دنیا بھر کی ہر مسلم بستی اور ہر مسلم گھر میں برکتیں اور مثبت تبدیلیاں لانے والا مہینہ رمضان المبارک ہم پر عنقریب سایہ فگن ہوگا، ان شاء اللہ۔رمضان کی آمد پر دوسرے مذاہب کے ماننے والے، کسی بھی مذہب کو نہ ماننے والے، سلیبرٹیز اور دنیا بھر کی حکومتیں مسلمانوں کو مبارک باد پیش کرتی نظر آتی ہیں۔ بلاشبہ یہ لمحات سعادت کے لمحات ہیں اور ان لمحات کو حاصل کرنے والا سعادت مند اور مبارک باد کا مستحق ہے۔ لیکن مبارک باد کیوں؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ آج ساری دنیا کے نزدیک رمضان ایک ثقافتی جشن اورفیسٹول ہے۔ خود مسلمانوں کے نزدیک رمضان المبارک دن بھر بھوکے پیاسے رہنے اور رات میں کھانے پینے کے شوق پورے کرنے سے عبارت ہے۔ عام طور پر مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ رمضان، محض روزہ رکھنے والا مہینہ ہے۔ حالانکہ روزے کے مقصد اور رمضان کے مقصد میں ایک بہت باریک فرق بھی ہے۔ روزہ کا مقصد تقوی کا حصول ہے اور رمضان ، ماہِ قرآن ہے۔
اللہ تعالی نے سورۃ البقرۃ میں روزہ کا مقصد بیان کیا کہ “یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ” (اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیاء علیہم السلام کے پیروؤں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی)۔ روزوں کی فرضیت کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ ہم سے پہلے گزرنے والی ہر امت پر یہ روزے کسی نہ کسی صورت میں فرض تھے۔
ان تمام امتوں کے لیے روزہ کا مقصد تقوی کا حصول تھا۔ تقوی لفظ وِقاية سے ماخوذ ہے جس کے معنی حفاظت کرنے یا ‘حفاظت کی غرض سے کیے گئے اقدامات’ کے ہیں۔ تقوی کا مطلب محض ڈر نہیں ہے بلکہ ڈر کے نتیجہ میں کیے جانے والے اقدامات کو تقوی کہتے ہیں۔ اللہ کی نافرمانی سے بچنے اور صراط مستقیم پر قائم رہنے کے لیے جس Precaution اور کنٹرول کی ضرورت ہے، وہ روزہ کے ذریعہ انسان کو حاصل ہوسکتا ہے۔ روزہ کی حالت میں پورا دن ایک مسلمان خود سے ایک لڑائی لڑتا ہے۔ شکم بھوک کی صدا لگاتا ہے، گلا پیاس سے سوکھ جاتا ہے اس کے باوجود بندۂ مومن، غروب آفتاب تک خود پر کنٹرول رکھتا ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا: وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰٓىٕثَ۔ لیکن رمضان میں طیبات کی حرمت دراصل ٹریننگ کا اہم حصہ ہے۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک طالب علم کو کسی ملکی سطح پر ہونے والے مقابلہ کی غرض سے برجستہ تقریر کی مشق کرائی جائے، اس عمل میں کالج کی سطح پر اسے مشکل ترین موضوعات پر، کم سے کم وقت میں اس طرح ٹرین کیا جائے گا کہ ملکی سطح کے مقابلہ میں کم وقت بھی اس کے لیے کافی ہو اور مشکل موضوع بھی اس کے لیے آسان ہوجائے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب مقابلہ کی سطح سے زیادہ ٹریننگ کی سطح اونچی اور چیلنجنگ ہو۔ اسی طرح اللہ تعالی بھی بندۂ مومن کو روزہ میں طیبات سے روک کر زندگی میں درپیش محرمات سے بچنے کو آسان بنا دیتا ہے۔ یہ مشکل ٹریننگ اس لیے ہے کہ دعوت اور شہادت علی الناس کی جو عظیم ذمہ داری اللہ نے ہر مسلمان پر ڈالی ہے، اس کی ادائیگی بحسن و خوبی انجام پائے اور یہ بغیر ٹریننگ ممکن نہیں ہے۔ شیطان کے بچھائے گئے جال جن میں انسان جکڑ جاتا ہے، ان سے بچنا بغیر مشق کے ممکن نہیں۔ شہادت علی الناس کی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے’تقویٰ’ ہر فرد کی بنیادی ضرورت ہے۔ تقویٰ کی بدولت ہی انسان کی فکر وعمل، اعضاء وجوارح اور روز وشب سب اللہ کی محبت سے سرشار ہوتے ہیں۔ زندگی”اَن تَعبدَ ﷲَ کَانَّکَ تَرَاہُ، فان لَم تَکن تَرَاہُ فَانَّہ یَرَاکَ” کا عملی نمونہ بن جاتی ہے۔ جب ایک انسان یا گروہ میں یہ صفت پیدا ہو جائے تو اس کے لیے ممکن نہیں رہ جاتا کہ اللہ کی جانب سے عطا کردہ ذمہ داری سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل ہوجائے۔
غور طلب ہے کہ روزہ کی فرضیت کے بعد بھی اللہ نے یہ نہیں کہا کہ ‘تم میں تقوی پیدا ہوگا’ بلکہ یہ کہا کہ ‘توقع ہے کہ تم میں تقوی پیدا ہو’۔ یہ فقرہ اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ روزہ محض رسم کی ادائیگی کا نام نہیں ہے بلکہ شعوری اور مستقل کوشش چاہتا ہے۔
رمضان نزولِ قرآن کا مہینہ ہے۔ اس مہینہ میں شیاطین قید ہوجاتے ہیں اور اس کی وجہ کتاب اللہ کا نزول ہے۔ قرآن مجید بیک وقت پیغام بھی ہے اور معجزہ بھی۔ رمضان کے متعلق اللہ تعالی نے فرمایا: شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ (رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے، جو راہِ راست دکھانے والی اور حق وباطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہے۔)
رمضان المبارک کی پہچان “نزول قرآن” سے ہے۔ افسوس یہ ہے کہ امت نے اس مہینہ کو محض بھوک اور پیاس سے جوڑ دیا۔ ان ایام میں بھوکا پیاسا رہنا تو اس لیے ہے کہ ہر روز خود کو یاد دلایا جائے کہ یہ نزولِ قرآن کا مہینہ ہے۔ اس ماہ کا مقصد قرآن میں غوطہ زن ہونا اور خود میں قرآن کو بسانا ہے۔ لفظ اُنْزِلَ، مجہول کا صیغہ ہے۔ کس نے یہ کتاب نازل کی؟ اس جواب کی تلاش کے لیے قرآن پڑھنا ضروری ہے۔ ہر سورہ اور ہر آیت خود اس بات کی شہادت دے گی کہ یہ کلام خالق کائنات کا کلام ہے۔ رمضان کا مہینہ اس لیے ہے کہ بندۂ مومن اپنا تعلق قرآن سے جوڑے۔ امت مسلمہ قرآن کی طرف رجوع کرے۔ رمضان المبارک کو قرآن سے جوڑ کر دیکھنا انتہائی ضروری ہے اور اسی صورت میں اس مہینہ کا حق ادا کیا جاسکتا ہے۔
اس آیت میں قرآن مجید کی تین خصوصیات بیان کی گئیں ہیں۔ “هُدًى لِّلنَّاسِ، بَیِّنات من الھدی اور اَلْفُرْقَان”۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن مجید تمام انسانوں کے لیے ہے، واضح تعلیمات پر مشتمل ہے اور حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والی کتاب ہے، تمام مومنین پر واضح ہونے کے باوجود ان صفات کا ذکر رمضان اور نزولِ قرآن کے ساتھ کیوں کر آیا؟
قرآن سے تعلق کا سفر ہر فرد کاذاتی تجربہ ہے۔ اس میں موجود خزانہ کو تولا نہیں جاسکتا۔ اس کی آیات ذہنی الجھنوں کا حل اور دل کی بے اطمینانی کے لیے باعثِ سکون ہیں۔ یہ کتاب عظیم سمندر کے مانند ہے، جو شخص اس میں غوطہ زن ہوگا وہ قیمتی موتیوں کے ساتھ واپس آئے گا۔ ساری زندگی اس سمندر میں غوطہ زنی کے بعد بھی یہ احساس پیدا ہونا فطری ہے اور اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ اس سمندر کے ایک بوند کو بھی مکمل طور پر explore نہیں کیا جاسکا۔ 1400 سالوں سے کروڑوں انسان اس کتاب کا مطالعہ کررہے ہیں اور ہر انسان کی کیفیت اور اس پر پڑنے والا اثر مختلف ہے۔ تا قیامت بھی اس کتاب کو پڑھا جاتا رہے گا اور ہر پڑھنے والا اس میں نئے موتی دریافت کرے گا۔ یہ کتاب ہر فرد کے لیے خاص اور مختلف ہے۔ اللہ تعالی نے اس کتاب میں سارے انسانوں کے لیے ہدایت کا سامان کررکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی اکرمﷺ کو یہ فکر لاحق تھی کہ اس پیغام کو تمام انسانوں تک پہنچائیں اور صحابہ کرام کی تربیت کی بنیاد بھی اسی پیغام کی طرف انسانوں کو بلانا تھی۔
کتاب اللہ کی یہ خصوصیت ہے جو امت مسلمہ کو سارے انسانوں سے جُڑنے کا سبق سکھاتی ہے۔ رمضان میں اس سبق کی یاددہانی اور اس پر عمل ہر مہینہ کے مقابلہ سب سے زیادہ ہونا چاہئے۔ رمضان المبارک دعوت الی القرآن کا مہینہ ہے۔ رمضان امت مسلمہ کی شناخت کو از سر نو تازہ کرنے کا مہینہ ہے۔ افسوس کہ رمضان کوامت مسلمہ نے لوگوں سےکٹنے، تنہائی اختیار کرنے یا زیادہ سے زیادہ کمیونٹی انٹریکشن کا ذریعہ سمجھ لیا ہے۔ رمضان کا پیغام تو یہ ہے کہ امت مسلمہ تمام انسانوں سے تعلق کو استوار کرے اور قرآنِ مجید کا عظیم پیغام پہنچانے کی مہم چھیڑ ے۔
ہر نبی کو خدائے ذوالجلال نے مختلف معجزے عطا کیے۔ ابراہیم علیہ السلام پر آگ کا ٹھنڈا ہوجانا، عصائے موسی کا سانپ بن جانا، دریائے نیل کا دو حصوں میں تقسیم ہو کر راستہ دے دینا اور عیسی علیہ السلام کا مٹی کے پرندوں کو زندگی عطا کرنا وغیرہ۔ ان معجزوں کو اپنی آنکھوں سے جس نے دیکھا وہ ان کی نبوت پر ایمان لے آیا۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ جب لوگوں نے ان معجزوں کے بارے میں سنا تو وہ اثر قبول نہیں کیا جو عینی شاہدین نے کیا تھا اور یہ معجزے وقت کے ساتھ کہانی بن گئے۔ لیکن نبی آخر الزماںﷺ پر قرآن مجید کی شکل میں ایسا معجزہ نازل ہوا کہ جس کا تجربہ کرنا اور اس کا شاہد بننا تاقیامت ہر انسان کے لیے ممکن بنا دیا گیا۔ گزری ہوئی نسلوں نے اس کا مشاہدہ کیا اور آنے والی نسلیں بھی اس کی شہادت دیں گی ۔ اس کتاب میں صراط مستقیم کی طرف اور عقل کی رہنمائی کے لیے حجتیں موجود ہیں۔ یہ کتاب بذات خود اپنے سچے اور مُنزل من اللہ ہونے کی دلیل ہے، اس حقیقت کو جاننے کے لیے انسان خود اس کتاب میں غور و فکر کرے۔
اللہ نے قرآن جیسی عظیم نعمت انسانوں کو عطا کی۔ اس پر انسانوں کا یہ رد عمل ہونا چاہیے کہ وہ اس کا شکر بجا لائیں اور اس کی واحد شکل یہ ہے کہ وہ اس کتاب سے رہنمائی حاصل کریں اور اس کے پیغام کو دوسرے انسانوں تک پہنچانے کی جدوجہد کریں۔ یہ وقت کی بنیادی ضرورت ہے کہ امت محمدیہ کے ہر فرد کے سامنے رمضان کا تعارف اس پہلو سے کرایا جائے۔ جب رمضان کا یہ تعارف ہوگا تو نہ صرف فرد میں اپنے آپ کو قرآن سے جوڑنے کا جذبہ پروان چڑھے گا، بلکہ پوری امت کے اندر قرآن کے تئیں احساس ذمہ داری پیدا ہوگا۔ امید ہے یہ شمارہ اس پیغام کی ترسیل میں اور قرآن فہمی کی مشق کے سلسلے میں مددگار ثابت ہوگا۔
مصنف: اسامہ اکرم