جولائی 1991 میں جب انڈیا معاشی اصلاحات جسے ہم لبرالائزیشن، پرائیوٹائزیشن اور گلوبلائزیشن کے نام سے جانتےہیں، نافذ کر رہا تھا ان اصلاحات میں ٹیکس اصلاح بھی بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ البتہ 2017ء میں وسیع پیمانے پر جی ایس ٹی کا نفاذ ٹیکس نظام کی سب سے بڑی اصلاح تصور کیا جاتا ہے۔ جی ایس ٹی کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس سے ملک کے موجودہ ٹیکس نظام میں نہ صرف شفافیت آئے گی بلکہ مارکیٹ میں اس ٹیکس نظام سے یکسانیت اور بہتری بھی آئے گی۔
ملکی صورتحال
ہمارے ملک میں ہر تین ماہ کے بعد GST کاؤنسل کی میٹنگ ہوتی ہے جس میں اشیاء اور خدمات پر ٹیکس سے متعلق کئی بڑے فیصلے لیے جاتے ہیں۔ GST کاؤنسل کی یہ میٹنگز اس لیے اہمیت کی حامل ہوتی ہیں کیوں کہ ان کے بغیر ہندوستانی معیشت کا مکمل طور پر جائزہ نہیں لیا جا سکتا۔ چنانچہ فیڈرل ادارتی ڈھانچے کو متوازن اور مضبوط بنانے کے لیے GST کاؤنسل کی یہ میٹنگیں ضروری ہوتی ہیں۔ جب سے Goods and Services Tax کا نفاذ عمل میں آیا ہے اور اس میں سبھی طرح کے بالواسطہ ٹیکس (Indirect Taxes) مثلا اکسائز ڈیوٹی، کسٹم ڈیوٹی، ویٹ، سروس ٹیکس، انٹری ٹیکس، سیلز ٹیکس (Sales Tax) وغیرہ کو ملا دیا گیا ہے، ان میٹنگز کے ذریعے اس ٹیکس میں اضافہ یا کمی سے متعلق تمام تر فیصلے لئے جاتے ہیں۔ چونکہ یہ فیصلے مرکزی حکومت بذات خود نہیں لے سکتی اس لئے وہ GST کاؤنسل کی میٹنگ بلاتی ہے اور کافی غور و خوض کے بعد ٹیکس میں کمی یا اضافے پر فیصلہ لیا جاتا ہے۔ ان میٹنگز کی صدارت ملک کا مرکزی وزیر مالیات کرتا ہے، ساتھ میں مالیات سے متعلق سبھی سینیئر آفیسرز اور اپنی اپنی ریاستوں کی نمائندگی کرنے کے لیے تمام ریاستوں کے وزیر مالیات بھی شرکت کرتے ہیں۔
جی ایس ٹی
ایک ایسا Indirect Tax ہے جو قومی سطح پر اشیاء اور خدمات کی پیداوار، فروخت اور صَرف پر لگایا جاتا ہے۔ GST کو ہندوستان کے ٹیکس نظام میں کی جانے والی اصلاحات میں اب تک کا سب سے بڑا قدم مانا جاتا ہے۔ اس لیے اسے One Nation One Tax کا نام دیا گیا۔ کہا گیا کہ GST کے ذریعے ٹیکس نظام میں کی گئی یہ اصلاح ہندوستان کو پرفیکشن اور توسیع کی جانب لے جائے گا۔ حالانکہ سرکار کے یہ تمام دعوے کھوکھلے ثابت ہوئے۔ سماجی طور پر دیکھیں تو Indirect Tax یعنی GST کی سب سے بڑی خامی صرف یہ نہیں ہے کہ یہ آمدنی سے قطع نظر ہر شہری پر لگتا ہے بلکہ اس سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اسے ملک کا امیر ترین اور غریب ترین شخص ایک ہی تناسب میں ادا کرتا ہے۔ مثلا اگر یہ 12 فیصد ہے تو امیروں اور غریبوں دونوں کے لیے یکساں طور پر 12 فیصد ہی رہے گا۔ چونکہ یہ ٹیکس براہ راست اشیاء اور خدمات کی پیداوار پر لگایا جاتا ہے اس لیے اس ٹیکس سے استعمال کی جانے والی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اورمہنگائی بڑھتی ہے۔ اشیاء کا استعمال امیر اور غریب سب کرتے ہیں چنانچہ GST کا بوجھ غریب عوام پر کہیں زیادہ پڑتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ یہ قابل منتقلی ٹیکس ہوتا ہے یعنی اس ٹیکس کا بوجھ دوسروں پر شفٹ کیا جا سکتا ہے ۔ مثلا حکومت کو GST ادا کرنے کی ذمہ داری پروڈیوسر یا سیلر کی ہوتی ہے لیکن سیلرGST کو اشیاء اور خدمات کی قیمتوں میں شامل کر کے خریدار سے وصول کر لیتا ہے اس طرح وہ جی ایس ٹی کے بوجھ کو خریداروں پر شفٹ کر دیتا ہے۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ یہ ٹیکس فطری طور پر Regressive ہوتا ہے (جب ٹیکس کا بوجھ امیروں کی نسبت غریبوں پر زیادہ ہو) یعنی اس میں کم کمانے والا شخص اپنی کمائی کا زیادہ حصہ ٹیکس کے طور پر ادا کرتا ہے کیونکہ اس میں جیسے جیسے آمدنی گھٹتی ہے ٹیکس میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کو یوں سمجھیے اگر تمام لوگوں کے لئے ٹیکس کی شرح دس فیصد ہے اس صورت میں جس کی آمدنی دس لاکھ روپئے ہے اس پر ایک لاکھ ٹیکس بنتا ہے گویا ابھی بھی اس کے پاس نو لاکھ روپیے بچے ہیں اور جس کی آمدنی دس ہزار روپیے ہے اس کو دس فیصد کے بقدر ایک ہزار روپیے ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ دس ہزار میں ایک ہزار روپیے ٹیکس کی صورت میں ادا کرنے کے بعد غریبوں کو اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرنا، مشکل ہوتا ہے۔ چنانچہ ٹیکس کے اس سسٹم میں امیروں کی نسبت غریبوں پر چوٹ زیادہ ہوتی ہے اور غربت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔
قابل غور
بات یہ ہے کہ سرکار نے پٹرول، ڈیزل، تمباکو اور شراب کو GST سے باہر رکھا ہے۔ قول و عمل کا اس سے بڑا تضاد اور کیا ہو سکتا ہے کہ سرکار ایک طرف کہ رہی ہے کہ GST پورے ملک کے لیے ایک متحدہ ٹیکس نظام ہے وہیں دوسری طرف وہ پٹرول اور ڈیزل جیسی بنیادی ضروریات کو GST سے باہر رکھ کر اس پر کئی طرح کے ٹیکسز لگا رہی ہے۔ اس وقت ملک کے کئی صوبوں میں پٹرول کی قیمت سو روپیہ سے تجاوز کر گئی ہے حالانکہ اگر اسے GST کے دائرہ میں لایا جائے اور اس پر GST کا بیش ترین سلیب یعنی 28 فیصد ٹیکس بھی عائد کیا جائے تو بھی اس کی قیمت 70 روپیہ فی لیٹر سے زیادہ نہیں ہو گی۔ یونین پٹرولیم منسٹر نے ابھی چند روز قبل بیان دیا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں کروڈ آئیل کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے پٹرول کی قیمت بڑھ رہی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم فی لیٹر پٹرول پر ویٹ اور اکسائز ڈیوٹی کے نام سے دو تہائی ٹیکس دیتے ہیں۔ ریاستی سرکاریں VAT لگاتی ہیں اور مرکزی سرکار اکسائز ڈیوٹی لگاتی ہے۔ جن ریاستوں میں پٹرول کی قیمت زیادہ ہے اس کا مطلب وہاں کی صوبائی حکومت اس پر زیادہ ویٹ لگا رہی ہے۔ سرکار کہ رہی ہے کہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں نرم کاری (Liberalisation) کے تحت بازار پر چھوڑ دی گئی ہیں اس لیے اس میں ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو عالمی مارکیٹ میں کروڈ آئیل کی قیمت اس وقت 70 ڈالر فی بیرل ہے اور پٹرول سو روپیہ فی لیٹر ہے جبکہ سال 2013ء میں عالمی بازار میں کروڈ آئیل کی قیمت 105 ڈالر فی بیرل تھی اس وقت ہمارے ملک میں پٹرول 70 روپیہ فی لیٹر تھا۔ سچائی تو یہ ہے کہ سرکار پٹرول اور ڈیزل کے ذریعے لاکھوں کروڑ روپیے کما رہی ہے۔ انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ GST کاؤنسل کی میٹنگز میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کو کم کرنے کا حتمی فیصلہ لیا جانا چاہیے یا جس طرح تمام اشیاء اور خدمات کو GST کے دائرے میں لایا گیا ہے اسی طرح مرکزی و صوبائی سرکاروں کو ایک قدم آگے بڑھ کر پٹرول اور ڈیزل کو بھی GST کے دائرے میں لانا چاہیے تاکہ پٹرول اور ڈیزل پر لگائے گئے ٹیکس میں کمی آتی اور ملک کی غریب عوام کو کووڈ وباء کی حالت میں بڑھتی ہوئی مہنگائی سے راحت ملتی۔ افسوس کہ کاؤنسل کی میٹنگ میں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ دراصل ہماری سرکاریں غریبوں کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھا رہی ہیں، اگر کوئی قدم اٹھاتی بھی ہیں تو اسے غریبوں کے سینے پر رکھ دیتی ہیں۔
بھارت جس کی آبادی تقریبا ایک سو چالیس کروڑ ہے حیرت انگیز طور پر اس میں صرف ڈیڑھ کروڑ افراد ڈائریکٹ یا انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ یہ وہ ٹیکس ہے جو افراد اور کمپنیوں کی آمدنی یا ان کی پراپرٹی پر لگایا جاتا ہے اور انہیں کے ذریعے حکومت کو براہ راست ادا کیا جاتا ہے۔یوں کہہ لیں افراد اور کاروباری اداروں کے ذریعے حاصل ہونے والی آمدنی اور دولت پر حکومت کی طرف سے لگایا جانے والا ٹیکس ڈائریکٹ ٹیکس کہلاتا ہے۔ اس ٹیکس کا بوجھ اسی فرد کو اٹھانا ہوتا ہے جس پر یہ لگایا جاتا ہے وہ اسے کسی دوسرے فرد پر شفٹ نہیں کر سکتا چنانچہ یہ ٹیکس ناقابل منتقلی ہوتا ہے۔مثال کے طور پرجس شخص کی آمدنی ایک خاص حد سے تجاوز کر جاتی ہے حکومت اس پر ٹیکس لگاتی ہےاسے انکم ٹیکس کہتے ہیں اورانکم ٹیکس جس شخص پرحکومت لگاتی ہے اسی کو ادا کرنا ہوتا ہے۔اس کے علاوہ ویلتھ ٹیکس،کارپوریشن ٹیکس، گفٹ ٹیکس، موت محصول وغیرہ براہ راست یا ڈائریکٹ ٹیکس کی مثالیں ہیں۔ڈائریکٹ ٹیکس سرکاری خزانے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ چونکہ یہ ٹیکس لوگوں کی آمدنی اور قوت خرید پر اثرانداز ہوتا ہےاور معیشت میں مجموعی ڈیمانڈ کو تبدیل کر دیتا ہے اس لیے معاشی خوش حالی کے لیے ماہرین کے مطابق اسے پانچ یا دس فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں انکم ٹیکس کی حد بھی بہت زیادہ ہے۔ ہر سال ماہ فروری میں بجٹ پیش کرتےوقت جب حکومت انکم ٹیکس میں کمی کا ڈنکا بجاتی ہے تو عام آدمی سمجھتا ہے کہ اب ہماری جیب میں پیسے بچیں گے جس سے ہماری قوت خرید بڑھ جائے گی۔ حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ کسی بھی معیشت کی ترقی اور معاشرے کی خوشحالی کے لیے ضروری ہے کہ وہاں نہ صرف ٹیکس کا نظام شفاف ہو بلکہ ٹیکس کی شرح بھی کم ہو۔ جب ٹیکس کی شرح کم ہوتی ہے تو عوام کی Disposable Income بڑھتی ہے، عوام کے ہاتھوں میں پیسے بچتے ہیں اور وہ اشیاء اور خدمات پر خرچ کرتی ہے جس سے ملک میں مجموعی ڈیمانڈ بڑھتا ہے۔ جب مجموعی ڈیمانڈ بڑھتا ہے تو پروڈکشن میں اضافہ ہوتا ہے اور جب پروڈکشن میں اضافہ ہوتا ہے تو صنعتوں میں لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ چنانچہ ملک کی جی ڈی پی بڑھتی اور ملک ترقی کرتا ہے۔
– سراج الدین فلاحی