جادو نامہ کی سحر انگیزی

عبداللہ ثاقب
جولائی 2025

اِس کتاب میں جگہ جگہ تخلیقیت سے بھرپور جملے ہیں، زندگی کا آہنگ ہے، فطرت کی نمائندگی ہے، ایک آدمی کی کہانی ہے اور سب سے خاص بات کہ ایک باغی کی نوشت ہے۔

 

مجھے زندگی نے اتنا موقع کبھی نہیں دیا کہ میں فلمیں دیکھ سکوں، نہ اتنے ذرائع میسر آئے کہ میں فلمی ستاروں میں اپنی طبیعت کی تسکین کا سامان ڈھونڈنے کی کوشش کروں۔ اور جب مواقع میسر آئے تو بھی مجھے فلمیں دیکھنے کا شوق کبھی نہیں رہا، آج بھی میں اپنی انگلیوں پر گن کر بتا سکتا ہوں کہ میں نے کتنی فلمیں، موویز اور ویب سیریز دیکھی ہیں۔ سو میرا جاوید اختر صاحب سے تعارف موویز کے ذریعے نہیں بلکہ ایک نظم کے ذریعے ہوا تھا۔”آنکھ کھل گئی میری، ہو گیا میں پھر زندہ۔” یہ نظم کا شروعاتی حصہ ہے اور اس کا اختتام اور درمیان کے تین دن کی کہانی میری اب تک کی کہانی ہے۔ میں اپنی زندگی کی راہیں اپنے انداز اور تکنیک سے بنانے میں مصروف ہوں اور تین دن پورے کرنے میں مشغول۔ ایک دن کہیں کسی اشتہار کے ذریعے یہ معلوم ہوا کہ ایمازون پرائم نے سلیم خان اور جاوید اختر پر ایک ڈاکومنٹری بنائی ہے، سلیم خان سے تو میں بالکل بھی متعارف نہیں تھا سوائے اس کے کہ وہ سلمان خان کے والد ہیں۔ اسی ڈاکومنٹری سے مجھے یہ بھی علم ہوا کہ شعلے جیسی مشہورِ زمانہ اور ایک نسل کو متأثر کرنے والی فلم جاوید اختر اور سلیم خان نے بنائی ہے۔ میں نے صرف جاوید اختر صاحب کی نظم سے محبت اور اس نظم کے خالق سے انسیت کی بنا پر یہ ڈاکومنٹری دیکھنی شروع کی ۔جوں جوں ڈاکومنٹری آگے بڑھتی گئی جاوید صاحب کی زندگی جینے کی کوششیں اور کاوشیں مجھ پر کھلتی چلی گئیں۔ مجھے ان سے لاکھ اختلافات ہیں اور میں ان کو بہت گہرا علمی آدمی یا مفکر نہیں سمجھتا ہوں۔ لیکن صرف ایک نظم نے مجھے ان سے محبت کرنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ یہ ڈاکومنٹری آنے کے بعد معلوم ہوا کہ اس پر کتاب بھی چھپ رہی ہے۔

بڑے لوگوں کی زندگیوں میں ایسے مراحل آتے ہیں کہ وہ ہماری سطح کی زندگی جی رہے ہوتے ہیں، ان کے اور ہماری اقدار مشترک ہوتے ہیں۔ ان کے اور ہمارے مصائب یکساں ہوتے ہیں اور ان کی اور ہماری پریشانیاں ایک سی ہوتی ہیں۔ وہی معاش کی فکر، ایک وقت کھانے کے لیے تگ و دو، اگلے دن زندہ رہنے کے لیے آج کی جدوجہد۔ اقربا پروری کے دور میں خالص اپنے ہنر کی بنیاد پر ترقیات کی سیڑھیاں طے کرنے والا آدمی کسی ادارے میں ہو یا کسی دشمن کے خیمے میں، اس کو سر آنکھوں پر بٹھایا جانا چاہیے۔ اِس کتاب میں وہ سب کچھ ہے جو میں دیکھ چکا ہوں۔ لیکن چونکہ ویڈیو ہماری قوتِ تخیل کو مہمیز نہیں کرتی ہے تو ہم اثنائے عمل اس کو محسوس کرنے میں قدرے توقف کا شکار رہتے ہیں، مطالعہ اس کے بر عکس ایک ایک واقعے کے سر رشتے سے اپنے تار جوڑتا ہے اور اس کے عکس کو آنکھوں کے سامنے لانے کی کوشش کرتا ہے۔ بایں وجہ وہ زیادہ مفید ثابت ہوتا ہے۔ اِس کتاب میں جگہ جگہ تخلیقیت سے بھرپور جملے ہیں، زندگی کا آہنگ ہے، فطرت کی نمائندگی ہے، ایک آدمی کی کہانی ہے اور سب سے خاص بات کہ ایک باغی کی نوشت ہے۔ جاوید صاحب نے ذکر کیا ہے کہ جب ان کی پیدائش ہوئی تو ان کے والد کمیونسٹ پارٹی کے آفس سے اپنے دوستوں کے ہمراہ سیدھے اسپتال آ گئے، ان کے پاس کارل مارکس کی داس کیپٹل تھی۔ انہوں نے اذان کی جگہ داس کیپٹل ان کے کان میں پھونک دی اور جادو نام رکھ دیا۔ داس کیپٹل کا اثر دیکھیے کہ ان کی زندگی بھی ایک طرح کی جدلیات (Dialectics) اور طبقاتی کشمکش (Class Struggle) کا شکار دکھائی دے گی لیکن محنت کا جادو ان کو آسمانِ دنیا کے تابندہ ستاروں کے بغل گیر کر گیا ہے۔ میں نے جاوید صاحب کو صرف ایک بار دیکھا ہے اور بہت قریب سے دیکھا۔ وہ کیفی اعظمی اکیڈمی میں کیفی اعظمی کے یوم پیدائش پر منعقد مشاعرے میں آئے تھے، پوڈیم پر کھڑے وہ کہہ رہے تھے کہ میں کیا پڑھوں ؟ اور میں نے مشاعرہ گاہ سے چیخ کر کہا کہ “یہ وقت کیا ہے؟” آگے سے جواب دیا کہ میں بھی یہی سوچ رہا تھا۔ شاید یہ خیالی ربط اپنے پس منظر کی رسّی کے کھونٹے سے بھاگے ہوئے دو حیوانوں کو ایک جگہ پر لا رہا تھا۔ میں یہ سطریں لکھتے ہوئے یہی سوچ رہا ہوں کہ یہ وقت کیا ہے؟ میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ میں جاوید صاحب کی سوانح پر تعارفی نوٹ لکھوں گا۔ لیکن یہ وقت ہے اور یہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔

کچھ ترجمے کے بارے میں !

اِس کتاب کو انگریزی میں صحافی اروند منڈلوئی نے ترتیب دیا ہے اور مستند شاعر و ادیب ڈاکٹر طارق قمر نے اپنے گہر بار قلم سے ترجمہ کیا ہے۔ چونکہ میں نے جاوید صاحب کی زندگی پر بنی ڈاکومنٹری دیکھی ہے، جو کہ زیادہ تر انگریزی میں ہے، اس لیے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ترجمہ نہایت سلیس اور رواں ہے۔ کہیں کوئی گنجلک پن نہیں ہے۔ کتابت کی غلطیاں تو جا بجا بہت فاش مل جاتی ہیں، مثلا ایک جگہ خطوط نگار کو مکتوب لکھ دیا گیا ہے۔ ایسی غلطیاں ہیں، لیکن پڑھنے والا آپ ہی اس پر متنبہ ہونے کی قدرت رکھتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ترجمے کے دوران مجھے بتایا تھا کہ کسی لفظ کے ترجمے پر جاوید صاحب نے ان سے استفسار کیا تو ڈاکٹر  صاحب نے بے ساختہ کہا “ہمارے آبا و اجداد کتابیں پڑھتے تھے، نماز ادا کرتے تھے اور قرآن تلاوت کرتے تھے لیکن ہم کتابیں، نماز اور قرآن تینوں چیزیں بس پڑھتے ہیں۔”

ترجمہ پر یقین رکھیے۔ غور کریے چیزوں کو اتنی باریکی سے پرکھنے والا شخص جب ترجمہ کرنے بیٹھے گا تو کتنی خوبصورتی اور نزاکت سے ایک ایک لفظ کو ترجمے کی لڑی میں پرونے کی کوشش کرے گا۔ کتاب کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس میں مشہور فلم سازوں، فلمی ستاروں اور فلمی رائٹرز کے ساتھ جا بجا تصویریں ہیں، ان کے جاوید صاحب کے تئیں تاثرات رقم ہیں۔ یوں یہ کتاب سوانح سے کہیں زیادہ فلمی دنیا اور شعر و ادب سے اس کے تعلق پر ایک دفتر کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔ میں مرتِب اور مترجم دونوں کو اس قیمتی اور نایاب سوانح تیار کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

جنوں کی دستگیری کس سے ہو گر ہو نہ عریانی

گریباں چاک کا حق ہو گیا ہے میری گردن پر

غالبؔ

 

حالیہ شمارے

وقف ترمیمی قانون: مضمرات اور مطلوب جدوجہد

شمارہ پڑھیں

علمی معیار کی بلندی

شمارہ پڑھیں