اُردو دنیا کی مقبول ترین زبانوں میں سے ایک ہے۔ اُردو زبان و ادب کی عمر دیگر کلاسیکل زبانوں کے مقابلے میں کافی کم ہونے کے باوجود بھی اس زبان کا ادبی سرمایہ قابلِ فخر لحاظ میں موجود ہے۔ اُردو زبان کی مقبولیت کے کئی اسباب ہیں۔ ایک جانب جہاں اس زبان کی شیرینی، سلاست اور روانی کا کوئی ثانی نہیں ہے تو دوسری طرف اُردو میں شاعری ، افسانوی ادب اور غیر افسانوی ادب پرمشتمل بے شمار فن پارے ادبی شاہکاروں کی شکل میں موجود ہیں جو مسلسل کئی برسوں سے قارئین کی ذہنی آسودگی کا سامان فراہم کر رہے ہیں۔ دراصل اُردو شعر و شاعری اور نثر کے مطالعے سے دل و دماغ کو جو روشنی اور راحت ملتی ہے وہ بیان سے باہر ہے۔
عام طور پر یہ محسوس کیا گیا ہے کہ اُردو زبان کا نام آتے ہی لوگوں کا ذہن شعر و شاعری اور میرؔ و غالب ؔ کی طرف منتقل ہو جاتا ہے لیکن اُردوزبان کی خاص خوبی یہ بھی ہے کہ اس زبان میں افسانوی ادب کے ساتھ ساتھ غیر افسانوی اصناف کا کثیرسرمایہ موجود ہے ۔غرض اُردو میں موجود تمام غیر افسانوی اصناف کے فن پاروں کا مطالعہ کیا جانا چاہیےجو اُردو اُدباء نے انتہائی دلکش اور دل نشین انداز میں رقم کیا ہے۔ اس مضمون میں اُردو کی ایسی ہی ایک دلکش غیر افسانوی صنف انشائیہ کے فن ، خوبیوں ،خامیوں اورآغاز و ارتقاء سے متعلق معلومات کو مختصراََ پیش کیا جا رہاہے۔ زبان و ادب اور فن پارے کی باریکیوں سے آگہی حاصل کرنے کے لئے نقادوں نے ادب کو شاعری اور نثر کے خانوں میں تقسیم کیا ہے اور انفرادی طور پر دونوں کی اہمیت اور ضرورت اور ہئیت پر روشنی ڈالی ہے۔ اس مضمون میں اُردو کی نثری صنف بطور خاص انشائیہ کے فن پر خامہ فرسائی کی گئی ہے۔
انشائیہ اُردو ادب کی ایک مشہور اور جدید صنف ہے جس کا تعلق غیر افسانوی ادب سے ہے۔ اُردو کی تقریباََ َ تمام غیر افسانوی اصناف جن میں سوانح ، خاکہ، سفر نامہ، رپورتاژ، مکتوب اور انشائیہ وغیرہ شامل ہیں کا آغاز کافی تاخیر سے یعنی اُنیسوں صدی کی ابتداء سے ہوا۔ اس سے پہلے اُردو نثر میں داستان ، حکایات اورتمثیلی قصّے وغیرہ ہی پائے جاتے تھے۔ 1857ء کے بعد سے بدلتے ہوئے حالات میں اُردو شعراء اور اُدباء نے خوابوں ا ور خیالوں کی افسانوی دنیا سے نکل کر باقاعدہ غیر افسانوی اصناف کو فروغ دیا ۔ اس کے بعد سے اُردو میں حقیقت نگاری کی شروعات ہوئی اور جدید اصناف میں طبع آزمائی کرنے کا رجحان عام ہوا۔
اُردو زبان کی ابتداء میں بہت سی ادبی اصناف عربی و فارسی کے زیر اثر رائج ہوئیں اور وقت کے ساتھ بہت سی ادبی اصناف انگریزی ادب کے زیر اثر وجود میں آئیں۔ انشائیہ کو اُردو میں انگریزی ادب کی دین مانا جاتا ہے۔ انگریزی میں انشائیہ کے لئے ” ایسّے ” کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ جس میں” پرسنل ایسّے “اور “لائٹ ایسّے “دونوں شامل ہیں۔ اُردو میں رائج انشائیہ انگریزی ادب کے لائٹ ایسّے سے قُربت رکھتا ہے۔ دراصل انشائیہ کی تعریف بیان کرنا ایک مشکل کام ہےلیکن یہ مشکل اس وقت مزید شدت اختیار کرنے لگتی ہے جب انشائیہ کی کوئی ایک اور جامع تعریف متعین کرنے کو کہا جاتا ہے۔ جس طرح زندگی کی کوئی ایک تعریف پیش کرنا ممکن نہیں اُسی طرح انشائیہ کی کوئی ایک اور حتمی تعریف پیش کرنا ممکن نہیں۔انشائیہ کے لغوی معنیٰ “عبارت” کے ہیں۔ انشائیہ غیر افسانوی ادب کی وہ صنف ہے جو مضمون کی مانند لگتی ہے لیکن مضمون سے جُدا ہوتی ہے۔ انشائیہ میں انشائیہ نگار بلا کسی جھجھک کے موضوع اور ہئیت کی پابندی کے بغیر آزادانہ طور پر اپنے خیالات پیش کرتا ہے۔ انشائیہ میں کوئی مکمل قصہ ، کہانی اور فلسفہ نہیں ہوتا بلکہ اس صنف میں انشائیہ نگار بلا کسی خاص نتیجے کے اپنی بات ختم کر دیتا ہے۔ انشائیہ دُنیا کے کسی بھی اہم یا غیر اہم موضوع پر شخصی اور انفرادی اظہارِ خیال کا نام ہے جس میں ہر لفظ سے انشائیہ نگارکی جولانی طبع ظاہر ہوتی ہے۔ اسی لئے انشائیہ کو ” من کی ترنگ ” بھی کہا جاتا ہے۔ انشائیہ میں واقعات سے زیادہ تاثرات کو اہمیت دی جاتی ہے۔ انشائیہ کے لئے موضوع کی کوئی قید نہیں ہوتی بلکہ کسی بھی موضوع پر انشائیہ نگار ایک منفرد اور اچھوتے انداز میں اپنے خیالات رقم کرسکتا ہے۔ انشائیہ میں انشائیہ نگار بے ساختہ اور بلا کسی تکلف اپنے ذاتی مشاہدات اور تاثرات بیان کرتا ہے۔ انشائیہ کا مقصد نہ اصلاحی ہوتا ہے اور نہ معلومات بہم پہچانا۔ انشائیہ میں انشائیہ نگار اپنے دل و دماغ کی اُتھل پتھل کو مزےلے کر بیان کرتا ہے اور خاص بات یہ ہے کہ اُن تحریروں میں ایک نیا پن، تازگی اور شگفتگی پائی جاتی ہے۔ اختصار، بے ربطی اور انبساط انشائیہ کی پہچان ہے۔
جب ہم انشائیہ کے فن کا جائزہ لیتے ہیں توپتہ چلتا ہے کہ انشائیہ نگاری بے گانہ روی اور خود مختاری کا فن ہے۔ انشائیہ کسی سنسر شپ کا متحمل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی انشائیہ نگار کا کوئی مخصوص نظریہ اور پالیسی ہوتی ہے۔ انشائیہ کا تعلق ادب لطیف سے ہوتے ہوئے بھی اس میں افسانوی اصناف کی طرح پلاٹ ، کردار، قصہ یا مرقع نگاری نہیں پائی جاتی ۔ انشائیہ کی شریعت میں کہانی پن کفر تسلیم کیا جاتا ہے۔ انشائیہ میں داخلیت کے عنصر پائے جاتے ہیں کیوں کہ انشائیہ نگار کا دماغ اور زبان دونوں شاعرانہ ہوتے ہیں۔ انشائیہ میں انشائیہ نگار اپنی آوارہ خیالی اور بے گانہ روی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قلم کی باگ کو ڈھیلا چھوڑ دیتا ہے اور اس طرح جو تحریروجود میں آتی ہے اُسے انشائیہ کہا جاتا ہے۔ دراصل انشائیہ میں بے تکلفانہ فضاء پائی جاتی ہے ۔ انشائیہ تحریر کرتے ہوئے قلم سے اور دل سے عقل کی پاسبانی اُٹھا دی جاتی ہےتب کہیں جاکر ایک بہترین انشائیہ تحریر کیا جاسکتا ہے۔
اُردو میں انشائیہ کی تعریف کی طرح اُس کےآغاز اور پہلا انشائیہ نگار کے بارے میں بھی مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ بعض ناقدین بلکہ بیشتر ناقدین کے مطابق سر سیّد احمد خاں اُردو کے سب سے پہلے انشائیہ نگار تھے۔ اُنھوں نے اپنے رسالے ” تہذیب الاخلاق ” کے ذریعے اُردو انشائیہ نگاری کی شروعات کی۔ سر سید کے رفقاء میں محسن الملک، وقار الملک اور الطاف حسین حالؔی وغیرہ نےبھی ایسے مضامین لکھےجن کو انشائیہ کے تحت شمار کیا جا سکتا ہے۔ بعض احباب محمد حسین آزاد کو اُردو کا قدیم انشائیہ نگار تسلیم کرتے ہیں۔ بلاشبہ محمد حسین آزاد اُردو ادب کے منفرد انشاء پرداز گزرے ہیں۔ اُن کی تمام تحریروں میں انشائیہ کا انداز جھلکتا ہے۔ محمدحسین آزاد کے مضامین کے مجموعہ ” نیرنگِ خیال” میں شامل مضامین کو اُردو کے بہترین انشائیوں میں شامل کیا جاسکتا ہے؛ لیکن یہ انشائیے انگریزی انشائیوں کی نقل تھے۔ ماسڑ رام چندر کو بھی اُردو کا قدیم انشائیہ نگار کہا جاتا ہے۔ ماسٹر رام چندر دہلی کالج سے وابستہ تھے، محمدحسین آزاد اور مولوی ذکاء اللہ اُن کے شاگرد تھے۔ ماسٹر رام چندر نے ” فوائد الناظرین ” اور محب ِ وطن ” نامی جرائد کا اجراء کیا جس میں اُنھوں نے فرانسس بیکن اور ایڈیسن کے رنگ میں انشائیے تحریر کیے۔ اس کے علاوہ جاوید وشسٹ کی آراء ان سب سے مختلف ہے انھوں نے ملا وجہیؔ کو اُردو انشائیہ کا باوا آدم قرار دیا ہے۔ ملا وجہیؔ کی تمثیلی داستان “سب رس” میں انشائیہ کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ مختصراََ کہا جاسکتا ہے کہ اُردو میں انشائیہ کے ابتدائی خدو خال کافی پہلے سے دکھائی دیتے تھے لیکن اس صنف کا باقاعدہ آغاز 1857ءکے بعد ہوا۔
1857ء کے بعد اُردو میں علی گڑھ تحریک کے زیر اثر مضمون نگاری کی ابتداء ہوئی اور یہی ابتداء دراصل انشائیہ نگاری کی شروعات تھی۔ انشائیہ نما مضامین لکھنے کی ابتداء سر سیدّ احمد خان نے کی، اُن کے مضامین اصلاحی مقاصد کے حامل ہیں لیکن ان مضامین میں انشائیوں جیسی شگفتگی پائی جاتی ہے۔ ” اُمید کی خوشی “، خوشامد” اور ” بحث و تکرار ” سر سید کے شخصی رنگ کے نمائندہ مضامین ہیں۔ سر سید کے علاوہ محمد حسین آزاد نے “نیرنگ خیال ” میں بہترین انشائیے لکھے جن میں “گلشن اُمید کی بہار ” ، ” انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا ” بطور خاص قابلِ ذکر ہیں۔ اسی دور کے انشائیہ نگاروں میں میر ناصر علی، نیاز فتح پوری، فرحت اللہ بیگ ، مہدی افادی اور عبدالحلیم شررؔ وغیرہ شامل ہیں۔
اُردو میں انشائیہ نگاری کا سنہری دور خواجہ حسن نظامی کے عہد سے شروع ہوتا ہے۔ خواجہ حسن نظامی نے اس فن کو ایک شناخت عطا کی۔ اُنھوں نے دہلی کی بیگماتی اور محاوراتی زبان میں دلچسپ انشائیہ تحریر کیے۔خواجہ حسن نظامی نے انتہائی معمولی موضوعات پر بہترین انشائیے لکھے۔ ” دیا سلائی ” ،”جوتا” اور “جھینگر کا جنازہ ” وغیرہ جیسے معمولی عناوین پر انھوں نے غیر معمولی انشائیے تحریر کیے۔ ” سی پارہ دل ” خواجہ حسن نظامی کے انشائیوں کا مجموعہ ہے۔ خواجہ حسن نظامی کے ساتھ انشائیہ نگاری کی روایت کو فروغ دینے میں رشید احمد صدیقی، پطرس بخاری، کنہیا لال کپور اور فرقت کاکوری وغیر ہ نے اہم رول ادا کیا۔
اس کے بعد وزیر آغا نے صنف انشائیہ نگاری پر خصوصی توجہ مرکوز کی اور اس فن کو اپنی بلندیوں تک پہنچایا۔وزیر آغا کا دعویٰ کہ وہ ہی اُردو کے ابتدائی انشائیہ نگار ہیں، متنازعہ فیہ رہا ہے لیکن انشائیہ کے فن پر تحقیق اور اُن کے ذریعےتحریر کردہ انشائیوں کونظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔وزیر آغا کے ہمراہ نظیر صدیقی، شفیق الرحمٰن، کرنل محمد خان، ابن انشاء، یوسف ناظم ، مشتاق احمد یوسفی اور مجتبیٰ حسین وغیرہ نےانشائیہ کی صنف کو استحکام عطا کیا۔ شہر اورنگ آباد میں بھی ایک ایسی خاتون انشائیہ نگار ہاجرہ بانو ہیں جنھوں نے نہ صرف انشائیہ پر مفصل تحقیقی مقالہ قلم بندکیا بلکہ اس صنف میں طبع آزمائی کرتے ہوئے اس صنف کو مقبولیت بھی بخشی۔ جہاں اورنگ آباد میں ہاجرہ بانو صنف انشائیہ کی آبیاری کر رہی ہیں وہیں ناگپور میں محمد اسد اس صنف کے گیسو سنوارنے میں مشغول ہیں۔آج انشائیہ صر ف بڑے شہروں تک ہی محدود نہیں بلکہ ہند و پاک کے مختلف شہروں میں انشائیہ کے فن پرطبع آزمائی کی جارہی ہے اور اسے ذوق و شوق سے پڑھا بھی جا رہا ہےجو اس صنف کی مقبولیت کی دلیل ہے ۔یہ اُمید کی جا سکتی ہے کہ صنف انشائیہ مستقبل میں بھی اپنی شناخت برقرار رکھتے ہوئے اردو زبان و ادب کے سرمایے میں بیش قیمتی اضافے کا باعث ہوگا۔
مضمون نگار: ڈاکٹر عبدالرب