اپنی باتیں

0

نبیوں کی دعوت کا مطالعہ دعوت دین کے میدان میں سرگرم افراد کے لیے بہت ہی اہم ہے۔ اس سے نہ صرف دعوت کے مختلف مراحل کے سلسلے میں ، بلکہ دعوتی اصولوں اور اسالیب کے تعلق سے بھی بہترین رہنمائی ملتی ہے۔ حقیقی داعیانہ کردار کیا ہوتا ہے، اس کو سمجھنے کے لیے قرآن مجید میں موجود نبیوں کی دعوت کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ ازحد ضروری ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ اور آپؐ کی دعوتی جدوجہد پر بہت کچھ موجودہے، تاہم آپؐ کی حیات طیبہ، اور آپ کی دعوتی جدوجہد کے سلسلے میں جو قابل وثوق اور بھرپور رہنمائی قرآن مجید میں ملتی ہے، اور کہیں نہیں ملتی۔
اسلام دین فطرت ہے، اور یہ اپنے اندر انسان کے دل اور عقل کو مطمئن کرنے کی پوری قوت رکھتا ہے۔ قرآن مجید میں نبیوں کی دعوت کی جو تفصیل مذکور ہے، اس سے صحیح دعوتی اپروچ کے تعلق سے اچھی رہنمائی ملتی ہے۔ نبیوں نے ہمیشہ دلائل اور نشانیوں پر غور کرنے کی دعوت دی اور انسانی عقل کو اپنی دعوت پر مطمئن کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے آفاق وانفس میں موجود رب کائنات کی واضح نشانیوں کی جانب انسانوں کو متوجہ کیا، اور ان پر غوروفکر کی ترغیب دلائی۔ چنانچہ نبیوں کی دعوت میں کہیں زور زبردستی اور سختی کا عنصر نہیں ملتا، بلکہ انہوں نے ہمیشہ استدلال کی قوت کے ذریعے انسانی دلوں اور عقلوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی۔
نبیوں کی دعوت کا مطالعہ کرنے سے سماج میں تبدیلی کا طریقہ کار بھی بہت واضح ہوکر سامنے آجاتا ہے۔ نبیوں نے ہمیشہ افراد کو اپنا مخاطب بنایا،ا ور سماج میں موجود کمزوریوں کی نشاندہی فرمائی۔ افراد کے ذہن تبدیل ہوئے تو سماج میں بھی تبدیلی رونما ہونا شروع ہوگئی۔ حکومت اور ریاست کی تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ افراد اور سماج کو اس کے لیے تیار کیا جائے، ورنہ اسلام جس انداز کی تبدیلی لانا چاہتا ہے وہ اس کے بغیر بے معنی سی ہوکر رہ جاتی ہے۔
نبیوں کی دعوت کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے سماج اور سماج کی حقیقی بیماریوں سے بھرپور واقفیت رکھتے تھے اور سماج میں ان کی اپنی ایک خاص شناخت پائی جاتی تھی۔ وہ خاص شناخت یہ تھی کہ وہ اپنے اخلاق وکردار، اپنی بے نفسی وبے نیازی، اپنے خلوص و ایثار، اپنی سنجیدگی ومتانت اور دوسروں کی خیروبھلائی کے تعلق سے اپنی فکرمندی ودردمندی کے نتیجے میں افرادِ سماج کے دلوں میں، خواہ وہ ان کے موافقین ہوں یا مخالفین، اپنا ایک خاص مقام رکھتے تھے۔ سماج ان سے اور وہ سماج سے حددرجہ انسیت اور لگاؤ رکھتے تھے، اور سماج اور ان کے درمیان کسی بھی قسم کی اجنبیت حائل نہ تھی۔
نبیوں کی دعوت کا مطالعہ دعوت دین کا کام کرنے والوں کے لیے بہت ہی حوصلہ بخش اور امیدافزا ہوتا ہے۔ شدید ترین مخالفتوں، اور سخت قسم کی رکاوٹوں کے درمیان کس انداز سے کام کی راہیں نکالنی ہیں اور کس طرح اپنا مشن جاری رکھنا ہے، یہ ان کی دعوت کا ایک اہم سبق ہے۔ مخالفتوں اور رکاوٹوں کی شدید ترین آندھیاں ان کے آہنی عزائم اور مضبوط حوصلوں کے سامنے ہمیشہ کمزور واقع ہوئیں۔
دعوت دین کا کام زبردست قربانیوں اور پیہم جدوجہدکا تقاضا کرتا ہے۔ نبیوں کی دعوت کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے کس طرح اپنی پوری پوری زندگیاں اس مشن کی خاطر لگادیں، اورتادم آخر اسی میں لگے رہے۔ انہوں نے دن رات ایک کرکے رب کی بندگی کی طرف بلایا۔ انہوں نے خاموش طریقے سے بھی دعوت کا کام کیا اور علانیہ بھی۔اس راہ میں انہوں نے ہر قسم کی آزمائش اور مصیبت کا سامنا کیا، لیکن نہ توکبھی کم ہمتی کا مظاہرہ کیا ، اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی اور کمزوری دکھائی۔
نبیوں کی دعوت کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اس مشن پر نکلنے والے نتائج سے بے پرواہ ہوتے ہیں، کیونکہ ان کے پیش نظر تو صرف اور صرف رب کی خوشنودی اور اس کی رضا کا حصول ہوتا ہے۔ کسی کے ایمان لانے نہ لانے کی ذمہ داری ان پر نہیں ہوتی۔ ان کا کام تو صرف اور صرف رب کے بھرپور اور مکمل پیغام کی تبلیغ ہوتی ہے۔ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف انبیاء نے سخت ترین جدوجہد سے بھرپوراپنی پوری پوری زندگیاں اس میدان میں لگادیں، لیکن ان کے ہاتھ پر چند ایک لوگ ہی ایمان لاسکے۔
امت مسلمہ ایک داعی امت ہے، جسے لوگوں کے لیے برپا کیا گیا ہے اور اس ذمہ داری پر مأمور کیا گیا ہے جس کے لیے نبیوں اور رسولوں کی بعثت ہوتی رہی ہے۔ امت آج مجموعی طور پر اپنے اس داعیانہ کردار سے محروم ہوگئی ہے، اور اس داعیانہ کردار سے محرومی نے اس کی مجموعی صورتحال پر کافی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس داعیانہ کردار کی بازیافت کے لیے ضروری ہے کہ قرآن مجید سے گہرا تعلق قائم کیا جائے اور اپنے اندر وہی داعیانہ کردار پیدا کیا جائے جو نبیوں کے یہاں پایا جاتا تھا۔
(ابوالاعلی سید سبحانی)

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights