ما لک بن نبی 1905 میں الجزائر کے شہر قسنطینہ میں پیدا ہوئے اور 1973 میں اپنے آبائی وطن الجزائر میں وفات ہوئی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد الجزائر کے بااثر علماء، مفکرین، ادیبوں اور سماجی فلسفیوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ مالک بن نبی تاریخ، فلسفہ اور سماجیات کے میدان میں ایک امتیازی مقام رکھتے ہیں، انہوں نے پیرس اور الجزائر سے انجینئرنگ کی بھی تعلیم حاصل کی۔ ان کی تحریریں مختلف اخبارات و جرائد میں شائع ہوتی رہی ہیں ۔ ان کی ایک کتاب ۱۹۴۰ کی دہائی میں بہت زیادہ مقبول ہوئی اور فرانسیسی تعلیم یافتہ طبقہ میں بہت ہی زیادہ چرچہ میں رہی تھی، بطور خاص ان لوگوں کے درمیان جو بنیاد پرست سمجھے جاتے تھے اور۱۹۶۰ سے ۱۹۷۰ کے درمیان الجزائر یونیورسٹی سے وابستہ تھے۔
مالک بن نبی کی دلچسپی کا بنیادی مرکز و محور امت مسلمہ کے زوال کے اسباب اور ان کا حل ہے ۔اپنی تحریروں میں انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مذہب کس طرح انسان کی انفرادی زندگی اور سماجی تنظیم میں اثر انداز ہوتا ہے۔ مالک بن نبی ابن خلدون (1332-1406) اور آرنلڈ ٹائن بی (1889-1975) سے بہت زیادہ متاثر تھے ۔انہوں نے تاریخ، سماجیات اور نظریہ تہذیب کے شعبے میں بھی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ اپنی تحریروں میں وہ خصوصاً اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ مسلمان ایک لمبی مدت تک دنیا میں نمایاں مقام رکھتے تھے لیکن اس کے بعد مسلمانوں نے زوال اور شکستہ ذہنیت کے ساتھ جینا شروع کر دیا اور اس شکست خوردہ ذہنیت کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا سبب اسلام نہیں بلکہ خود مسلمان ہیں ۔انہوں نے اپنے نظریہ تہذیب میں مسلمانوں سے وابستہ اس قسم کے مسائل اور دشواریوں کی وجوہات اور ان کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔
مسلم قوم کیوں زوال پذیر ہوئی؟ نظریہ تہذیب کیا ہے؟ اور مسلم دنیا کے جدید مسائل سے نپٹنے کے لیے کیا حل ہو سکتے ہیں؟ یہ کچھ سوالات ہیں جن کا مالک بن نبی نے جواب دینے کی کوشش کی ہے۔
استعمار اور استعماریت پر مالک بن نبی کا موقف
جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ مالک بن نبی کا زیادہ تر کام نظریہ تہذیب پر ہے، لہذا تہذیبی تصور پر زور دیتے ہوئے انہوں نے اس کو دو مستقل نظریوں میں تقسیم کیا ہے۔ ان میں سے ایک نوآبادیاتی ہونا یعنی نوآبادیات کے قابل ہونا (colonisibility) اور دوسرا خود نوآبادیت (colonialism) ہے۔ انہوں نے ان دونوں تصورات کو امت مسلمہ کے زوال کی وجوہات کے تناظر میں پیش کیا ہے۔
پہلی قسم نوآبادیات کی ہے اور یہ داخلی عوامل پر مشتمل ہے ، جومسلم دنیا سے پیدا ہوتے ہیں ۔ دوسری قسم استعماریت ہے،یہ اندرونی عوامل پر منتج ہونے والے وہ خارجی عوامل ہیں جن کو مسلم دنیا پر مسلط کیا گیا۔ اندرونی عوامل میں اخلاقیات، معاشرت، تعلیم، معیشت اور سیاست شامل ہیں، جبکہ خارجی عوامل انحراف، ذلت اور تباہی پر مشتمل ہیں۔ مالک بن نبی نے بیان کیا ہے کہ مسلم دنیا نے نئی زندگی کے شرائط کے ساتھ جینے کا ارادہ کیا اور بغیر کسی جانچ پرکھ اور تنقید کے مغربی اقدار اور ان کی سماجی زندگی کو اپنانے کی کوشش کی۔ مغربی اقدار اور غیر مناسب طرز زندگی، دونوں نے مسلمانوں میں اخلاقی اور سماجی دیوالیہ پن پیدا کیا کیوں کہ یہ خود اہل مغرب کے اپنے معاشرے کے لیے موزوں نہیں تھا چہ جائے کہ مسلمان قوم کے لئے جو یکسر ان سے مختلف تھے۔ اس اخلاقی تنزلی نے امت مسلمہ کی فکری صلاحیت کو مفلوج کر دیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلم قوم فکر و عمل میں ناکام ہوتی چلی گئی اور اس نتیجہ پر پہنچ گئی جہاں اقدار کے بجائے ظاہری تشخص اور رکھ رکھاو پہ زور دیا جانے لگا، تاکہ لوگوں کی نظر میں اچھی تصویر بنی رہے خواہ اندرونی حالت کیسی بھی ہو۔
مالک بن نبی نے الجزائر میں تعلیم، معیشت اور احساس کمتری کی صورت حال کی نشاندہی تین جملوں میں کی تھی۔
(ا) ہم کچھ نہیں کر سکتے، کیونکہ ہمیں علم نہیں ہے ۔
(ب) ہم اس بات کا ادراک نہیں کر سکتے، کیونکہ ہم غریب ہیں۔
(ج) ہم یہ کام نہیں کر سکتے، اس لئے کہ ہم پر غیر مسلط ہیں۔
انہوں نے شدت سے محسوس کیا کہ تعلیم کو معاشرتی طور پر موثر ہونا چاہئے اور لوگوں کو ناخواندگی کے بارے میں بتایا جائے کہ یہ معاشرے کے لئے مفید نہیں ہے۔ انہوں نے مزید پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر پڑھا لکھا آدمی بیکار ہے تو یہ ناخواندگی سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ غربت کے ساتھ جہالت زیادہ خطرناک ہوتی ہے ۔ فرماتے ہیں کہ دولت و ثروت با ہمی تعاون کو فروغ دینے کا ذریعہ ہونی چاہئے،اصل ذمہ داری یہ نہیں کہ انسان پیسہ اکٹھا کر ے اور امیر بن جائے،بلکہ اس کا جائز راستوں میں استعمال کرنا ، افراد اور قوم کے فائدے کے لیے خرچ کرنا حقیقی ذمہ داری ہے۔
اس کے ساتھ ایک اور اندرونی مسئلہ جس کو مالک بن نبی نے خاص طور سے ذکر کیا وہ مسلم دنیا کی سیاست ہے۔جس سیاسی طریقہ کا ر کو مالک بن نبی نے دیکھا وہ صرف استعمار کی مذمت کرتا ہے بجائے اس کے کہ لوگوں میں یہ بیداری لائی جائے کہ قول کے ساتھ ساتھ عمل کی بھی اتنی ہی ضرورت ہے اور باطنی قوت ظاہری رکھ رکھاو سے زیادہ ضروری ہے۔ چنانچہ انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ مسلم قوم نے کبھی بھی اپنی حالت کو “استعمار کے قابل ہونے” سے فکر و عمل کی ایک متحرک اور فعال وجود میں تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی۔
استعمار کے خارجی عوامل کے حوالے سےمالک بن نبی استعمار کے فلسفے کی وضاحت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ استعمار جب بھی کسی ملک میں داخل ہوتا ہے ، اسے تباہ کر دیتا ہے اور معزز لوگوں کو ذلیل کر دیتا ہے اور ان کی یہ حالت کر دیتا ہے کہ ان میں امید کی کوئی رمق باقی نہ رہے ۔ مسلمانوں کی حالت اور عمل کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسلم دنیا اس بات کی منتظر ہے کہ مغرب کی رفتار سست پڑ جائے یا ان کی حالت ایسی ہو جائے کہ اس میں اب کوئی جان باقی نہیں رہے، حالانکہ مغرب نے یہاں دھاوا اس لئے بولا تھا کہ مسلمانوں کو ان کے ماضی، حال اور مستقبل سے جدا کر دیں۔ مزید وضاحت کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ استعمار ایک طریقہ کار ہے جس کا مقصد ہی ایک ایسا نظام قائم کرنا ہے جس کے ذریعہ ملک کے تمام اخلاقی، ثقافتی، سماجی اور سیاسی اقدار کو تباہ کیا جا سکے۔ چنانچہ مالک بن نبی کے نزدیک مسلم دنیا کے زوال کی بنیادی وجہ مسلم دنیا کا استعمار کے قابل ہو جانا ہے اور بنیادی طور پر اس کی وجہ خود مسلمان ہیں جنہوں نے مغرب کی استعماری پالیسی کو قوت بخشی۔
تہذیب اور مذہب پر مالک بن نبی کا موقف
مالک بن نبی لکھتے ہیں کہ ہر تہذیب کی ابتدا کسی مذہب سے ہوتی ہے، جس سے معاشرے میں تہذیبی عمل کا آغاز ہوتا ہے، بلکہ ان کی رائے یہ ہے کہ تمام انسانی تبدیلیوں کا سہرہ فطری طور پر مذہب کے سر جاتا ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ موجودہ تمام تہذیبوں (ہندو، بدھ، عیسائی اور مسلم وغیرہ) نے مذہب ہی کے آغوش میں انسان، مٹی اور وقت کو جوڑ کر ایک حقیقی اور متنوع مرکب بنایا ہے ۔ تہذیب اپنے وسیع معنوں میں مذہب کے بغیر شروع نہیں ہوتی، لہٰذا مالک بن نبی کے مطابق کسی بھی تہذیب میں ہمیں ان مذہبی بنیادوں کو تلاش کرنا ہوگا جس نے اس خاص تہذیب کو پروان چڑھنے میں مدد کی ، چنانچہ یہ بہت بڑی بات نہیں ہے کہ ہمیں بدھ مت میں بدھسٹ تہذیب ، برہمنی مت میں برہمن تہذیب کے آثار مل جائیں۔ تہذیب کسی بھی معاشرے میں پروان نہیں چڑھ سکتی جب تک وہ وحی (اس کے وسیع تر معنی میں)کی صورت میں نا ہو ، جو لوگوں کے لیے قانون سازی اور بطور زندگی وضع کرنے کے لیے نازل ہوتی ہے۔
تاہم، مذہب سماجی حقیقت کی تشکیل اور ترقی میں اپنا سماجی کردار ادا نہیں کرسکتا اگر وہ صرف اپنی مابعد الطبیعاتی اقدار اور تعلیمات پر قائم رہے، ایسا اس صورت میں ہوگا جب ہماری نگاہ دنیاوی معاملات سے باہر ہوگی اور ہم مادی دنیا سے پرے دیکھیں گے۔مالک بن نبی کے نزدیک مذہب سے مراد تمام مذاہب، نیم مذاہب اور نظریات ہیں،ان کے یہاں مذہب ہروہ چیز ہے جو انسان اور آسمانی قوت یا سماجی فطرت کو جوڑتی ہے۔ ہر وہ نظریہ ان کے نزدیک مذہب میں شمار ہوتا ہے جو کسی بھی طرح سماج کے افراد کے ما بین ایک ربط پیدا کرتا ہے اور ان کی زندگی کی ایک نئی سمت معین کرتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مالک بن نبی نے مذہب کو ایک وسیع معنی میں لیا ہے جو ایک طویل مدتی سماجی منصوبہ ہے۔ جہاں ایک معاشرے کی تعمیر کے لیے پہلی نسل پہلا قدم اٹھائے اور دوسری نسلیں اس منصوبے کو جاری رکھیں۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مذاہب کے درمیان ان کی اصلیت اور طریقہ کار میں فرق ہوتا ہے، مالک بن نبی مذہب کو کائناتی ترتیب کا حصہ سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں “قرآن کی روشنی میں، مذہب ایک کائناتی مظہر کے طور پر ظاہر ہوتا ہے، جو انسان کی فکر اور تہذیب کی تنظیم و ترتیب کا کام کرتا ہے جس طرح کشش ثقل (Gravity)مادے کو کنٹرول کرتا ہے اور اس کے ارتقاء کے مدارج کی تعیین کرتا ہے، مذہب کائنات کا ایک جز ءمعلوم ہوتا ہے جو روح اور جسم دونوں کا اصل قانون ہے ۔”
بقول مالک بن نبی، مذہب ان نظر یات کا منبع ہے جسے تہذیب اپناتی ہے۔ مذہب انسانی نفسیات کی محض روحانی اور ذہنی سرگرمی نہیں ہے، بلکہ یہ نوع انسان کے بنیادی مزاج اور کائناتی ترتیب دونوں کا ایک حصہ ہے جو کائنات کی ساخت میں بہت مضبوطی سے جڑا ہوا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مذہب کو محض ان چند اخلاقی اقدار میں محدود نہیں کیا جا سکتا جن کی مرور ایام کے ساتھ انسانوں کو ضرورت پڑتی ہے ،اسی طرح اسے انسان کی سماجی و ثقافتی ترقی کے ابتدائی مراحل میں بھی محصور نہیں کیا جا سکتا۔
مالک بن نبی کے نزدیک تہذیب کے اہم عناصر
تہذیب کا گہرائی سے مطالعہ اور تجزیہ کرنے کے بعد مالک بن نبی اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ تہذیب تین چیزوں پر مشتمل ہوتی ہے ؛ انسان ، مٹی اور وقت ۔ وہ لکھتے ہیں کہ نظریہ تہذیب میں انسانوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہے ، انسان ایک سماجی شناخت اور ایک فطری شناخت (جسمانی خصوصیات) رکھتا ہے۔فکری اور نفسیاتی خصوصیات سے پیدا ہونے والی سماجی شناخت ماحولیاتی اور تاریخی عوامل کی گرد بھی گھومتی ہے، یہی وجہ ہے کہ سماجی شناخت جگہ اور وقت کے مطابق بدلتی رہتی ہے ۔
مالک بن نبی کے نزدیک یہ عناصر جو تاریخی تحریکوں کا سبب بنتے ہیں ، نظریات، افراد اور اشیاء کا منبع اور سرچشمہ ہیں۔لہذا اگر کوئی معاشرہ بگڑتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کی تعمیر مذکورہ تین عناصر پر نہیں ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی شخص دو عناصر، افراد اور اشیاء پر کام کرتا ہے اور نظریات کو نظر انداز کردیتا ہے تو وہ فکرو عمل کی صلاحیت کھو دیتا ہے۔ اس پوری مدت کے دوران مسلمانوں کی بے فکری اور بے عملی ہی ہے جو مسلم دنیا کے زوال کا باعث بنی کیونکہ ان کی تمام سماجی شکلیں جامد اور بے جان ہو چکی تھیں۔
جب مالک بن نبی مٹی اور سر زمین کا ذکر کرتے ہیں تو وہ اس کی فطری خصوصیات کے بجائے اس کی سماجی اہمیت مراد لیتے ہیں۔اسی طرح وقت کا ذکر کرتے ہیں تو وہ اسے ایک سماجی نقطہ کے طور پر دیکھتے ہیں ، ایسا سماجی محور یا نقطہ جو بذات خود ایک سماجی قدر ہے جو اندرہی اندر سر گرم اور فعال خیالات کو متحرک کرتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ وقت کا صحیح استعمال کرنے میں مسلم دنیا مکمل طور پرنا کام رہی ہے، اسی طرح پختہ اور معنی خیز افکار و خیالات کو پروان چڑھانے میں بھی کسی طرح کامیاب نہیں ہو سکی۔جب کوئی ان تین چیزوں ؛سرزمین، وقت اور زندگی پر حکمرانی کرتا ہے تو وہ ہر چیز کا مرکزومحور ہوتا ہے۔ کسی بھی قوم کے لئے نہایت ضروری ہے کہ وہ تاریخ پر نظر رکھے اور سائنس و ٹکنالوجی کے ساتھ ساتھ فکر و خیال اور فنون لطیفہ کے میدان میں بھی آگے بڑھے اور رفتہ رفتہ اپنے ان اصولوں اور اقدار کو بھی پیش کرے جن سے اس قوم کی شناخت وابستہ ہے۔
مالک بن نبی کے افکار کو مزید گہرائی سے دیکھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ وہ مذہب کے سماجی کردار کو بنیادی طور پر ایک ایسی فعال اور متحرک شئے مانتے ہیں جو اقدار کی منتقلی کی حمایت کرتی ہے، وہ اقدار جو تہذیب کے مختلف مراحل سے گذر کر اس کی فطری ہیئت سے ایک نفسیاتی حالت میں لے جاتی ہے۔مذہب سب سے پہلے گوشت پوست سے بنے انسانی وجود کو ایک سماجی عنصر میں بدلتا ہے، پھر یہ وقت کی سادہ رفتار کو سماجی وقت میں بدل دیتا ہے،جس کی پیمائش اب گھنٹہ اور منٹ کے بجائے عمل اور جد و جہد میں کی جاتی ہےاور اخیر میں مذہب عام مٹی کو جو بغیر کسی غرض اور شرط کے مستعمل ہوتی ہے، مکمل طور پرتکنیکی اعتبار سے لیس ایک ایسی ہموار زمین میں تبدیل کر دیتا ہے جو سماجی تبدیلی کی متعدد ضروریات کی تکمیل کر سکے۔
اس طرح مذہب کو سماجی اقدار کے تغیر پذیر مادہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے، دوسرے لفظوں میں مالک بن نبی کے مطابق مذہب تین تبدیلیاں کرتا ہے ۔
- سماجی تعلقات کے روابط کو متحد کرتا ہے۔
- مشترکہ سرگرمی کو متحرک اور قابل عمل بناتا ہے۔
- معاشرے میں افراد کے نفسیاتی رویوں کو تبدیل کرتا ہے۔
یہ بات مالک بن نبی کے نظریہ میں صاف نظر آتی ہے کہ مذہب سماج کو اس قابل بنا دیتا ہے کہ کہ وہ ایسی سرگرمی انجام دے جو مشترکہ ہو اور افراد کے سلوک اور رویہ میں ایسی تبدیلی لائے جس کے بعد وہ ایک خاص مقصد کے حصول میں کوشاں رہے۔افراد اور معاشرے کی نفسیاتی تبدیلی کسی بھی سماجی تبدیلی کے لیے اولین شرط ہے اور یہ تبدیلی تین عناصر یعنی انسان، مٹی اور وقت سے مل کر بنے ہوئے کسی بھی سماج اور معاشرے کی تاریخی اور طبعی ساخت کے لئے لازمی ہے۔بلا کسی استثناء کے تاریخ میں تمام تہذیبیں مذہبی نظریات کے سائے میں پروان چڑھی ہیں۔ تاہم، مالک بن نبی کی نظر میں، مذہب ایک متحرک شئے کے طور پر تہذیبی تنظیم کا آغاز نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ ایک تہذیبی عمل کے مرحلہ سے نا گزرے اور یہ تہذیبی عمل ایسا منصوبہ ہے جس میں انسان، مٹی اور وقت ایک ساتھ جمع ہوں۔
مالک بن نبی تہذیبی تصور کا خلاصہ اس طرح کرتے ہیں کہ یہ اخلاقی اور مادی اشیاء کا مجموعہ ہے جو سماج کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنے تمام افراد کے لئے وہ تمام سہولیات مہیا کر سکے جو ان کی ترقی کے لئے معاون ہو۔لہٰذا، اس میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو ایک کمیونٹی کے لیے ضروری ہیں جیسے فکری، روحانی اور ثقافتی، سیاسی، اقتصادی اور تکنیکی ضرورتیں۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ تہذیب کا تصور کہیں نا کہیں ثقافت سےمربوط ہوتا ہے، اور ہر سماج اپنے طور پر اسے نظریات اور تصور کی دنیا سے جوڑتا ہے جس کی بدولت سماج آگے بڑھتا ہے اور ترقی کی راہ میں گامزن ہوتا ہے۔ تہذیب ثقافتی تبدیلیوں اور سماجی اصولوں کے ساتھ آتی ہے اور پھر ایک ایسی طاقت بن جاتی ہے جو معاشرے کی سمت اور رخ طے کرتی ہے۔مذہب، تہذیب کا ایک اہم جزہے جس کے وجہ سے معاشرے کا اخلاقی نظام وجود میں آتا ہے،اور جب اس اخلاقی نظام میں کوئی کمی آتی ہے تو اقدار میں بھی زوال آتا ہے اور پھر ہر طرف مسائل اور پریشانیاں ہی پریشانیاں ہوتی ہیں۔
تہذیب کے مراحل پر مالک بن نبی کا نظریہ
مالک بن نبی نے تہذیب کے مراحل پر ایک اہم درجہ بندی کی ہے۔ انہوں نے ان مراحل کو تین زمروں میں تقسیم کیا ہے۔ اول روحانی، دوم عقلی اور سوم فطری مرحلہ۔
مالک بن نبی نے روحانی مرحلے کا آغاز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد سے شمار کیا ہے اور کہا کہ اس مرحلے میں مسلمانوں نے مذہب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا، یہاں تک کہ مسلم معاشرے کا ذہن، رویہ اور ان کی پوری زندگی مذہبی اور روحانی ہو گئی۔ مذہب ہی تھا جس نےایک محرک کا کردار ادا کیا اور اقدار کو تبدیل کر دیا ۔ مذہب کی روح ہی انسانیت کو عروج و ترقی اور تہذیب کی تشکیل کا موقع دیتی ہے اور جب مذہب کی روح ختم ہو جاتی ہے تو تہذیب کا زوال شروع ہو جاتا ہے۔ دوسرا مرحلہ عقلی مرحلہ ہے، بن نبی کے مطابق اس مرحلے میں معاشرہ ہر میدان میں اپنے عروج کی انتہا پر تھا ۔ تاہم، اس مرحلے میں مذہب کے اثر و رسوخ میں کچھ کمی نظر آتی ہے۔ تیسرا اور آخری فطری مرحلہ ہے ، اس کے متعلق بن نبی لکھتے ہیں کہ اس مرحلے میں معاشرے نے اپنا ایمان کھو دیا اور تاریخ کا ایک حصہ بن کر رہ گیا۔ اس طرح تہذیب کا دور اس مرحلے کے ساتھ ختم ہوتا ہے اور مسلم دنیا میں اخلاقی اور سیاسی زوال کا آغاز ہوا۔
روحانی مرحلہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع ہو کر معرکہ صفین پر ختم ہوا اور یہاں سے عقلی مرحلے کا آغاز ہوا ، یہ مرحلہ ابن خلدون اور موحد خاندان کے خاتمے تک جاری رہا اور یہیں سے فطری مرحلہ کے طور پر مسلم دنیا میں نقطہ زوال کا آغاز ہوا۔ اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ مذہب تہذیب کا ایک بڑا عنصر ہے، یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ تمام سماجی تبدیلیوں کے لیے مذہبی اصلاح ضروری ہے۔ بن نبی کا خیال ہے کہ یہ تبدیلی اسلامی روح اور جدید دور کے تقاضوں کو یکجا کرنے سے ممکن ہوگی۔ فرماتے ہیں کہ تہذیب و ثقافت ماضی اور مستقبل کے درمیان ایک پل کی مانند ہے اور یہ تہذیب کی تعمیر کے لیے ایک کارآمد ایجنٹ کے طور پر جسمانی اور روحانی اقدار کو اگلی نسل تک منتقل کرنے میں مدد کرتی ہے ۔ تہذیب کو اخلاقی نظام، جمالیاتی احساس، عملی منطق اور تکنیک کے ساتھ ایک متحرک خیال کے طور پر دیکھتے ہوئے حاصل کرنا ممکن ہے۔
بن نبی کا ماننا ہے کہ مسلم دنیا کو بہت محتاط انداز میں اپنے معیار کو سامنے رکھ کر اور تنقیدی نگاہ کے ساتھ مغرب کو دیکھنے کی ضرورت ہے اور اس کے متعلق صرف پڑھنے پر ہی اکتفا نہ کیا جائے بلکہ ایک زندہ معاشرہ کے طور پر تجربہ و تحقیق کا کام کیا جائے۔ بن نبی کا ایک دلچسپ اقتباس ہے جس میں وہ سیاست کا مقصد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں “سیاست کرنا تاریخ کے نفسیاتی اور مادی حالات کو تیار کرنا ، اور انسان کو تاریخ بنانے کے لیے تیار کرنا ہے”۔ لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایسے فلسفے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے لوگوں کو اپنے فرائض اور حقوق دونوں کو پہچاننے، الفاظ اور نعروں کے بجائے طریقے اور تکنیک کو بتانے اور سکھانے کی ضرورت ہے۔
آخر میں جب بن نبی کے افکار و نظریات پر روشنی ڈالی جائے تو یہ صاف نظر آتا ہے کہ مالک بن نبی مسلمانوں کو اخلاقی، سماجی، نفسیاتی اور سیاسی طور پر مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں۔ بحیثیت اسکالر بن نبی نے تہذیب و ثقافت کو انسانی ترقی، نئے خیالات پیدا کرنے اور ایک متحرک معاشرے کی تشکیل کے اہم عوامل کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ بن نبی کے کام میں ایک اہم نقطہ جس پر روشنی ڈالی گئی وہ یہ ہے کہ سیاسی، معاشی، ثقافتی، سماجی اور نظریاتی آزادی ماضی اور مستقبل کے درمیان ایک ربط قائم کر سکتی ہے اور قرآن و سنت کی روشنی میں اسلام کے بنیادی اصولوں کی حفاظت کر سکتی ہے۔
تحریر نگار: سید سیف الدین
مترجم: ابو سالم یحییٰ