عیدالاضحیٰ کا اصل پیغام

0

اس وقت ہم ذی الحجہ کے مبارک ایام سے گزر رہے ہیں۔ حاجیوں کے قافلے پروانوں کی مانند اللہ کے گھر کے گرد جمع ہیں۔ یہ مبارک ایام یعنی کہ ذی الحجہ کے یہ دن نہایت اعلیٰ و عرفہ اور پاکیزہ جذبات کی ایک طاقتور موج (powerful wave) لے کر آتے ہیں۔ خدا کے عشق کا جذبہ، اس کی محبت کا جذبہ،‌جان نثاری کا جذبہ، اس کی چوکھٹ پر ماتھا ٹیک کر اپنے پورے وجود کو اپنی ہر چیز کو اس کے حوالے کر دینے کا جذبہ، صرف اس کے ہو کر رہنے اور اس کی خاطر زندگی گزارنے کا جذبہ۔

میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفراز
میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی

یہ مومنانہ جذبات جو ذی الحجہ کے یہ مبارک ایام اپنے جلو میں لے کر اتے ہیں یہ ایک بندہ مومن کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ یہ پاکیزہ جذبات ہمارے قلب اور دماغ میں رچ بس جائیں۔ ہمیشہ زندہ رہیں اور ہماری شخصیتوں کی، ہماری زندگیوں کی تعمیر ان ہی مبارک جذبات کی اساس پر ہو۔ عید الاضحی سے پہلے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے اسوه، ایثار و قربانی، حنفیت ان سب حوالوں سے باتیں ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں۔ میں آج، عید الاضحی کے ایک اور بڑے اہم پہلو پر کچھ روشنی ڈالنا چاہتا ہوں۔

حضرت ابراہیم: صاحب دعوت و عزیمت

عید کے تہوار کے مقاصد:

“لَنْ یَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰـكِنْ یَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْؕ-كَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْؕ-وَ بَشِّرِ الْمُحْسِنِیْنَ”۔

اللہ کے ہاں ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں اورنہ ان کے خون، البتہ تمہاری طرف سے پرہیزگاری اس کی بارگاہ تک پہنچتی ہے ۔ اسی طرح اس نے یہ جانور تمہارے قابو میں دے دئے تا کہ تم اس بات پر اللہ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت دی اور نیکی کرنے والوں کو خوش خبری دیدو۔

سورة الحج کی ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے جانوروں کی قربانی کا ایک بڑا اہم مقصد بیان کیا ہے۔ اللہ تعالی نے جانوروں کو ہمارے لیے مسخر کیا، ان کو ہمارے کنٹرول میں دیا اور ہمیں ان پر کنٹرول عطا کیا۔ یہ اللہ تعالی کا احسان ہے۔ اور قربانی کے ذریعہ ہم اللہ کے اس احسان ، بخشش پر اس کی تکبیر بیان کریں اور اُس کی بڑائی کا اعلان کریں۔ قران مجید کے مطابق، عیدین کی اصل روح اور عیدین کا اصل فلسفہ “التكبر الله على ما هداكم” کا فلسفہ ہے۔ یعنی کہ اللہ کی تکبیر، اس کی بڑائی بیان کرنا۔عید الفطر کے بارے میں بھی قرآن میں یہی کہا گیا ہے کہ “التكبر الله على ما هداكم”۔  اللہ کی تکبیر بیان کرنا ہی اس عید کا مقصد ہے۔ لیکن وہاں تکبیر کا تعلق قرآن مجید، اللہ کی ہدایت سے تھا۔ تکبیر اس لئے کہ “شهر رمضان الذي انزل فيه القران” یعنی کے اللہ تعالیٰ نے اس مہینہ میں قرآن نازل کیا تھا۔ عید الفطر میں اللہ کی تکبیر اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے کتاب ہدایت بخشی ہے۔

اور یہاں عید الاضحٰی میں بھی تکبیر بیان کرنا ہی مقصد ہے لیکن تکبیر اس لئے کے اللہ تعالیٰ نے وسائلِ کائنات کو ہمارے لیئے مسخر کیا ہے۔ کائنات کے resources  پر ہمیں کنٹرول عطا کیا ہے۔ اس طرح ہم دیکھیں تو اسلام کے یہ دو عظیم تیوہار یعنی کہ عیدین یہ ایک بندہ مومن کی پوری زندگی کی تصویر پیش کرتے ہے۔ بندہ مومن کو اللہ نے دو عظیم نعمتیں عطا کی ہے۔ کائنات کے وسائل اُس کے لئے مسخر کئے اور ہدایت و رہنمائی کی کتاب اُسے عطا کی۔ دونوں نعمتوں کا تقاضہ ہے کہ مسلمان اللہ کا شکر ادا کریں، اس کی بڑائی بیان کریں۔ جو قوتیں اللہ نے مسخر کی ہیں ، اللہ کي ہدایت و قرآن کے مطابق ان قوتوں کا استعمال کریں۔ اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے تھامے رکھیں اورمسخر کی ہوئی قوتوں سے کام لیں۔ اور  دو کام انجام دیں۔

پہلا، اعلاء كلمة الله یعنی اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے کا کام۔ جیسے دونوں عیدوں میں تکبیر کی صدائیں ہم مسلسل لگاتے رہتے ہیں۔ اور دوسرا، اللہ کی رہنمائی کےمطابق اللہ کی مخلوق کو فائدہ پہنچانے کا کام۔ عید الفطر میں صدقہ فطر کے ذریعے ہم یہ کام کرتے ہیں۔ اور عید الاضحٰی میں قربانی کا گوشت تقسیم کر کے یہ کام کرتے ہیں۔

مذکورہ بالا سورہ حج کی یہ آیات قربانی کی آیت کہلاتی ہے۔ اس قربانی کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے جانوروں کے بارے میں جو بات کہی ہے وہی بات اللہ تعالیٰ نےقرآن مجید میں جگہ جگہ کائنات کے مختلف وسائل کے بارے میں کہی ہے۔ بلکہ قرآن مجید میں 23 دفعہ یہ تذکرہ ہے کہ اللہ تعالی نے اِس universe کی مختلف چیزوں کو انسانوں کے لئے مسخر کیا ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے اپنے انعام اور احسان کے طور پربیان کیا ہے۔

وسائل کو انسانوں کیلئے مسخر کرنے کا کیا مطلب ہے؟

مفسرین قرآن نے اس کے دو مطلب بیان کیے ہیں. پہلا مطلب یہ کے بعض جگہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ –

” وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَائِبَيْنِ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ”.

اور اللہ نے تمہارے فائدہ کے لئے سورج اور چاند کو (با قاعده ایک نظام کا) مطیع بنا دیا جو ہمیشہ (اپنے اپنے مدار میں) گردش کرتے رہتے ہیں، اور تمہارے (نظامِ حیات کے) لئے رات اور دن کو بھی (ایک نظام کے) تابع کر دیا۔

“وَسَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الأرْضِ جَمِيعًا”

 اور جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب کا سب اپنی طرف سے تمہارے کام میں لگادیا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالی نے چاند، سورج اور کائنات کی تمام چیزوں کو ایسے قوانین کا پابند بنایا کہ وہ انسانوں کے فائدے کے لیے کام کرتے ہیں. سورج کبھی اتنا گرم نہیں ہوتا کہ ہم سارے انسان جل کر مر جائیں اور کبھی اتنا سرد نہیں ہوتا کہ سردی سے زندگی ٹھٹر کر رہ جائے۔ ایک خاص رینج میں وہ گرمی اور سردی پیدا کرتا رہتا ہے تاکہ انسان ہر موسم کا لطف اٹھائے، ہر طرح کے ارگنزمز (organisms) پیدا ہوں۔ سائنس کے طلباءجانتے ہیں کہ بعض ارگنزم (organisms) جو انسان کے لیے مفید ہے وہ شدید گرمی ہی میں پیدا ہو سکتے ہیں اور کچھ شدید سردی ہی میں پیدا ہو سکتے ہیں۔ طرح طرح کے پھل اور دیگر ایگری کلچرل پروڈکٹس (agricultural products) کے لیے یہ موسم ضروری ہیں۔ سورج ایک خاص رینج میں سرد اور گرم ہوتا رہتا ہے۔ تو یہاں شکر کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم فطرت کے قوانین (laws of nature) کو معلوم کریں تاکہ ان وسائل کا بہتر سے بہتر استعمال ہو سکے۔

 دوسرا مطلب یہ ہے کہ بعض چیزیں ایسی ہیں جن پر انسان کو اللہ تبارک و تعالی نے مکمل کنٹرول عطا کیا ہے۔ تو تسخیر کا مطلب یہ ہوا کہ ان چیزوں کا مکمل چارج حاصل کیا جائے، انہیں زیادہ سے زیادہ فائدہ مند بنایا جائے۔ انگریزی میں اسے “harnessing the natural resources” کہتے ہیں۔ تو ان چیزوں کو harness کیا جائے۔ یہ کام علم، صلاحیت، ٹیکنالوجی چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح جانوروں پر control عطا کیا اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے-

 ” وسخر لكم الفلك لتجري في البحر بأمر “

اور تمہارے لیے کشتی کو مسخر کیا کہ اس کے حکم سے دریا میں چلے اور تمہارے لیے ندیاں مسخر کی۔

اسی طرح، قرآن نے کشتی کا، جانوروں کی سواری کا ذکر کرتے ہوئے حکم دیا-

 تَذْكُرُوا نِعْمَةَ رَبِّكُمْ إِذَا اسْتَوَيْتُمْ عَلَيْهِ وَتَقُولُوا سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ”

اور جب ان پر بیٹھو تو اپنے رب کا احسان یاد کرو اور کہو کہ پاک ہے وہ جس نے ہمارے لیے ان چیزوں کو مسخر کر دیا ورنہ ہم انہیں قابو میں لانے کی طاقت نہ رکھتے تھے.

“وَهُوَ الَّذِي سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَأْكُلُوا مِنْهُ لَحْمًا طَرِيًّا وَتَسْتَخْرِجُوا مِنْهُ حِلْيَةً تَلْبَسُونَهَا وَتَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِيهِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ”۔

اور وہی تو ہے جس نے دریا کو تمہارے اختیار میں کیا تاکہ اس میں سے تازہ گوشت کھاؤ اور اس سے زیور (موتی وغیرہ) نکالو جسے تم پہنتے ہو۔ اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں دریا میں پانی کو پھاڑتی چلی جاتی ہیں۔ اور اس لیے بھی (دریا کو تمہارے اختیار میں کیا) کہ تم خدا کے فضل سے (معاش) تلاش کرو تاکہ اس کا شکر کرو۔

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اِس تسخیر کو،  اس harnessing کو، اس control کو اپنا احسان قرار دیا ہے، اپنی آیت (نشانی) قرار دیا اور حکم دیا کہ اس پر اللہ کا کر شکر ادا کریں۔ شکر کا ایک تقاضہ یہ بھی ہے کہ اللہ کے نعمتوں کو استعمال میں لایا جائے۔ اُنہیں اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا جائے۔ اور اللہ کے دوسرے بندوں کے لئے انہیں فائدہ مند بنایا جائے۔  اگر میرا کوئی دوست مجھے کوئی مہنگا تحفہ دے اور میں اسے لے کر دریا میں پھینک دوں تو یہ میرے دوست کی توہین ہو گی اور اگر میں اسے لے کر گھر میں رکھ دوں اور استعمال نہ کرو تو یہ بھی میرے دوست کی توہین ہو گی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے دنیا کے یہ وسائل ہمارے لیے بنائے ہیں، یہ تمام وسائل ہمیں بطور تحفہ عطا کیے ہیں تاکہ ہم ان کو اپنے اور دوسرے انسانوں کے لیے فائدہ مند بنا سکیں۔ جس طرح قربانی کے جانور کو فائدہ مند بنایا جاتا ہے۔

ان وسائل کو کیسے استعمال میں لائے؟

عیدالاضحیٰ میں ہمیں ان وسائل کو استعمال کرنے کا سلیقہ بھی بتایا گیا ہے۔ ہم اللہ کے  خاطر جانور کو قابو میں کرتے ہیں، پھر اللہ کا نام لیتے ہیں اور اپنے دل میں یہ جذبہ پیدا کرتے ہیں کہ ’’إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ” میری نماز، میری قربانی، میرا جینا مرنا سب اللہ کے لیے ہے۔

اور پھر کہتے ہیں کہ ’’اللَّهُمَّ هَذَا مِنْكَ وَلَكَ هَذَا عَنِّي”

اے اللہ! یہ صرف تیرا ہی لیئے ہے، تیرا ہی دیا ہوا مال اور تیرے ہی دربار میں حاضر ہے۔ اس اعلان کے ساتھ ہم جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔ پھر اس کے تین حصے بناتے ہیں ایک حصے سے خود فائدہ اٹھاتے ہیں، ایک حصہ دوسرے انسانوں میں تقسیم کرتے ہیں اور ایک حصہ خاص ان لوگوں کے لیے مختص کرتے ہیں جو اللہ کے محروم، غریب بندے ہیں، جو وسائل سے محروم اور پریشان حال ہیں۔  تو یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ یہی کام دنیا کے سارے وسائل کائینات کے ساتھ کیا جائے۔ یہی اپروچ دیگر وسائل کے معاملے میں بھی اپنائی جائے۔ تمام وسائل پر ہم قدرت حاصل کریں اور  انہیں اپنے چارج میں لیں۔ ان پر اللہ کا نام لے۔ ان کے استعمال کو اللہ کی مرضی کا پابند بنائیں اور اللہ کی مرضی کے تحت انسانوں کے فائدے کے لیے انہیں استعمال کرے تاکہ دنیا کے مجبور اور غریب انسان ان وسائل سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے، اور انکے مسائل حل ہو۔ اسکی سنجیده کوشش کریں۔

اسی لیے قرآن مجید میں سورہ حج کی ان آیتوں میں جہاں قربانی کا ذکر آیا ہے وہی عید الاضحی اور قربانی کا مقصد بھی بیان کیا گیا ہے۔  گویا عید الاضحی کا ایک اہم پیغام “تسخیر” (harnessing the  natural resources) اور “تکبیر” (proclamation of the greatness of Allah) کا امتزاج ہے۔ ہمارے بزرگوں نے اسلام کے روشن دور میں یہی کام کیا تھا۔ آج ہم مسلمان سائنسدانوں کے بارے میں پڑھتے ہیں۔ دراصل انہوں نے تسخیر اور تکبیر کو ملا دیا تھا۔ یا جو لوگ اللہ کی بڑائی بیان کرتے تھے اللہ کی طرف دعوت دیتے تھے وہی لوگ آبزرویٹریز(observatories) قائم کرتے تھے۔ وہی لوگ طرح طرح کی چیزیں ایجاد کرتے تھے۔ وہی لوگ نت نئے علوم و نت نئے فنون کی بنا ڈالتے تھے۔ تمام انسانوں کی فلاح اور بہبود کے لیے، اللہ کے دیئے ہوئے وسائل کو استعمال میں لآتے تھے۔

سائنسی تحقیق (طریقے اور وسائل)

آج کی دنیا کا سب سے بڑا بحران (crisis) یہی ہے کہ “تسخیر” اور “تکبیر” الگ الگ ہو گئے ہیں. جنہوں نے تسخیر حاصل کی، جنہیں کائنات کے وسائل پر قابو حاصل ہوا، جنہوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں کمال حاصل کیا وہ تکبیر سے یعنی اللہ سے غافل ہوگئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ کی بخشی ہوئی عظیم طاقت دنیا میں فتنہ و فساد کا ذریعہ بن گئی۔ اللہ نے صلاحیت بخشی تھی کہ انسان ذرہ (atom) کو چیر کر اس کے اندر موجود بےپناہ طاقت کو انسان کے فائدے کے لیے استعمال میں لاے۔لیکن جب تسخیر تکبیر سے الگ ہو گئی تو یہ ایٹمیک اینرجی انسان کی تباہی کا ذریعہ بن گئی۔

آج بھی دنیا کے بڑے ملکوں میں بہترین انجینئر و سائنسداں سب سے پہلے ڈیفینس کے شعبوں میں جاتے ہیں ۔سب سے زیادہ ریسرچ اور ٹیکنالوجیکل انوویشن ڈیفینس کے شعبے میں ہوتا ہے۔سب سے زیادہ پیسہ ڈیفینس میں خرچ ہوتا ہے ۔اس طرح دیکھیں تو اللہ کی دی ہوئی طاقت دنیا میں تباہی کے لیے اور ایک دوسرے کی مار کاٹ کے لیے استعمال ہو رہی ہے ۔دوسری طرف بڑی بڑی استعماری طاقتیں ان وسائل پر قبضہ کر کے انسانوں اور ان کی صلاحیتوں کو خرید کر کے صرف چند افراد کی luxuries اور ان کے فائدے کے لیے ان بڑے وسائل کا استعمال کر رہی ہے۔زیادہ سے زیادہ لگژری کی ہوس نے انسانوں کو جانور بنا دیا ہے۔ ماحولیاتی بحران پیدا کر دیا ہے۔ ہماری ہوا اور پانی کو زہر بنا   کر،  ہماری آنے والی نسلوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال دی گئی ہیں۔ یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ ‘تسخیر’ اور ‘تکبیر’ الگ الگ ہو گئے ہیں۔

دوسری طرف جو لوگ “تکبیر” سے جڑے ہیں، اہل ایمان ہیں، اللہ کا نام لیتے ہیں وہ تعلیم میں پیچھے ہو گئے، ٹیکنالوجی میں پیچھے ہو گئے، انہوں نے اپنی تاریخ کا سبق بھلا دیا، دنیا کو بہتر بنانا، اللہ کے دئے ہوئے وسائل کو استعمال کر کے انسانی زندگی کو آسان بنانا انسانوں کے مسائل کو حل کرنا یہ کام انہوں نے چھوڑ دیا تو یہ بھی دنیا کی خرابی اور فساد کا ایک سبب ہے۔ آپ دیکھیں گے تو پائیں گے کہ قران مجید میں اللہ نے انبیاء کے مشن کا ذکر کرتے ہوئے بھی نیچرل ریسورسز کا ذکر کیا ہے۔

“لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۖ وَأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ ۚ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ”

بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو روشن دلیلوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور عدل کی ترازو اتاری تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں اور ہم نے لوہا اتارا، اس میں سختی (لڑائی کا سامان )ہے اور لوگوں کے لئے فائدے ہیں اور تاکہ اللہ اس شخص کودیکھے جو بغیر دیکھے اللہ اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے، بیشک الله قوت والا، غالب ہے۔

پہلے اللہ تعالی نے انبیاء کے مشن کا ذکر کیا اور پھر فرمایا کہ ہم نے لوہا اتارا۔ لوہا کیا ہے؟ لوہا ٹیکنالوجی کا سمبل یعنی علامت ہے۔ وہ ڈیفنس اور ویلفیئر ٹیکنالوجی کا سمبل ہے۔ اور اللہ تعالی نے اسکو انبیاء کے مشن سے جوڑا ہے۔

عید الاضحی کا پیغام:

میں خاص طور پر نوجوانوں کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ عید الاضحی کا ایک بڑا پیغام یہ ہے کہ “تسخیر” اور “تکبیر” مل جائیں ۔جس طرح بندہ مومن جانور پر کنٹرول حاصل کرتا ہےاور اسے اللہ کے نام پر قربان کرتا ہے اور اپنے لیے، دوسرے انسانوں کے لیے اور اللہ کے غریب اور محروم بندوں کے لیے استعمال میں لاتا ہے ٹھیک اسی طرح ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ اللہ تعالی نے زمین اور اسمان کے جو وسائل ہمارے لیے مسخر کی ہیں ان پر بھی کنٹرول حاصل کریں اور ان کا چارج لیں۔ ہم اعلیٰ تعلیم حاصل کریں، ٹیکنالوجی میں کمال حاصل کریں، ٹیکنالوجی کو انسانوں کے لیے مفید بنائیں، انسانوں کے مسائل کے حل کا انھیں ذریعہ بنائیں۔ جانور کی طرح اللہ نے ہمارے لیے   electricity  کو مسخر کیا ہے۔ جس طرح ہم جانور پر کنٹرول حاصل کرتے ہیں اسی طرح الیکٹرسٹی پر ، پانی پر،  ہوا پر ،energy پر، الیکٹران، پروٹون، نیوٹران پر، جنین پر، خلیات پر، بیکٹیریا اور وائرس پر ہر چیز پر اپنے علم  اور صلاحیتوں کے ذریعے کنٹرول حاصل کریں اور پھر انہیں اللہ کی مرضی کے مطابق استعمال کریں۔ انسانوں کے فائدے کے طریقے سوچیں۔ ہر چیز کے استعمال میں یہی تصور رکھیں کہ

 ’’اللَّهُمَّ هَذَا مِنْكَ وَلَكَ هَذَا عَنِّي”

اے اللہ! یہ صرف تیرا ہی لیئے ہے، تیرا ہی دیا ہوا مال اور تیرے ہی دربار میں حاضر ہے۔

وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا ۖ

اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھول۔

ہمیں دنیا سے اپنا حصہ نہیں بھولنا چاہیے۔ خوب اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ صلاحیتیں  پیدا کرنی چاہیے۔ اور اللہ نے جو وسائل ہمارے لیے بنائے ہیں ان کا چارج لے کر انہیں استعمال کرنا چاہیے۔ یہ کام صرف دنیا کا کام نہیں بلکہ دین کا کام ہے۔ خدا کے سامنے جواب دہی کا احساس انسان کو ذمہ دار بناتا ہے اسی لیے اپنے علم سے کیمیکلز پر کنٹرول حاصل کریں۔ اپنے علم، اپنے ٹیلنٹ سے ان وسائل پر قابو حاصل کیجیے اور انسانوں کے مسائل کا حل تلاش کیجئے۔ کینسر کا علاج ڈھونڈئیے، سیلاب کا مسئلہ حل کیجیے۔  نارتھ ایسٹ میں ہر سال سیلاب سے جانیں جاتی ہیں اس کا حل تلاش کیجیے، climate change کہ مسئلے کا حل تلاش کیجئے، دلی کے آلودگی کا مسئلہ حل کیجیے۔  آج بھی کروڑوں انسانوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے اس کا حل تلاش کیجیے۔ تسخیر اور تکبیر الگ ہو گئے تو سارے دماغ لڑنے بھڑنے اور چند انسانوں کی luxuries کے لئے ٹیکنالوجی کے استعمال کی ایجاد میں لگے ہیں۔ آپ اٹھیں گے تکبیر اور تسخیر کے امتزاج، اور جذبہ کے ساتھ تو انسانوں کے حقیقی مسائل کا حل تلاش کرنے کا کام کریں گے۔

اسی لیے اس عید الاضحی پر جب آپ قربانی کا جانور قربان کرنے کے لئے اٹھیں  تو یہ ضرور سوچیں کہ جس طرح اللہ تعالی نے یہ جانور ہمارے کنٹرول میں دیا ہے اسی طرح اس دنیا کے وسائل کو بھی ہمارے کنٹرول میں دیا ہے۔ جس طرح ہم نے اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لئے جانور کو اپنے چارج لیا ہے اسی طرح آپنے علم سے، اپنی ذہانت سے، اپنی creativity سے ہم دنیا کے وسائل کا بھی چارج لیں گے۔ جس طرح ہم جانور پر اللہ کا نام لے رہے ہیں انشاءاللہ سارے وسائل کائنات کو بھی اللہ کا تابع بنائیں گے۔ اور جس طرح جانور کو انسانوں اور غریبوں کے لیے فائدے مند بنا رہے ہیں اسی طرح تمام وسائل جیسے ہوا، پانی،electricity ،energy وغیرہ  کو تمام انسانوں اور غریبوں کے مسائل حل کرنے کے لیے مفید بنائیں گے۔

 جس طرح اللہ قرآن میں فرماتا ہے –

” كَذَٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُواْ ٱللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَىٰكُمْ ۗ وَبَشِّرِ ٱلْمُحْسِنِينَ”

اسی طرح اس نے یہ جانور تمہارے قابو میں دیدئیے تا کہ تم اس بات پر اللہ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت دی اور نیکی کرنے والوں کو خوشخبری دیدو۔

ایسے ہی احسان کرنے والوں کے لیے بشارت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں محسنوں میں شمار فرمائے۔

-سید سعادت الله حسینی

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights