آخری اذان

0

حضرت ابوعبداللہ بلال بن رباح رضی اللہ عنہ کا شمار دربارِ رسالت کے ا ن عظیم المرتبت اراکین میں ہوتا ہے، جن کا اسم گرامی سن کر ہر مسلمان کی گردن فرطِ احترام وعقیدت سے جھک جاتی ہے۔ شام کے معرکوں سے فار غ ہونے کے بعد حضرت بلالؓ نے وہیں کے ایک گاؤں ’’خولان‘‘میں مستقل سکونت اختیار کرلی، ایک رات کو خواب میں دیکھا کہ حضور پرنورصلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں،اور فرمارہے ہیں:’’اے بلالؓ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم ہماری زیارت کے لئے آؤ۔‘‘اس خواب نے اس عاشقِ صادق کا دل ودماغ جھنجھوڑ ڈالا۔ آتش فراق بھڑک اٹھی اور بے تابانہ مدینہ منورہ کا رخ کیا۔ روضۂ اقدس پر حاضر ہوئے تو صبر وقرار کا یارانہ رہا، اور فراقِ حبیب ؐمیں اس درد سے روئے کہ دیکھنے والوں کی آنکھوں سے بھی سیلِ اشک رواں ہوگیا۔ اس موقع پر حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ بھی موجود تھے۔ اپنے محبوبؐ کے جگر گوشوں کو سینے سے لگاکر بار بار ان کا منہ اور سر چومتے تھے۔ انہوں نے خواہش کی کہ ’’بابابلالؓ کل فجر کی اذان روضۂ رسولؐ پر آپ دیں۔‘‘بلالؓ اپنے آقاو مولاؐکے جگر گوشوں کی خواہش کو کیسے ٹال سکتے تھے۔ فجر ہوئی تو روضہ رسولؐ کے قریب(یابروایت دیگر مسجد نبوی کی چھت پر)اذان کے لئے کھڑے ہوگئے۔ سارا مدینہ ان کی اذان سننے کے لیے اُمڈ آیا۔جوں ہی انہوں نے اذان دینی شروع کی ، مدینہ منورہ کی پوری فضا حشر ساماں ہوگئی۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عہد مبارک لوگوں کی آنکھوں کے سامنے آگیا۔ جب حضرت بلالؓ نے روضۂ اقدس کی طرف انگلی کا اشارہ کرکے اَشہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًارَّسُولُ اللّہکہا تو پردہ نشین خواتین بھی گھروں سے باہر نکل آئیں،روتے روتے لوگوں کی ہچکیاں بندھ گئیں، ایسا معلوم ہوتا تھا گویا ہادیِ برحق سید کونینؐ نے آج ہی وصال فرمایا ہے۔ کہاجاتا ہے کہ رسولِ اکرم ؐ کی رحلت کے بعد مدینہ منورہ میں ایسادل دوز اور پُر اثر منظر آج تک کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔‘‘
(ماخوز:خیرالبشرؐکے چالیس جاں نثارؓ۔طالب الہاشمی)

سسکتی جمہوریت کے نام
(منتخب مصری صدر ڈاکٹر محمد مرسی کے خلاف مصری عدالت کی جانب سے سزائے موت کے فیصلے پر)
جمہوریت کے علمبرداروں
حقوق انسانی کے پاسداروں
امن وانصاف کے نگہبانوں
کہاں ہو؟
کہاں ہیں تمہارے،
وہ حسین نعرے؟
وہ جمہوریت کے نغمے؟
جو جہاں والوں کو تم سناتے ہو،
وہ امن وانصاف کے ترانے،
جھوم جھوم کر تم جو گاتے ہو،
آج کیوں تمہاری زباں گنگ ہوگئی ہے؟
آج کیوں جمہوریت کی عصمت دری پر،
تمہاری جبینوں پر شکن نہیں ہے؟
آج اس کے دامن تار تار پر،
کیوں کلیجے تمہارے پھٹے نہیں ہیں؟
کیوں تمہارے ہی کوچے میں آج،
جمہوریت اپنی بام کو ترس رہی ہے؟
اس قدر تڑپ رہی ہے!!
پھڑ پھڑا رہی ہے۔۔!!
مگر یہاں کوئی بھی نہیں ہے،
کہ جس میں انسانیت بچی ہو،
جو دیکھ کر یہ خون آشوب منظر
لبوں کو جنبش ذرا سی دے دے،
جو یہ کہہ دے!!!
کہ تم دوغلے ہو!
تمہاری باتیں،
دو رخی ہیں!!
تمہارے سب نعرے کھوکھلے ہیں!!
اگر یہی رنگ ہے تمہارا!
اگر یہی ڈھنگ ہے تمہارا!
تو بات میری بھی ایک سن لو!
تم اپنی بربادیوں کا قصہ،
خود اپنے ہاتھوں سے لکھ رہے ہو!!!
مطلب مرزا، راجستھان

انقلاب کی دو بنیادیں

اٹھارہویں صدی سے مسلمانان عالم پر جو ہمہ جہتی زوال طاری ہونا شروع ہوا تھا بیسویں صدی کے اوائل میں وہ اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ کسی بھی قوم یا ملت کے زوال کا نقطۂ عروج اس کے لیے ایک اہم تاریخی موڑ بھی ہوا کرتا ہے۔ اس وقت یا تو وہ بحیثیت قوم ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سوجاتی ہے، یا یکایک اس کی خودشناسی بیدار ہواٹھتی ہے اور اس کی زبوں حالی اس کے احساس خودی کے لیے تازیانہ بن جاتی ہے جس کے نتیجہ میں وہ ازسرِنو عزت و اقبال کی زندگی حاصل کرنے کے لیے اُٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ یہ خوش آئند انقلاب ان قوموں کی تاریخ میں آیا کرتا ہے، جن کی ایک طرف تو بنیادوں میں بھی توانائی موجود ہوا کرتی ہے دوسری طرف قدرت کابھی ارادہ اپنی کسی بالاتر اسکیم کے پیش نظر ان کے حق میں فضل واحسان نو کا ہوچکا ہوتا ہے۔
(مولانا صدرالدین اصلاحیؒ ، بحوالہ مجاہدکی اذان)

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights