اپنی باتیں

ایڈمن

۱۶؍مئی ۲۰۱۵ ؁ء بروز سنیچر مصری عدالت کی جانب سے ایک ایسا عجیب وغریب فیصلہ سامنے آیا جو اپنے آپ میں مضحکہ خیز بھی ہے اور تشویشناک بھی۔ مضحکہ خیز اس طرح سے کہ اس میں ملک کی تاریخ کے…

۱۶؍مئی ۲۰۱۵ ؁ء بروز سنیچر مصری عدالت کی جانب سے ایک ایسا عجیب وغریب فیصلہ سامنے آیا جو اپنے آپ میں مضحکہ خیز بھی ہے اور تشویشناک بھی۔ مضحکہ خیز اس طرح سے کہ اس میں ملک کی تاریخ کے پہلے منتخب جمہوری صدر ڈاکٹر محمد مرسی، ملک کی عظیم ترین اسلامی تحریک ’اخوان المسلمون‘ کے مرشد عام ڈاکٹر محمد بدیع، عالم اسلام کے عظیم فقیہ اور فکری رہنما علامہ یوسف القرضاوی اور ان کے علاوہ ایک سو سے زائد اسلام پسند قائدین کے خلاف چند بہت ہی بے بنیاد قسم کے الزامات کا سہارا لے کر سزائے موت کا فیصلہ سنادیا گیا۔ تشویشناک اس طرح سے کہ عالم اسلام کے مختلف ممالک بالخصوص پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں اسلامی تحریک کے خلاف جس طرح حکومت کی دہشت گردی اپنے شباب پر ہے اور اس کو بھرپور عالمی سرپرستی بھی حاصل ہے، اسی طرح مصر کی صورتحال، وہاں کی فوجی حکومت کی جارحیت اور اس کے سلسلے میں عالمی برادری کا شرمناک رویہ انتہائی تشویشناک ہے۔ بہرحال فوجی بغاوت کے نتیجے میں قائم ہونے والی ڈکٹیٹرشپ کے عدالتی نظام سے اور کس چیز کی توقع کی جاسکتی ہے۔
مصر میں فوجی جارحیت کے دو سال پورے ہونے جارہے ہیں۔ ۳؍جولائی ۲۰۱۳ ؁ء کی فوجی بغاوت کے بعد سے فوج اور مختلف سرکاری اداروں کی جانب سے جس طرح ظلم اور جارحیت کا ننگا ناچ ناچا جارہا ہے، اس نے ملک کو ایک خطرناک راستے پر ڈال دیا ہے۔ ایک طرف ملک کے جمہوریت پسند اور آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والے عوام ہیں جو مستقل اپنے حقوق اور مطالبات کو لے کر احتجاج اور مظاہروں میں مصروف ہیں، دوسری طرف فوجی حکومت ہے جو ہر طرح سے ان کی آواز کو دبانے اور ان کی جدوجہد کو ناکام بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ ایک طرف ملک سیاسی اور معاشی لحاظ سے بدترین بحرانی دور سے گزررہا ہے اور حالات بالکل قابو سے باہر ہیں، دوسری طرف فوجی حکومت ہے جو ان حالات کو صحیح طور سے پڑھنے کے بجائے بیرونی امداد کے سہارے ڈھیٹ بنی بیٹھی ہے، اور ایک کے بعد ایک ٹھوکریں کھاتی چلی جارہی ہے۔
فوجی حکومت کے یہ اقدامات اسلام پسندوں کا راستہ روکنے میں کہاں تک کامیاب ہوسکیں گے، اس سے متعلق کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا، البتہ مصر کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس سے قبل بھی وہاں کی حکومتوں نے متعدد بار اسلامی تحریک کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے اپنی حد تک پورا زور لگادیا، اس کے لیے عدالتی نظام کا بھی خوب استعمال کیا گیا اور دوسرے حکومتی اداروں کا بھی،لیکن نتیجہ ہمیشہ برعکس ہی رہا اور اسلامی تحریک کا دائرۂ اثر وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا۔
محمد مرسی اور ان کے ساتھیوں کے خلاف آنے والے اس عدالتی فیصلے کے کیا اثرات مرتب ہوں گے، اس سلسلے میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا، غالب امکان ہے کہ عالمی دباؤ اور داخلی حالات کے پیش نظر یہ فیصلہ نافذ نہیں کیا جاسکے گا، البتہ اس کا ایک فوری اور مثبت اثر یہ سامنے آیا کہ مصر کے منتخب جمہوری حکمراں ڈاکٹر محمد مرسی اور ان کے خلاف ہونے والی ملکی وعالمی سازشیں ایک بار پھر موضوع بحث بن گئیں، اور ایک بار پھر دنیا بھر میںیہ اِشو نہ صرف زندہ ہوگیا، بلکہ اس ظالمانہ عدالتی فیصلے کے خلاف جگہ جگہ مختلف انداز سے زبردست مظاہرے اور احتجاج بھی کیے گئے، سوشل میڈیا پر تو اس کے خلاف خوب ہنگامے ہوئے۔
اس موقع پر ایک کردار تو وہ ہے جو مصری عوام، بالخصوص قوم کے نوجوانوں اور اسلام پسند قیادت نے پیش کیا، گزشتہ دو سالوں کی سخت ترین آزمائشوں اور حکومت کی جانب سے انتہائی جارحانہ انتقامی کارروائیوں کے باوجود انہوں نے اس انقلابی جدوجہد کو پرامن اور جمہوری انداز سے آگے بڑھایا، جو یقیناًلائق تحسین ہے۔ اور ایک کردار اس دنیا کا سامنے آرہا ہے جس نے آج تک انصاف، انسانی حقوق، جمہوریت اور جمہوری اقدار جیسے نعروں اور دعووں پر سیاست کی ہے، اور جو مصر میں انصاف اور جمہوریت کے کھلے عام قتل وخون پر اپنی زبان تک کھولنے کو تیار نہیں، کتنا فرق ہے دونوں کرداروں میں۔ بہرحال یہ زمانے کے نشیب وفراز ہیں جنہیں خدائے ذوالجلال لوگوں کے درمیان گردش دیتا رہتا ہے، یقیناًانجام کار اسی کے ہاتھ میں ہے۔
عرب بہاریہ پر چار سال سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد عرب حکمرانوں کو یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ عالم عرب کے عوام میں ذہنی وفکری لحاظ سے کافی کچھ تبدیلی رونما ہوچکی ہے، اب اتنی آسانی سے انہیں قابو میں نہیں رکھا جاسکتا۔ اب ان کے درمیان بہت تیزی کے ساتھ یہ شعور عام ہورہا ہے کہ ذہنی وفکری آزادی، سیاسی ومعاشی آزادی، جمہوریت اور جمہوری حقوق، سیاسی نظام میں شمولیت اور فیصلہ سازی میں شرکت جیسے الفاظ کا مطلب کیا ہے، اور دنیا بھر کے عوام اپنے ان حقوق اور آزادیوں سے کس طرح محظوظ ہورہے ہیں،جبکہ اِن کے حکمرانوں نے کس طرح خطرناک قسم کی استحصالی پالیسیوں پر عمل کرتے ہوئے اِنہیں بالکل ہی بے اثر اور بے اختیار بنا رکھا ہے۔
(ابوالاعلی سید سبحانی)

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں