ایمان اور عقل کا باہمی رشتہ

0

اللہ تعالی کی بہت سی نعمتوں میں سے ایک نعمت عقل ہے۔ انسان اور کائنات کی ترقی کا دارومدار عقل کے استعمال پر ہی ہے۔ عقل کے استعمال کے نتیجہ میں نئی نئی چیزیں دریافت ہوں گی اور اکتشافات کا سلسلہ جاری رہے گا اور حقائق کی معرفت کے ساتھ اس کی تہ تک رسائی ہوگی۔ یہ وہ نعمت ہے جو انسانوں کو جانوروں سےممیز کرتی ہے ۔ اور بہت سی مخلوقات پر فوقیت عطا کرتی ہے۔ عقل کے استعمال سے انسان حق و باطل کی تمیز کرتا ہے۔اس کے استعمال سے قرآن میں پوشیدہ حکمت کے خزانوں سے فیض یاب ہوتا ہے۔ اور قرآن کے معنوں کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ عقل نور ہے جس کے ذریعہ سے انسان خدا کو بھی صحیح معنوں میں پاتا ہے اور خود کی حقیقت کو بھی پہچانتا ہے۔ تقلیدی ایمان یا وراثت میں ملنے والے ایمان کے بالمقابل خدا کو وہ ایمان مطلوب ہے جو سوچ سمجھ کر اور غور و فکر کے ساتھ لایا گیا ہے۔ جس میں شکوک و شبہات کا ذرہ برابر بھی معاملہ نہ ہو۔ سوچ سمجھ کر کسی چیز کو ماننے کے بعد اس پر عمل کرنے میں اطمینان اور حلاوت کی جو کیفیت حاصل ہوتی ہے وہ بغیر سوچے سمجھے حاصل نہیں ہوتی۔ سوچ سمجھ کر کسی چیز پر جس طرح اعتماد حاصل ہوتا ہے وہ بغیر سوچے سمجھے نہیں ہوتا۔

حضرت عمر ؓ  کے بقول قرآن کے عجائب ختم نہیں ہونے والے۔ یہ وہ بحر ہے جس کا کوئی ساحل نہیں ۔ اس کی آیات کے حقیقی معنی تک رسائی کرنے کےلیے ضروری ہے کہ اس کی آیات پر غور و فکر کیا جائے اور اس کی حقیقی معرفت حاصل کی جائے ۔قرآن مجید میں مختلف مقامات پراور مختلف صیغوں میں انسانوں کو اس بات کی طرف توجہ دلائی گئی کہ وہ عقل سے کام لے۔ انہیں جگہ جگہ غور و فکر کی طرف دعوت دی گئی ہے۔ قرآن مجید میں عقل کے علاوہ تدبر، فہم ، اللب اور النہی جیسے دیگر الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ارشاد باری ہے،

أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ ٱلْقُرْءَانَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَآ۔ “کیا یہ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ یا ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں” ( محمد :۲۳)

 اسی طرح دوسرے مقام پر بھی استفہام کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر یہ قرآن پر غور و فکر کرتے تو ضرور قرآن کی حقیقت کے بارے میں انہیں معلوم ہوتا۔ فرمایا،

أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ ٱلْقُرْءَانَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ ٱللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ ٱخْتِلَـٰفًا كَثِيرًا۔ ” کیا یہ قرآن پر غور و فکر نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی ” (النساء: ۸۲) ۔

 یہ تمام آیتیں غور و فکر اور تدبر کی طرف دعوت دیتی ہیں۔ ان تمام آیات اور ان جیسی قرآن کی بہت سی آیات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن نے عقل سے کام لینے کی تلقین کی ہے اور اسی کے ساتھ یہاں اشار‏ۃ ًان لوگوں کے لیے تنبیہ بھی ہے جو عقل سے کام نہیں لیتے ۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے حکمت کے تعلق سے یہ بات کہی ہے کہ اللہ تعالی جسے چاہتا ہے حکمت سے نوازتا ہے اور جسے حکمت سے نواز دے اسے خیر کثیر دینے کی بات کہی گئی ہے ۔کہا گیا،

يُؤْتِى ٱلْحِكْمَةَ مَن يَشَآءُ ۚ وَمَن يُؤْتَ ٱلْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِىَ خَيْرًا كَثِيرًا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّآ أُولُواٱلْأَلْبَـٰبِ۔ ” جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے، اور جس کو حکمت ملی، اسے حقیقت میں بڑی دولت ملی گئی ۔ ان باتوں سے صرف وہی لوگ سبق لیتے ہیں، جو دانش مند ہیں” (البقرہ :۲6۹)۔

حکمت کی تلاش کا تعلق بھی غور و فکر سے ہے اور یہ اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک انسان عقل سے کام نہ لے ۔ اللہ کی نشانیوں پر غور و فکر کرنے سے ہی انسان حکمت کو پائے گا۔ نبی ﷺکی حدیث میں بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ “الحكمة ضالة المومن” حکمت مومن کی گمشدہ متاع ہے۔ ظاہر ہے غور و فکر کے بغیر یہ گمشدہ متاع حاصل نہیں ہو سکتی۔

عقل کا استعمال نہ کرنا اپنے آپ کو گمراہی کے راستے پر لے جانے کے مانند ہے ۔ خدا داد صلاحیت کی پہچان بھی غور و فکر سے ہی ہوتی ہے اگر کوئی عقل سے کام نہیں لیتا ہے تو وہ خدا داد صلاحیت کو دبا دیتا ہے ۔ اور اپنے آپ کو اندھی تقلید میں گم کر دیتا ہے۔عقل سے ایمان کا گہر ارشتہ ہے۔ جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں وہ حق بات تک پہنچ جاتے ہیں اور ایمان کی دولت سے فیض یاب بھی ہوتے ہیں الا یہ کہ اس غور و فکر کے درمیان ایسی کوئی چیز حائل ہو جائے جو انہیں حقیقت تک نہ پہنچائے اور وہ راستہ سے بھٹک جائے۔ قرآن مجید کی آیتوں سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں خدا انہیں سیدھا راستہ دکھاتا ہے۔ اسی طرح یہ بات ان آیات سے بھی ظاہر ہوتی ہے جہاں پر مختلف آیات و نشانیوں کا ذکر کر کے انہیں سوالیہ انداز میں متنبہ کیا گیا ہے کہ کیا یہ لوگ عقل سے کام نہیں لیتے؟ کیا یہ لوگ سمجھتے نہیں ہیں؟۔ جو لوگ عقل کا استعمال نہیں کرتے  وہ ایمان کی دولت سے فیض یاب نہیں ہو سکتے ۔

 قرآن مجید کی آیتوں سے یہ بات صاف طور پر معلوم ہوتی ہے کہ جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے اللہ تعالی ان پر نجاست (کفر) مسلط کر دیتا ہے ۔ کہا گیا کہ،

 “وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَن تُؤْمِنَ إِلَّا بِإِذْنِ ٱللَّهِ ۚ وَيَجْعَلُ ٱلرِّجْسَ عَلَى ٱلَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ”۔ اور اللہ کا طریقہ یہ ہے کہ جو لوگ عقل سے کام نہیں لیتے وہ ان پر گندگی ڈال دیتا ہے۔(سورة یونس:۱۰۰)

 یہاں پر یہ بات واضح ہے کہ اللہ کے نزدیک عقل کا استعمال نہ کرنا ناپسندیدہ ہی نہیں بلکہ بدترین عمل ہے۔ اس آیت میں ایمان کو عقل کے استعمال سے جوڑ دیا ہے اور یہ بات بیان کر دی گئی ہے کہ ایمان کی روشنی سے وہی لوگ ہدایت پا سکتے ہیں جو عقل کا استعمال کرتے ہیں۔مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں “ایمان لانے اور نہ لانے کے باب میں جو سنت الہی ہے یہ اس کی طرف اشارہ ہے کہ جو بھی ایمان لاتا ہے وہ اللہ کے حکم اور اس کی توفیق سے ایمان لاتا ہے اور یہ توفیق ان کو حاصل ہوتی ہے جو اللہ کی بخشی ہوئی عقل اور سمجھ سے کام لیتے ہیں۔ جو لوگ عقل اور سمجھ سے کام نہیں لیتے ان کی بصیرت پر اللہ تعالی ان کے اعمال کی نجاست مسلط کر دیتا ہے جو ان کو بالکل اندھا بنا کر چھوڑ دیتی ہے اور وہ اپنی خواہشات نفس کے پیچھے بھٹکتے رہتے ہیں” (تدبر قرآن، سور‏ہ یونس:۱۰۰)۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہاں پر’ رجس’ کا استعمال کفر کے معنی میں بھی ہوا ہے۔ یہاں پر نجاست ظاہری نجاست کے معنی میں استعمال نہیں ہوا بلکہ عقیدہ و افکار کی نجاست کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔یعنی اللہ تعالی نے ان پر رجس (کفر) اس طرح مسلط کر دیا ہے کیونکہ وہ لوگ عقل کا استعمال نہیں کرتے ۔ ابن عاشور لکھتے ہیں ” والرِّجْسُ: حَقِيقَتُهُ الخُبْثُ والفَسادُ. وأُطْلِقَ هُنا عَلى الكُفْرِ؛ لِأنَّهُ خُبْثٌ نَفْسانِيٌّ ۔۔۔۔ والمَعْنى: ويُوقِعُ الكُفْرَ عَلى الَّذِينَ لا يَعْقِلُونَ. والمُرادُ نَفْيُ العَقْلِ المُسْتَقِيمِ، أيِ الَّذِينَ لا تَهْتَدِي عُقُولُهم إلى إدْراكِ الحَقِّ ولا يَسْتَعْمِلُونَ عُقُولَهم بِالنَّظَرِ في الأدِلَّةِ۔ “رجس کی حقیقت خباثت اور فساد ہے۔ یہاں پر کفر کو رجس کہا گیا ہےکیوں کہ یہ نفسیانی خباثت ہے۔ اس کا مطلب  یہ ہے کہ (اللہ تعالی ) ان پر کفر مسلط کر دیتا ہے جو عقل نہیں رکھتے۔ وہ عقل سلیم کی نفی کرتے ہیں یعنی ان کی عقل انہیں حق کے معرف کی طرف رہنمائی نہیں کرتی اور نہ ہی وہ اپنی عقل کو دلائل کو جانچنے کے لیے استعمال کرتے ہیں” (التحریر و التنویر )۔یعنی  ہدایت کے باب میں عقل ایک اہم اور کلیدی کردار ادا کرتی ہے اور صحیح سمت متعین کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔

قرآن مجید میں کفار مشرکین کی اس جاہلانہ روش کی طرف نشان دہی کی ہے کہ جب انہیں ایک خدا کی عبادت کی دعوت دی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارے لیے تو وہی کافی ہے جس پر ہم نے اپنے آباء و اجداد کو پایا ہے۔ اندھی تقلید کرکے وہ ظلم اور جہالت کی تاریکی میں بھٹکنے کو اپنے لیے پسند کرتے ہیں اور عقل کا استعمال بالکل نہیں کرتے۔ ارشاد باری ہے،

 ” وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْاإِلَىٰ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ وَإِلَى ٱلرَّسُولِ قَالُوا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ ءَابَآءَنَآ ۚ أَوَلَوْ كَانَ ءَابَآؤُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ شَيْـًٔا وَلَا يَهْتَدُونَ۔ “اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اس قانون کی طرف جو اللہ نے نازل کیا ہے اور آؤ پیغمبر کی طرف تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہمارے لیے تو بس وہی طریقہ کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے ” (سورہ المائدہ : ۱۰۴) ۔

اسی طرح ایک جگہ پر کہا گیا کہ جب کوئی فحش کام کرتے تو اس کی بھی دلیل یہی دیتے تھے کہ اس پر ہم نے اپنے آباء و اجداد کو پایا ہے اور اس کی نسبت خدا کی طرف کرتے تھے کہ اللہ نے اس کا حکم ہمیں دیا ہے ۔ ارشاد باری ہے ،

وَإِذَا فَعَلُوا فَـٰحِشَةً قَالُوا وَجَدْنَا عَلَيْهَآ ءَابَآءَنَا وَٱللَّهُ أَمَرَنَا بِهَا ۗ قُلْ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَأْمُرُ بِٱلْفَحْشَآءِ ۖ أَتَقُولُونَ عَلَى ٱللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ۔ ” یہ لوگ جب کوئی فحش کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طریقہ پر پایا ہے اور اللہ ہی نے ہمیں ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔ ان سے کہو اللہ فحش کام کرنے کا حکم کبھی نہیں دیا کرتا ، کیا تم اللہ کہ تعلق سے وہ بات کہتے ہو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے ہے” (سورہ اعراف:۲۸)۔

 اس طرح قرآن مجید میں بہت سی جگہ پر ان کی اس جاہلانہ روش کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس میں عقلی دلیل دینے کے بجائے اندھی تقلید کی بات کہی گئی ہے۔ مذکورہ دونوں آیتوں سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ کس طرح ان کی اس روش کو بیان کرنے کے بعد عقلی انداز میں سوچنے اور غور و فکر کرنے کی بات کہی ہے،

 أَوَلَوْ كَانَ ءَابَآؤُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ شَيْـًٔا وَلَا يَهْتَدُونَ۔” کیا یہ باپ دادا کی تقلید کیے چلے جائیں گے خواہ وہ کچھ نہ جانتے ہوں اور ہدایت پر بھی نہ ہوں”۔

اسی طرح دوسری آیات میں کہا گیا کہ”کیا یہ اللہ کی طرف ایسی بات منسوب کرتے ہیں جس کا انہیں علم ہی نہیں”۔ یہاں پر عقل کے استعمال کی اہمیت اور ضرورت صاف معلوم ہو جاتی ہے کہ کفار مشرکین عقل کا استعمال نہیں کرتے۔ اس لیے وہ اس نور (ایمان) سے محروم رہ گئے۔ اگر وہ عقل کا استعمال کرتے تو اس نور سے ضرور فیض یاب ہوتے۔

اسی طرح دوسرے مقامات پر کفار مشرکین کے بارے میں کہا گیا کہ یہ اپنے کفر پر اس طرح مصر ہیں کہ اس سے ہٹنے کا نام ہی نہیں لیتے ۔اللہ تعالی نے ان کی مثال جانوروں سے دی ہے جو ہانک پکار کے علاوہ کچھ نہیں سنتے۔ کہا گیا ،

وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِمَا لا يَسْمَعُ إِلا دُعَاءً وَنِدَاءً صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لا يَعْقِلُونَ۔ “یہ لوگ جنہوں نے خدا کے بتائے ہوئے طریقے پر چلنے سے انکار کر دیا ہے ان کی حالت بالکل ایسی ہے جیسے چرواہا جانوروں کو پکارتا ہے اور وہ ہانک پکار کی صدا کے سوا کچھ نہیں سنتے۔ یہ بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، اس لیے کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی (البقرة:171) ۔

اس آیت میں انہیں بہرا کہا گیا کہ یہ لوگ اپنے ارد گرد کی آوازوں پر غور نہیں کرتے اور دوسروں کی باتوں کو سمجھتے نہیں ہے۔ اسی طرح یہ گونگے ہیں حقیقت کو دیکھ کر اس پر کچھ بولتے نہیں ہیں بلکہ اپنے آباء و اجداد کی میراث پر اس طرح سے جمے ہوئے ہیں حالانکہ وہ گمراہی پر تھے۔ اس طرح یہ اندھے ہیں کیونکہ یہ اپنی زندگی میں حقیقت اور اپنے پروردگار کی آیات کو نہیں دیکھ پا رہے ہیں۔ ایک اور آیت میں اللہ تعالی نے ان لوگوں کا تذکرہ اس انداز میں کیا ہے:

إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ الله الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لا يَعْقِلُونَ۔ ” اللہ کے نزدیک تمام جانداروں میں بدترین یقینا وہ بہرے گونگے ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (الأنفال : 22)

اسی طرح  سورہ  فرقان میں نظر انداز کرنے والوں اور عقل کا استعمال نہ کرنے والوں کو جانوروں سے بدتر کہا گیا ہے ،

“أَمْ تَحْسَبُ أَنَّ أَكْثَرَهُمْ يَسْمَعُونَ أَوْ يَعْقِلُونَ ۚ إِنْ هُمْ إِلَّا كَالْأَنْعَامِ ۖ بَلْ هُمْ أَضَلُّ سَبِيلًا۔ “کیا آپ خیال کرتے ہیں کہ ان میں سے اکثر کچھ سننے یا سمجھنے کے لیے تیار ہیں؟ (نہیں) یہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں (الفرقان : 44)۔

غور و فکر کے ذریعہ ہی انسان چیزوں کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور اسی کے نتیجہ میں وہ حقائق تک پہنچتا ہے۔ اسی سے نئے مسائل اور چیلنجز کا حل نکلتا ہے۔ یہی ایک معاشرہ کو صحیح راہ دکھانے میں رہنمائی کرتا ہے۔ جہاں پر عقل کا استعمال نہ ہو وہاں جمود و تعطل پیدا ہوتا ہے۔ ایک زندہ اور فعال گروہ کے لیے جمود و تعطل موت کی نشانی ہے۔اس لئے قوموں کے عروج و زوال کا تعلق بھی غور و فکر سے ہی ہے، جو حال کو سمجھنے میں اور مستقبل کے تئیں منصوبہ بنانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ دراصل عقل کا استعمال نہ کرنا قرآن مجید کے خلاف عمل ہے۔ جہاں قرآن مجید میں اول تا آخر غور و فکر اور عقل کے استعمال کی طرف نہ صرف توجہ دلائی گئی بلکہ اس پر زور دیا ہے ۔ عقل کے ذریعہ ایمان کی دولت نصیب ہوتی ہے۔ اسی سے حکمت کے خزانے ہاتھ لگتے ہیں۔ اسی سے زندگی کی صحیح سمت معلوم ہوتی ہے۔ اسی سے انسان خدا کو بھی پہچانتا ہے اور خودی کا بھی ادراک کرتا ہے۔ قرآن مجید میں کہیں بھی عقل کے استعمال سے منع نہیں کیا گیا ہے۔ اس کے مقابلہ میں جو لوگ عقل کا استعمال نہیں کرتے انہیں متنبہ کیا ہے اور انہیں وعید سنائی ہے۔

تحریر نگار: شعیب مرزا

مزید مطالعہ کے لئے: قرآن مجید میں عقل کی نشوونما کا انتظام

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights