ایک دھماکا۔۔! ننھا سا پرندہ کچھ وقت کے لئے پھڑپڑاتا ہے اور پھر زمین پر آکر گر جاتا ہے۔ ایک ۱۰ سالہ نرم دل بچہ، جس نے اس پرندہ کو اپنی کھلونے والی بندوق کا نشانہ بنایا تھا اس کی طرف دوڑتا ہے اور اپنے ہاتھوں میں اٹھا لیتا ہے۔ سوچتا ہے کہ یہ پرندہ تو دیکھنے میں چڑیا کی طرح ہے لیکن اس کے گلے پر ایک عجیب سا پیلے رنگ کانشان ہے، آخر یہ کونسی چڑیا ہے؟ یہ سوچتے ہوئے پرندہ کو اپنے ننھے ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے اپنے ماما کے پاس پہنچتا ہے جو خونخوار جانوروں کے شکاری تھے۔ ماما اس پرندہ کو پہچان نہیں پاتے اور اپنے بھانجےکو بمبئی نیچرل ہسٹری سوسائٹی (BNHS)کے سکریٹری کے پاس لے جاتے ہیں جہاں بچہ پرندوں کے نقلی نمونہ کے ذریعے اس پرندہ کو پہچان لیتا ہے ۔ یہاں سے اس بچے کی پرندوں کی دنیا میں دلچسپی کا آغاز ہوتا ہے جس کو ساری دنیا آج ڈاکٹر سالم معیز الدین عبد العلی کے نام سے جانتی ہے۔
پرندوں سے ڈاکٹر سالم علی (انہیں سلیم علی بھی کہتے ہیں) کو اس قدر لگاؤ تھا کہ آپ اپنی آپ بیتی بیان کرتے ہوئے کتاب “The Fall of the Sparrow ” میں لکھتے ہیں کہ ، جب وہ پرندوں پر توجہ مرکوز کرتے تو گویا دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو جاتے تھے۔ آپ نے علم حیوانات میں اپنی ڈگری مکمل کی ۔ کوئی چیز آپ کو پرندوں کی تحقیق کرنے سے روک نہیں سکتی تھی،نہ خراب موسم اور نہ ہی خستہ حال علاقے۔ آپ نے ہندوستان کے ایک ایک کونے کا احاطہ کیا۔ ایک بوڑھا شخص اپنی زندگی گزارنے کے لیے امن اور پرسکون جگہ تلاش کرتا ہے، لیکن ڈاکٹر سالم علی ایک عظیم قادوس پرندے (Great Albatross) کی مانند تھے جو بلندی پر اڑ رہے تھے، ہرپرندے کو دیکھتے اور ان کی آواز سے لطف اندوز ہوتے۔ ڈاکٹر سالم علی کو علم الطیور (Ornithology) کے باقائدہ مطالعہ کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔انہوں نے متعد د جرنل، مضامین، مشہور اور معتبر علمی کتابیں اور فیلڈ گائیڈز لکھے۔ ان کی تصنیف کردہ کتابوں میں سے “The Book of Indian Birds” اب بھی ابھرتے ہوئے ماہرین طیوریات کے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ ملک کی 3معتبر یونیورسٹیوں نے انہیں اعزازی ڈاکٹریٹ سے نوازا۔
سالم علی نے نہ صرف علم الطیور میں مہارت حاصل کی بلکہ ماحول کے تحفظ کے میں بھی اپنا حصہ ادا کیا۔ مثال کے طور پر بھرت پور برڈ سینکچری کا قیام جسے ‘ کیولادیو نیشنل پارک ‘ بھی کہا جاتا ہے، آج مختلف چرند پرند، آبی پنکھ رکھنے والے، پانی میں اڑنے والے اور پانی کے کنارے رہنے والے کمیاب مخلوقات کا گھر ہے۔ ساتھ ہی آپ نے نایاب پودوں اور جڑی بوٹیوں کے ایک قیمتی ذخیرہ کی وادی کا دورہ کیا جسے ہٹا کر ہائیڈل پروجیکٹ کی منصوبہ بندی کی جا رہی تھی اور اس کو ترک کرنے کی اپیل کی۔ آج اسی وادی کو ہندوستان میں ‘ سائلنٹ ویلی نیشنل پارک (کیرلا)’ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ کی دریا دلی کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب ڈاکٹر صاحب کو ان کی غیر معمولی خدمات کے لیے ۵ لاکھ روپے کا بین الاقوامی ایوارڈ دیا گیا تو انہوں نے تمام رقم بمبئی نیچرل ہسٹری سوسائٹی (BNHS) کو عطیہ کردی۔ بمبئی نیچرل ہسٹری سوسائٹی کو خستہ حالی سے بچا کر دوبارہ جلا بخشنے میں ڈاکٹر سالم علی کا اہم کردار ہے ۔
آپ کی مندرجہ بالا تمام خدمات اور پرندوں سے لگاؤ کو سامنے رکھتے ہوئے، ڈاکٹر صاحب کو “The Birdman of India ” کہا جاتا ہے۔ حکومت ہند نے بھی انہیں ۱۹۵۸ میں پدم بھوشن اور ۱۹۷۶ میں پدم وبھوشن سے نوازا۔ وہ پہلے غیر انگریز تھے جنہیں 1967 میں (British Ornithologists’ Union) کی جانب سے گولڈ میڈل سے نوازا گیا۔ اسکے علاوہ، نیدرلینڈس، روس اور سویزرلینڈ میں بھی ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے اعلیٰ ترین اعزازات سے نواز ا گیا ۔
ڈاکٹر سالم علی کو علم الطیور (Ornithology) کے باقائدہ مطالعہ کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
نامور ماہر طیوریات اپنی انہیں خدمات کے ساتھ ساتھ کینسر کی جنگ مدت طویل تک لڑتے رہے اور ۲۰ جون ۱۹۸۷ کو ۹۰ سال کی عمر میں اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ إِنَّا لِلَّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔ ڈاکٹر سالم علی کی بے مثال خدمات، ان کی کتابیں اور پرندوں سے محبت کی میراث آج بھی لوگوں کے دلوں میں تازہ ہے۔ آپ نے جاتے ہوئے آج کے نوجوانوں کے لئے جو اہم سبق اپنی زندگی کے ذریعے سکھلایا ہے، وہ ہمیں پرندے ہی کے ذریعے ملتا ہے۔
پرندہ جانبِ دانہ ہمیشہ اڑ کر جاتا ہے
پرندے کی طرف اڑ کر کبھی دانہ نہیں آتا
ٹھیک اسی طرح علم انسان کے پاس خود نہیں پہنچتا۔ اپنے دلچسپی کا موضوع تلاش کرنا اور یہ سوچنا کہ اس کے ذریعے ہماری اس میدان میں کیا خدمت ہو سکتی ہے یہ آج کے نوجواں کی ذمہ داری ہے۔
از: صائمہ صبرین، بنگلور