عمر بھر کا جاگنے والا آج سو گیا

سید شجاعت حسینی

(مرحوم لیاقت علی صاحب حیدرآباد کے بزرگ رکن جماعت اور ہم تمام کے مربی تھے۔ وہ ٹولی چوکی مقامی جماعت سے وابستہ تھے۔ مقامی شوری میں رہے اور حلقے کی مختلف سرگرمیوں سے ان کی گہری وابستگی رہی۔ نوجوانی کے…

مرحوم لیاقت علی صاحب کو آخری سفر پر روانہ کرکے ہم لوٹ آئے۔ آخر لمحات تک ان کے گھر پر، مسجد میں،  مجالس سے اسپتال تک میسر ہوئیں بے شمار ملاقاتیں، محبتیں، عنایتیں، نصیحتیں اور  مسکراہٹیں رہ رہ کر یاد آرہی ہیں۔ ذہن میں رواں یادوں کے اس ریلے نے عملا دیگر تمام کاموں سے آج مجھے معطل کرکے رکھ دیا۔

مرحوم لیاقت علی صاحب نے بیدار مغز ذہن اوربیدار باش زندگی کا بھرپور لطف پایا اور اپنی کامیاب مہلت عمل کا اجر پانے رب کے حضور اسی تیز گامی سے چل پڑے جو رفتار   انکی پہچان تھی۔

کچھ لوگ نوجوانی کے ابتدائی دور میں جاگتے ہیں پھر کچھ عرصہ بعد فکر معاش اور مرغوبات جہاں کی لمبی  فہرست عمر بھر کی بےحس اونگھ کا سبب بن جاتی ہیں۔کچھ بظاہر جاگنے کی اداکاری فرماتے ہیں لیکن حقیقتاً حیلے بہانوں کی نیند انھیں گہری آغوش میں لے چکی ہوتی ہے۔ بعض وہ ہوتے ہیں جن کی دلچسپی  کا  محور وابستگی  کی آڑ میں بددلی اور بددلی کا پھیلاو ہوتا ہے۔ اس ‘‘زندہ  دلچسپی’’ کی تصویر مولانا مودودی نے بھی کیا خوب پیش کی کہ۔ اس کا زندہ ہونا، اس کی موت سے زیادہ افسوسناک ہوتا ہے۔

کچھ ہی بیدار بخت ہوتے ہیں جنھیں تادم آخر سچی بیداری نصیب ہوتی ہے۔ مرحوم لیاقت علی صاحب انھیں خوش نصیبوں میں تھے۔ رب کریم نے انھیں طویل زندگی کا تحفہ عنایت فرمایا اور انھوں نے عملاً ثابت کیا کہ اس تحفے کے ساتھ ملی ہر چھوٹی بڑی صلاحیت کا استعمال آخرت کا گھر بنانے کے لیے کیسے کیا جاتا ہے۔

ہم نے تمھیں جو کچھ دیا اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کرو۔۔(القصص)

سوچتا ہوں تو مرحوم لیاقت صاحب کی دلنواز شخصیت میں اس ربانی فرمان کی تعمیل کا دلفریب عکس نظر آتا ہے۔

اللہ تعالی نے انھیں سول انجینیرنگ کا ہنر عطا فرمایا تو اسی کے سیکڑوں گھروں کی تعمیر میں اس بندہ خدا نے اپنی صلاحیت کا بڑا حصہ صرف کیا۔ تین سال قبل لیاقت علی صاحب نے دوران گفتگو مجھ سے کہا تھا کہ میری نگرانی میں اب تک جزوی اورکلی تقریبا 92 مساجد کا کام ہوا ہے۔ اور مساجد کی تعمیر میں میں نے غیر ضروری نمائشی چیزوں سے اجتناب کیا ہے۔ یہ 28 اگست 2021 کی بات ہے۔ مزید تین سالوں میں یقینا یہ تعداد سو سے تجاوز کرگئ۔

رب نے ادب شناس ذہن دیا تو یہی حدت ذہن ادبی اصلاح اور معیار کی بلندی کے لیے یکسوہوگئ۔ مرکزی قائدین سے لے کر ہم جیسے عام کارکنان ان کے فیض یافتگان میں شامل ہیں۔

۔وہ جس خاموشی اور شائستگی سے قابل اصلاح پہلووں کی نشاندہی فرماتے انھیں کا خاصہ تھی۔ دیگر کرم فرمائیوں کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے بالخصوص  میں انھیں اپنا محسن مانتا ہوں۔ان انتہائی باریک نکات تک بھی ان کی ادب رسا نظریں جا پہنچتیں جن تک بالعموم رسائی بڑی مشکل ہوتی۔ پڑھتے، سنتے اور پرسنل ونڈو میں قیمتی فیڈ بیک سے نوازتے۔

وہ مجھے کہتے کہ آپ کی تحریروں سے میں اسقدر مانوس ہوں کہ نام نہ لکھا ہو تب بھی میں جان لیتا ہوں۔لیاقت صاحب کا یہ تحریری فیڈ بیک میرے لیے اعزاز سے کم نہیں  جسے میں نے محفوظ کررکھا۔

لٹریچر سے فیض پایا تو اس فیض کو عام کرنے میں کسر نہ چھوڑی۔ فکر عام ہو اور پیغام پھیلے اس مقصد نے انھیں اپنے لٹریچر کی زبان اردو کا عاشق بنادیا تھا۔ دو سال قبل جب میں نے انگریزی میں کیلنڈر ڈزائین کیا تو فورا انکی مشفقانہ تنبیہ موصول ہوئی۔ فرمایا کہ۔۔

‘‘ماشآاللہ۔خوبصورت  ڈیزائن ہے۔ مگر ذہن کے ایک گوشہ میں ایک خیال کلبلا رہا ہے ہم اردو کے شیدائی ہی اردو سے فرار کی راہ اختیار کریں تو دوسروں سے کیا گلہ۔’’

اگلے سال ہم نے اس نصیحت کو ملحوظ رکھا۔ اور دونوں زبانوں کو مناسب جگہ ملی۔

 

قرآن کا فہم اور تلاوت کی باریکیوں پر دسترس عطا ہوئی تو تجوید اور تلاوت کی اصلاح کے لیے خود کو وقف کیا۔ چند نہیں سیکڑوں احباب کے لیے وہ ہمہ دم فیض رساں شخصیت تھی۔

سیکھنے کا جذبہ نصیب ہوا تو حیرت انگیز طور پر بہت جلد جدید ٹیکنولوجی سے ہم آہنگ ہوگئے۔ پیرانہ سالی میں وہ وہاٹس ایپ بڑی آسانی سے استعمال فرماتے۔ لمبی تحریر بھی بآسانی ٹائپ کردیتے۔ مختلف کتابوں کے پی ڈی ایف ایڈیشنس سے استفادہ کرتے۔ کارآمد ایپس کا علم ہوتا تو بلا تکلف یہ کہہ کر مجھے گھر بلاتے کہ فلاں ایپ کی باریکیوں سے واقفیت مطلوب ہے۔ میرے لیے یہ حکم، سعادت کا درجہ رکھتا۔

نظم جماعت سے وابستگی کا شرف و شعور عمر کے ابتدائی دور میں ملا تو نظم کو مقدم رکھنے میں کوئی کسر آخر تک نہ چھوڑی۔ ہم میں سے بیشتر لوگوں سے وہ بڑے بھی تھے اور جہاں دیدہ بھی۔ لیکن ان کی بزرگی نظم کی  اطاعت  کی راہ میں  کبھی حائل نہ ہوئی۔ ‘‘تاخیر’’، یہ لفظ ان کی ڈکشنری سے معدوم تھا۔ ڈویژن کے پروگرامس ہوں یا ارکان کی مجالس ہمیشہ اولین آمد ہوتی۔

غالبا اسی کی دہائی کا ذکر ہے، ریاستی سطح کے ایک بڑے پروگرام میں امیر حلقہ نے ایک ترجیحی کام کے لیے  انھیں طلب کیا۔ مشقت طلب کام کی تفصیل بتائی اور کہا کہ  فوراً توجہ مطلوب ہے۔ لیاقت علی صاحب کسی  اور کام میں مشغول تھے، فرمایا کہ اس کام سے فارغ ہوجاؤں اور پھر آپ کا حکم بجالاؤں۔  امیر حلقہ نے کہا۔۔ اچھاااا  !

بظاہر یہ ایک مثبت ریسپانس تھا۔ لیکن لیاقت علی صاحب کے بقول ‘‘اس ‘‘اچھا’’ کی طوالت بہت کچھ  کہہ رہی تھی۔ مانو  لیاقت علی پر گھڑوں پانی پڑگیا۔ اٹھا، اپنی سائیکل نکالی کسی اور چیز کی پرواہ کیے بنا  نکل کھڑ اہوا۔ شرمندگی کا بوجھ اسی وقت اترا جب کام مکمل  کرکے لوٹ آیا۔’’

رب کی ایک آزمائشی عنایت یہ بھی تھی کہ وہ اس ڈپارٹمنٹ میں اہم عہدے پر  فائز کیے گئے تھے جو پانی کے دریا پر بندھ باندھنے کے لیے معمور اور کرپشن کے دریا کو کھلا چھوڑ نے کے لیے مشہور رہا۔ یہاں بد دیانتی کا سیلاب بہتا۔ لیکن اس سیلاب بلا  سے نہ صرف خود  مکمل بچتے رہے بلکہ اوروں کو بچاتے رہے۔۔

ایمرجنسی کے ایام میں کیسے اپنے رفقا کی مدد کرتے رہے  یہ وہ طویل داستان ہے جو رفاقت اور شجاعت کا عملی  مفہوم  بیان کرتی ہے۔ دین کی خدمت کی راہ میں جب  تنگی کا سامنا  کرنا پڑا تو اسے بھی بسر و چشم قبول کیا، اور جب تنگی کے بعد فراخی نصیب ہوئی تو اس معاشی آسودگی کا حق ادا کرنے سے بھی کبھی نہ چوکے۔ انفاق کے حوالے سے جب کبھی کوئی تقاضہ سامنے آتا لیاقت صاحب کی خاموش پیشکش اولین ناموں میں شامل ہوتی۔

اپنے رب سے لو لگانے وہ کم و بیش ہر سال اس کے دیار ضرور پہنچتے۔ دیار حرم سے یوں لوٹتے جیسے ریچارج ہو آئے ہوں۔ اس سال بھی فروری میں سفر حرم مکمل ہوا۔ تشویش یہ تھی کہ ناسازی طبیعت اور کمزوری کے بیچ سفر و حضر کے مشکل مراحل دشوارتر نہ ہوجائیں۔ لیکن سعادت مند بیٹوں نے بھرپور خدمت کے ذریعے اس دشواری کو آسان کیا۔

دین کی اقامت کا شعور زندہ ہو تو  زندگی کا ایک پل بھی گنوانا گوارہ نہیں ہوتا۔ لیکن شعور سے خالی حیات بے مصرف،تقریبات اورتفریحات میں بظاہر ہنسی خوشی یوں گھلی  جاتی ہے کہ بس  آخری سانس ہی پردہ کشا   ثابت ہوتی ہے۔  لیاقت علی صاحب حیات بے مصرف کے ماتم سے کوسوں دور تھے۔ عمرِ دراز نصیب ہوئی تو اسکے پل پل کے استعمال کا ذوق بھی پایا۔

عمر کی نویں دہائی میں نوجوان، کوئی کیسے ہوتا ہے ؟ لیاقت صاحب کی شخصیت اس سوال کا مجسم جواب تھی۔ اپنے مشن کو نگاہ میں رکھے جس تیزی سے وہ پیدل چلے جاتے یوں لگتا کہ مہلت عمل کا کوئی پل گنوانا نہیں  چاہتے۔ سخت بیماری میں بھی ان کا یہ عزم تھا کہ جونہی صحت نصیب ہو اپنے تعمیری کام  کی خاطر ڈیڑھ سو کلومیٹر کا سفر طے کریں گے  یہ سن کر ہمیں حیرت ہوئی  لیکن معلوم ہوا کہ انھوں نے اس عزم کو پورا بھی کیا۔

جرات و شجاعت نصیب ہوئی تو اس کا سلیقہ بھی عطا ہوا۔اپنوں پر بھنویں تنیں  ہم نے کبھی نہیں دیکھیں۔ لیکن جواں عمری کےجو واقعات میں نے سنےمعلوم ہوا کہ دبلی پتلی نرم گفتار شخصیت میں حقیقتااقبال کا وہ مرد مومن پنہاں  ہے جس کی تصویر بقول شاعر مشرق۔۔

ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم

رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

ایک وقت تھا جب حیدرآباد فسادات کے لیے مشہور تھا۔ کب ماحول بگڑ جائے اور فسادی ٹولے چل پڑیں کہنا مشکل تھا۔ ظہر بعد پرانے شہر کی مسجد میں تنہا بیٹھے تلاوت میں مصروف لیاقت علی صاحب نے اچانک ہلچل محسوس کی۔ پل بھر میں پتہ چلا کہ ہتھیار بند فسادی ٹولے نے مسجد کو گھیر لیا اور تنہا شخص کو تر نوالہ سمجھ کر ٹوٹ پڑنے کے لیے بے قرار ہیں۔ ایک طرف تنہا مرد مومن دوسری جانب سیکڑوں ہتھیار بند فسادی۔ کوئی اور ہوتا تو جان کی امان کی التجا میں بھلائی نظر آتی۔ لیاقت صاحب نے کھلی مسجد میں نظر دوڑائی۔ پاس میں ایک ٹیوب لائیٹ پڑی تھی اس کی نلی نکال کر بلند آواز میں للکارتےاور  ٹیوب کی نلی لہراتے فسادیوں کی سمت لپک پڑے۔ ایک مرد مومن کی للکار کی ہیبت ہی کیا کم تھی کہ اچانک لہراتی ٹیوب کسی شئے سے  ٹکرائی اور  دھماکے سے کانچ کی نلی پھٹ پڑی۔ ہتھیار بند  فسادیوں کے لیے ناکارہ ٹیوب لائیٹ آسمانی بجلی ثابت ہوئی اور ناک کی سیدھ میں بھاگ کھڑے ہوئے۔

مومن ہو تو بے تیغ ہی لڑتا ہے سپاہی

اسی ‘‘فولادی مومن’’کی جدائی آج ہم سب کو سوگوار کرگئ۔ اسلامک سینٹر تنگ دامنی کا شکار ہے۔ صف درصف چاہنے والوں کی کثیر تعداد دست بدعا ہے۔

رب کریم ہمارے شفیق بزرگ پر اپنا سایہ رحمت دراز فرمائے۔ آمین !

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں