شریعت اسلامیہ دو بنیادی چیزوں کو متضمن ہے۔ ایمان اور عمل صالح ۔ بغیر ایمان کے سارے ہی اعمال چاہے وہ جتنے ہی عظیم اور معیاری کیوں نہ ہوں، اکارت وبے معنی ہیں۔ اسی طرح بغیر عمل صالح کے ایمان و عقیدے کی ساری ہی باتیں چاہے وہ جتنی ہی پر شکوہ اوردل کو چھونے والی کیوں نہ ہوں محض ایک بے بنیاد نظریہ اور پروپیگنڈا ہیں۔
شریعت مطہرہ نے امت مسلمہ کی اجتماعی یا انفرادی تربیت میں، ایمان وعمل کے ان دونوں پہلوؤں کی طرف مساوی طور پر توجہ کی ہے۔ نصوص قرآن وحدیث کے مقاصد اورصحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے عملی کارنامے اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ انسانی معاشرے کی اجتماعی یا انفرادی تعمیر وتر بیت کے لئے عمل صالح کے بغیر مجرد ایمان وعقیدے کے اصول کافی نہیں۔ عمل کے بغیر ایمان و عقیدے کی ساری باتیں فلسفے کی موشگافیوں سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ رسول اور اصحاب رسول ﷺ کی بے نظیرتاریخ عمل کا ہی نتیجہ تھی ۔تا ہنوز مذہب اور امتیازی تہذیب و تمدن کی شناخت کے ساتھ اس روئے زمین پر مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد اور ان کی مستقل معاشرت جس بات کا ثبوت ہے ،وہ ہے ایمان کے ساتھ مسلمانوں کی عملی جد وجہد اوربے مثال قربانیاں۔اگر نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے بغیر عمل صالح کے مجرد ایمان ویقین پر مبنی افکار ونظریات کو ہی فروغ دیا ہوتا تو قرن اول سے لے کر آج تک کہیں کسی اسلامی سوسائٹی یا مسلم معاشرے کا وجود ہر گز عمل میں نہ آتا اور اسلام بھی نعوذ باللہ مارکسزم اور سوشلزم کی طرح پرچار وپروپیگنڈے کا ایک عوامی نظریہ بن کر رہ جاتا۔
اسلامی تاریخ میں باطل قیاسات اور غیر درست افکار ونظریات کے تحت ایمان وعقیدے کو عمل سے آزاد کرنے کی جب بھی کوشش کی گئی تو اس سے بدعات وانحرافات کی راہیں ہموار ہوئیں،جن پر چل کر بے شمار فرقے وجود میں آئے۔ایسے پیروں اور مریدوں کی کثرت ہوگئی جو عملی تعطل یا بے عملی کو ہی پرہیزگاری باور کرانے لگے ۔ بغیر عمل کے ایمان واسلام کی مجرد تعبیر نے امت مسلمہ کو حرص و ہوی ٰاورمادہ پرستی کا بھی شکار بنا دیا ۔لوگوں نے قرآن وحدیث کو احترام کی چیز سمجھ کر گھر یا مسجد کے کسی کونے میں محفوظ کر کے رکھ دیا ،اگر شریعت اسلامیہ کو عملی طور پر برتا بھی تو محض چندفرسودہ رسوم وروایات کے لئے ۔
یہاں یہ بات ملحوظ خاطر ہو کہ شریعت اسلامیہ میں اسی عمل کو “عمل صالح” قرار دیا گیا ہے جو عقیدہ و ایمان کے متفق اصولوں پر پورا اترتا ہو۔قرآن وحدیث اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے انداز ، مقدار،طریقہ اور مقام ومحل کی تخصیص کے ساتھ جس عمل کو ‘صالح’ کہہ دیا ہے ،در اصل وہی ‘عمل صالح ‘ ہے۔اس کے علاوہ بقیہ سارے اعمال چاہے ان سے جتنی پرہیز گاریاں ثابت ہوجائیں،سب باطل اور بدعت ہیں۔اعمال کی انہی منحرف راہوں سے کفر وشرک اور ضلالت وگمراہی کی باتیں در آتی ہیں، جو امت اسلامیہ میں افتراق و تشتت کا ذریعہ بنتی ہیں۔ابتدائے اسلام سے لے کر آج تک مسلمانوں میں گمراہ کن جماعتوں کے جتنے ٹکڑے ہوئے ہیں ،سب عقیدہ و ایمان سے آزاد ‘من چاہے’ عمل کا ہی شاخسانہ ہیں۔
مختصر یہ کہ شریعت مطہرہ میں جس طرح ایمان و عقیدہ عمل صالح کو مستلزم ہے ،اسی طرح عمل صالح کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ قرآن وحدیث کے متفقہ عقیدے ومنہج کے عین مطابق ہو ۔ یوں تو ایمان و عمل کے باہم لازم و ملزوم ہونے کے ضمن میں قرآن اور حدیث کی بے شمار صراحتیں موجود ہیں۔مگر ہم یہاں محض ایمان و عمل کے قرآنی تصور کو ہی واضح کرنے کی کوشش کریں گے:
ایمان وعمل کی قرآنی تعبیرات:
(الف) ایمان:
لفظ ایمان امن وامان سے مشتق ہےجس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ انسان جب جملہ عقائد شرعیہ کا پابند ہوتا ہے تو وہ اپنی ذات کے ساتھ دیگر مخلوقات کو بھی شرور وفتن کی تمام قسموں سے محفوظ رکھتا ہے۔اس طرح وہ اپنے ساتھ دوسرے انسانوں کو بھی خالق کون و مکاں کے دنیوی واخروی عذاب سے مامون و محفوظ کرکے جملہ کامیابیوں کی راہ پر گامزن کر دیتا ہے :
اَلَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَكَانُوْا يَتَّقُوْنَ لـهُـمُ الْبُشْرٰى فِى الْحَيَاةِ الـدُّنْيَا وَفِى الْاٰخِرَةِ ۚ لَا تَبْدِيْلَ لِكَلِمَاتِ اللّـٰهِ ۚ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْـمُ۔
“جو ایمان لانے والے اور پرہیز گاری اختیار کرنے والے لوگ ہیں،ان کے لئے دنیا وآخرت کی بشارتیں ،نعمتیں اور کامیابیاں فیصلہ کن بنا دی گئی ہیں،جن کے حصول کے اعلان کے بارے میں پروردگار عالم کوئی تبدیلی نہیں کرنے والا ،یہی عظیم کامیابی ہے۔” (سورہ یونس :64)
وَالْعَصْرِ ۔انَّ الْاِنْسَانَ لَفِىْ خُسْرٍ ۔الَّا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ۔
“قسم ہے زمانے کی ،سارے ہی انسان گھاٹے میں ہیں،سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے،عمل صالح کیا اور تواصی بالحق وتواصی بالصبر کیا” (سورہ عصر)
ایمان کے لئے اثبات بالعمل لازم جبکہ عقیدہ وفکر کے مقابلے میں عملی تضاد منافقت ہے :
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّـٰهِ وَبِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَا هُـمْ بِمُؤْمِنِيْنَ۔ يُخَادِعُوْنَ اللّـٰهَ وَالَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَمَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّا اَنْفُسَهُـمْ وَمَا يَشْعُرُوْنَ۔
اور کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لائے حالانکہ وہ صاحب ایمان نہیں ہیں۔ یہ لوگ مؤ منوں کو دھوکا دیتے ہیں، حالانکہ وہ اپنے آپ ہی کوہی دھوکہ دے رہے ہیں ۔یہ ناسمجھ ہیں۔(سورہ بقرہ : 8-9)
ارکان ایمان کا محض اقرار کافی نہیں بلکہ ان کی قلبی وعملی تصدیق بھی ضروری ہے :
وَيَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِاللّـٰهِ وَبِالرَّسُوْلِ وَاَطَعْنَا ثُـمَّ يَتَوَلّـٰى فَرِيْقٌ مِّنْـهُـمْ مِّنْ بَعْدِ ذٰلِكَ ۚ وَمَآ اُولٰٓئِكَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ۔
اور کچھ کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور رسول پر ایمان لائے اور ہم فرمانبردار ہو گئے پھر ایک گروہ ان میں سے اس کے بعد پھر جاتا ہے، دراصل یہ لوگ مومن نہیں ہیں۔(سورہ نور:47)
ارکان ایمان میں شک و شبہ یا عملی کوتاہی انسان کو درجۂ ایمان سے نیچے گرا دیتی ہے:
قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا ۖ قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُـوْا وَلٰكِنْ قُـوْلُـوٓا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْاِيْمَانُ فِىْ قُلُوْبِكُمْ ۖ وَاِنْ تُطِيْعُوا اللّـٰهَ وَرَسُوْلَـهٝ لَا يَلِتْكُمْ مِّنْ اَعْمَالِكُمْ شَيْئًا ۚ اِنَّ اللّـٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِـيْـمٌ۔ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُـوْنَ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا بِاللّـٰهِ وَرَسُوْلِـهٖ ثُـمَّ لَمْ يَرْتَابُوْا وَجَاهَدُوْا بِاَمْوَالِـهِـمْ وَاَنْفُسِهِـمْ فِىْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ ۚ اُولٰٓئِكَ هُـمُ الصَّادِقُوْنَ۔
بدویوں نے کہا ہم ایمان لے آئے ہیں، کہہ دو تم ایمان نہیں لائے بلکہ یہ کہو کہ ہم مسلمان ہو گئے ہیں چونکہ ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا، اگر تم اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو تو اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال میں سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا، بے شک اللہ بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔بے شک سچے مسلمان تو وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر انہوں نے شک نہ کیا اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا، وہی سچے مسلمان ہیں۔(سورہ حجرات: 14-15)
اگر کردار وعمل میں کفر و شرک کی طرف میلان ثابت ہوجائےتو ایمان کے لاکھوں دفعہ اقرار کےباوجود انسان مومن باقی نہیں رہ سکتا :
يَآ اَيُّـهَا الرَّسُوْلُ لَا يَحْزُنْكَ الَّـذِيْنَ يُسَارِعُوْنَ فِى الْكُفْرِ مِنَ الَّـذِيْنَ قَالُـوٓا اٰمَنَّا بِاَفْوَاهِهِـمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُـهُـمْۚ ۔
اے رسول! ان کا غم نہ کر جو دوڑ کر کفر میں گرے جاتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے منہ سے کہتے ہیں کہ ہم مومن ہیں حالانکہ ان کے دل مومن نہیں ہیں۔(سورہ مائدہ:41)
الغرض قرآن کے مطابق ایمان وعقیدے کو عملی طور پر ثابت کرنے والے لوگ ہی سچے مومن جبکہ ایمان کے مقابلے میں عملی تضاد ثابت کر نے والے لوگ صحیح ترین لفظوں میں فاسق اور منافق ہیں۔
(ب) عمل:
مختلف النوع داعیات،،احساسات اور افکار وخیالات کے فعلی ظہور کو عمل کہتے ہیں ۔ قرآن نے تمام قسم کے اعمال کو دو بڑے زمروں میں تقسیم کیا ہے:عمل صالح اور عمل غیر صالح :
1۔عمل صالح: عمل صالح اسے کہتے ہیں ،جسے منصوص طریقے سے بجا لانے پر انسان کے درجات بلند ہوں:
مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعِزَّةَ فَلِلّـٰـهِ الْعِزَّةُ جَـمِيْعًا ۚ اِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِـحُ يَرْفَعُهٝ ۚ وَالَّـذِيْنَ يَمْكُـرُوْنَ السَّيِّئَاتِ لَـهُـمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌ ۖ وَمَكْـرُ اُولٰٓئِكَ هُوَ يَبُوْرُ ۔
جو شخص عزت چاہتا ہو سو اللہ ہی کے لیے سب عزت ہے، اسی کی طرف سب پاکیزہ باتیں چڑھتی ہیں اور نیک عمل ہی انسان کو بلند کرتا ہے، پھر جو لوگ بری تدبیریں کرتے ہیں انہی کے لیے سخت عذاب ہے، اور ان کی بری تدبیر ہی برباد ہوگی۔(سورہ فاطر:10)
عمل صالح وہی ہے ،جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی پسند کے مطابق ہو:
وَقَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِىٓ اَنْ اَشْكُـرَ نِعْمَتَكَ الَّتِىٓ اَنْعَمْتَ عَلَـىَّ وَعَلٰى وَالِـدَىَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَـرْضَاهُ وَاَدْخِلْنِىْ بِرَحْـمَتِكَ فِىْ عِبَادِكَ الصَّالِحِيْنَ ۔
اور سلیمان نےکہا کہ اے میرے رب مجھے توفیق دے کہ میں تیرے احسان کا شکر کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کیا اور یہ کہ میں نیک کام کروں جو تو پسند کرے اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیک بندوں میں شامل کر لے۔(سورہ نمل:19)
الغرض ‘عمل صالح ‘کا اطلاق اسی عمل پر ہو سکتا ہے جو قرآن و حدیث میں مطلوب عدل و قسط کے مطابق اور ہر طرح کےعصیان وطغیان اور ترمیم واضافہ سے محفوظ ہو:
اَلـذِيْنَ يُفْسِدُوْنَ فِى الْاَرْضِ وَلَا يُصْلِحُوْنَ۔
جو زمین میں فساد کرتے ہیں در اصل ان سے اصلاح متوقع نہیں ہے۔(سورہ شعراء:152)
عمل صالح کی معراج خوشنودئ رب ہے :
ذٰلِكَ بِاَنَّـهُـمْ لَا يُصِيْبُـهُـمْ ظَمَاٌ وَّلَا نَصَبٌ وَّلَا مَخْمَصَةٌ فِىْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ وَلَا يَطَئُـوْنَ مَوْطِئًا يَّغِيْظُ الْكُفَّارَ وَلَا يَنَالُوْنَ مِنْ عَدُوٍّ نَّيْلًا اِلَّا كُتِبَ لَـهُـمْ بِهٖ عَمَلٌ صَالِحٌ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ لَا يُضِيْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِيْنَ
انہیں اللہ کی راہ میں جو تکلیف پہنچتی ہے پیاس کی، ماندگی کی ،بھوک کی یاان کا ایسی جگہوں سے گزرنا جو کافروں کے غصہ کو بھڑکائے یا ان کا کافروں سے کوئی چیز بطور غنیمت چھین لینا، ہر بات ان کے لیے عمل صالح کے طور پر لکھی جاتی ہے، بے شک اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ (سورہ توبہ: 120)
عمل صالح کرنے والوں کے لئے دنیا وآخرت دونوں میں سکون،شان وشوکت ،سعادت اور سرخروئی ہے :
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّـهٝ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّـهُـمْ اَجْرَهُـمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُـوْا يَعْمَلُوْنَ۔
جس نے نیک کام کیا مرد ہو یا عورت اور وہ ایمان بھی رکھتا ہے تو ہم اسے ضرور اچھی زندگی بسر کرائیں گے، اور ان کا یہ حق انہیں ان کے اچھے کاموں کے عوض میں دیں گے ،جو وہ کیا کرتے تھے۔(سورہ نحل:97)
وَعَدَ اللّـٰهُ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّـهُـمْ فِى الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّـذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِـمْۖ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَـهُـمْ دِيْنَهُـمُ الَّـذِى ارْتَضٰى لَـهُـمْ وَلَيُـبَدِّلَـنَّـهُـمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِـمْ اَمْنًا ۚ يَعْبُدُوْنَنِىْ لَا يُشْرِكُـوْنَ بِىْ شَيْئًا ۚ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْفَاسِقُوْنَ ۔
اللہ نے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کیے کہ انہیں ضرور ملک کی حکومت عطا کرے گا جیسا کہ ان سے پہلوں کو عطا کی تھی، اور ان کے لیے جس دین کو پسند کیا ہے اسے ضرور مستحکم کر دے گا اور البتہ ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا، بشرطیکہ میری عبادت کرتے رہیں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں، اور جو اس کے بعد ناشکری کرے وہی فاسق ہوں گے۔(سورہ نور:55)
جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِىْ مِنْ تَحْتِـهَا الْاَنْـهَارُ خَالِـدِيْنَ فِيْـهَا ۚ وَذٰلِكَ جَزَآءُ مَنْ تَزَكّـٰى۔وَمَنْ يَّاْتِهٖ مُؤْمِنًا قَدْ عَمِلَ الصَّالِحَاتِ فَاُولٰٓئِكَ لَـهُـمُ الـدَّرَجَاتُ الْعُلٰى۔
ہمیشہ رہنے کے باغ جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے، اور یہ اس کی جزا ہے جو گناہ سے پاک ہوا۔اور جو اس کے پاس مومن ہو کر آئے گا حالانکہ اس نے اچھے کام بھی کیے ہوں تو ان کے لیے بلند مرتبے ہوں گے۔(سورہ طہ:75-76)
2۔عمل غیر صالح:
عمل غیر صالح سے مراد وہ عمل ہے جو قرآن وحدیث میں مطلوب عدل و قسط کے خلاف یا جو رضائے خالق کی بجائے رضائے نفس ومخلوق پر مبنی ہو۔قرآن میں فر زند نوح کے عمل کو اسی لئے غیر صالح قرار دیا گیا کہ اس کا عمل عدل و قسط اور ہدایات نوح علیہ السلام کے خلاف تھا ،جس کا مقصد رضائے خالق کی بجائے رضائے نفس ومخلوق تھا:
قَالَ یٰنُوْحُ اِنَّهٗ لَیْسَ مِنْ اَهْلِكَۚ-اِنَّهٗ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ ﲦ فَلَا تَسْــٴَـلْنِ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌؕ-اِنِّیْۤ اَعِظُكَ اَنْ تَكُوْنَ مِنَ الْجٰهِلِیْنَ
فرمایا اے نوح! وہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں ہے، کیونکہ اس کے عمل اچھے نہیں ہیں، سو مجھ سے مت پوچھ جس کا تجھے علم نہیں، میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ کہیں جاہلوں میں نہ ہو جاؤ۔(سورہ ہود:46)
عمل غیر صالح کی سزا دنیا وآخرت دونوں کی ذلتیں اور نا مرادیاں ہیں:
فَاَذَاقَـهُـمُ اللّـٰهُ الْخِزْىَ فِى الْحَيَاةِ الـدُّنْيَا ۖ وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَـرُ ۚ لَوْ كَانُـوْا يَعْلَمُوْنَ ۔
پھر اللہ نے ان کو دنیا ہی کی زندگی میں رسوائی کا مزہ چکھایا، اور آخرت کا عذاب تو اور بھی زیادہ ہے، کاش وہ جانتے۔(سورہ زمر :26)
ۚـهُـمْ فِى الـدُّنْيَا خِزْيٌ وَّلَـهُـمْ فِى الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِـيْمٌ
غیر صالح عمل اور ظلم وطغیان کر نے والوں کے لیے دنیا میں بھی ذلت اور آخرت میں بھی بہت بڑا عذاب ہے۔(سورہ بقرہ:114)
عمل غیر صالح بالخصوص کبیرہ گناہوں کی تلافی محض توبہ کے ذریعے ہی ممکن ہے :
اَنَّه مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوٓءًا بِجَهَالَـةٍ ثُـمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِه وَاَصْلَحَ فَاَنَّه غَفُوْرٌ رَّحِيْـمٌ ۔
جو تم میں سے ناواقفیت سے برائی کرے پھر اس کے بعد توبہ کرے اور نیک ہو جائے تو بے شک وہ بخشنے والا مہربان ہے۔(سورہ انعام:54)
اِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللّـٰهِ لِلَّـذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ السُّوٓءَ بِجَهَالَـةٍ ثُـمَّ يَتُـوْبُوْنَ مِنْ قَرِيْبٍ فَاُولٰٓئِكَ يَتُـوْبُ اللّـٰهُ عَلَيْـهِـمْ ۗ وَكَانَ اللّـٰهُ عَلِيْمًا حَكِـيْمًا۔
اللہ انہی لوگوں کی توبہ قبول کرتا ہے جو جہالت کی وجہ سے برا کام کرتے ہیں پھر جلد ہی توبہ کر لیتے ہیں ،ان لوگوں کو اللہ معاف کر دیتا ہے، اور اللہ سب کچھ جاننے والا دانا ہے۔
لیکن توبہ کے ذریعے معافی کا یہ موقع ان لوگوں کے لئے ہر گز نہیں ،جو موت کے وقت تک کفر اور عمل غیر صالح پر مصر رہیں:
وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّـذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ السَّيِّئَاتِ حَتّــٰٓى اِذَا حَضَرَ اَحَدَهُـمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّـىْ تُبْتُ الْاٰنَۖ وَلَا الَّـذِيْنَ يَمُوْتُوْنَ وَهُـمْ كُفَّارٌ ۚ اُولٰٓئِكَ اَعْتَدْنَا لَـهُـمْ عَذَابًا اَلِيْمًا۔
لیکن اللہ کے یہاں ایسے لوگوں کی توبہ قبول نہیں کی جاتی ،جو برے کام کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت کا وقت آ جاتا ہے تو اس وقت وہ کہتا ہے کہ اب میں توبہ کرتا ہوں، اور اسی طرح ان لوگوں کی توبہ بھی قبول نہیں کی جاتی جو کفر کی حالت میں مرتے ہیں، ان کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کیا ہے۔(سورہ نساء: 17:18)
ایمان وعمل کی قرآنی غرض وغایت:
جس طرح ہر قفل کی ایک کلید ہوتی ہے ،جس کے بغیر چاہے جتنی کوشش کی جائے قفل کھولنے میں کامیابی نہیں مل سکتی ٹھیک اسی طرح امت اسلامیہ کی قومی ومذہبی غیرت و حمیت اور دنیوی قیادت ورہنمائی کے لئے ایمان وعمل بنیادی کنجی ہے ۔ایمان وعمل کے باہمی ربط نے ہی عرب کے بادہ نشینوں کو دنیا کی مہذب قوموں کا استاذ اور امام بنا دیا ، شکستہ حال عربوں کو اکاسرۂ ایران اور قیاصرۂ روم پر غلبہ عطا کیا۔ جنھوں نے نہ صرف اللہ کی زمین پر حکومت الہیہ کی داغ بیل ڈالی بلکہ انسانوں کو انسانوں کی بندگی اور اندھ وشواس سے نکال کر خالق کائنات اور معبود اصل کی بندگی کا خوگر بنایا۔دنیا والوں کو دیگر ادیان و فرق کے ظلم وجور سے نکال کر اسلام کے عدل وانصاف سے ہمکنار کیا۔
موجودہ دور کے سیاسی وسماجی حالات کے تناظر میں یہ بات ہمارے ذہن نشین رہے کہ بحیثیت مسلم امت ہماری عزت وذلت ،عدم ووجود اور حاکمیت ومحکومی کا انحصار محض ہمارے ایمان وعمل کے باہمی ربط پرہے ۔گویا ایمان وعمل کی کمزوری صرف ہمارا مذہبی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ مسئلہ ہمارے وجود کے ختم ہونے، وسائل حیات کے چھن جانے اور ذلت ومسکنت کےمقدر ہوجانے کا بھی ہے ۔غزوۂ حمراء الاسد یا بدر صغری کے موقع پر صحابۂ کرام نے باوجود ہزاروں بے بسی اور کمزوری کے جس طرز عمل کا مظاہرہ کیا تھا ،اسے قرآن وحدیث کی زبان میں جذبۂ ایمان وعمل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ فریق مخالف کے سپہ سالار ابوسفیان نے ذہنی ونفسیاتی سطح پر مسلمانوں کو ڈرانے و مرعوب کرنے کی بہت کوشش کی ۔اس نے کہلا بھیجا:
اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَـمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْهُـمْ فَزَادَهُـمْ اِيْمَانًاۖ وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللّـٰهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ۔
“مسلمانو! تمہارے خلاف مشرکین مکہ نے اسلحوں سے لیس ایک لشکر جرار تیار کر رکھا ہے ،جو تم پر جلد ہی حملہ آورہونے والے ہیں”۔ مسلمانوں نے جواب دیا ،” تو کیا ہوا؟،ہمارے ساتھ ہمارا رب ہے ،جو پوری دنیا کے فراعنہ وجبابرہ کے لئے کافی ہے”۔
وہ اہل ایمان ،جن سے لوگوں نے کہا کہ کفار ومشرکین نے تمہارے مقابلے کے لئے ایک بڑا لشکر جمع کر لیا ہے ،لہذا تم ڈر کے رہو،لیکن اس بات نے بجائے مرعوب کرنے کے مسلمانوں کے ایمان میں اصافہ ہی کر دیا اور انھوں نے کہا، “ہمارے لئے ہمارا رب ،اللہ کافی ہے اور وہی سب سے بہتر کارساز ہے” (سورہ آل عمران :173)
ہم اللہ کی منتخب کردہ امت ہیں۔ ہمارے تشخص کی اساس ،ہماری قوت کا راز،ہمارا درخشندہ ماضی اور تابناک مستقبل کا انحصار ہی ہمارے ایمان وعمل پرہے۔ بحیثیت مومن ہم پر واجب ہے کہ ہماری امت کے والدین کی تربیت ،اساتذہ کی تعلیم ، صحافی کا قلم ،خطیب کی زبان،فلسفی کی فکر،شاعر کا وجدان،قانون ساز کی استعداد،حاکم کا غلبہ واستیلااورلشکر وسپاہ کی قوت سب کچھ ایمان وعمل کے لئے وقف ہوجائے۔ہمیں اس حقیقت کو بھی محض جذباتی سطح پر نہیں بلکہ امر واقعی کے طور سمجھنا ہوگا کہ خالق کون و مکاں اور صاحب کن فیکوں کی ساری نصرتیں اور حمایتیں ہمارے ساتھ ہوں گی اگر ہم حقیقی معنوں میں ایمان وعمل کے خوگر ہوئے:
وَلَنْ تُغْنِىَ عَنْكُمْ فِئَتُكُمْ شَيْئًا وَّلَوْ كَثُرَتْۙ وَاَنَّ اللّـٰهَ مَعَ الْمُؤْمِنِيْنَ ۔
دشمنوں کی تعداد چاہے جتنی زیادہ ہو ،حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی حمایت مؤمنوں کے ساتھ ہی ہے (سورہ انفال: 19)
وَلَا تَهِنُـوْا وَلَا تَحْزَنُـوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ
غم اور سستی نہ کرو ،تم ہی غالب رہوگے اگر تم سچے(باعمل ) مؤمن ہو (سورہ آل عمران :139)
بحیثیت مؤمن ہمیں یقین رکھنا چاہئے کہ ہمارے سارے مسائل کا حل قرآن وصحیح حدیث میں موجود ہے،اسی لئے” صحیح” سیاسی،سماجی یا مذہبی قیادت کی عدم موجودگی کو امت مسلمہ کی دینی و دنیوی پسماندگی یا زوال کا بہانہ بنانا ،سراسر غلط اور بے بنیاد ہے۔کیونکہ قرآن وحدیث ہی ہمارےرہنماہیں ،جن کی اطاعت ہر فرد مسلم پر لازم ہے،بس ضرورت ہے کہ ہم ان کے اجالوں میں اپنی اجتماعی زندگی کا لائحہ عمل طے کریں تاکہ مایوسی اور بزدلی کی تاریکیاں چھٹتی چلی جائیں:
اَللَّـهُ وَلِىُّ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا يُخْرِجُـهُـمْ مِّنَ الظُّلُمَاتِ اِلَى النُّوْرِ ۖ وَالَّـذِيْنَ كَفَرُوٓا اَوْلِيَآؤُهُـمُ الطَّاغُوْتُ يُخْرِجُوْنَـهُـمْ مِّنَ النُّـوْرِ اِلَى الظُّلُـمَاتِ ۗ اُولٰٓئِكَ اَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُـمْ فِيْـهَا خَالِـدُوْنَ۔
ایمان لانے والوں کا کارساز اللہ تعالٰی خود ہے وہ انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لے جاتا ہے اور کافروں کے اولیاء شیاطین ہیں ۔ وہ انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں ، یہ لوگ جہنّمی ہیں جو ہمیشہ اسی میں پڑے رہیں گے ۔ (سورہ بقرہ: 257)
ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی پیش رفت پورے حوصلے اور اعتماد کے ساتھ جاری رکھیں ،ان شا اللہ کامیابی بہت جلد عطا ہوگی :
اَنَّ اللّـٰهَ لَا يُضِيْعُ اَجْرَ الْمُؤْمِنِيْنَ۔
اللہ اہل ایمان کی محنت ضائع نہیں کرے گا۔(آل عمران: 171)
تحریر نگار: احسان بدر تیمی