روشن و پائیدار مستقبل کی تعمیر میں تعلیم کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ ایک طالب علم اسی مشعل سے اپنی زندگی کے اندھیرے مٹا سکتا ہے۔ تعلیم دراصل ایک شعوری زندگی کا آغاز ہے، جس کے باعث انسان جینے کا سلیقہ و قرینہ سیکھتا ہے اور زندگی کی مشکلات کو سر کرنے کے گر معلوم کرتا ہے۔ گویا تعلیم انسانی زندگی کو بنانے اور سنوارنے کا ذریعہ ثابت ہوتی ہے۔ فرد سازی کے پیشِ نظر سماج کی تعمیر و ترقی ہی ہے۔ فرد ترقی کرتا ہے تو سماج ترقی کرتا ہے۔ جب ہم موجودہ تعلیمی منظرنامہ کا جائزہ لیتے ہیں اور وقت کے ساتھ تعلیمی نظام میں آرہی تبدیلیوں پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں نہ صرف در و دیوار بدلے ہیں بلکہ خیالات اور معیارات میں بھی تبدیلی آئی ہے۔
ہندوستان میں لبرلائزیشن کی پالیسی اختیار کرنے کے بعد ایک نمایاں شفٹ آیا، نجی کاری کو تیزی سے فروغ ملا۔ جس کے نمایاں اثرات تعلیمی نظام پر بھی مرتب ہوئے۔ نتیجتاً تعلیم کے بازاری کرن کو خوب فروغ ملا۔ بڑی تعداد میں نجی تعلیمی ادارے شروع ہوئے اور بازار کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے اِسکِل ڈیولپمینٹ کورسز اور پروفیشنل کورسز کی جانب رجحان تیزی سے بڑھا۔ چونکہ بڑے پیمانہ پر قائم ہوتی صنعتوں نے کثیرورک فورس کی ڈیمانڈ کو پیدا کیا۔ بے روزگاری اور غربت کے چلتے یہ ڈیمانڈ جو صرف سرمایہ داری کی تقویت کا باعث تھی بآسانی جائز ڈیمانڈ کا رنگ لیتی چلی گئی۔ پروفیشنل، ٹیکنیکل اور وکیشنل کورسز کے لئے طلبہ کی لمبی قطاروں اور کم سیٹوں کی وجہ سے زبردست مسابقت برپا ہوئی۔ ایسے میں انٹرنس امتحانات کی دیواریں اٹھائی گئیں اور اس دیوار کی آڑ میں پرائیویٹ کوچنگ کی دکانیں کھلیں۔ بعض کوچنگ یا نجی اداروں نے گرتے معیار میں بہتری کا ہدف تو اٹھایا لیکن اس بحرانی کیفیت کے تدارک کے لئے یہ کوششیں ناکافی ہیں۔
مسابقت کی دوڑ
انٹرنس امتحانات بے تحاشہ مسابقت کی وجہ سے عموماً پروفیشنل کورسز جیسے میڈیکل، انجینئرنگ اور منیجمنٹ وغیرہ میں امیدواروں کے انتخاب کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔ یہ پروسیس کے لحاظ سے تو غیر جانبدار ہے لیکن اپنی حقیقت کے لحاظ سے چھاننے یا خارج کرنے کا عمل (process of elimination) ہے۔ انٹرنس امتحان کی تیاری کے دوران طلبہ اپنی دلچسپی کے مضمون کو زیادہ گہرائی اور باریکی سے تو پڑھتے ہیں لیکن یہ اپنے آپ میں ایک بڑا سوال ہے کہ وہ جس نصاب پر اس قدر محنت صرف کرتے ہیں وہ آئندہ کورس یا حقیقی دنیا کی ضروریات میں کس قدر کار گر ہوتا ہے۔۔۔؟ یہ امتحانات MCQs پر مبنی ہوتے ہیں جس کے باعث مضمون کی سمجھ اور تنقیدی سوچ کے بجائے محض یاد کرنے/ رٹا مارنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیکنیکل اور پروفیشنل کورسز میں ‘کارآمدی رجحان ‘ (Instrumental orientation) فروغ پارہا ہے۔ رائج الوقت نظام تعلیم جو عالمی سطح پر غالب سرمایہ دارانہ نظامِ فکر کے زیرِ اثر ہے، کے متعلق کارل مارکس نے یہ کہا تھا کہ یہ تعلیمی ڈھانچہ جامد اور اطاعت گذار ورکرس کو پیدا کرتا ہے جو اس کی خدمت انجام دے سکیں۔ اویجیت پاٹھک اس ڈھانچہ کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ؛ “ملک میں رائج تعلیمی ڈھانچہ بنیادی طور پر کتابی اور امتحان مرکوز ہے۔ روٹ لرننگ یا اسٹریٹجک لرننگ (جس کا ثمر کوچنگ سینٹرز کی صورت میں ہمارے سامنے ہے) اس کے جوہر میں شامل ہے۔ اور یہ ڈھانچہ دلچسپی، ذوق و شوق اور تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ سیکھنے سےکوسوں دور ہے، نتیجہ میں یہ نوجوان طلبہ strategists یا exam-warriors بن کے رہ جاتے ہیں۔”
جب تعلیم معلومات تک محدود ہو جائے تب علم و فہم، حکمت اور تنقیدی شعور گم ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اور یوں تعلیم زندگی میں معنیٰ خیزی پیدا کرنے سے قاصر رہ جاتی ہے۔ ایسے میں تعلیم رحمت کی بجائے بوجھ اور زحمت بن کر عقل و شعور کو کچلتی رہتی ہے۔ ٹی ایس ایلیٹ (T.S.Eliot) اپنی مشہور زمانہ نظم میں اسی حقیقت کی جانب اشارہ کرتے ہیں جس کا مفہوم اس طرح ہے؛
“وہ زندگی کہاں ہے جو ہم نے جینے میں گنوادی؟ حکمت گنوا کر ہم، تو بس علم میں کھوگئے؟ وہ علم کہاں ہے ہم تو بس معلومات میں گم ہوگئے؟”
مختصر یہ کہ انٹرنس امتحان طلبہ پر جو پریشر اور تناؤ بناتے ہیں وہ نہایت اندوہناک ہے۔ جبکہ یہ ڈھانچہ ان طلبہ میں اس سطح کے دباؤ اور تناؤ کو مینیج کر پانے کی قابلیت پروان چڑھانے سے قاصر ہے۔ اس مقابلہ آرائی سے مکمل انکار کئے بغیر بنیادی سوال یہ ہے کہ ابتدائی مرحلہ اور کچی عمر میں طلبہ کو اس طرح دباؤ اور تناؤ میں جھونک دینا کتنا درست ہے اور وہ بھی صرف اعلیٰ تعلیم کے لئے کسی ادارہ میں نشست محفوظ کرنے کے لئے؟ جوگیندر سنگھ جو ایک ماہرِ تعلیم ہیں، اس کے ساختی پہلو کی جانب توجہ مبذول کراتے ہوئے کہتے ہیں کہ؛ “آج ہندوستان میں ایک عام انسان کے لئے اپنی مطلوبہ تعلیم حاصل کرنا ناممکن ہے۔ تعلیمی نظام نے مقابلہ جاتی امتحانات سے اپنی مکروہ و منظم ناکامی کو چھپا رکھا ہے۔ ناکامی و تعلیم سے محرومی کا الزام بڑی چالاکی سے طلبہ پر ڈال دیا جاتا ہے اور وہ ایسا کرکے اپنا اخلاقی اعزاز برقرار رکھتے ہیں نیز آبادی کے ایک بڑے حصے کو معیاری واعلیٰ تعلیم سے محروم رکھتے ہیں۔”
ہمارے مطابق اس پورے عمل میں سب سے زیادہ نقصان طلبہ کو ہوا۔ تعلیم اپنی فلسفیانہ اور سماجی تعبیر سے جدا ہوئی، نیز بازاری کرن نے مخصوص کورسز کے رجحان کو فروغ دیا، جس کے باعث بے تحاشتہ مسابقت کے چلتے انٹرنس امتحانات کی چھلنی کا استعمال کرتے ہوئے اندراج نہیں بلکہ اخراج کیا گیا، جس نے تعلیم کو کتاب و امتحان مرکوز بناکر رکھ دیا۔ پھر کیا تھا سارا معیار رٹاماری کی نظر ہوگیا، نتیجہ میں کوچنگ سینٹروں کو فروغ ملا۔ پاولو فریئرے نے تعلیم کو ایک “بینکنگ” ماڈل کے طور پر تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے، استاد اور طالب علم کے درمیان تعلق کی وضاحت کی ہے۔ جہاں اساتذہ غیر فعال طلبہ میں علم deposit کرتے ہیں جیسے کسی خالی برتن کو کسی چیز سے پُر کیا جاتا ہے نیز جو کچھ پڑھایا جاتا ہے وہ ان کی اردگرد کی حقیقی دنیا سے کوئی تعلق و مطابقت نہیں رکھتا۔ اس سب کے باعث اس بیمار و کمزور ڈھانچہ نے دراصل تعلیم کو بے معنی و کھوکھلا بناکر رکھ دیا ہے۔ تعلیمی ادارے شخصیت سازی کے بجائے ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں۔ اس ڈھانچہ نے طلبہ کی زندگی کو منفی طور پر متاثر کیا ہے۔
اس اندھا دھند مقابلہ آرائی کے ماحول میں کمزور و ناتواں تعلیمی ڈھانچہ کی وجہ سے طلبہ کی بڑی تعداد نفسیاتی و ذہنی خلفشار میں مبتلا ہورہی ہے، جسے “اکیڈمک ڈسٹریس” کہتے ہیں۔ مختلف اسٹڈیز سے انکشاف ہوا ہے کہ اکیڈمک ڈسٹریس راست طور پر طلبہ کی تعلیمی کارکردگی اور ذہنی صحت پر منفی طور پر اثر انداز ہوتا ہے۔ نیز مواد کا جائزہ لینے سے یہ بھی منکشف ہوتا ہے کہ اس مسئلہ سے متاثر طلبہ کی کثیر تعداد ہائی اسکول، ٹیکنیکل کورسز اور مسابقتی امتحانات جیسے NEET اور JEE میں ہے۔ بحیثیت مجموعی کہا جاسکتا ہے کہ پروفیشنل اور وکیشنل ایجوکیشن حاصل کررہے طلبہ سب سے زیادہ تعلیمی تناؤ کا شکار ہوتے ہیں۔
دگرگوں صورتحال
اکیڈمک ڈسٹریس ایک حساس اور ہمہ جہت مسئلہ ہے۔ طلبہ کسی بھی ملک کا سب سے قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں وہ کسی بھی ملک کی تعمیر وترقی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ پچھلے کافی وقت سے اِس نہایت قیمتی اثاثہ کو اکیڈمک ڈسٹریس کی دیمک کھوکھلا کرتی چلی جارہی ہے۔ جن طلبہ سے کسی خاندان، سماج اور ملک کا حال اور مستقبل وابستہ ہے وہ ذہنی و نفسیاتی خلفشار میں مبتلا ہیں۔ اکیڈمک ڈسٹریس ایک نہایت حساس اور وسیع موضوع ہے۔ اس مختصر مضمون میں سارے پہلوؤں کا احاطہ ممکن نہیں ہے۔ ذیل میں اس حوالہ سے صرف تین نکات پیش کرنے پر اکتفا کیا گیا ہے جن کا ترجیحی طور پر نوٹس لینے کی ضرورت ہے؛
تعلیمی تناؤ کو سمجھیں
‘تناؤ’ (Stress) انسانی جبلت (instinct) میں شامل ہے جو ہر فرد کے لیے روزمرہ کی مشکلات سے نمٹنے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ قلیل وقت کے لئے محسوس ہونے والا تناؤ Acute Stress کہلاتا ہے۔ یہ ہماری کارکردگی میں اضافہ کا ذریعہ ثابت ہوتا ہے۔ جو عموماً سستی، کاہلی اور بے زاری سے جان چھڑوا کر ہمیں متحرک کرسکتا ہے۔ یہ مثبت تناؤ اس وقت رونما ہوتا ہے جب کوئی شخص تناؤ والے عناصر کو مثبت سمجھے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ تعلیمی تناؤ سے مراد طویل وقت کے لئے محسوس ہونے والا تناؤ ہے جسے ماہرینِ نفسیات Chronic Stress کہتے ہیں۔ جو جسمانی و نفسیاتی لحاظ سے مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔ اِس منفی تناؤ کے لئے “Distress” کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے۔
- اکیڈمک ڈسٹریس یا تعلیمی تناؤ میں وہ تمام محرکات شامل ہیں جو طلبہ کے لئے کسی نہ کسی درجہ میں ٹینشن یا دباؤ کا سبب بنتے ہیں، ان محرکات کو “stressors” کہا جاتا ہے۔ یہ محرکات شخصی، غیر شخصی، سماجی، صحت، ماحول کسی سے بھی متعلق ہوسکتے ہیں جو تعلیمی عمل میں کسی طالب علم کی تعلیمی ترقی میں رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں۔
- تعلیمی تناؤ اپنے اثرات کے لحاظ سے ہمہ جہت ہیں؛ تعلیمی تناؤ طالب علم کو پرسکون نہیں رہنے دیتا۔ یہ پریشانی، چڑچڑاپن بلکہ گھبراہٹ (panic) کا باعث بنتا ہے۔ منفی تناؤ بہت زیادہ کاموں کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے اور طلبہ میں موجود کاموں کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی صلاحیت متاثر ہوتی جاتی ہے۔ پھر ان کے پاس تفویض کردہ کام کو مکمل کرنے کا کوئی راستہ نہیں رہ جاتا ہے اور وہ شدید ٹینشن میں گرفتار ہوتے چلے جاتے ہیں۔ مختلف ارتباطی مطالعات(Correlational studies) کےحوالہ سے سامنے آئی تحقیقات سے منکشف ہوا ہے کہ اکیڈمک ڈسٹریس تعلیمی کارکردگی، ذہنی و نفسیاتی صحت، مجموعی شخصیت اور سماجی زندگی پر منفی طور پر اثرانداز ہوتا ہے۔
- تناؤ کے سماجیاتی رخ کو سمجھنا نہایت ضروری ہے؛ جس میں پانچ پہلو نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ سماجی ڈٹرمیننٹس:
تناؤ صرف ایک فرد کا داخلی تجربہ نہیں ہے بلکہ اس کی تشکیل Social Determinants سے ہوتی ہے۔ جس میں سماجی و اقتصادی حیثیت، جنس، نسل، پیشہ، سماجی معاونت کے نیٹ ورکس اور وسائل تک رسائی شامل ہیں۔ عدم مساوات، امتیازی سلوک اور سماجی محرومی پسماندہ گروہوں میں تناؤ کی سطح میں اضافہ کا باعث بنتے ہیں۔
سماجی معاونت:
تناؤ کے منفی اثرات کم کرنے میں سماجی معاونت ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ سماجی نیٹ ورکس، باہمی تعلقات اور کمیونٹی وسائل نہایت اہم ہیں۔ مضبوط سماجی نظامِ تعاون افراد کو تناؤ سے نمٹنے اور ابھرنے کی قوت (resilience) بڑھانے میں مدد کر سکتا ہیں۔
سماجی توقعات:
سماج میں بحیثیتِ والدین، کارکن، یا طالب علم ہم جو بھی کردار ادا کرتے ہیں ان کے ساتھ متعدد ذمہ داریاں اور مطالبات بھی وابستہ ہوتے ہیں جو تناؤ کا باعث بن سکتے ہیں۔
سماج کاری:
سماج کاری کے عمل کے ذریعے افراد تناؤ کے ردعمل کو سیکھتے اور internalize کرتے ہیں۔ خاندان، برادری اور وسیع تر سماجی ڈھانچہ میں سماج کاری افراد کی تناؤ سے متعلق سمجھ اور اسے مؤثر طریقے سے مینیج کرنے کی صلاحیت پروان چڑھاتی ہے۔
ساختی تناؤ:
سماجیاتی نقطۂ نظر اس بات کا بھی جائزہ لیتا ہے کہ کس طرح سماجی ڈھانچے اور ادارے ساختی تناؤ میں حصہ ڈالتے ہیں۔ معاشی عدم مساوات، بے روزگاری کی شرح، ناکافی نظامِ صحت اور تعلیمی تفاوت جیسے عوامل افراد اور برادریوں کے لیے دائمی تناؤ(chronic stress) پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ ساختی تناؤ اکثر فرد کے قابو سے باہر ہوتے ہیں اور ان میں نظام کی تبدیلی کے لیے اجتماعی کارروائی کی ضرورت پیش آتی ہے۔
طلبہ میں بڑھتا خودکشی کا رجحان اور اجتماعی ضمیر:
طلبہ میں تیزی سے بڑھتا خودکشی کا رجحان اکیڈمک ڈسٹریس کی انتہا ہے۔ ایمائل درکھائم جو ایک فرانسیسی ماہرِ سماجیات ہیں اور خودکشی کے سماجیاتی مطالعہ کے لئے معروف ہیں، کے مطابق خودکشی میں حد سے زیادہ اضافہ سماج میں پائے جانے والے انتشار اور اجتماعی ضمیر کی کمزور ہوتی صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔ خودکشی کے تناسب میں حددرجہ تیزی درکھائم کے مطابق ایک ‘ایب نارمل’ ہوتی صورتحال کا مظہر ہے۔ جو معاشرہ کو کمزور اور کھوکھلا کرنے والی قوتوں کو متحرک کرنے اور مضبوط ہونے کی علامت ہے۔ یہ معاشرہ کو درپیش بڑے خطرات کا پیش خیمہ ہے جو سماج کے لئے لمحۂ فکریہ ہے۔
خودکشی سے پہلے کی کربناکی:
عموماً سماج اُس وقت بیدار ہوتا ہے جب کسی مسئلہ یا بحران کے سنگین نتائج ظاہر ہوتے ہیں۔ لیکن وہ اُن مراحل کو نظر انداز کرتا چلا جاتا ہے جن سے گزر کر ہی کسی مسئلہ یا بحران کے سنگین نتائج ظاہر ہوتے ہیں۔ چونکہ اکیڈمک ڈسٹریس کا سنگین انجام خودکشی ہے اس لئے اُس پر شائع ہونے والی خبریں اور رپورٹس موضوعِ بحث بنتی ہیں۔ لیکن خودکشی سے پہلے کے وہ بہت سے مراحل جو کسی طالب علم کو ذہنی ونفسیاتی خلفشار میں مبتلا کرتے ہیں نیز وہ متعدد کیفیات جن سے ایک طالب علم دوچار رہتا ہے، سماج اُن کا نوٹس تک نہیں لیتا چہ جائے کہ اُن کے تدارک کی کوشش کی جائے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اکیڈمک ڈسٹریس کے باعث پیدا ہونے والے مسائل، دشواریوں اور کیفیات کا جائزہ لیا جائے۔ ڈسٹریس کی مختلف نوعیتوں کو سمجھا جائے۔ اسی طرح ڈسٹریس کے اسباب وذرائع کا نوٹس لیا جائے جو بظاہر معمولی ہی نظر آتے ہوں لیکن ایک طالب علم کی تعلیمی کارکردگی کو متاثر کرتے ہیں۔ طلبہ میں خودکشی کے بڑھتے رجحان پر قابو پانے کے لئے نہایت ضروری ہے کہ اپنے آپ کو ہلاک کرلینے کا فیصلہ کرنے سے پہلے کے ان مراحل کو سمجھا جائے۔ اس ذہنی ونفسیاتی خلفشار کو سمجھا جائے جس میں مبتلا ہوکر مرحلہ وار ایک طالب علم مجبوراً خودکشی کا فیصلہ کرتا ہے۔
حوالہ جات:
مقالہ :مارکیٹائزیشن آف ہائر ایجوکیشن، الیکس پی جوسیف، جرنل آف ایمرجنگ ٹیکنالوجیز (jetir.org)، اگست 2018
خبر نامہ : دی انڈین ایکسپریس(CUET won’t solve the Real Problem)،اویجیت پاٹھک، 29مارچ 2022
خبر نامہ : ہندوستان ٹائمس، 2جولائی 2020
کتاب: Pedagogy of the Oppressed،پاولو فریئرے،صفحہ72،71(2005)
کتاب : ڈی-اسکولنگ سوسائٹی، ایوان ایلیچ،صفحہ 97(1970)
مقالہ:اسٹریس اَمنگ سینئر سیکنڈری اسکول اسٹوڈنٹس،میناکماری اور سنجے چودھری، انٹرنیشنل جرنل آف اَپلائیڈ ریسرچ،2021
مقالہ : اَنڈراِسٹینڈنگ اکیڈمک اسٹریس اَمنگ اَڈول سینٹس، ریڈی مینن اور تھٹل، ارتھا-جرنل آف سوشل سائنس، 2017
کتاب: کلاسیکی سماجیاتی نظریات از ڈاکٹر سہید میو،صفحہ 204
(مضمون نگار شعبہ سماجیات، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد سے پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔)