سماجی علوم میں سماجیات کی حیثیت ویسی ہی ہے جیسے کسی کھیل میں میدان کی ہوتی ہے۔اسی میدان میں سیاسیاست،بشریات، معاشیات ، تاریخ اور دیگر سماجی علوم تشکیل پاتےہیں۔بیک وقت سماجیات کو Mother of all Social Sciences کی حیثیت بھی حاصل ہے اور وہیں اسےYoungest of all Social Sciencesبھی قراردیا جاتا ہے۔بظاہر یہ دو متضاد باتیں معلوم ہوتی ہیں البتہ جب ہم سماجیات کی نوعیت اور اس کے تاریخی ارتقا پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ مسئلہ بڑی حد تک حل ہوجاتا ہے۔ امریکی ماہر سماجیاتRobert Bierstedt نے اس تضاد کو یہ کہہ کر حل کردیا کہ ؛ “Sociology has a long past but only a short history”(سماجیات کا ماضی تو بہت طویل ہے لیکن اس کی تاریخ نہایت مختصر ہے)۔ سماجیات کا بحیثیت علم تاریخ مطالعہ کیا جائے تو یقیناً یہ ایک Youngest سائنس ہےجس کا ارتقا 19ویں صدی میں ہوا۔جبکہ سماج کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ اس قدر قدیم ہے جس سے متعلق باقاعدہ کسی دور کو متعین نہیں کیا جاسکتا ہے ، چونکہ انسان ایک سماجی مخلوق ہے اس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ انسان کے وجود کا زمانہ اور سماج کی تشکیل کا زمانہ بالکل قریب رہا ہوگا۔ برطانوی ماہر سماجیات ہربرٹ اسپینسر کے مطابق سماج کا ارتقا سادہ سے پیچیدہ (Simple to Complex)کی جانب ہوا ہے۔اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ قدیم سماج(Primitive Society) بالکل ارتقائی ،غیر منظم و غیر مربوط شکل میں رہا ہوگا۔
سماجیات کی مختصر تاریخ:
سماجیات کو ایک مستقل اور آزاد علم کی حیثیت اس وقت حاصل ہوئی جب 1830میں آگست کامٹ کی مشہور کتاب Positive Philosophy شائع ہوئی ۔کامٹ نے 1838 کے آس پاس باقاعدہ سب سے پہلی مرتبہ سماجیات کے لئے “Sociology”کی اصطلاح استعمال کی ساتھ ہی Pure Sciencesکے طرز پر سماجیات کو بھی متعارف کیا،باقاعدہ اصول وضوابط وضع کئے اور سائنسی منہج وتکنیک کے ذریعہ سماجیات کے سائنسی مطالعہ کی بنیاد ڈالی ۔یہی وجہ ہے کہ آگست کامٹ کو جدید علم سماجیات کے باواآدم کا اعزاز حاصل ہے۔
جدید سماجیات کا ارتقا یورپ کے خاص سماجی،سیاسی اور معاشی حالات میں ہوا ۔اس نشوونما میں روشن خیالی (Enlightenment)،فرانسیسی انقلاب اور صنعتی انقلاب کا بڑا اہم رول سمجھا جاتا ہے۔خاص طور پر یہی وہ دور تھا جب سماجی نظام (Social Order)میں بہت سی تبدیلیاں واقع ہوئی۔ مغرب جو تاریکیوں میں میں گم تھا وہاں روشن خیالی کے نتیجے میں علوم و افکار کی ایک نئی صبح طلوع ہوئی۔مختلف مضامین جیسے ادب،سائنس،موسیقی،سیاسی نظریات،فنون،تجارت وغیرہ میدانوں میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا۔چرچ اور ریاست کا جبر بڑی حد تک کم ہوا، سیکولرکلچراور انفرادیت کو ترجیح دی جانے لگی۔1787 سے 1799 تک فرانس میں اعتدال پسند نظام کے قیام کے لئے باقاعدہ سیاسی تحریک کا آغاز ہوا۔آزادی،انفرادی حقوق اور مساوات کے نعرے بلند کئےگئے، جمہوریت کے قیام کے لئے جدوجہد کی گئی، جو بالآخر 9نومبر1799 میں انقلاب فرانس کی صورت میں اپنے انجام سے ہمکنار ہوئی۔اس سب کے دوران فرانس میں پیدا ہونے والے ناسازگار حالات نے سماجی مفکرین کو سوچنے پر مجبور کردیاکہ آخر سماج میں سابقہ نظام اور پرسکون زندگی کو دوبارہ کیسے Stableکیا جائے۔اسی پس منظر میں ابھرنے والے مسائل اوچیلنجیز نے سماجیات کی پختگی اور تعمیر وترقی کے بیش بہا اسباب پیدا کردیئے۔
سماجیات کے اس ارتقائی سفر میں تیسرا بڑا محرک”صنعتی انقلاب اور سرمایہ دارانہ نظام “کا وجود میں آنا ہے۔اٹھارویں اور بیسویں صدی کی شروعات میں رونما صنعتی انقلاب نے پیداوار کے ذرائع اور کام کرنے کے طریقوں کو پوری طرح تبدیل کردیا۔دیکھتے ہی دیکھتے سماج ‘زراعت’ سے ‘مشینی پیداوار’ پر منحصر ہونے لگا۔صنعت کو بڑے پیمانے پر ترقی ملی اور جس کی وجہ سےکثرت پیداوار (Mass Production)کو فروغ ملا۔مختصر یہ کہ بڑے پیمانے پر واقع ہونے والی معاشی تبدیلیوں نے معاشرہ میں کئی طرح کے بدلاؤ جیسے شہرکاری(Urbanisation)،صنعتی سرمایہ دارانہ نظام(Industrial Capitalist System)،لادینیت اور جدید کلچرکو فروغ دیا۔نتیجتاً پرانے سماجی ادارے جیسے بڑے خاندان ،قرابت داری، صدیوں سے چلے آرہےرسوم ورواج اور اقدار میں ہونے والی تبدیلیوں نے ایک نئی سماجی فکر کو جنم دیا۔
یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ سماجی علوم کے ارتقا کی اکثر تاریخ یورپ سے شروع کرکےاُس سے پہلے کے ادوار کو سوچے سمجھے طور پر نظرانداز کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔Eurocentric Perspective کے مطابق یہی سماجیات کے ارتقائی مراحل سمجھے جاتے ہیں ۔ پروفیسر سجاتا پٹیل کے مطابق یہ “سرکاری تاریخ (Official History)” ہے جس کا آغاز روشن خیالی کی تحریک سے ہوتا ہے اور آگست کامٹ جس کے بانی ہے۔البتہ سماجیات کی تاریخ کا دیانت دارانہ مطالعہ کیا جائےتو بہت سے حقائق ہمارے سامنے آتے ہیں جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ کامٹ سے بہت پہلے کئی سارے ماہرین ِ سماجیات سماجی علوم پر بیش قیمت خدمات انجام دے چکے تھے۔ جس میں سماج، سماجی ڈھانچےاوراس کی کارکردگی، تمدن و کلچر،دیہی و شہری سماج نیز انسانی زندگی میں درپیش حالات کی جامع تفتیش اور مختلف مکاتبِ فکر کا قیام قابل ِ ذکر خدمات ہیں ۔ اُن ماہرین ِسماجیات میں کوٹلیہ،بانبھٹ،سقراط،ارسطو،افلاطون،ابن خلدون ،البیرونی وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
وان کریمر(Von Kremer)،زمّرمَین (Zimmerman)اور گیپلن (Gaplin)کے مطابق اصلاً ابن خلدونFather of Sociologyہے۔مقدمہ فی التاریخ جو مقدمہ ابن خلدون کے نام سے معروف ہے جسےسوروکن (Sorokin) نےThe earliest systematic treatise in Sociologyقراردیاہے۔مقدمہ کا صرف ایک سرسری جائزہ بھی لیا جائے تو یہ اندازہ قائم کرنے کے لئے کافی ہے کہ ابن خلدون 14 ویں صدی میں کس قدر غیرمعمو لی خدمات انجام دے گئےتھے۔مقدمہ بنیادی طور پر 6 حصوں پر مشتمل ہے، پہلے حصہ میں انسانی سماج کا جائزہ لیا گیا ہے،جس میں بالخصوص انسانی اخلاق و کردار پر بحث کی گئی ہے،زمین اور آبادی کے مسائل بیان ہوئےہیں۔دوسرااور چوتھاحصہ بدوی سماج (Rural Society)اور حضری سماج(Urban Society)پر مشتمل ہے،جس میں بدوی اور حضری معاشرے کی اوصاف وعادات،ذرائع پیداوار اور خاندانی ادارے،نیزشہر کی تعمیر،تہذیب و کلچرکی تشکیل پرتفصیلی اظہارِ خیال کیا گیا ہے اسی حصہ میں عصبیہ کے تصور کو بھی پیش کیا گیا ہے۔تیسرا حصہ ریاست وسیاست سے متعلق ہے جس میں ریاست کے عروج وزوال کے اسباب بیان کئےگئے ہے اسی طرح خلافت ،ملک،قوت اور عہد سے متعلق تصورات پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔پانچواں حصہ معاش اور ذرائع معاش پر مشتمل ہے اور آخری حصہ میں علوم وفنون سے متعلق تفصیلی تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔مقدمہ کی اس قدر جامعیت اور وسیع تر موضوعات کے پیشِ نظرمشہور مورخ آرنلڈ ٹائن بی نے بجا طور پراقرار کیا کہ–
“نظریہ کی گہرائی وگیرائی اور فکری عبقریت کے اعتبار سے ابن خلدون کا فلسفہ،تاریخ میں بلاشک و شبہ ایک عظیم ترین کام ہے جس کی مثال کسی بھی وقت اور کہیں بھی کوئی انسان نہیں پیش کرسکا”۔
سماجیات میں کن امور کا مطالعہ کیا جاتا ہے؟
سماج کا مطالعہ مختلف Perspectivesسے کیا گیا جس کے نتیجہ میں مختلف مکاتب فکر وجود میں آئے۔ان کی تفصیلات میں جائے بغیر سماجیات کے دائرہ کار اور موادِ مضمون سے متعلق دو بڑے موقف پائے جاتے ہیں جن کا خلاصہ درج ذیل ہے؛
وسیع تر پہلو:
وسیع معنی میں سماجیات کو اُن آپسی تعلقات کے مطالعہ کا علم کہا گیا ہے جو لوگوں کے میل جول کا نتیجہ ہوتے ہیں۔اس حوالہ سے یہ بات بتکرار کہی جاتی ہے کہ انسان فطری لحاظ سے Social being(سماجی وجود) ہے، چونکہ آپسی میل جول کے بغیر وہ زندگی بسر نہیں کرسکتا ہے۔ انسان پیدائش سے لے کر موت تک کسی نہ کسی صورت میں اپنے سماج سے وابستہ رہتا ہے۔عادات،طوروطریق اور رسوم ورواج کےاختیار کرنے میں سماج اور ماحول کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے۔وسیع تر پہلو سے مراد سماج کا وسیع اور جامع انداز کے ساتھ مطالعہ ہے۔
اس وسیع تر خیال کے حامی مفکرین کے یہاں ہمیں سماجی تبدیلیوں ،انسانی عادات و اطوار،ماحول کے اثرات،آپسی تعلقات،سماجی عمل،ردعمل،سماجی میل جول،سماجی واقعات وحالات ،سماجی ادارے وغیرہ امور پر مباحث بڑی کثرت سے ملتے ہیں۔
محدود پہلو:
سماجیات کا مطالعہ محدود انداز سے بھی کیا جاتا ہے۔ جس میں صرف ان واقعات، اعمال اور کیفیات ہی کا مطالعہ کیا جاتا ہے جن کا تعلق سماجیات سے ہو۔چنانچہ سماجیات کو “انسانی جماعتوں کے مطالعہ کا علم (Study of Social Group)” ،”سماج کے سائنٹفک مطالعہ کا علم (Scientific Study of Society)”، سماجی مظاہرکا علم(Study of Social Phenomena)” ،سماجی طریقِ عمل کا علم ” اور “سماجی ماحول کا علم ” قراردیاگیا ہے۔
جب ہم موجودہ سماجیات پر عمومی نگاہ ڈالتے ہیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت سماجیات میں تخصیص (Specialization)کا غلبہ ہے، اس حوالےسے ماہرین نے سماجیات کی ذیلی قسمیں قائم کی ہیں تاکہ خالص سماجی مسائل ومباحث کا معیار برقرار رکھنے میں سہولت ہو۔
سماجیات کی ذیلی قسمیں؛ شہری سماجیات (Urban Sociology)،دیہی سماجیات(Rural Sociology)،ہندوستانی سماجیات(Indian Sociology)،تعلیمی سماجیات(Sociology of Education)،معاشی سماجیات(Economic Sociology)،مذہبی سماجیات(Sociology of Religion) وغیرہ۔
سماجیات کا مطالعہ کیوں؟
1: ایک عمومی سوال جو سماجیات کے ارتقا ہی سے زیربحث رہا ہے وہ یہ ہے کہ کیا سماج کو سمجھنے کے لئے بھی باقاعدہ کسی علم کی ضرورت ہے؟ سوشل سائنس میں تحقیق کے ذریعے حاصل ہونے والا علم کیا عقل عام (Common Sense) کے ذریعہ حاصل نہیں ہوسکتا؟
“اس کا جواب یہ ہے کہ ہم سماج میں بہت ساری چیزوں پر تنقیدی نگاہ نہیں ڈالتے۔ ہم سماج سے متعلق اپنے آراء (Opinions)اور مفروضات (Assumptions)کو حقائق (Facts)سمجھ بیٹھتے ہیں۔ آراء یامفروضات شخصی (Subjective) ہوتے ہیں اور حقائق معروضی(Objective) ہوتے ہیں۔ایک سوشل سائنٹسٹ دونوں میں فرق کرتا ہے۔ وہ آرام دہ کرسی پر بیٹھ کر سماج کے مختلف پہلوئوں پر رائے قائم نہیں کرتا بلکہ وہ تحقیق کے مختلف کیفیاتی اور کمیاتی وسائل (Qualitative and Quantitative Research Tools) کو اختیار کرکے سماج کے کسی پہلو سے متعلق حقائق دریافت کرتا ہے اور پھر ان حقائق کا تجزیہ کرتا ہے۔۔۔آج ملکی و عالمی تنظیموں اور حکومتوں کی پالیسی سازی کے عمل میں سوشل سائنس ریسرچ کا بڑا اہم رول ہوتا ہے۔سوشل سائنس ریسرچ پالیسی سازی کے عمل کو موثر بنانے میں اور انسانی وسائل کے موثر استعمال میں مددگار ہوتی ہے۔ سوشل سائنس ریسرچ بسااوقات قانون سازی اور قانون میں تبدیلی کا سبب بھی بنتی ہے”۔
2:دیگرفیلڈزسے وابستہ افراد کے لئے:
کامٹ اور درکھائم نے سماجیات کو Mother of all Social Sciences قرار دیاہے۔چونکہ سماجیات انسانی سماجی زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے، جب کہ باقی سماجی علوم انسانی زندگی کے صرف ایک پہلو تک محدود ہیں۔عموماً اس پہلو کو دیگر فیلڈز سے تعلق رکھنے والےمنفی انداز سے دیکھتے ہیں یہاں اس پہلو کو کسی خاص فضیلت یا Supremacyکے جذبے سے پیش کرنا مقصود نہیں ہے، بلکہ سماجی علوم کا آپس میں اور اسی طرح Pure Sciences کا بھی سماجی علوم سے گہرا تعلق ہے۔ضروری ہے کہ دیگر فیلڈز سے وابستہ افراد بھی سماجیات کا مطالعہ کریں۔
3: دعوتی واصلاحی پہلو سے:
بحیثیت مسلمان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر(بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا) ہماری اہم ترین ذمہ داری ہے ۔بلکہ قرآن مجید نے جنہیں “خیرامت” کے لقب سے مخاطب کیا ہے انکی اولین شناخت اسی فریضہ کو قرار دیا ہے۔ملک کے طول وعرض میں یہ اصلاحی کوششیں بڑی کثرت کے ساتھ طویل عرصہ سے جاری ہے۔ان بکثرت کوششوں کا جائزہ لیا جائے تواس کے باوجود کوئی خاطر خواہ سماج میں تبدیلی نظر نہیں آتی ، اس کی ایک نہایت اہم وجہ امیر جماعت اسلامی ہند محترم سیدسعادت اللہ حسینی صاحب کے مطابق درج ذیل ہے–
“ہمارے روایتی حلقوں میں، سماجی تبدیلی کے عمل کے لئے صرف عوام میں درست معلومات کے فروغ اور اس کے لئے وعظ وتقریر اور مضمون و کتاب کی اشاعت کو کافی سمجھا جاتا ہے۔اس کی وجہ سے برسوں کی کوششوں اور مواعظ و اصلاحی مہمات کی کثرت کے باوجود سماج بدل نہیں پارہا ہے۔ اس کی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ مصلحین کے اندر سماجی تبدیلی کے ڈائنامکس کا گہرا شعور مفقود ہے جس کی وجہ سے تبدیلی کے بہت سے عوامل ابھی تک ہماری اصلاحی کوششوں میں نظر انداز ہورہے ہیں۔ ان کوششوں کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے ضروری ہے کہ سماجی تبدیلی کی سائنس سمجھ میں آئے”۔
ہندوستان ایک تکثیری سماج ہے، جہاں رنگ،نسل،مذہب ،زبان اور کلچر وغیرہ کے لحاظ سے بے شمارتنوع پایا جاتا ہے،ایسے میں ہندوستان میں جہاں دین کی دعوت نہایت اہم فریضہ ہے، ناگزیر ہے کہ جس سماج اور جن لوگوں کے درمیان اس کام کو انجام دینا ہے ان کی بھی گہری سمجھ پیدا کی جائے۔ہندوستان میں پائے جانے والے مختلف مذہبی گروہوں ، برادریوں، طبقات ،کلچر ،رسوم ورواج ، ادارروں کا تفصیلی مطالعہ ہندوستانی سماجیات (Indian Sociology)کے موضوعات ہے جن کی سمجھ ایک داعی اور مصلح کے لئے ضروری ہے۔
موجودہ دور میں سماجیات نے کافی تیزرفتار ترقی کی ہے، سماجی مفکرین نے سماجیات کے دائرہ کووسیع کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔ کامٹ ،درکھائم اور ابتدائی مفکرین نے سماجیات کا ایک پختہ سائنس کی حیثیت سے خواب دیکھا تھا ،اُس جانب بڑی کامیاب پیش رفت ہوئی ہے ، البتہ کئی سوالات ، مسائل اور چیلنجیز اب بھی توجہ کے طالب ہے۔ اس پختہ سائنس کے پیشِ نظر بنیادی ہدف کہ سماج کو بہتر و خوشگوار بنایا جائے تاکہ انسان سکون وراحت اور ترقیوں سے ہمکنا رہو اب بھی بہت سی رکاوٹوں سے دوچار ہے ۔مجموعی طور پر اس وقت یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ سماجیات نے اپنی حیثیت کو منوالیا ہے۔ سماجیات کی اسی ناگزیریت کی جانب اشارہ کرتے ہوئےایوریٹ کے وِلسن (Everett k. Wilson) لکھتے ہیں–
“سماجیات ہمیں خود ہماری اور ہمارے معاشرہ کی حقیقتوں کو سمجھنے میں مددگار ہوتی ہے۔ہم اپنے آپ کو زیادہ بہتر انداز سے جان پاتے ہیں–چونکہ ہم بڑی حد تک ایک سماجی مخلوق ہیں– اس لئے اگر ہم اپنی اس سماجی دنیا کے بارے میں کچھ جاننا چاہتے ہیں اورسمجھنا چاہتے ہیں کہ یہ کیسےہمارے اوپر اثر انداز ہوتی ہے، تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم پہلے اچھی طرح یہ سمجھ لیں کہ ہم کون ہیں اور (کچھ حد تک یہ بھی کہ) ہم کیوں ہیں؟ہم سماجی حقائق سے قریب تر ہوسکتے ہیں کیونکہ سماجی زندگی کی پیچیدگیوں اور گتھیوں کو سمجھنے اور سلجھانے کے لئے سماجیات ہی سب سے بہترین و کار گر ذریعہ ہےاور یہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعہ ہم اپنی سمجھ سے متعلق غلطیوں سے بچتے ہوئےمختلف درجوں کے سماجی رویوں اوران کے بیچ کی کڑیوں کو ٹھیک ٹھیک انداز میں سمجھ اور بیان کرسکتے ہیں ۔مختصر یہ کہ ہم انسانوں کے لئے جو مختلف گروہوں کی تشکیل کرتے ہیں ،ان سے زیادہ اہم کوئی اور چیز نہیں،اور ان گروہوں کے مطالعہ سے زیادہ اہم اور کوئی بھی ذہنی سرگرمی نہیں۔یہ سب اس لئے نہیں کہ اس مطالعہ کے ذریعے کوئی Skill پیدا ہو ،جس کے ذریعے کچھ مادی فوائد حاصل کئےجاسکے بلکہ یہ سب کچھ اس لئے کہ اس طرح کا مطالعہ ہمیں انسانی معاملات کی حقیقتوں کو سمجھنے میں کچھ اور قریب کردے”۔
Eurocentrism and the Contribution of Ibn Khaldun to the Growth of Sociology;Aboobacker Rameez, Journal of Sustainable Development Vol. 11, Page.45
مسلم تہذیب از عمر چھاپرا،صفحہ نمبر58
سماجی علوم کا مطالعہ اورتحقیق،اہمیت و ضرورت – از سدید ازہرفلاحی ،رفیق منزل،ستمبر2018
Introduction to Sociology and Its Research Methods – people.vcu.edu/