فلسطین بالخصوص غزہ کے علاقے میں اسرائیلی جارحیت کے سامنے آہنی عزم کی دیوار بنے اہل ایمان کے نام
ہیں یہ اہل غزہ دین کے پاسباں
خون ان کا نہیں جائے گا رائیگاں
انبیاء کی زمیں، غازیوں کا چمن
اور شہیدوں کا مسکن فلسطین ہے
کوئی پرتو یہاں ابن خطاب کا
کوئی ایوبی ہے، کوئی یسین ہے
کیا یہودی مٹائیں گے ان کا نشاں
ہیں یہ اہل غزہ دین کے پاسباں
ننھے بچے ہیں مجبور حالات سے
کھیل ان کے جہاں سے نرالے ہوئے
ہیں کھڑے بے خطر ٹینک کے سامنے
گل سے ہاتھوں میں پتھر سنبھالے ہوئے
کچی عمریں مگر حوصلے ہیں جواں
ہیں یہ اہل غزہ دین کے پاسباں
اک طرف، کچھ جیالے فلسطین کے
گولیوں اور تیغوں کی چھاؤں میں ہیں
دوسری سمت غفلت کی چادر تلے
مست اہل عرب خواب گاہوں میں ہیں
بے حسی دُور کر ربِ کون ومکاں
ہیں یہ اہل غزہ دین کے پاسباں
نام لیتی ہے موسی کا یعقوب کا
اصل میں وہ جو ہے فوج فرعون کی
گہرا رشتہ ہے دجال کے ساتھ بھی
ہے درندہ صفت نسل شیرون کی
دے رہا ہے گواہی یہ خونِ رواں
ہیں یہ اہل غزہ دین کے پاسباں
دل سے جینے کے ارماں مٹاتے ہوئے
موت سے مل گئے وہ محب وطن
رسم حمزہ ہوئی پھر سے تازہ نبیل
ٹکڑے ٹکڑے ہوئے پھول جیسے بدن
ان کی خوشبو سے مہکیں گے دونوں جہاں
ہیں یہ اہل غزہ دین کے پاسباں
انس نبیل (آکولہ)، 8087282020
شجاعیہ کے
شجاعان کے نام
شجاعت کے قلم سے
جس دیس کو گھیرے چار طرف
ابلیس آوارہ پھرتا ہے
جہاں دھرتی سکڑتی جاتی ہے
جہاں عنبر آگ اگلتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قارون کی دولت کے بل پر
فرعون قہر برساتا ہے
جاسوس بنے ہیں چارہ گر
ہمسایہ ستم فرماتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محصور وطن ظالم پہرے
بس جنت کا در کھلتا ہے
یہ راہ گزر ہے فردوسی
رضوان یہاں مسکاتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معصوم جھلستے بچے بھی
آہوں پر پالے جاتے ہیں
عیار صفت پیران حرم
تقدیس میں تولے جاتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ محسن ہیں ہر بے کس کے
صہیون کی یاری کیا جانیں
وہ اذن صبح درخشاں ہیں
وہ ماتم زاری کیا جانیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس دیس کی مٹی برسوں سے
کتنے ہی ستم یوں سہتی ہے
اور دھرتی کے انسانوں سے
پھر عیدمبارک کہتی ہے
سید شجاعت اللہ حسینی
میں کیسے کہہ دوں کہ عید آئی
میں کیسے کہہ دوں کہ عید آئی
مسرتوں کے پیام آئے
خوشی سے لبریز جام آئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں تحفے کس کے لیے خریدوں
اور تحفوں میں بھی کیا خریدوں
کہ سارا عالم بلک رہا ہے
سسکیوں سے مہک رہا ہے
اشک آلود سارے بادل
زمین آنسو بہارہی ہے
ہر اک طرف بس اٹھی ہیں ہو‘کیں
’’قرار کے دو پل نہ لائی‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’وفا کے مجرم‘ سزائیں پاؤ!
’وفا کے کرتب‘ دکھائے جاؤ!
’وفا کے قصے‘ سنائے جاؤ!
وفا کے اونچے مقام پر تم
کھڑے کھڑے مسکرارہے ہو
اور سنو! راہ وفا کے تمام راہی
رشک آنکھوں سے تک رہے ہیں
کفن کے جوڑے میں لپٹی دیکھو
پیارے بیٹے کی لاش آئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ’عید ماضی‘ کے پیارے لمحے
وہ ننھے بچوں کا شور کرنا عید آئی ہے، عید آئی
گاکے گلیوں میں رقص کرنا
مگر یہ کیا آج دردوغم کے نالے
کان جن سے پھٹے ہوئے ہیں
کہاں گیا وہ رقص ان کا،
وہ گیت ان کے، وہ شور ان کا
لے کے کلکاریاں وہ ساری
وفا کے سارے وہ خواب لے کر
جو عید آئے تو میں بھی کہہ دوں
عید آئی، ہاں عید آئی
’’میں کیسے کہہ دوں کہ عید آئی‘‘
نجم السحرسحر، شانتاپرم، کیرلا