مشہور ومعروف مزاح نگار مجتبٰی حسین کی پیدائش١٥ جولائی ١٩٣٦ء اور وفات ٢٧ مئ ٢٠٢٠ءکو حیدرآباد میں ہوئی۔ ان کے والدِ محترم مولوی احمد حسین تحصیلدار کے عہدے پر فائز تھے ۔مولوی احمد حسین کو ادب سے گہرا شغف تھا اور اردو کے کلاسیکی شعراء کے بہت سے اشعار انہیں زبانی یاد تھے۔ مجتبٰی حسین کے ایک بڑے بھائی ابراہیم جلیس کا شمار صفِ اوّل کے ان چنندہ افسانہ نگاروں میں ہوتا تھا جنہیں کم عمر میں ہی بے پناہ شہرت ملی اور دوسرے بڑے بھائی محبوب حسین جگر روزنامہ “سیاست” حیدرآباد کے جوائنٹ ایڈیٹر تھے۔ اردو صحافت کو ایک نیا آہنگ اور اعتبار عطاء کرنے میں ان کی کوششوں کو بڑا دخل تھا۔ محبوب حسین نے ان گنت صحافیوں اور ادیبوں کی ذہنی تربیت کی تھی جن میں مجتبٰی حسین بھی شامل ہیں۔ گویا خاندانی پسِ منظر کے اعتبار سے مجتبٰی حسین کو ادب سے لگاؤ ورثے میں ملا تھا۔ مجتبٰی حسین نے ابتدائی تعلیم گلبرگہ میں ہی حاصل کی، ١٩٥٣ء میں گلبرگہ انٹرمیڈیٹ کالج سے انٹرمیڈیٹ اور ١٩٥٦ء میں عثمانیہ یونیورسٹی کے آرٹس کالج سے گریجویشن کی تعلیم مکمل کی تھی۔ طالبِ علمی کے زمانے میں ہی مجتبٰی حسین گلبرگہ انٹرمیڈیٹ کے بزمِ ادب اردو اور عثمانیہ یونیورسٹی آرٹس کالج بزمِ ادب کے انتخاب میں جنرل سکریٹری منتخب ہوئے تھے۔ بعد میں روزنامہ “سیاست” سے جڑ گئے اور جب ١٩٦٢ء میں روزنامہ “سیاست” کے مشہور کالم نگار شاہد صدیقی کا انتقال ہو گیا تو کالم لکھنے کے انتخاب میں قرعہ فال میں مجتبٰی حسین کا نام نکلا اور ان کے بڑے بھائی محبوب حسین جگر نے ان سے مزاحیہ کالم لکھنے کے لئے کہا، یہیں سے مجتبٰی حسین کی مزاح نگاری کا آغاز ہوا۔ ابتدا میں وہ کالم اپنے فرضی نام “کوہ پیما” سے لکھتے تھے جس کی شہرت اور مقبولیت دیکھتے ہی دیکھتے ارضی اور لسانی سرحدوں کو عبور کر گئی تھی۔ مجتبٰی حسین کو پدم شری ایوارڈ اور دس سے زائد دوسرے ایوارڈس سے نوازا گیا تھا۔
مجتبٰی حسین ہندوستان کے ان چند اہم اور خوش نصیب مزاح نگاروں میں سے تھے جن کی مزاح نگاری ابتداء ہی سے ادبی آب و رنگ سے آراستہ رہی۔ مجتبٰی حسین نے اپنی مزاح نگاری کا محرک اور مدّعا ہنسنا ہنسانا بتایا ہے لیکن ان کا تصوّر عظیم بیگ چغتائی، شوکت تھانوی اور دوسرے مزاح نگاروں کی تحریروں میں پایا جانے والا خندہ آوری کے تصوّر سے مختلف ہے۔ مجتبٰی حسین کی ہنسی وہ ہنسی ہے جو آنسوؤں کی ترادش سے پروان چڑھتی ہے ،جس کی آڑ میں بنی نوعِ انسانی کے المیوں اور محرومیوں کا اندوہناک احساس بیدار رہتا ہے۔ مجتبٰی حسین نے “قصّہ مختصر” میں لکھا ہے:
“بعض لوگ مزاح کی کیفیت کو بہت معمولی کیفیت سمجھتے ہیں حالانکہ سچّا مزاح وہی ہے جس کی حدیں سچّے غم کی حدوں کے بعد شروع ہوتی ہیں۔ زندگی کی ساری تلخیوں اور اس کی تیزابیت کو اپنے اندر جذب کر لینے کے بعد جو آدمی قہقہے کی طرف جست لگاتا ہے وہی سچّا اور باشعور قہقہہ لگا سکتا ہے”
اس کے علاوہ” تکلّف بطرف” میں لکھتے ہیں:
“ہنسنے کو ایک مقدس فرض جانتا ہوں اور قہقہہ لگانے کو دنیا کا سب سے بڑا ایڈونچر، زندگی کے بے پناہ غموں میں گھرے رہنے کے باوجود انسان کا قہقہہ لگانا ایسا ہی ہے جیسے وسیع سمندر میں بھٹکے ہوئے ایک جہاز کو اچانک کوئی جزیرہ مل جائے”
مجتبٰی حسین کی فنِ مزاح نگاری میں سماج کے دبے کچلے مجبور انسانوں کے لئے دردمندی کا احساس کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کے مزاحیوں میں ایسے کرداروں کی کثرت ہے جو منفرد، دلچسپ اور خندہ آور ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرے کی نمائندگی بھی کرتے ہیں جو ہر شہر، قصبے اور گاؤں میں مل جاتے ہیں۔ مثلاً “لوٹ پیچھے کی طرف” میں قاضی کا کردار بھی ہمارے معاشرے کا جانا پہچانا کردار ہے یا ” گریجوئیٹ درویش “جو لاکھوں بے روزگار نوجوانوں کے صحیفہ نفسیات کے اوراق کھول دیتا ہے، اس کے علاوہ” ڈاکٹر کا کتّا”میں نچلے متوسط طبقہ کی اندوہناک زندگی کی جھلکیاں صاف نمایاں ہیں۔
“دوستوں ! یہ ٹفن باکس اس کے منہ سے چھینو یہ میری عزت کا سوال ہے۔ اگر کُتّے نے اس ٹفن باکس کو کھول لیا تو میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہوں۔ آج تک دفتر میں کسی کو یہ پتہ نہیں ہے کہ میں سالن کے بغیر ہی ایک چپاتی ٹفن باکس میں ڈال کر لاتا ہوں پھر یہ اکلوتی چپاتی بھی اس قابل نہیں ہے کہ اسے ڈائرکٹر صاحب کا کُتّا کھا سکے “
اس میں نوکر، شاہی نظام اور کلرک کی ذہنیت کا جو مرّقع پیش کیا گیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
موجودہ دور کے انسان کی تڑپ، سماج کے مجبور ومحکوم اور پریشان حالوں کے دکھ کا احساس ان کے مزاح کے پردے میں پوشیدہ ہے۔ ” تکلّف بر طرف ” سے “قصہ مختصر ” تک کے مزاحیوں کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی ہیرو مختلف روپ، مختلف چہرے اور کئی طرح کے لباس میں ملبوس نظر آتا ہے۔ مجتبٰی حسین کے مزاحیوں میں جو ظریفانہ منظر آوری ہے وہ قاری کے ہونٹوں کو تبسّم سے ہمکنار تو رکھتی ہے لیکن اس میں وہ معنی خیزی کی کیفیت بھی پیدا کر دیتی ہے جس سے انجام ڈرامائی ہونے کے ساتھ ساتھ المناک بھی ہوتا ہے، مثلاً “کیلنڈر جمع کرنے والے” کی آخری سطریں:
“سچ تو یہ ہے کہ میں بھی کیلنڈروں کو جمع کرنے کا شوقین ہوں مگر میں کیلنڈر کے صرف ایک ہی تاریخ دیکھتا ہوں اور وہ ہے پہلی تاریخ۔ اس تاریخ کو میں نہیں میری بیوی بھی دیکھتی ہے میں اس لیے دیکھتا ہوں کہ اس دن مجھے تنخواہ ملتی ہے اور میری بیوی اس لئے دیکھتی ہے کہ اس دن وہ میری تنخواہ کو مجھ سے چھین لیتی ہے۔ مگر صاحب کبھی کبھی میں سوچتا رہتا ہوں کہ صرف ایک تاریخ کو دیکھنے کے لیے سالم کیلنڈر کو دیوار پر لگانے کی کیا ضرورت ہے”
اس کے علاوہ” یہ رکشے والے ” میں رکشے چلانے والوں کی مشکل زندگی کا نقشہ کھینچا ہے جنہیں سارا دن محنت کرنے کے بعد بھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں ملتا۔
ایک بار کسی صاحب نے رکشے والے سے کرایہ پوچھا، رکشے والے نے آٹھ آنے بتایا تو صاحب کہنے لگے بس کا کرایہ تو صرف دس پیسے ہوتا ہے۔ اس پر رکشے والا جواب دیتا ہے :
“جی! دس پیسے ہوتا ہے، مگر آپ نے غور نہیں فرمایا کہ بس پیٹرول سے چلتی ہے اور رکشا خون سے چلتا ہے! خون سے۔۔!
یہ جملہ کہتے ہوئے رکشا والے کی آنکھوں میں سرخی دوڑ گئی۔
حالاتِ حاضرہ میں ہر شخص آلام ومصائب میں گرفتار ہے۔ غمِ جاناں کا دکھ ایک طرف تو غمِ دوراں کی فکر دوسری طرف ،ایسے میں مجتبٰی حسین کے مضامین تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی لیکن اپنے قاری کو ہنسنے اور قہقہہ لگانے پر مجبور کر دیتے ہیں، یہی ان کی مزاح نگاری کا باکمال وصف ہے۔ مجتبٰی حسین ہنسنے ہنسانے کو دنیا کا سب سے بڑا ایڈونچر سمجھتے ہیں۔ “قطع کلام” میں وہ لکھتے ہیں:
“سچ پوچھیئے تو موجودہ حالات میں ہنسنا بڑے دل گُردے کا کام ہے۔ جب بھی دنیا کے کسی حصّہ میں قتل و غارت گری کی خبریں پڑھتا ہوں، نسلی اور فرقہ وارانہ فسادات کا ذکر سنتا ہوں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے صدیوں کا ذہنی سفر کرنے کے باوجود انسان ابھی تک ہنسنے کا اہل نہیں بن سکا، اگر وہ ہنستا بھی ہے تو اس کی ہنسی بڑی پُرآشوب ہے، بڑی بھیانک ہے۔ آج کے انسان کی ہنسی کا المیہ یہ ہے کہ اس کی ہنسی کبھی آنسو بن کر آنکھ سے ٹپک پڑتی ہے اور کبھی آہ بن کر فضا میں تحلیل ہو جاتی ہے۔ نہ جانے ہر قہقہے کے پیچھے مجھے تلخیوں، ناآسودگیوں اور محرومیوں کے آنسو کیوں نظر آتے ہیں لیکن اس کے باوجود میں ہنسنے کا قائل ہوں “
“تکیہ کلام ” میں لکھتے ہیں ہمارے ایک دوست کو عرصہ سے بلڈپریشر کی شکایت تھی۔ جب وہ بستر پر سو جاتے تو ان کا بلڈپریشر آسمان سے باتیں کرنے لگتا۔ تو ایک حکیم صاحب کی خدمات حاصل کیں حکیم صاحب نے بغور معائنہ کیا۔ زبان اتنی بار نکلوائی کہ وہ ہانپتے لگے۔ مگر اسی اثناء میں حکیم صاحب کی نظر تکیہ پر پڑی اور وہ تکیہ کی جانب لپکے، شعر کو غور سے پڑھا اور تنک کر بولے۔
“اس تکیہ کو ابھی یہاں سے ہٹائیے۔بلڈپریشر کی اصل جڑ تو یہ تکیہ ہے۔ واہ صاحب واہ! کمال کردیا آپ نے۔ آپ کو بلڈپریشر کی شکایت ہے اور آپ نے شاعرِانقلاب حضرت جوش ملیح آبادی کا شعر تکیہ پر طبع کروا رکھا ہے۔ جانتے ہیں جوش کی شاعری میں کتنا جوش ہوتا ہے۔ خبر دار جو آئندہ آپ نے جوش کے تکیہ پر سر رکھا۔ اگر شعروں (پر) سونا ایسا ہی ضروری ہے تو داغ کے غلاف پر سو جائیے، جگر کے غلاف کو اپنے سر کے نیچے رکھئیے۔ ان شعراء کا کلام آپ کے بلڈپریشر کو کم کردےگا۔ آپ کو فرحت ملے گی، بھوک زیادہ لگے گی، آپ کے جسم میں خون کی مقدار میں اضافہ ہوگا وغیرہ وغیرہ”
” چاند اور آدمی” کی اس عبارت کو پڑھ کر حالاتِ حاضرہ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
“مگر مجبوریوں کے باوجود آدمی پر چاند میں جانے کا خبط سوار ہو گیا ہے۔ ایک بچّے سے ہم نے پوچھا “بیٹا! تم چاند پر کیوں جانا چاہتے ہو؟” وہ بولا! اس لئے کہ چاند میں اسکول نہیں ہیں۔ “
ایک صاحب سے پوچھا آپ کیوں چاند میں جانا چاہتے ہیں؟” وہ بولے: “جناب! میں ایک ریٹائرڈ کانگریسی ہوں، اس دھرتی پر رہ کر کیا کروں، چاند میں جاؤں گا تو کم از کم وہاں گاندھی جی کی تعلیمات کو عام کرنے کی کوشش کروں گا۔ زمین پر تو اب ان تعلیمات کو عام کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ “
مجتبیٰ حسین ایک ایسے مزاح نگار ہیں جن کا تخلیق کردہ ہر کردار خواہ باورچی ہو یا مالک، رکشا چلانے والا ہو یا رکشا سوار، ڈاکٹر ہو یا مریض، موچی ہو یا لکھ پتی سب کے مسائل کو دردمندانہ دل سے دیکھتے اور ان کی تکلیف میں خود بھی شریک ہوتے ہیں ان کی تحریروں کو پڑھ کر ہم ان کو اپنی شب وروز کی زندگی میں اپنا ہمسفر پائیں گے جس کا اندازہ ان کے اس جملے سے لگایا جاسکتا ہے۔
“سورج خوش قسمت ہے کہ اسے صرف ایک ہی صورت میں گہن لگتا ہے۔ یعنی جب چاند سورج اور زمین کے درمیان آجاتا ہے۔ مگر ہم ایسے سیّارے ہیں جن کے اطراف ہزاروں سیّارے گردش کرتے رہتے ہیں”