دیوار سے وتر کے انداز میں ملتا ہے۔ اس فرشی نما ٹکڑے کے بالکل نیچے اور مغربی حصے میں کچھ اینٹ کے ٹکڑے نظر آتے ہیں۔ (شکل نمبر2-A ملاحظہ کریں جس میں صفائی سے قبل گڑھے کو دکھایا گیا ہے)
8 جولائی 2003ء کی دوپہر تصویر کشی کی غرض سے اس جگہ سے دھول مٹی صاف کی گئی۔ شام 5 بجے تک صفائی کے بعد تمام خصوصیات بالکل واضح ہوگئیں، مگر یہ کام 6 جون 2003ء کو بھی کیا جا سکتا تھا جس دن آخری بار کھدائی ہوئی تھی۔ فرش نمبر2 جو کہ ابھی کئی ٹکڑوں میں نظر آرہا ہے، اس وقت ایک دائروی شکل میں جنوب مشرقی حصے میں واضح تھا۔(شکل نمبر2-Bدیکھیں)۔ بقیہ حصے میں اینٹ کے ٹکڑے پھیلے تھے۔


اور وہاں اس وقت ایل نما دیوار کے نیچے اینٹوں سے بنی کسی دائروی ’’ستونی بنیاد‘‘ کا وجود نہیں تھا۔ لہٰذا یہ ایک معمہ ہے کہ 22مئی تا 5جون 2003ء کی پروگریس رپورٹ میں یہ ستونی بنیادیں کہاں سے آ گئیں۔
9 جولائی 2003ء کی صبح 11 بج کر 55 منٹ تک جنوبی نصف حصے سے اینٹ کے ٹکڑے نکالے جا چکے تھے۔ (شکل نمبر2-Cملاحظہ کریں)۔ اور اگلے 10 منٹوں میں شمال مشرقی حصہ کی جانب سے بھی اینٹ کے ٹکڑے نکال دیے گئے۔ مزید کھدائی کرنے پر فرش نمبر2 مزید واضح ہوا اور جس جگہ سے یہ فرش ٹوٹا ہوا تھا، وہاں سے نیچے کی جانب اینٹ کے ٹکڑوں کی پرت صاف نظر آرہی تھی۔ (شکل نمبر2-D ملاحظہ کریں)۔ دوپہر میں فرش نمبر2 (جو کہ سرخ چونے سے بنا ہوا تھا) کو کاٹنے پر نیچے موجود اینٹ کے ٹکڑوں کی پرت پورے حصے میں مکمل واضح ہو گئی۔ (شکل نمبر2-Eدیکھیں)۔ ایک بار پھر شمال مغربی کونے کے علاوہ جتنے اینٹ کے ٹکڑے تھے وہ سب4 بج کر 30 منٹ تک صاف کر دیے گئے۔ (شکل نمبر2-F ملاحظہ کریں)۔ 10 جولائی 2003ء کی صبح کو فرش نمبر3 سامنے آیا(شکل نمبر2-G ملاحظہ کریں) جسے دوپہر میں کاٹا گیا۔ دوبارہ جزوی انداز فرش کے نیچے سے اینٹیں نکال کر ایک ’’ستونی بنیاد‘‘ جیسا نظر آنے والا نشان تیار کیا گیا ۔(شکل نمبر2-H ملاحظہ کریں)۔ اور مزید یہ کہ چوکور نظر آنے والی اس ستونی بنیاد کو پروگریسو رپورٹ میں دائروی لکھا گیا ہے۔ اور سخت الجھن میں ڈالنے والی بات یہ ہے کہ ستونی بنیاد کی تخلیق سے قبل ہی اس رپورٹ میں اس کے دریافت ہونے کو بیان کر دیا گیا۔ان سارے واقعات کو سامنے رکھ کر دیکھیں تو شاید ہی کوئی احتمال رہ جائے کہ کس طرح کاروائی سے قبل ہی ASI نے، ان ستونی بنیادوں کے مفروضے کو حقیقت کی شکل دینے کے خیال سے کام کیا۔ حتیٰ کہ کن جگہوں پر ان بنیادوں کو تخلیق کرنا ہے، یہ بھی طئے تھا اور ساتھ ہی اینٹ اور پتھر کے اس ڈھیر کو جس قدر سرعت کے ساتھ ستونی بنیاد کا نام دیا گیا، وہ جلد بازی بھی ظاہر ہے۔
مزید کھدائی پر 11 جولائی 2003ء کو فرش نمبر3 کے نیچے اینٹ اور پتھر کی Nodules کی ایک سطح برآمد ہوئی۔ اس کے بعد پیٹ کر کثیف کی گئی مٹی کی سطح تھی۔ جس کے نیچے بکھرے ہوئے اینٹ کے ٹکڑوں اور اینٹ کی Nodules تھیں۔ (شکل نمبر2-Iملاحظہ کریں)۔ 12 جولائی 2003ء کو (زمینی سطح سے 3.9میٹر کی گہرائی میں) تقریباً تمام حصوں میں اینٹ کے ٹکڑے پائے گئے (شکل نمبر2-J ملاحظہ کریں)، اور یہ اینٹ کے ٹکڑے مستقل اینٹ کی 21 پرتوں تک گہرے تھے، جو 19 جولائی 2003ء کی کھدائی تک دریافت ہوتے رہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اینٹ کے ٹکڑوں کو ستونی بنیاد ثابت کرنا محض ایک مفروضہ تھا۔ یہ ساری کاروائی ایک متعصبانہ کاروائی تھی جس میں آرکیالوجی کے اصول و طریقہ کار کو پامال کرتے ہوئے کام کیا گیا۔لہٰذا اس بات کی درخواست کی جاتی ہے کہ F3 گڑھے میں کسی ستونی بنیاد کے امکان کوخارج کیا جائے۔
اس شکایت کے تناظر میں پہلی مصنفہ پراس ستونی بنیاد کی تخلیق کی کاروائی کے دوران غیر موجود ہونے کا الزام لگایا گیا، جبکہ جن تواریخ (8 تا 12


مزید کھدائی پر 11 جولائی 2003ء کو فرش نمبر3 کے نیچے اینٹ اور پتھر کی Nodules کی ایک سطح برآمد ہوئی۔ اس کے بعد پیٹ کر کثیف کی گئی مٹی کی سطح تھی۔ جس کے نیچے بکھرے ہوئے اینٹ کے ٹکڑوں اور اینٹ کی Nodules تھیں۔ (شکل نمبر2-Iملاحظہ کریں)۔ 12 جولائی 2003ء کو (زمینی سطح سے 3.9میٹر کی گہرائی میں) تقریباً تمام حصوں میں اینٹ کے ٹکڑے پائے گئے (شکل نمبر2-J ملاحظہ کریں)، اور یہ اینٹ کے ٹکڑے مستقل اینٹ کی 21 پرتوں تک گہرے تھے، جو 19 جولائی 2003ء کی کھدائی تک دریافت ہوتے رہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اینٹ کے ٹکڑوں کو ستونی بنیاد ثابت کرنا محض ایک مفروضہ تھا۔ یہ ساری کاروائی ایک متعصبانہ کاروائی تھی جس میں آرکیالوجی کے اصول و طریقہ کار کو پامال کرتے ہوئے کام کیا گیا۔لہٰذا اس بات کی درخواست کی جاتی ہے کہ F3 گڑھے میں کسی ستونی بنیاد کے امکان کوخارج کیا جائے۔
اس شکایت کے تناظر میں پہلی مصنفہ پراس ستونی بنیاد کی تخلیق کی کاروائی کے دوران غیر موجود ہونے کا الزام لگایا گیا، جبکہ جن تواریخ (8 تا 12 جولائی 2003ء) میں یہ ساری کاروائی ہوئی وہ وہاں پر موجود تھیں۔ دوسری جانب 5 جون 2003ء کی سائٹ نوٹ بک اور پروگریسو رپورٹ (22 مئی تا 5 جون 2003ء) میں کسی بھی قسم کی ستونی بنیاد کے واضح ہونے سے پہلے ہی اس کا تذکرہ کر دیا گیا تھا۔ یہ سارا کھیل جسے ہم تقریباً اپریل 2003ء سے دیکھ رہے تھے، اور جس کی ہم نے شکایت درج کی تو بجائے اس کا جواب دینے کے، ہم پر ASIکے خلاف پیشگی معاندانہ محاذ تیار کرنے کا الزام لگایا گیا، جبکہ وہاں ہمارے موجود ہونے کی اصل وجہ، ایک آرکیالوجسٹ کی حیثیت سے محض اس کاروائی کے طریقہ کار کو پرکھنا تھی۔

میری ساتھی مصنفہ کے ذریعے داخل کیے گئے حلف نامہ میں ستونی بنیادوں کے تعلق سے وہ نکات جنہیں فیصلے میں نقل کیا گیا، درج ذیل ہیں۔


ضمیمہ نمبر 4 اور رپورٹ کی تحریر میں ستونی بنیادوں کے تعلق سے نا موافقت؛ ستونی بنیادوں کےمحل و وقوع میں کوئی ترتیب کا نہ ہونا؛ گڑھا F6میں دیوار کو کاٹ کر ستونی بنیادوں کی تخلیق؛ فرش نمبر 2، جس کے نیچے یہ بنیادیں پائی گئیں، فرش ان بنیادوں سے بالکل پیوستہ پایا گیا؛ ستونی بنیادوں کو ’’تخلیق‘‘ کرنے کا براہ راست مشاہدہ؛ اور یہ کہ در حقیقت شمالی حصے میں دریافت ہونے والی بنیادیں ہی اصلاًستونی بنیادیں ہیں۔ ان نکات میں سے کسی کا بھی جواب نہیں دیا گیا، جب کہ فیصلے میں گڑھا G2 اور F6میں ان کی مصنوعی تخلیق کے نظریہ پر اتفاق بھی ظاہر کیا گیاہے۔


اسی سے مشابہ شکایتیں دیگر گڑھوں (ZF1, G5, F3 G2) اور F2 اور G2 کے درمیانی حصے کے تعلق سے بھی کی گئیں، جنہیں قبول ہی نہیں کیا گیا۔
اس کاروائی میں اگر ان ستونی بنیادوں کو الگ کر کے دیکھا جائے تو صرف ایک مغربی دیوار بچتی ہے، جو 1.77میٹر چوڑی تھی۔ جس میں سرخ چونے کے بنے تین فرش کے نشانات تھے۔
ASIکا اس نتیجہ پر پہنچ جانا کہ مندر موجود ہے، بالخصوص اس وقت جب کہ اُن کا تصوراتی نقشہ، شمالی ہند کی کسی بھی مندر سے مطابقت نہیں رکھتا ہے؛ ایک بہت عجیب بات ہے۔


شمالی ہند کے مندر وں میں فرش (کرسی یا Plinth) اطراف کی زمینی سطح سے کافی اونچا ہوتا ہے۔ جس میں سیدھی لمبی دیواروں کے بجائے چھوٹی دیواریں اس طرح ہوتی ہیں کہ اس کا نقشہ صلیب نما شکل کا ہوتا ہے۔ (کرشنا دیوا 1995) ۔ ان مندروں میںپہلے ’’منڈپا‘‘ ہوتا ہے،یعنی عوامی رسوم کی ادائیگی کے لیے مختص ایک برآمدہ جس میں بہت سارے ستون ہوتے ہیں، جو ’’گربھ گرہا‘‘ یعنی اندرونی معبد کے بالکل سامنے ہوتا ہے۔ اگر ایسا کوئی ’’منڈپا‘‘، سامنے ہونے کے بجائے بازو میں ہو تو یہ ایک بے معنی بات سمجھی جائے گی، جبکہ ASI کے مطابق درمیانی حصہ (ابھی عارضی مندر کی جگہ) کو گربھ گرہا مان لیا جائے تو مندر کا بقیہ حصہ (منڈپا کے لئے) مشرق کی طرف ہونا چاہئے تھا، لیکن یہ شمالاً جنوباً پھیلا ہوا ہے۔ (شکل نمبر3 ملاحظہ کریں)۔ جو عمارتی ڈھانچہ ASIى نے دریافت کیا، یہ کسی مندر کا ڈھانچہ نہیں تھا۔ اس بات کی تصدیق پونہ میں دکن کالج کےریٹائرڈ پروفیسرایم ایس ماٹے(برائے آرٹ، آرکیٹکچر اور عہد وسطیٰ کی آرکیالوجی) نے بھی کی۔ (ماٹے 2009:117-119) ۔ پروفیسر ماٹے عہد وسطیٰ کے آثار قدیمہ پر گہری نظر رکھتے ہیں، اور اسی موضوع پر کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ دولت آباد کے عہد وسطیٰ کے آثار قدیمہ کی کاروائی آپ ہی کے ذریعے ہوئی ہے۔


شکل نمبر 3 کے مطابق عمارتی ڈھانچہ میں مغربی دیوار کا انتہائی واضح ہونا، مسجد کی نشانی ہے۔ یہ مغربی دیوار، مشرق کے رخ پر ہلکی ٹیڑھی ہےجو مکہ کے رخ پر قبلہ کی نشاندہی کرتی ہے۔ آرکیالوجی کی کاروائی سے حاصل شدہ معلومات کے مطابق اس مقام پر کسی مندر کے بجائے مسجد کے تعمیری ڈھانچہ کی دریافت زیادہ قرین قیاس ہے۔ بارہویں صدی کے اواخر اور تیرھویں صدی کے اوائل میں وہاں ایک مسجد کی تعمیر کے نشانات ہیں، جس کا فرش پالش کیے ہوئے سرخ چونے سے بنا تھا (فرش نمبر 4)۔ وہاں قریب آدھے میٹر اونچائی کی ایک احاطہ کرتی ہوئی دیوار تھی (گڑھا E6سے ZE1 کی طرف اور مشرق میں Hسیریز کے گڑھوں کی طرف) یعنی شمالاً ۔جنوباً 28 میٹر اور مشرق۔مغرب 16 میٹرکا احاطہ۔ اس احاطہ میں غالباً ایک چھوٹا سا درمیانی حصہ چھت والا رہا ہوگا، جس کی مغربی دیوار کا شمالی حصہ، گڑھے F2میں ایک Niche کے ساتھ نظر آرہا ہے۔ یہ دیوار کافی پتلی (0.35-0.4میٹر) تھی۔ (شکل نمبر 4 ملاحظہ کریں)۔ بنا بنیاد کی پتلی دیواروں پر مشتمل یہ ایک کمزور حصہ تھا۔ جس کے گر جانے پر اسے اینٹ کے ٹکڑوں، پتھر کی پرتوں، اینٹ کے Nodules اور کیچڑ سے بھر دیا گیا ہوگا تا کہ اگلے مرحلے کا فرش بنایا جا سکے۔ جو شمالاً جنوباً ٹیلے کے کناروں تک اور مشرق میں J سیریز کے گڑھوں تک پھیلا ہوا تھا۔ یہ فرش نمبر 3، جو شمالاً جنوباً 60 میٹر لمبا اور 20 میٹر چوڑا تھا۔ (شکل نمبر 5 ملاحظہ کریں)۔ اس فرش کے ڈھہ جانے پرتیسرے مرحلہ میں ایک اور فرش (فرش نمبر2) بنایا گیا ہوگا جس کو مشرق میں مزید لمبا یعنیLسیریز کے گڑھوں تک بنایا گیا ہوگا ۔چوڑائی 30 میٹر۔(شکل نمبر6ملاحظہ کریں)۔ اورآخری مرحلہ میں ستونوں پر مشتمل ایک ڈھانچہ، شمالی حصہ میں بنایا گیا ہوگا۔ جس کے شمالی ستونوں کی بنیادوں کسی حد تک محفوظ رہیں۔ بعد کے دو فرش خراب معیار اور مختلف احاطوں تک نظر آئے۔


اکثر جو نکتہ اٹھایا جاتا ہے کہ مسلم فریقین کے مطابق بابری مسجد ایک خالی زمین پر بنائی گئی تھی نہ کہ کسی مسخ شدہ عمارتی ڈھانچہ پر۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اب زیر زمین کسی اسلامی عمارت کی موجودگی کا دعویٰ اور شواہد پیش نہیں کئے جا سکتے۔ جبکہ اس کے بر خلاف ہندووں کی جانب سے مسجد کے نیچے موجود مندر کی عمارت کا مستقل ڈھول پیٹا گیا تھا، لہٰذااب، جب کہ کوئی عمارتی ڈھانچہ برآمد ہوا تو اسے مندر ہی ہونا چاہیے۔ لیکن یہ نکتہ قطعاً غیر مناسب ہے،اور زیادہ مناسب بات یہ ہے کہ کسی تاریخی روایت کی موجودگی یا غیر موجودگی کے اثرات آثار قدیمہ کی شواہد پر نہیں پڑ سکتے۔ ماہرین آثار قدیمہ اور تاریخ دانوںکے درمیان یہ بات حد درجہ مانی گئی ہے کہ آثار قدیمہ زبانی روایتوں اور تاریخی تحریروںکے اثبات یا انکار کا محض ایک ذریعہ ہے۔


چنانچہ شواہد کی روشنی میںمندر کی موجودگی کے آثار موجودنہیں ہیں، اس کے باوجود بھی اس تصور کے علاوہ کسی اور تصور کو قبول نہیں کیا جارہا ہے۔
یہاں ایک اور ڈھانچہ کا تذکرہ بے جا نہیں ہوگا،جسے ASIنے اپنی نظریہ کے حق میں پیش کیا ہے۔ یہ ایک چھوٹا دائرہ نما ڈھانچہ ہے، ASIنے ایک مندر بتایا اور کہا کہ اس کے اطراف دسویں صدی عیسوی میں ہندو اپنی رسومات ادا کرتے تھے۔ (شکل نمبر 7 اور 8 ملاحظہ کریں)۔ یہ اینٹوں دائروی تعمیر اینٹوں سے کی گئی ہے، جس کا باہری قطر 1.66 میٹر ہے۔ جس کے مشرقی رخ پر ایک مستطیل نما حصہ32.5سم باہر کو نکلا ہوا ہے۔ ASIکے مطابق یہ عمارت کا داخلی دروازہ کا حصہ رہا ہوگا، مگر یہ ناممکن ہے کیونکہ اس کی چوڑائی 45 سم سے بھی کم ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ اندرونی حصہ چوکور رہا ہوگا، (Manjhi and Mani 2003:70) مگر ڈرائنگ (شکل نمبر7) میں جس طرح نقطہ دار خطسے اس حصہ کو واضح کیا گیا ہے،یہ نقطہ دار خط کا مطلب آرکیالوجی میں محض قیاس یا خیال پر مبنی حصہ ظاہر کرتا ہے۔ ASIنے ایک پرنالہ کا بھی تذکرہ کیا جو دیویوں کو نہلانے کے بعد پانی کی نکاسی کے لیے بنایا گیا ہوگا۔ اس خیال کے مطابق اسے شیو کا مندر (شیو لنگ کو دائرے کے بیچ تصور کرتے ہوئے) ہونا چاہئے تھا۔ مگر چونکہ یہ ایک ٹھوس دائروی تعمیر ہے لہٰذا نہلانے کی رسم کے لئے داخل ہونے کا سوال ہی نہیں۔ اور پرنالہ بتائے گئے حصہ کے ڈھلوان کو جب رتناگر اور منڈل نے اسپرٹ کے بلبلہ سے ناپا (Mandal 2007:42) تو ڈھلوان سطح پانی کی نکاسی کے لئے ناکافی معلوم ہوئی۔ ASI نے اس دائروی مندر کو ما بعد گپتا۔راجپوت (9ویںاور 10 ویں صدی) کا بتایا ہے جب کہ پرتوں کے مشاہدہ اور سائٹ نوٹ بک کے مطابق یہ گپتا عہد یعنی چوتھی تا چھٹی صدی کے درمیان کا ڈھانچہ تھا۔


کھدائی کرنے والے نے واضح طور پر سائٹ نوٹ بک میں لکھا ہے کہ اس دائروی ڈھانچے کی دیواریں گپتا عہد کی ہیں۔ جسے ASIنے جان بوجھ کر اپنی رپورٹ میں چھپانے کی کوشش کی، اور اپنے مفروضہ کے حق میں دلائل کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی۔ یہ چھیڑ چھاڑ سائٹ نوٹ بک کے مطالعہ کے بغیر شاید سامنے بھی نہ آتی، جسے حتمی رپورٹ کی طرح فریقین کو فوراً مہیا نہیں کرایا گیا تھا۔


دلچسپ بات یہ کہ جسٹس سدھیر اگروال نے دائروی مندر کو ریڈیو کاربن ڈیٹنگ AD 900-1030 کی بنیاد پر(پیراگراف 3937 میں) نویں اور دسویں صدی کا نوٹ کیا، حالانکہ رپورٹ میںاس حصے کی کسی ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کا تذکرہ ہی نہیں۔ رپورٹ کی جانچ کر نے پر ہمیں پتہ چلا (Manjhi and Mani 2003:69) کہ شمال میں موجود گڑ ھا نمبر ZH1 کے نمونوں کی کاربن ڈیٹنگ کی بنیاد پر یہ تاریخ طئے کی، جبکہ دائروی مندر جنوب میں موجود E8 اور F8 سے بر آمد ہوا ہے۔


عدالتی فیصلے میں ASI کے موازنہ کا بھی حوالہ موجود ہے، جو ASI نے دائروی مندرکے تعمیری اسلوب کی بنیاد پر دیگر چند اینٹ کے مندروں سے کیا ہے۔ جن میںریوا نامی علاقے کے قریب سراوستی، چندریہے، مساون مندر شامل ہیں، اور فتح پور ضلع میں کُراری اور ٹنڈولی۔ کم از کم کُراری مندر کے تعمیری اسلوب کا معائنہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس کا پلان، 16 ضلعوں پر مشتمل ایک کثیر ضلعی سے مشابہ ہے، جس میں 3 اضلاع کی جگہ ایک سیدھی خط سے عمارت کا سامنے کا رخ بنتا ہے۔ (Vogel 1908-09:20)۔ اور یہ دریافت شدہ دائروی عمارت سے یکسر مختلف ہے کیونکہ اس دائرہ نما عمارت میں کہیں کوئی ضلع عمارت کا رخ نہیں بناتا۔ مزید جن عمارتوں کا نام موازنہ کی غرض سے دیا گیا ہے، وہ تمام عمارتوں کے قطر کم از کم دو گنا سے چار گنا تک ہیں، لہٰذا قد و قامت کے اعتبار سے اس کا موازنہ درست ہی نہیں۔ دئیے گئے ناموں میں تمام عمارتیں بڑی اس لئے ہیں کیونکہ یہ اندر سے خالی اور قابل استعمال ہیں، جس میں داخل ہوا جا سکتا ہے۔ جبکہ دریافت شدہ دائروی عمارت، جو ٹھوس اور اینٹوں سے بھری ہے(شکل 7 اور 8) ، ہمارے مشورہ کے مطابق یہ ایک’’ منتی استوپا‘‘ (Votive Stupa) ہوگا۔ شکل نمبر 8 کے مطابق اس عمارت میں اینٹ کی نچلی پرتیں زیادہ قطر کےساتھ باہر کو نکلی ہیں۔ یہ فرق استوپا کے دو حصوں، میدھی (نچلا ڈرم نما حصہ) اور انڈا (اوپر کا نصف کرہ نما حصہ) سے بہت مشابہ ہے، اور مستطیل نما حصہ جو باہر کو نکلا ہوا ہے وہ گوتم بودھ کے مجسمہ کے لئے ایک طاق ہو سکتا ہے۔
ASI کی اسٹیٹسٹ آرگنائزیشن Statist Organisation


بیشتر آرکیالوجسٹ، اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ کہ آرکیالوجی یا علم آثار قدیمہ کا رول، تاریخی روایتوں کااثبات یا انکار کرنا ہے۔ مہابھارت اور رامائن جیسے آرکیالوجی کے پراجیکٹس کا مقصد بھی یہی تھا۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ تاریخی عہد کے متعلق تاریخی روایتوں اور آرکیالوجی کے شواہد دونوں کو بیک وقت نہ دیکھا جائے۔ لیکن یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ دونوں کے بیانیوں میں بڑے اختلافات ہو سکتے ہیں اور ان اختلافات کی پیچیدگیوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ مثلاً رزمیہ داستانوں کے حوالے سے خود بر صغیر میںمختلف روایتیں پائی جاتی ہیں۔ مزید یہ کہ پہلے یہ زبانی روایتوں کے طور پر منتقل ہوتی رہی ہیں، بعد میں انہیں جمع کر کے ایک طویل عرصہ کی تاریخ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس تناظر میں واقعات کی زمانی ترتیب کا یقینی ہونا بھی بہت مشکل ہوتا ہے۔ بہت قدیم تواریخ، مختلف سماجی طبقات کی زبانی منتقل ہونے کے باعث بھی حقائق کے معاملے میں مشکوک ہو جاتی ہیں۔ لہٰذا کسی تاریخی روایت کے واقعات کو آرکیالوجی کے شواہد کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ایک بیکار کام ہے۔مثال کے طور پر بھاردواج آشرم کے مقام پر کچے مکانات کے جو باقیات ملے، ان کی بنیاد پر یہ کہا گیا ہے کہ رام، لکشمن اور سیتا جمنا ندی پار کرنے سے پہلے وہاں ٹھہرے ہوں گے۔ (Lal 2002:41-42, 45-48)


ASIکی کاروائیاں، تاریخی روایتوں پر ایمان لاتے ہوئے انجام پاتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ مزید یہ کہ ASIکے کھدائی اور ریکارڈ کرنے کے طریقے آج بھی پرانے انداز کے ہیں جس میں مختلف زمانوں کی ثقافتی ترتیب قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جسے 1940ء میں مرٹائمر وہیلر نے متعارف کرایا تھا۔ جبکہ گذشتہ 50 سالوں میں بھارت کے مختلف تعلیمی اداروں میں اور بھارت کے باہر بھی نت نئے اور بہتر طریقے سامنے آئے ہیں۔ یہ ASIکی علمی پسماندگی کی دلیل ہے، اور ظاہر کرتا ہے کہ ASI کے آرکیالوجسٹ، سرکاری کارندے ہی ہیں۔ چونکہ ASI مرکزی سرکار کو جوابدہ ہے، لہٰذا اس بات کو کلیتاً جھٹلایا بھی نہیں جا سکتا۔
ایودھیا میں ASIکی اس کاروائی اور رپورٹ پر کئی ماہرین آثار قدیمہ سخت تنقید بھی کرنا چاہتے ہیں۔ مگر چونکہ ASIملک کے وراثتی نظم و ضبط Heritage Managementپر مکمل کنٹرول رکھتی ہے، اور کوئی آرکیالوجسٹ اس کے اجازت نامے کے بغیر کام نہیں کر سکتا، لہٰذا وہ خود کو مجبور محسوس کرتے ہیں۔
سونے پہ سہاگا، دیکھئے کہ جسٹس اگروال نے درج بالا نکتے کو ASI کی مہارت کے بیان کرنے کےلئے استعمال کیا۔ پیراگراف 3879میں وہ لکھتے ہیں ’’وہ (ASI) ماہرین کے سردار ہیں۔ لہٰذا کوئی بھی آرکیالوجسٹ ان کے اجازت نامے کے بغیر کسی بھی تاریخی اہمیت کی حامل مقام پر آثار قدیمہ کی کاروائی انجام نہیں دے سکتا۔‘‘ مزید لکھتے ہیں ’’اس میدان میں کسی بھی کاروائی کے مشاہدات، نتائج اور بیانیہ اس وقت تک تسلیم نہیں کئے جاتے جب تک کہ وہ ASIکے ماہر سے تصدیق شدہ ہوں یا اس کے علمی جریدہ میں شائع ہو جائیں۔‘‘


جب کہ جو بھی علمی کام ASIکی جانب سے کیا گیا ہے، اس کی اہمیت بھارت اور دیگر ملکوں میں سماجی علوم کے حوالے سے انتہائی کم ہے۔ خود ASIکی آثار قدیمہ کے میدان میں علمی کام میں دلچسپی اور پیش رفت بہت معمولی ہے۔ ہر سال ASI کے زیر نگرانی ہونے والی کاروائیاں، محض اس لئے ہوتی ہیں کیونکہ بجٹ میں ان کا حصہ مختص ہے، جسے تصرف میں لانا ہوتا ہے (Chaddha 2007)۔
اور ASIکی کھدائی کی کاروایئوں پر ایک اسسٹنٹ سپریٹینڈنگ آرکیالوجسٹ کا فقرہ دیکھیے کہ یہاں سب کچھ ہے مگر تحقیق نہیں۔ سب کچھ جیسے پیسہ، سیاست، تعصب، کرپشن، عوامی شہرت، ذاتی فوائد۔ تحقیق ان سب کے لئے بس ایک کتبہ ہے۔ آپ کسی بھی آرکیالوجسٹ سے جا کر تحقیق کے بارے میں پوچھئے، آپ خود جان جائیں گے۔‘‘ (Chaddha 2007:247)

ستمبر 2018

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں