زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہوگا؛ سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہو گا (اقبال)

محمد عبدالمومن

1996 سے تاحال اس پلیٹ فارم پر تقریباً 58ہزار 8 سو کروڑ کے قریب ویب پیجس (واضح رہے ایک ویب سائٹ پر کئی ویب پیجس ہوتے ہیں)، 3 کروڑ کے لگ بھگ کتابیں، 1.4کروڑ آڈیو فائلیں، 60لاکھ ویڈیو فائلیں، 35…

اطلاعات، علم کا راستہ ترتیب دیتی ہیں اور علم، انسان کو حکمت کے زیور تک رسائی کے قابل بناتا ہے۔ ابتدائے آفرینش سے تادم تحریر، مختلف علاقوں میں پنپنے والی تہذیبوں نے اپنی مخصوص زبانوں اور ٹکنالوجیز کا استعمال کرتے ہوئے انہی بہم اطلاعات، علوم اور حکمت  پر مبنی مواد کومحفوظ کرنے کی کوششیں کیں۔ جس کا ثمرہ ہمیں ان قدیم کتبوں اور مخطوطات کی شکل میں مل رہا ہے جو آج  دنیا بھر کے لائبریریوں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ کاغذ اور پھر طباعت  کی جدید شکل کے عام ہونے کے بعد مطبوعہ کتابوں کی تعداد میں روز بروز بتدریج اور بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے۔ وہیں بیسویں صدی کے اواخر میں انفارمیشن ٹکنالوجی کےانقلاب اور ۱۹۹۶ میں انٹرنیٹ کے عوامی ہونے کے بعد الیکٹرانک فارمیٹ میں کثیر الاشکال مواد کی تیاری و اشاعت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، جس میں سادہ الفاظ پر مبنی مواد سے لے کر، تصاویر، آڈیو، ویڈیوز اور سیمولیشنس وغیرہ  شامل ہیں۔

چاہے ہزاروں سال پرانے پتھر پر لکھے گئے کتبات ہوں  یا قدیم مخطوطات یا کاغذ پر طبع شدہ کتابیں، غرض جدید ٹکنالوجیز کے ذریعہ تمام موجودانسانی علوم اب ڈیجیٹائزڈ ہورہے ہیں۔سرچ انجنس ہمیں انٹرنیٹ پر موجود کروڑہا ویب سائٹس تک آسان انداز میں رسائی کرواتے ہیں، جو عام و خاص کے روزمرہ کا حصہ بن چکے ہیں۔ لیکن۔۔۔۔کیا آپ جانتے ہیں کہ  انٹرنیٹ پر موجود اربوں ویب پیجس میں سے  کئی ایک کچھ عرصہ بعد غیرفعال ہوجاتے ہیں بلکہ ایک اندازے کے مطابق ویب پیجس کی اوسط عمر 100 دن  ہی ہوتی ہے۔ وہیں 150 کروڑویب سائٹس کے ضخیم ذخیرے میں سے تاحال محض 20 کروڑ ہی فعال کام کررہی ہیں۔ گویا انٹرنیٹ پر موجود ہرچیز نہ ہی باآسانی قابل رسا ہے اور نہ ہی مکمل محفوظ ہے۔ کاغذ پر طبع شدہ مواد کی حفاظت لائبریریوں کے ذریعہ ہوتی آرہی ہے، انٹرنیٹ پر وہی کام “انٹرنیٹ آرکائیو “نامی غیر منافع بخش ادارہ کررہا ہے۔ جس کے مقاصد میں انٹرنیٹ پر موجود اورشائع ہورہے مواد کی حفاظت ،جو مواد اس پرموجود نہیں اس کو  ڈیجیٹائز کرتے ہوئے، اس پورے مواد کو ہر ایک کے لئے مفت رسائی کے قابل بنانے کا کام کرنا ہے۔

اس ادارے کو ڈیجیٹل لائبریری کہا جاسکتاہے اور ا س لائبریری تک رسائی اس ویب سائٹ archive.org کے ذریعہ حاصل کی جاسکتی ہے۔1996 سے تاحال اس پلیٹ فارم پر تقریباً 58ہزار 8 سو کروڑ کے قریب ویب پیجس (واضح رہے ایک ویب سائٹ پر کئی ویب پیجس ہوتے ہیں)، 3 کروڑ کے لگ بھگ کتابیں،  1.4کروڑ آڈیو فائلیں،  60لاکھ ویڈیو فائلیں، 35 لاکھ تصاویر اور 5 لاکھ اسی ہزار سافٹ وئیر پروگرامس موجود ہیں جن کا مفت میں تصرف کیا جاسکتا ہے۔

یہ کام جو ممکن ہو پایا اور تادم تحریر ہورہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو مفت اکاؤنٹ رکھتا ہے ڈیجیٹلائزیشن کے اس عمل کا شراکت دار بن سکتا ہے۔ دنیا بھر سے سیکڑوں ادارے اور ہزاروں افراد رضاکارانہ طور پر اس کام میں شریک ہیں اور روزانہ اوسطاً 3500 کتابیں اس آن لائن ڈ یجیٹل لائبریری  کی زینت بن رہی ہیں۔

سرچ (مواد کے ڈھونڈنے )میں آسانی کسی بھی قسم کے مواد کواس میں موجود الفاظ، عنوان، اور دیگر میٹا ڈیٹا (جس  میں مواد کا تعارف،  لمحۂ تخلیق اور وقتِ اشاعت ہوتا ہے) کے  ذریعہ  بآسانی ڈھونڈا جاسکتا ہے۔ یہاں یہ تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ کسی بھی روایتی و مشہورسرچ انجن کے نتائج  مخصوص الگورتھم کے  ذریعے عموماً  آپ کے ماضی میں کئے گئے سرچ کی بنیاد پراخذ کئے گئے ہوتے ہیں اور صرف اسی مواد کے کارپس (ذخیرہ) سے اخذ کیا جاتاہےجسے سرچ انجن کمپنی قابل اعتناء سمجھتی ہے۔ جب کہ  archive.org اس کے برخلاف، عوام کی جانب سے اپ لوڈ کئے گئے  مواد کو بغیر کسی شخصی پروفائلنگ کےانٹرنیٹ کی ابتداء سے سرچ کے وقت تک جتنا مواد انٹرنیٹ پر ڈالا گیا ہوگا اس  تمام کارپس  تک رسائی بہم  پہنچاتا ہے۔ یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہوتا ہے جب متذکرہ پلیٹ فارم کا ڈیزائن ہی آفاقی اور اوپن سورس ہو جو آرکائیو ڈاٹ آرگ کا بنیادی وصف ہے۔

ہم کیا کرسکتے ہیں؟: سب سے پہلے اس پروجیکٹ کی نوعیت، اہمیت اور  ڈیزائن  سمجھیں، پھر اس سے استفادہ کرتے ہوئے اس کام میں رضاکارانہ طور پرحصہ لیں۔ اس سلسلے میں کچھ سطور ابتدائیہ کے طور پر عرض ہیں، باقی آپ  کو کمر بھی کسنی ہے اور اس قافلے میں شامل ہوکر اس کے ہر اول دستے کا حصہ بھی بننا ہے۔

اوپن لائبریری :آرکائیو کی ڈیجیٹل لائبریری میں تقریباً 20 لاکھ کتابیں موجود ہیں جو ہر کسی کے پڑھنے اورڈاؤن لوڈ کے لئے دستیاب ہیں۔ تصور کریں کہ وہ تمام کتابیں جو ہم انسانیت کے لئے اہم سمجھتے ہیں، اگر انہیں افادہ عام کے لئے اس ڈیجیٹل لائبریری کی زینت بنا ڈالیں تو کیا ہر کسی کے لئے نعمت غیر مترقبہ  سے کم نہیں ہوگا؟ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف  ٹیکنوکراٹ افراد و لائبریرین حضرات اور کچھ  ادارے  ہی دلچسپی دکھائیں بلکہ ہم تمام نوجوان بھی اس کام میں شراکت کی طرف متوجہ ہوں۔ اگر آپ کتابوں و کتبوں و مخطوطات کو ڈیجیٹائز کرنا چاہیں تو نیچے دئے گئے ای-میل پر ربط [email protected] پیدا کریں۔

    آرکائیو اٹ : اگر کوئی ادارہ اپنے تمام تر مواد کومحفوظ اور سرچ کے قابل رکھنا چاہے تو اس سروس کے ذریعہ کرسکتا ہے۔ فی الحال 240 سے زیادہ ادارے  اس سروس کا استعمال کررہے ہیں۔

آف لائن آرکائیو: اس پروجیکٹ کا مقصد دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی کو انٹرنیٹ پر موجود علم  تک رسائی دینا ہے جو کسی نہ کسی وجہ سےانٹرنیٹ  استعمال نہیں کرپاتی۔  اس کے علاوہ بک سروس کا استعمال کرتے ہوئے پبلشرس، کتابیں بیچنے والے، لائیبریرین وغیرہ نیٹ ورکنگ کرسکتے ہیں۔ اوپن کنٹنٹ الائنس  کا استعمال کر مختلف ثقافتی حکومتی و غیر حکومتی  غیر منافع بخش ادارے مشترکہ طور پر ہمہ لسانی ڈیجیٹل مواد کی تیاری کرسکتے ہیں۔

درج بالا سطور میں آرکائیو ڈاٹ آرگ کی چندخصوصیات و خد وخال کا اجمالی طور پر ذکر کیا گیا ہے جو امید ہےاس قاری کے لئے تمہیدی طور پر منافع بخش رہے گا جو اپنے آپ کوعلم نافع کا امین ومحافظ گردانتا ہو، اور اس قسم کی کوششوں میں شامل ہوکر اپنے مقصد ازلی کے یکے از سنگ میل کو عبور کرنے پر یقین بھی رکھتا ہو۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں