ادارہ علوم القرآن کی قرآنی خدمات

ابو سعد اعظمی

{امت مسلمہ میں کئی علمی ادارے اور انجمنیں عصری تناظر میں دین کی تفہیم و اشاعت، فکر اسلامی کے فروغ اور بدلتے حالات میں دینی تعلیمات کے انطباق کے حوالے سے فکری کاوشوں میں مصروف ہیں۔ ہر ادارے نے اپنا…

{امت مسلمہ میں کئی علمی ادارے اور انجمنیں عصری تناظر میں دین کی تفہیم و اشاعت، فکر اسلامی کے فروغ اور بدلتے حالات میں دینی تعلیمات کے انطباق کے حوالے سے فکری کاوشوں میں مصروف ہیں۔ ہر ادارے نے اپنا ایک خاص میدان اور منہج متعین کیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ نہ صرف عوام بلکہ خواص کی بھی ایک بڑی تعداد ان اداروں اور ان کی سرگرمیوں سے واقف نہیں۔ رفیق منزل کی جانب سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر امت مسلمہ کے علمی و فکری اداروں کے تعارف پر مبنی سلسلہ مضامین شروع کیا جارہا ہے تاکہ ترسیل معلومات و بیداری کے ذریعے امت کے درمیان فکری محاذ پر ربط و تعاون کی راہیں ہموار ہوسکے۔ (ادارہ)}

مدرسۃ الاصلاح صرف ایک ادارہ نہیں بلکہ ایک فکری وانقلابی تحریک کا نام ہے۔یہ تحریک فکر فراہی سے عبارت ہے۔ مدرسہ کے نصاب میں اس فکر کو اولیت حاصل ہے اور قرآن کی محققانہ تعلیم اس کا ہدف منشود اور غایت ومقصود ہے۔ دائرہ حمیدیہ کے قیام اور وہاں سے ماہنامہ ’الاصلاح‘ کی اشاعت سے شروع ہوکر ماہنامہ ’میثاق‘ ، ادارہ تدبر قرآن وحدیث اور اس کے ترجمان ’تدبر‘ نیز ’نظام القرآن‘ اور’مجلۃ الہند‘ میں اس فکر کی چھاپ دیکھی جاسکتی ہے۔انجمن طلبہ قدیم مدرسۃ الاصلاح (شاخ علی گڑھ) کی کوششوں سے ۱۹۸۴ء میں ادارہ علوم القرآن کا قیام عمل میں آیا تو اس کا مقصد بھی اس سے الگ نہیں تھا۔

          ادارہ علوم القرآن کی خدمات کی کئی جہات ہیں۔اس میں ہر ماہ کی آخری جمعرات میں اجتماعی مطالعہ قرآن کا اہتمام، خصوصی لیکچر سیریز،مختلف مدارس وجامعات کے طلبہ میں قرآنیات سے دلچسپی پیدا کرنے اور اس کی روشنی میں اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے بین المدارس والجامعات قرآنی مسابقات کا انعقاد،اہم حساس اور زندہ مسائل کے قرآنی حل تلاش کرنے کے لیے سالانہ سیمینارز کا انعقاد،فارغین مدرسۃ الاصلاح میں تصنیفی وتالیفی ذوق رکھنے والے طلبہ کی سرپرستی اور ان کے لیے اسکالرشپ کی فراہمی اور علی گڑھ میں مقیم طلبہ مدرسۃ الاصلاح کے تصنیفی ذوق کو جلا بخشنے کے لیے ریسرچ اسکالر سیمینارز کے انعقاد کو ادارہ کے پروگرام میں خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ادارہ کے تالیفی وتصنیفی منصوبے کے تحت سترہ کتابیں یہاں سے شائع ہوچکی ہیں۔ ذیل میں اختصار کے ساتھ ادارہ علوم القرآن کی مختلف سرگرمیوں کو پیش کیا جارہا ہے۔

کل ہند قرآنی مسابقات: ۲۰۰۹ سے ۲۰۱۱ تک مسلسل گیارہ کل ہند تحریری مسابقہ برائے طلبہ وطالبات مدارس وجامعات اس کے زیر اہتمام منعقد ہوچکے ہیں۔اب تک جن موضوعات کا ان کل ہند تحریری مسابقوں میں احاطہ کیا گیا ہے وہ بالترتیب اس طرح ہیں:

          خاندانی نظام اور قرآنی تعلیمات(۲۰۰۹)، اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر (۲۰۱۰)، قرآن مجید کے حقوق اور ہمارا رویہ (۲۰۱۱)، کیا قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھنا ضروری ہے(۲۰۱۲)، مومن قرآن کے آئینے میں (۲۰۱۳)، قرآن اور انسداد فواحش ۰۲۰۱۴)، غیر مسلموں سے ربط وتعاون قران مجیدکی روشنی میں (۲۰۱۵)، قوموں کا عروج وزوال قرآن کریم کی روشنی میں (۲۰۱۶)، تعمیر انسانیت اور قرآن (۲۰۱۷)، عمل صالح: مفہوم اور جہات قرآن وسنت کی روشنی میں (۲۰۱۸)، شخصیت کے ارتقا میں قرآن مجید کا کردار (برائے گروپ اے ۲۰۱۹)، قرآن مجید میں خواتین کے حقوق(برائے گروپ بی ۲۰۱۹)۔

          اس کے علاوہ اساتذہ کی سطح پر بھی دو کل ہند تحریری مسابقہ کا انعقاد کیا گیا، ان کے موضوعات اس طرح تھے ’عصر حاضر کے مسائل اور قرآنی تعلیمات‘ اور ’تدریس قرآن کا مطلوبہ منہاج‘۔غیرمسلم اسکالر ودانشوران کو قرآنی تعلیمات سے روشناس کرانے کے مقصد سے ادارہ نے ان کے درمیان بھی تین کل ہند تحریری مسابقہ کا انعقاد کیا۔لیکن بڑے پیمانے پر اس کے اشتہار اور اعلان کے لیے جو وسائل درکار تھے اس کا صحیح انتظام نہ ہونے کی وجہ سے یہ سلسلہ بہت زیادہ کامیاب نہ ہوسکا۔

ریسرچ اسکالر سیمینار: علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں زیر تعلیم اصلاحی طلبہ اور ادارہ کے زیر تربیت اسکالرس کی تحریری صلاحیتوں کو جلا دینے کے مقصد سے ادارہ نے ریسرچ اسکالر سیمینار کا سلسلہ شروع کیا تھا۔اس کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں مقالہ کی پیشکش کے بعد سوال وجواب کا پورا موقع دیا جاتا تھا۔اس سیمینار کے تحت جن موضوعات پر مقالات پیش کیے گے ان کی تفصیلات اس طرح ہے:

          سورہ یوسف آیت ۵۵ ایک مطالعہ، مذہبی رواداری اور قرآنی تعلیمات، تعلیقات امام فراہی:تحلیل وتجزیہ، دعوت دین کا قرآنی اسلوب، ولید الاعظمی کی شاعری میں قرآنی اثرات، قرآن کریم کا مطلوبہ مومن، عروج وزوال کا قرآنی تصور، قصہ یوسف قرآن اور توریت کے بیان کا موازنہ، تاویل مشکل القرآن ایک مطالعہ، امام رازی کی بعض تفسیری آراء پر مولانا فراہی کا نقد وتبصرہ اور میزان القرآن تنقیدی جائزہ۔

سیمینارز کا انعقاد: ادارہ علوم القرآن کی خدمات کا ایک اہم پہلو قرآنی سیمینار کا انعقاد بھی ہے۔ادارہ نے ۲۰۰۵ میں پہلا سیمینار منعقد کیا تھا اور ۲۰۰۸ کے بعد سے تقریبا ًمسلسل وقت کے کسی اہم اور حساس پہلو پر رہنمائی فراہم کرنے کے لیے سیمینار کا انعقاد کررہا ہے۔اب تک جن موضوعات پر سیمینار منعقد ہوئے ہیں ان کی تفصیلات ملاحظہ ہوں:

          قرآنی علوم بیسویں صدی میں، عصر حاضر کے مسائل اور قرآنی تعلیمات، خاندانی نظام اور قرآنی تعلیمات، عصر حاضر کے سیاسی مسائل اور قرآنی تعلیمات، عصر حاضر کے معاشی مسائل اور قرآنی تعلیمات، رجوع الی القرآن اہمیت اور تقاضے، انسداد فواحش اور قرآنی تعلیمات، غیر مسلمین سے ربط وتعاون قرآن کریم کی روشنی میں، عروج وزوال کا قرآنی تصور عصر حاضر کے خصوصی تناظر میں، اصلاح وفساد کا قرآنی تصور، قرآن کریم کے اعجازی پہلو۔

          2019ء میں ادارہ علوم القرآن نے ایک ’’علمی مذاکرہ‘‘ کے انعقاد کا تجربہ کیا۔ اس میں دو الگ الگ مقالہ نگاران سے درخواست کی گئی کہ وہ ’تدوین قرآن کے متنازع مباحث۔ ایک تنقیحی جائزہ‘ اور ’قرآن مجید کا اصلاحی مشن۔وسائل اور بیانیہ‘ پر مفصل مقالہ تحریر کریں۔ایک متعینہ تاریخ پر اسے حاصل کرلیا گیا پھر دو ماہرین کی رائے طلب کرکے انہیں اس پر تبصرہ کی دعوت دی گئی اور آخر میں سامعین کو بحث ومباحثہ کا موقع دیا گیا۔ یہ تجربہ کافی کامیاب رہا۔

توسیعی خطبات: ادارہ علوم القرآن کی قرآنی خدمات کی ایک کڑی توسیعی خطبات کا انعقاد بھی ہے۔اس کے تحت اب تک سترہ توسیعی خطبات ہوچکے ہیں۔ چند اہم  توسیعی خطبات کے عناوین ملاحظہ فرمائیں:

          قرآن کے آخری حصہ میں اعادہ مضامین، تفسیر قرآن کے مناہج، قرآن مجید اور جدید سائنس،اعجاز قرآن، قرآن مجید کی عربی مبین: معانی اور جہات، روحانیت اور قرآن مجید، قوم عاد وثمود قرآن پاک، روایات اور جدید تحقیقات کی روشنی میں، صالح اسلامی معاشرہ قرآن کی نظر میں، قرآن کریم کی جمع وترتیب، فہم قرآنی میں مولانا فراہی کے امتیازات، قصہ موسی وخضر علیہما السلام ایک مطالعہ، قصہ آدم وابلیس بیسویں صدی کی چند معروف تفاسیر کی روشنی میں، سائنس اور قرآن میں تطبیق کے مسائل۔اور جن لوگوں کے توسیعی خطبات ہوئے ہیں ان میں ڈاکٹر راؤ عرفان احمد، پروفیسر کنور یوسف امین، پروفیسر سیدمسعود احمد، پروفیسر اشتیاق احمد ظلی، پروفسیر سعود عالم قاسمی، پروفسیر توقیر عالم فلاحی اورمولانا اشہد جمال ندوی شامل ہیں۔

ادارہ کا ترجمان ششماہی علوم القرآن:ادارہ علوم القرآن کی قرآنی خدمات کا سب سے اہم پہلو ششماہی مجلہ علوم القرآن کی اشاعت ہے۔اس مجلہ کی انفرادیت کے کئی پہلو ہیں۔قرآنی تعلیمات کی روشنی میں زندگی کے بے شمار مسائل میں سے کسی مسئلہ پر خصوصی رہنمائی فراہم کرنا،قدیم وجدید مفسرین میں سے کسی ایک کا تعارف اور ان کی تفسیری خدمات اور منہج تفسیر پر گفتگو کرنا،قرآن سے متعلق تصانیف پر تنقیدی وتجزیاتی تبصرے وتعارف پیش کرنا،قرآنیات سے متعلق مختلف زبانوں کی مطبوعات اور عالم عرب کی مختلف جامعات میں انجام پاچکے تحقیقی مقالات کی آگاہی دینا اس مجلہ کی نمایاں خصوصیات ہیں۔اس کا ایک خاص وصف جس کا اس وقت کے اردو رسائل میں تصور بھی نہیں تھا اس کے اردو مقالات کا انگریزی خلاصہ ہے جو پہلے مختصرا ً اور اب قدرے طویل مجلہ کے آخر میں درج ہوتا ہے جس سے انگریزی داں طبقہ بھی اس کے مشمولات کا اندازہ کرسکتا ہے۔تعارف قرآن، تاریخ نزول، جمع وتدوین قرآن،قرآنی علوم کے فروغ، قرآنی اصولی افکار وتعلیمات،قرآن اور فلسفہ، تفاسیر ومفسرین،قرآنی علوم اور متعلقہ کتب کا تجزیہ،قرآنی الفاظ واصطلاحات کی تشریح، علما قرآنیات، قرآنیات پر مخطوطات،مطبوعات وتحقیقی مقالات،قرآن کے طباعتی واشاعتی ادارے، قرآن اور ان کے ماہرین پر سیمینار وغیرہ جیسے بے شمار عناوین کے تحت مجلہ علوم القرآن میں شامل مقالات اور ان کی اہمیت وافادیت کا اندازہ پروفیسر ظفر الاسلام اصلاحی کے مرتب کردہ ’اشاریہ ششماہی مجلہ علوم القرآن 1985- 2020‘ اور سمیع الرحمن اور محمد شاہد حنیف کے مرتب کردہ اشاریے کے سرسری مطالعہ سے کیا جاسکتا ہے۔

          ادارہ کے منتظمین کا چونکہ فکر فراہی سے گہرا تعلق ہے اس لیے اس کی ترویج واشاعت بھی ادارہ کے مقاصد کا اہم حصہ ہے۔اب تک مجلہ علوم القرآن کے (57) شمارے شائع ہوچکے ہیں ان میں مولانا فراہی سے متعلق شائع ہونے والے مضامین کی تعداد چالیس (48) ہے۔جس میں مولانا فراہی کی فکر، ان کی تفسیر، ان کے تفردات، ان کی بعض سورتوں کی دلنشیں تشریحات،بعض آرا کی انفرادیت اور بعض سورتوں کی خاص تفسیر کو موضوع بحث بنایا گیا ہے اور ان کی بعض اہم کتابوں کا جامع تعارف بھی پیش کیا گیا ہے۔اسی طرح مولانا فراہی سے متعلق بعض عربی مقالات کے اردو تراجم بھی شائع ہوئے ہیں،ان کی تحریروں سے مستفاد بعض اہم پہلووں پر روشنی ڈالی گئی ہے اور بعض قدیم مفسرین سے ان کا موازنہ کیا گیا ہے اور ان کی تفسیر سورہ بقرہ اور بعض دیگر کتب میں شامل عربی اشعار کی تخریج کی گئی ہے۔مقالات کے علاوہ علوم القرآن میں مولانا فراہی کی تصانیف پر تبصرے بھی شائع ہوئے ہیں۔ان کی تحریروں سے مستفاد کوئی کتاب شائع ہوئی تو اس کا بھی جائزہ پیش کیا گیا۔اسی طرح اگر کسی نے امام فراہی کے فکر وفن اور ان کی خدمات کو موضوع بحث بنایا تو اس کا بھی مجلہ علوم القرآن کے صفحات میں تعارف پیش کیا گیا۔

          مختصر یہ کہ ادارہ علوم القرآن کی تاسیس فارغین مدرسۃ الاصلاح کا ایسا کارنامہ ہے جس کی کوئی دوسری نظیر کسی اور ادارے کے پاس ہمیں نظر نہیں آتی۔مدرسۃ الاصلاح نے قرآن مجید کی محققانہ تعلیم کا جو مشن طے کیا تھا،ادارہ علوم القرآن اس کا عملی مظہر ہے اور اس کا ترجمان ششماہی مجلہ علوم القرآن اس کا جیتا جاگتا نمونہ۔محدود وسائل اور بے سروسامانی کے باوجود ادارہ نے قرآنیات کو فروغ دینے اور درپیش انسانی مسائل کا حل پیش کرنے کی جو اہم خدمت انجام دی ہے وہ محض فضل الٰہی کا کرشمہ ہے۔کاش دستیاب اسباب ووسائل مہیا ہوتے تو اس کی افادیت مزید دو چند ہوجاتی۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں