اللہ کا مطلوب مومن بندہ بہت ساری صفات کا حامل ہوتا ہے ،ان میں صبر ایک بہت ہی خاص وصف ہے جو مومن کو مضبوط و مستحکم بناتا ہے ، اس کے ایمان اور کردار میں پختگی پیدا کرتا ہے ، اس کی شخصیت کو خوبصورت بناتا ہے ،اور عمل کو پھلدار اور نتیجہ خیز بناتا ہے۔قرآن و حدیث میں مختلف مواقع پر اور مختلف طریقوں سے صبر کرنے کی تلقین کی گئی ہے ۔جس سے صبر کی اہمیت و فضیلت اور صابر کے مقام و مرتبہ کا پتہ چلتا ہے ۔ سورہ زمر کی آیت ١٠ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِـرُوْنَ اَجْرَهُـمْ بِغَيْـرِ حِسَابٍ ” صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا”، اس میں صبر کا بدلہ کسی متعین مقدار میں نہیں بلکہ بے حد و حساب دینے کی بات کہی گئی ہے ۔اسی طرح سورہ مومنون کی آیت ١١١ میں اللہ کی راہ میں صبر کے ساتھ جد و جہد کرنے والوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اِنِّـىْ جَزَيْتُهُـمُ الْيَوْمَ بِمَا صَبَـرُوٓا اَنَّـهُـمْ هُـمُ الْفَآئِزُوْنَ ”آج میں نے صبر کرنے والوں کابدلہ یہ دیا ہے کہ وہی کامیاب ہیں”، یعنی صبر کرنے کا حتمی نتیجہ کامیابی کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔
قرآن مجید میں سو سے زائد مرتبہ اللہ نے صبر کرنے کی تلقین کی ہے ، آزمائش میں صبر، مصیبت و پریشانی میں صبراورایمان و عمل اور اللہ کے احکام کی اطاعت میں بھی صبر کی تلقین کی گئی ہے۔ جس طرح سورہ بقرہ کی آیت ١٥٣ میں اللہ تعالیٰ نے مومنین سے کہا کہ، “نماز اور صبر سے مدد حاصل کرو’ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے”۔گویا ایک مومن بندہ کو ایمان کے بعد صبر کی ضرورت ہر قدم پر ہوتی ہے اور اس کا کوئی عمل صبر کے بغیر ہوہی نہیں سکتا ۔عبادات ہوں، معاملات ہوں، دعوت و تبلیغ ہو یا کسی بھی اور صورت حال کا سامنا کرنا ہو، صبر بہر حال لازمی ہے، اسی لئے یہ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے صابرین کی حوصلہ افزائی کی کہ صبر کرنے والوں کو اللہ کا ساتھ نصیب ہوگا۔ مثال کے طور پر سردیوں میں فجر کی نماز کے لئے بھی صبر درکار ہے ، گرمیوں میں ظہر کی نماز کے لئے بھی صبر کی ضرورت ہوتی ہے ۔ عبادات میں روزہ صبر کی ٹریننگ اور رمضان ٹریننگ کا مہینہ ہے ۔اسی لئے حدیث میں آیا ہے کہ روزہ کا اجر بندے کو بے حد و حساب دیا جائے گا۔
صبر کا اصل معنی اپنے آپ کو روکے رکھنا ہے، یعنی ہر طرح کے حالات میں اللہ کے حدود سے تجاوز نہ کرنا۔ خود کو تھامے رکھنا اور اللہ کی اطاعت پر جمائے رکھنا ہے۔ تمام پیغمبروں کی زندگیوں میں ہمیں صبر کی عظیم مثالیں ملتی ہیں۔حضرت ایوب ؑ کا مختلف آزمائشوں سے گزرنا اور اس پر برداشت کا مظاہرہ کرنا، صبر تھا اور حضرت یعقوب ؑ کا اپنے بیٹے کی جدائی پر آنسو بہانا بھی صبر تھا۔کیوں کہ وہ باپ ہونے کے فطری تقاضے کے تحت رو تو رہے تھے، حتیٰ کہ انہوں نے اپنی آنکھوں کی بینائی گنوادی، لیکن اس شدت غم کی حالت میں بھی اپنی پیغمبرانہ ذمہ داریوں سے غافل نہیں ہوئے، بلکہ صبر کے ساتھ اپنا فرض ادا کرتے رہے۔ اپنے مقصد پر جمے رہے اور دعوت و تبلیغ میں مشغول رہے۔
اسی طرح یوسف ؑ پر جب آزمائشوں کا دور چلتا رہا اور انہیں عزیز مصر بنایا گیا تو اپنی طاقت اور مرتبہ کے بل پر انہوں نے اپنے بھائیوں سے انتقام نہیں لیا بلکہ منفرد انداز میں اپنی شناخت ان کے سامنے لاکر انہیں اللہ کی قدرت سے مرعوب اور اللہ کی بادشاہت اور ہر شئے پر اسی کے اختیار کو قبول کرنے پر مجبور کردیا۔یوسف ؑ کے اس حسن عمل کے پیچھے بھی صبر کا مادہ کارفرما رہا۔ابو الانبیا حضرت ابراہیم کو نارِ نمرود کے حوالے کیا گیا، انہیں شہر بدر کیا گیا، ان سے بیٹے کی قربانی طلب کی گئی، اس طرح زندگی کے ہر مرحلے پر انہیں آزمائش سے گزارا گیا لیکن انہوں نے صبر کے ساتھ ہر لمحہ اللہ کے حکم کی اطاعت میں گزارے، نتیجتاً دین ابراہیمی کو پایداری نصیب ہوئی اور سنت ابراہیمی قیامت تک انسانیت کے لئے حج و قربانی کی صورت میں لازم عبادت قرار دی گئی۔پیغمبر آخر الزماں محمد الرسول ﷺ کی مکمل زندگی صبراور شکر کا مجسم نمونہ ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر اللہ کے رسول کو اللہ نے طاقت و قوت عطا کی ، اس موقع پر آپ ﷺ چاہتے تو قریش کی جانب سے دی جانے والی بیس سالہ اذیتوں، ظلم، رکاوٹوں اور ہر طرح کے سخت رویوں و جملوں کا بھرپور بدلہ لیتے، لیکن رحمت اللعالمین نے صبر کا مظاہرہ کیا، ان تمام کے ساتھ حسن سلوک روا رکھا،ان سارے مظالم کا بدلہ عام معافی کی شکل میں دیا اور انہیں اپنے حسنِ اخلاق سے اسیر کرلیا۔اسی عمل کا نتیجہ تھا کہ پورا مکہ اور آس پاس کے غیر مسلم قبائل جوق در جوق اسلام کے سائے میں آجاتے ہیں۔ اس طرح مصیبت اور راحت ہر دو موقعوں پرنبی کریم کی جانب سے ہمیں صبر ہی کی تعلیم ملتی ہے، بلکہ مصیبتوں کے مقابلہ اس وقت صبر کرنا زیادہ سخت کام ہے جب آپ صاحب ثروت ہوں، صاحب اختیار ہوں ، صاحب دولت ہوں اور اللہ کی نعمتوں کے حصار میں ہوں۔ اس کی ایک اور خوبصورت مثال ہمیں امام احمد بن حنبل کی زندگی سے ملتی ہے،۔امام احمد بن حنبل کا مشہور واقعہ ہے کہ جب فتنہ خلق قرآن کا دور چل رہا تھا توقرآن کو اللہ کی مخلوق نہ ماننے پر خلیفہ وقت نے ان کے اوپر کوڑے برسائے ،حتیٰ کے آپ کا بازو ٹوٹ گیا،لیکن انہوں نے صبر کیا۔پھر وقت بدلا، خلیفہ بھی بدل گیا اور خلق قرآن کا فتنہ بھی ختم ہوا ، امام احمد بن حنبل نے پچھلے خلیفہ کی وجہ سے جو اذیتیں جھیلی تھیں ان کا مداوا کرنے نئے خلیفہ نے انہیں سونے کی اشرفیوں سے بھری تھیلی بھجوائی،جسے دیکھ کر امام حنبل رو پڑے اور اللہ سے گویا ہوئے کہ “اے میرے، رب میرے لئے ان مصیبتوں پر صبر کرنا زیادہ آسان تھابہ نسبت اس کے کہ میں اس نعمت پر صبر کروں۔” وہ ساری رات سو نہ سکے اور دوسری صبح تمام ہی اشرفیاں ضرورت مندوں اور غریبوں میں تقسیم کردی۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کی نعمتوں کے حصول کے بعد بھی خود کو روکے رکھنا اور حد سے تجاوز نہ کرنا بھی صبر ہے۔ان تمام واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ صبرصرف مصیبتوں ، دکھ درد اور کربناک حالات ہی میں نہیں کیا جاتا بلکہ ہر خوشی اور راحت کے موقع پر بھی کیا جاتا ہے۔ اللہ اپنے نیک بندوں کو ہر طرح کے حالات میں آزماتا ہے۔ہر اس آزمائش میں انسان اسی وقت کامیاب ہوسکتا ہے جب خود کو صبر کا پیکر بنالے۔
اللہ تعالی دولت کی شکل میں نعمت دیتا ہے تو اس کو بے دریغ اور فضول خرچی میں لٹا دینا ، صبر کے خلاف ہے ۔ اسی طرح کوئی نیک کام کرنے میں کوئی دوسری برائی آڑے آرہی ہو تو ایسے موقع پر نفس پر کنٹرول کرکے نیکی کرنے میں جلدی کرنا بھی صبر ہے۔ وقت کی فراونی ہو تو خود کو لغو گفتگو، سوشل میڈیا میں مصروف کرنے یا کسی بھی طرح کے بے فائدہ کاموں میں لگ جانے سے روکنا اور وقت کا اچھا استعمال کرنا بھی صبر ہے۔ پیسوں کی فراوانی ہو تو کھانے، پہننے اور استعمال کی چیزوں میں غیر ضروری خریداری سے خود کو روکنا بھی صبر ہے۔ لوگ آپ کے پیٹ پیچھے یا آپ کو سامنے سے برا بھلا کہیں لیکن جواب ہوتے ہوئے بھی اللہ کی خاطر چپ رہنا بھی صبر ہے۔
صبر جب کسی اجتماعیت کی خوبی بن جائے تو کامیابی کی راہیں کھلتی ہیں۔یہ ڈر، خوف، اور ری ایکشن کی نفسیات کا علاج ہے۔ سید سعادت اللہ حسینی بہت عمدہ بات لکھتے ہیں کہ “جذباتیت بھی ایک منفی جذبہ ہے۔ ڈر اور مداہنت بھی ایک منفی جذبہ ہے۔ ان جذبات کو شعور کے ذریعے قابو میں رکھنے کا نام ہی صبر ہے۔یہ صفت اگر اجتماعی طور پر پوری قوم میں پیدا ہوجائے تو اک بڑی طاقت بن جاتی ہے۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم کو مشتعل (provoke) کرنے کی جو کوششیں ہورہی ہیں، ان کوششوں کو بھی صبر و استقامت کے ساتھ ناکام بنادینے کی صلاحیت ہمارے اندر پیدا ہو اور ہمیں مایوس، پست ہمت اور خوف و ہراس کا شکار بنادینے کی جو تدبیریں اختیار کی جارہی ہیں ان کا مقابلہ کرنے کی بھی ہمارے اندر صلاحیت پیدا ہو۔”
قرآن و احادیث میں صبر کے ساتھ ساتھ شکر کی بھی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ ان آیات و احادیث کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شکر کے بغیر صبر کا تصور نہیں اور صبر لازمی طور پر شکر کی صفات پیدا کرتا ہے۔اس لیے کہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ شکر کرنا صبر کرنے سے زیادہ افضل ہے تو کہیں صبر شکر سے زیادہ۔لیکن یہ دونوں مختلف بھی ہیں اور لازم و ملزوم بھی ۔اسی لئے حضرت عمر فاروقؓ کی ایک روایت میں آتا ہے کہ اگر صبر اور شکر دونوں سواریاں ہوتیں تو مجھے پرواہ نہیں ہوتی کہ میں کس پر سوار ہوجاؤں۔ نبی کریم ﷺ اور صحابہ و صحابیات کی زندگیوں میں ہمیں صبر و شکر کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔ ان تمام کی زندگیاں قرآن کی تعلیمات کا عکس تھیں،عملی نمونہ تھیں۔ لہذا اللہ کے محبوب بندے اوراس کی اطاعت گزاری میں زندگی بسر کرنے کے لئے لازمی ہے کہ ہم قرآن سے اپنا رشتہ مضبوط کریں اوراس کی تعلیمات کو اپنی روز مرہ کی زندگیوں میں نافذ کرنے کی کوشش کریں ۔تب بلاشبہ ہماری زندگی علامہ اقبال کے اس شعر میں موجود مومن بندے کی طرح ہوگی:
ہاتھ ہے الله کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کارکشا، کارساز
مضمون نگار- ذیشان سارہ