بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ مردوں کی اجارہ داری کی وجہ سے، خواتین اور ان کے مسائل، تجربات اور علمی حوالے یا تو اسلامی تاریخ کے صفحات میں بہت کم محفوظ کیے گئے یا انہیں مکمل طور پر فراموش کر دیا گیا ہے۔ مزید برآں، قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح اور ان کے عملی اطلاق اکثر مردوں کے تفسیری استحقاق کے ’رحم و کرم‘ پر رہے ہیں۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو ایک عورت کی پہچان صرف اس کے گھریلو پن اور مخفی ہونے سے ہی وابستہ رہی ہے۔
کچھ وقت پہلے جب میں چھٹیاں گزارنے کے لئے نینی تال گئی ہوئی تھی، وہاں ظہر کے وقت میں نے چاہا کہ کسی قریبی مسجد میں نماز ادا کر لوں اور اس کے بعد آگے کا سفر جاری رکھوں۔ ڈرائیور ہمیں شہر کے بالکل وسط میں ایک مصرف شاہراہ پر واقع بے حد خوبصورت مسجد لے آیا۔ داخلی دروازے پر ہی ہمیں ایک شخص نے روکا اور کہا کہ عورتیں اس مسجد میں نہیں جا سکتیں کیونکہ یہاں عورتوں کی نماز کے لئے کوئی مخصوص جگہ نہیں ہے۔ دروازے پر کھڑے کھڑے پورے طور پر خالی اس مسجد کا نظارہ کرتے ہوئے ہم نے التجا کی کہ ہمیں صرف دو رکعت ادا کرنے کی اجازت دی جائے لیکن ظاہر ہے ہمیں کلی طور پر منع کر دیا گیا کیونکہ وہ جگہ عورتوں کے لئے ممنوع تھی۔ بلکہ میں کیسے بھول سکتی ہوں کہ وہ بیشتر چیزیں جن تک عورتوں کی رسائی نہیں ہے، مسجد میں بآسانی داخلہ ان میں سے ایک ہے۔
مساجد مسلم معاشرے کا قلب اور مرکز ہوا کرتی تھیں۔ نہ صرف یہ کہ یہ جماعت سے نماز ادا کرنے کا مرکز ہوا کرتی تھیں بلکہ سماجی ترقی اور شہری شمولیت کا بھی مصدر و منبع ہوا کرتی تھیں۔ اگرچہ صرف مردوں پر ہی دن میں پانچ بار مساجد میں نمازوں کے لئے حاضر ہونا ضروری ہے لیکن عورتیں بھی مساجد میں حاضر ہوتی رہی ہیں۔
رسول اکرم ﷺ کے زمانے میں عورتیں پابندی سے مسجدوں میں آیا کرتی تھیں۔ وہ اپنے شیر خوار اور چھوٹے بچوں کو بھی مسجد لایا کرتی تھیں اور رسول اللہ ﷺ نے انہیں کبھی مساجد میں آنے سے نہیں روکا۔ بلکہ جب بچے نماز کے دوران رونے لگتے، تو آپ ﷺ اپنی نماز مختصر کر دیا کرتے تاکہ عورتیں نماز کے بعد اپنے بچوں کی ضرورت پوری کر سکیں، لیکن آپ نے کبھی انہیں مسجد آنے یا اپنے شیر خوار بچوں کو مسجد لانے سے منع نہیں کیا۔
ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی بندیوں کو مسجدوں میں آنے سے نہ روکو‘‘ (مسند احمد 1:40)۔ یہ حدیث مساجد میں عورتوں کی شمولیت اور ان کے کردار کی بڑی شدت سے پیروی کرتی ہے۔
لیکن مساجد پر مردانہ حاکمیت کی وجہ سے مسجدیں رفتہ رفتہ ‘مردانہ برتری کے قلعے’ بنتی چلی گئیں۔ زیادہ تر مسجدوں میں عورتوں کے لئے کوئی خوشگوار اور استقبالیہ ماحول نہیں ہوتا اور ان کے لئے فراہم کردہ جگہ عموماً بہت ہی چھوٹی، گندی اور سہولیات سے عاری ہوتی ہے۔ ام حمید رضی اللہ عنہا کی وہ حدیث جس میں رسول اللہ ﷺ ان سے یہ فرماتے ہیں کہ ان کے لئے یہ بہتر ہے کہ وہ اپنے گھر کے سب سے اندرونی حصے میں نماز ادا کریں، اکثر اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ عورتوں کے لئے عمومی طور پر مسجد کے مقابلے گھر میں نماز ادا کرنا بہتر ہے۔
تاہم، اگرچہ یہ روایت اور اسی سے ملتی جلتی ایک اور روایت عورتوں کو گھر میں نمازیں ادا کرنے پر ابھارتی ہے، علما کے درمیان اس امر پر اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا یہ احادیث صرف ان مخصوص افراد کے ساتھ خاص ہیں یا یہ ہر زمان و مکان کی عورتوں کے لئے عام ہیں۔ اس سے اختلاف کرتے ہوئے ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ عورتیں عموما گھر میں اپنے والد، بھائی، اپنے شوہر یا بیٹوں کے ساتھ رہتی ہیں۔
اگر گھر میں نماز ادا کرنے کی علت جیسا کہ بعض علما بیان کرتے ہیں یہی ہے کہ خواتین کا سابقہ غیر محرم مردوں سے کم پڑے برخلاف اس کے کہ وہ مسجد جائیں، تو بھلا انہیں دیوان خانے کے بجائے گھر کے سب سے اندرونی حصے میں نماز ادا کرنے کا حکم کیوں دیا گیا؟ کیا واقعی اس کی علت یہی ہے کہ ان کا سابقہ نہ پڑے یا حدیث کا سیاق کچھ اور ہے؟
ایک مشہور عالم ابن حمزہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں عورتوں کے مختلف احوال اور مختلف اوقات میں مسجد جانے کی اس قدر روایتیں ملتی ہیں، خواہ وہ صبح کے وقت ہو یا رات کی تاریکی اپنے بچوں کو گود میں اٹھائے ہوئے ہو، کہ اس امر کا انکار کرنے والا کوئی جاہل شخص ہی ہو سکتا ہے۔ ابو شقہ بیان کرتے ہیں کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہا کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا مسجد میں ہی نماز ادا کیا کرتی تھیں، نیز صحابیات رضی اللہ عنہا کے بارے میں مختلف روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دن اور رات کے مختلف اوقات میں پابندی سے مسجد جایا کرتی تھی۔
حضرت عاتقہ، جو خلیفہ ثانی عمر رضی اللہ عنہا کی بیوی تھیں، وہ اس وقت مسجد ہی میں موجود تھیں جب حضرت عمر پر قاتلانہ حملہ کیا گیا اور ان پر چاقو سے کئی وار کیے گئے جس کے نتیجے میں 23 ذی الحجہ کو ان کی وفات ہو گئی۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مہر کی حد بندی کرنی چاہی، تو ایک بزرگ خاتون مسجد کے درمیان سے اٹھیں اور انہیں ٹوکا، اور کہا کہ ان کی مجوزہ پالیسی اسلامی شریعت سے متصادم ہے، نتیجتاً خلیفہ رضی اللہ عنہ نے اپنی تجویز واپس لے لی۔ یہ خیر القرون کی خواتین تھیں اس کے باوجود یہ مسجد میں مستعدی سے حاضری دیتی تھیں، منصوبہ بندیوں میں شامل تھیں، مذہبی امور میں حصہ لیتی تھیں اور رسول اکرم ﷺ کا خطبہ سنتی تھیں۔
مسجد تک رسائی اور مسجد میں اپنے مقام کے لئے مسلم خواتین کی جد و جہد دراصل مردانہ قیادت کی طرف سے بڑے پیمانے پر ہو رہی حاشیہ بندی، ممانعت اور امتیاز کی صرف ایک توسیع ہے۔ عہد وسطی کی خواتین کے تعلق سے صرف مساجد میں نماز ادا کرنے کے ہی نہیں بلکہ انہیں بنانے تک کے آثار ملتے ہیں۔ وہ علم حاصل کرنے اور عورتوں اور مردوں دونوں کو ہی پڑھانے کے لئے آزاد تھیں۔ ایمان و عقائد اور دیگر سماجی مسائل سے متعلق امور میں انہیں مساوی شراکت کے ساتھ مرکزیت حاصل تھی۔
ضیا ء السلام اپنی کتاب “وومن ان مسجد ” میں لکھتے ہیں :
“دہلی میں ہمیں عظیم مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کی رضاعی ماں ماہم انگا کی بنائی ہوئی خیر المنزل مسجد ملتی ہے۔ خیر المنزل مسجد جسے انگا نے 1561 میں بنوایا تھا، کہا جاتا ہے کہ دہلی میں کسی خاتون کی بنوائی ہوئی پہلی مسجد تھی، یہ وہی خاتون ہیں جو اکبر کی حکومت کے ابتدائی عہد میں عملاً سلطنت کی حاکم اعلیٰ تھیں کیونکہ مغل وارث حکومت کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لئے بہت ہی چھوٹا تھا”۔
رسول اللہ ﷺ کی بیوی اماں عائشہ رضی اللہ عنہا (آپ کی وفات کے بعد) اپنا بیشتر وقت مسجد کے احاطے میں بیٹھ کر صحابہ کرام کو احادیث سنانے میں صرف کرتی تھیں۔ آج بھی مسجد نبوی میں ’استوانہ عائشہ‘ (عائشہ رضی اللہ عنہا کا ستون) نامی ستون قائم ہے۔
بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ مردوں کی اجارہ داری کی وجہ سے، خواتین اور ان کے مسائل، تجربات اور علمی حوالے یا تو اسلامی تاریخ کے صفحات میں بہت کم محفوظ کیے گئے یا انہیں مکمل طور پر فراموش کر دیا گیا ہے۔ مزید برآں، قرآن و سنت کی تعبیر و تشریح اور ان کے عملی اطلاق اکثر مردوں کے تفسیری استحقاق کے ’رحم و کرم‘ پر رہے ہیں۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو ایک عورت کی پہچان صرف اس کے گھریلو پن اور مخفی ہونے سے ہی وابستہ رہی ہے۔ وہ مرد جو اپنے رب کی عبادت کرتے وقت مسجد کے تقدس سے محظوظ ہوتے ہیں، وہ عورتوں کو مسجد سے دور ہی رکھتے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ عورتوں کے وجود سے ان کی عفت و پاکدامنی پر ضرب پڑتی ہے۔ اس سے وسیع پیمانے پر عام مردانہ بیانیے اور عورت کی حیا و عصمت، احترام اور آزادی کے حوالے سے عمومی طور پر مقبول و معروف مفروضات کو تقویت پہنچتی ہے۔
کچھ وقت پہلے، ایک مقبول ڈجیٹل میڈیا چینل نے دہلی کی بعض مساجد کے ائمہ سے مسجدوں میں عورتوں کے نماز ادا کرنے سے متعلق ان کی رائے جاننی چاہی تھی، اس شو کے نتائج ہمیں جہالت بکنے والے بے سلیقہ مردوں کی وجہ سے شرمسار ہونے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ان بزعم خویش ایمان کے رکھوالوں میں سے ایک نے بھی اسلامی احکامات کے مطابق صحیح بات نہیں پیش کی بلکہ الٹا یا تو رسول اللہ ﷺ کی احادیث سے بے جا استدلالات کرتے رہے یا اپنی مرضی اور کلچر کی بات کرتے رہے۔
اسلام کی نشر و اشاعت میں خواتین کا کردار ایمان کا جزو تکمیلی ہے۔ اسلام کی آمد کے ابتدائی عہد میں بلکہ بعد کے دور میں بھی عورتیں مردوں کے ساتھ ہی مسجد میں نماز ادا کیا کرتی تھیں، جنگوں میں شریک ہوتی تھیں، زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں، تجارتی معاملات میں حصہ دار تھیں اور تعلیم میں قائدانہ کردار ادا کیا کرتی تھیں۔ خواتین اسلامی تاریخ کی رکھوالی اور تحفظ کا کام کرتی رہی ہیں، انہوں نے ماضی میں علم میں بڑا نام پیدا کیا اور فقہ، احادیث اور سیاسی تاریخ پر ان کا بہت اثر رہا۔ مساجد روحانی افزائش و ترقی کی جگہیں اور ان پر عورتوں کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کہ مردوں کا۔ اللہ رب العزت روحانی و اخلاقی ضروریات اور مساوات کے بارے میں بڑے قطعی اور مفصل انداز میں گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
“بےشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں مومن مرد اور مومن عورتیں فرماں برداری کرنے والے مرد اور فرمانبردار عورتیں راست باز مرد اور راست باز عورتیں صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں، عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں، خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں، روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں اپنی شرمگاه کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والیاں بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے اور ذکر کرنے والیاں ان (سب کے) لئے اللہ تعالیٰ نے (وسیع) مغفرت اور بڑاثواب تیار کر رکھا ہے۔” (الاحزاب 33:35(
حال ہی میں میں نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر خواتین کے سیکشن کی ایک ریل ڈالی تھی جس میں میں نے اپنے محلے میں ایسی مسجد ہونے پر خوشی کا اظہار کیا تھا جہاں عورتیں بھی جا سکتی ہیں، جس پر مجھے مردوں و عورتوں دونوں ہی کی جانب سے شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑا۔ اکثر لوگ جو بات نہیں سمجھتے وہ یہ کہ خواتین کو مساجد سے دور رکھنے کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ وہ انہیں ان کی روحانی ضروریات سے محروم رکھتے ہیں بلکہ تعلیمی، سماجی اور دیگر کئی سارے معاشرتی مسائل میں شمولیت کی ان کی صلاحیتوں کو بھی روند رہے ہیں۔
حق و راستی پر کلچر اور جہالت کی فوقیت نے عورتوں کو روحانی طور پر مایوس کر دیا ہے اور کئی خواتین خصوصاً مغرب میں دوسری انتہاؤں کی طرف چلی گئی ہیں۔ اگرچہ اسے دلیل نہیں بنایا جا سکتا لیکن ہم اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کر سکتے کہ جہالت، کلچر اور تعصب سے بھرے بعض مسلم علما کے غیر اسلامی رویے عورتوں کی ایک بڑی تعداد کو پنڈولم کے دوسرے سرے کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ وہ ماضی میں خواتین کی مذہبی حاکمیت، عقلی و فکری منصب اور مساجد میں ان کی شمولیت کو دفن کر کے ان کے کردار سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔
ایسا کوئی مذہب نہیں جس میں عورتیں اس قدر حاضر و موجود اور فعال و مستعد رہی ہوں جتنی وہ اسلام کے ابتدائی عہد میں تھیں ، پھر بھی یہ بڑی حرماں نصیبی کی بات ہے کہ ان کے بارے میں بہت کم سنا و بولا جاتا ہے اور ان کی کہانیاں ابھی تلک لوگوں تک نہیں پہنچی ہیں۔
قرآن نے عورتوں کو انقلابی اختیارات دیے، لیکن افسوس کہ فانی انسان نے ان سے یہ حقوق چھین لیے۔ صدیوں سے ہم نے ان کو معمولی یا نہ کے برابر نمائندگی دے کر ان پر طمطراق دکھایا ہے۔ اکیسویں صدی کے مردوں کے لئے ، ساتویں صدی میں بھی رسول اللہ ﷺ اپنے وقت سے بہت آگے تھے۔اکیسویں صدی کی خواتین کسی ایسی چیز کا مطالبہ نہیں کر رہی ہیں جو اسلام نے انہیں پہلے سے نہ عطا کیا ہو، پھر بھی اس کی وجہ سے بہت سے کان پھڑکنے لگتے ہیں کیونکہ ماضی کے مقابلے آج کی خواتین اپنے حقوق کو سمجھتی ہیں اور ان کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
خواتین سماج و معاشرے میں انقلابی تبدیلی کی مضبوط نمائندگان بن سکتی ہیں، وہ ایسی قائد و رہنما خواتین بن سکتی ہیں جو صدیوں سے پیدا شدہ روحانی فاصلوں کو پر کر سکیں، وہ محدثات، مجتہدات، حافظات، مفتیات اور تمام ہی اقسام کی عالمات و فاضلات بن سکتی ہیں، لیکن ایسا تبھی ہوگا جب ہم اس عہدِ رفتہ اور آج کی ملمع و مرصع صورتحال کے درمیان پائی جانے والی وسیع خلیج کو پاٹ دیں۔
تحریر نگار: نکہت فاطمہ