حقیقت یہ ہے کہ اسلامی عبادات ایک نظام کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جن کے پیچھے عظیم فلسفے کار فرما ہوتے ہیں، اسلامی عبادات کو محض پوجا پاٹ اور پرستش کا ہم معنیٰ سمجھ لینا دراصل عجمی تصوّرِ عبادت ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ عبادات کی صحیح روح و کنہ اور ان کے مقاصد و اہداف پر قران و سنت کی روشنی میں بحث ہو تاکہ اُن غلط فہمیوں اور غلط تعبیرات کا ازالہ ہوسکے جو مدت ہائے مدید سے مسلمانوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔
- حج ایک عظیم عبادت
حج اسلامی عبادات کا ایک اہم ترين رکن ہے۔ یہ ایک ایسی عبادت ہے جو تمام عبادات سے ممتاز ہے، حج ہی وہ عبادت ہے جسے بقائے دین، مسلمانوں کے اتحاد اور امت مسلمہ کے عروج و ارتقاء کا راز، اسلام کی اعلی ثقافتوں کا آئینہ دار، دشمنان اسلام اور طاغوتی قوتوں کی تباہیوں کا پیغام قرار دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عبادت تمام عبادات کا حسین ترین مرقع بلکہ اسلامی زندگی کا نہایت عمدہ تربیتی کورس ہے۔ اس میں ذکر و دعا، نماز، زکوٰۃ، روزہ، ہجرت اور جہاد جیسی تمام اہم اور بنیادی عبادات کی روح اور ان کے مقاصد واثرات موجود ہیں۔ نماز اس لحاظ سے کہ اس میں احساس عبدیت زندہ رہتا ہے، روزہ اس طور پر کہ ساری خواہشوں کو دفن کرنا پڑتا ہے، زکوۃ اس حیثیت سے کہ مال خرچ ہوتا ہے اور قربانی کا گوشت غرباء میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
مولانا امین احسن اصلاحی ہجرت کو حقیقتاً فرار الی اللہ قرار دیتے ہیں یعنی بدی سے نیکی کی طرف، شیطان سے رحمان کی طرف۔ اور حج میں ہجرت کی یہ حقیقت بہت نمایاں ہوتی ہے۔ حج کے لئے نکلنے والا شخص اپنا گھر، وطن اور اپنے دنیوی مفادات و تعلقات کو چھوڑ کر اپنے پرودگار کی خوشنودی و رضا کے لئے نکل پڑتا ہے۔ گناہ و معصیت کی زندگی کو ہمیشہ کے لئے بدل دینے کا عزم صمیم ہی تو حج کی حقیقت ہے اور بعینہ یہی حقیقت ہجرت کی بھی ہے۔
اسی طرح حج کے اندر جہاد کی بھی بہت سی خصوصیات موجود ہیں۔ یوں تو حج کے پورے زمانے میں آدمی کی زندگی خدا کے ایک سپاہی کے مانند ہوجاتی ہے، مکہ سے منیٰ، منیٰ سے عرفات، عرفات سے مزدلفہ اور مزدلفہ سے پھر منیٰ۔ دھوپ ہو، بارش ہو، ژالہ باری ہو بہر صورت وقت متعینہ پر پہنچنا ہے۔ نہ بھوک کی پرواہ ہے نہ پیاس کی، نہ لُو کا احساس ہے نہ سردی کا ! خدا کی پسندیدہ وردی جسم پر ہےاور لبیک لبیک کی صدا زبان پر۔
غرض ہر عملِ خیر کی روح حج میں پنہاں ہے۔ تقوی، طہارت، عاجزی، انکساری، اللہ کے حقوق کی ادائیگی، ملت اسلامیہ کا اتحاد روحانی و جسمانی ! گویا حج کے ذریعے اسلام ایک ایسے معاشرے کی راہ ہموار کرنا چاہتا ہےجہاں مسلمان باہم مل جل کر رہیں، ایک دوسرے کی جان، مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کریں اور کفر و الحاد اور شرک کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر اللہ اور رسول کی تعلیمات کی سربلندی کے لئے ہر لحظہ تیار رہیں۔
اس کے علاوہ اس عبادت کا تعلق سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی موحّدانہ زندگی سے ہے جو خدا کی اطاعت و فرمانبرداری کی ایک فقیدالمثال نظیر ہے، جس میں حبّ الٰہی، تسلیم و رضا، خدا کی مخلصانہ عبادت، حلم و دردمندی، مہمان نوازی اور فیاضی جیسے اوصاف و خصائص نمایاں حیثیت رکھتے تھے اور انہی خوبیوں نے انہیں اقوام عالم کا “روحانی پیشوا ” بنادیا اور خدا نے “خلیل اللہ” کے لقب سے سرفراز کیا، حج کے تمام ہی اعمال حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اعمالِ بندگی کا گویا عکس جمیل ہیں اور اسی لیے انجام دیئے جاتے ہیں تاکہ ایک حاجی کے اندر ابراہیمی فکر و نظر پیدا ہو، دین کے لئے مرمٹنے کا وہی جذبۂ بےتاب ہو کہ جان دی تو دی ہوئی اسی کی تھی، حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا ! اور جد امجد کی طرح اس کی زندگی بھی خالص خدا کی اطاعت و بندگی میں بسر ہو، یہ واحد عبادت ہے جس کے اندر خدا سے محبت کا اظہار بہت نمایاں صورت میں ہوتا ہے اور جذبۂ محبت کی نیاز مندی اور سرشاری اپنے نقطۂ عروج پر ہوتی ہے۔
سید مودودی اپنے کتابچہ “حقیقت حج” میں امام ابوحنیفہ کے حوالے سے ایک روایت نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کو اس امر میں تردد تھا کہ حج سب سے بڑی عبادت ہے لیکن ان کا بیان ہے کہ جب انہوں نے حج کیا تو یہ تردد دور ہوگیا۔ انہوں نے اقرار کیا ہے کہ حج فی الواقع عظیم الشان عبادت ہے۔ مختصراً دنیا کی تمام مساجد کے مابین خانۂ کعبہ کا جو مرتبہ ہے وہی مقام تمام عبادات میں حج کا ہے۔
- ارکانِ حج کی علامتی و روحانی اہمیت
مشمولاتِ حج پر نگاہ ڈالتے ہی یہ حقیقت مشہود ہو کر سامنے آجاتی ہے کہ حج ایک جامع عبادت ہے، مگر بے حد افسوس کی بات یہ ہے کہ حجاج کرام کی ایک بڑی اکثریت حج کےاِن ارکان و اعمال کے حقیقی مفہوم و مدعا سے بالکل نابلد ہے مثلاً وہ نہیں جانتے کہ احرام کیوں پہنا جاتا ہے ! انہیں نہیں معلوم کہ تلبیہ کی صدا کیوں بلند کی جاتی ہے ! طوافِ کعبہ اور سعی بین الصفا و المروہ کے پیچھے کیا حکمت پوشیدہ ہے ! رمی جمرات کس عظیم واقعہ کی یاد ہے وغیرہ۔ ۔ ۔
- احرام
یہ دو بغیر سِلی چادریں (Unstitched Sheet) جنہیں حاجی حدودِ مکہ میں داخل ہونے سے پہلے میقات پر پہنتا ہے، اس بات کی علامت ہے کہ اس نے دنیا سے اپنا رشتہ ناطہ منقطع کر لیا اور وہ لباس پہن کر رب کے حضور حاضر ہوا ہے جس میں مردہ قبر میں اتارا جاتا ہے۔ احرام باندھتے ہی ترک وانقطاع اور تبتل الی اللہ جیسی عظیم صفات کا ظہور ہوتا ہے، اور طبیعت میں سادگی، انکساری و عاجزی پیدا ہوجاتی ہے۔ حالت احرام میں زہد و درویشی کی جھلک اس آخری درجہ تک پہنچ جاتی ہے جس درجہ تک اسلام نے اس کو پسند کیا ہے، اس سے آگے رہبانیت کے حدود شروع ہوجاتے ہیں جو اسلام میں ناجائز ہے۔ علامہ ابن خلدون نے اپنے مقدمہ میں لکھا ہے، “احرام کی سلائی جو ممنوع ہوئی تو اس کا راز یہی ہے کہ حج کی غرض و غایت دنیوی بکھیڑوں سے رشتہ توڑ کر خدا کی طرف رجوع کرنا ہے۔ یہاں تک کہ انسان کا دل تکلفات کی ہر چیز سے کٹ کر اپنی لَو صرف خدا سے لگا لے، نہ خوشبو استعمال کرے، نہ عورت سے خلا ملا رکھے، نہ سلا ہوا کپڑا پہنے، نہ موزہ پہنے اور نہ شکار کی طرف توجہ کرے، غرض یہ کہ نفس کی خواہشات و مرغوبات سے مکمل قطع تعلق کر لے۔ ” (مقدمہ ابن خلدون ص 437)
- تلبیہ
احرام کا لباس زیب تن کرتے ہی لبیک، اللہم لبیک، لبیک، لا شریک لک، لبیک۔ ان الحمد والنعمۃ لک و الملک لا شریک لک الفاظ کا ورد شروع ہوجاتا ہے۔ تلبیہ دراصل حجاج کرام کا ترانہ ہے اور جب ایک جم غفیر یہ ترانۂ جاں نواز پڑھتا ہےتو اس سے ایک ایسا روحانی ماحول پیدا ہوتا ہے کہ قلوب خود بخود خدا کی اطاعت و بندگی کی طرف مائل ہونے لگتے ہیں اور تسلیم و رضا کے جذبات اس درجہ غالب ہو جاتے ہیں کہ دل و دماغ میں کسی اور جذبہ و خیال کے لئے کوئی جگہ باقی نہیں رہ جاتی۔
- طواف کعبہ
حدود حرم میں قدم رکھتے ہی حجاج اس گھر کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو ان کے سفر کی منزلِ مقصود ہے یعنی خانہ کعبہ جو خدا کا پہلا گھر ہے۔ قران مجید کی بعض آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ خانہ کعبہ دراصل قربان گاہ ہے۔
وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ(البقرہ:196)
“اور اپنے سروں کو اس وقت تک نہ منڈواؤ جب تک کہ ہدی (قربانی) اپنی جگہ نہ پہونچ جائے۔ “
قرآن مجید کی تصریح کے مطابق یہ “محل”بیت عتیق ہے۔
لَکُمْ فِیها مَنافِعُ إِلى أَجَل مُسَمّىً ثُمَّ مَحِلُّها إِلَى الْبَیْتِ الْعَتِیقِ(الحج: 33)
“اور تمہارے لئے ان ہدی کے جانوروں میں ایک متعینہ مدت تک مختلف قسم کے فائدے ہیں پھر ان کو قربانی کے لئے بیت عتیق کی طرف لے جانا ہے۔
اور ایک مقام پر اس بیت عتیق کا ذکر بطور قربان گاہ کیا گیا ہے۔
يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ هَدْيًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ (المائدہ:95)
” جس کا فیصلہ تم میں سے دو معتبر آدمی کریں گے۔ یہ (یعنی بدلے کا جانور) نیاز کی حیثیت سے خانۂ کعبہ کو پہنچے گا۔
جب مکہ کی آبادی بڑھ گئی اور حجاج کی کثرت ہوگئی تو اس قربان گاہ کو منیٰ تک وسیع کردیا گیا مگر اس کا معنوی رشتہ خانۂ کعبہ سے قائم رکھا گیا۔ چنانچہ منیٰ میں قربانی کے بعد حاجی فورا ہی مکہ پہنچ کر اصل قربان گاہ (خانۂ کعبہ ) کا طواف(طوافِ زیارت )کرتا ہے۔ یہود میں نذر و قربانی کی ایک شرط یہ تھی کہ اس کو مذبح کے سامنے سات مرتبہ پھیرا جائے۔ خانۂ کعبہ کے گرد سات پھیرے لگاکر حاجی دراصل اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ وہ خود کو خدا کی نذر کرچکا ہے۔ اس کا جینا و مرنا سب اسی اللہ رب العالمین کے لئے ہے۔
- سعی بین الصفا و المروہ
قرآن میں صفا اور مروہ کو شعائر اللہ کہا گیا ہے (إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شعائر الله (البقرہ : 185)
یہ بات کہ مروہ ہی مقام ذبح ہے قرآن مجید سورہ بقرہ آیات 153 تا 183 سے ثابت ہے۔ ان آیات میں اللہ کی طرف سے پیش آنے والی ابتلا و آزمائش میں ثابت قدم رہنے والوں کو مژدہ سنایا گیا ہے کہ خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ اس آیت ابتلاء کے فوراً بعد صفا اور مروہ کا ذکر ہے جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اگر کسی شخص کو صبر و ثبات کی فضیلت اور اس کے حاملین کے حق میں وعدہ خداوندی میں شک ہو تو وہ ان دونوں تاریخی مقامات (صفا اور مروہ) کو دیکھ لے جہاں اللہ کے دو نیک بندوں نے عدیم المثال صبر و ثبات کا مظاہرہ کیا تھا اور جس کے نتیجے میں وہ اللہ کی نظر میں برگزیدہ ٹھہرے اور اس کی رحمتوں اور نوازشوں سے مالا مال ہوئے، انا کذالک نجزى المحسنین۔
چنانچہ اس آیت کی روشنی میں یہ بات بہت واضح ہوجاتی ہے کہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کا تعلق واقعہ قربانی سے ہے نہ کہ حضرت حاجرہ کی بے تابانہ سعی سے جو تمام تر تورات سے ماخوذ ہے۔ صفا اور مروہ کے درمیان سات بارسعی کی علت بھی اسی وقت سمجھ میں آتی ہے جب ہم مان لیں کہ مروہ مقام ذبح ہے اور یہاں سات پھیرے اسی طرح لگائے جاتے ہیں جس طرح خانہ کعبہ کے گرد لگائے جاتے ہیں جو خدا کا گھر ہے اور ابراہیمی قربان گاہ بھی۔ صفا اور مروہ کے درمیان حاجی کا سات بار چکر لگانا دراصل قربان گاہ اسماعیل کے گرد چکر لگانا ہے۔ اس سعی سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ حاجی حضرت اسماعیل ؑ کی طرح خدا کی رضا کی خاطر قربان ہونے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ الغرض سعی بین الصفا و المروہ نصرت دین کے جذبہ کا ایک عظیم Symbol ہے۔ سعی کی اس حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے حج کا یہ عمل بالکل رسمی بن گیا ہے۔
- حجر اسود کا استلام
حجر اسود ایک Oval shape نہایت قدیم پتھر ہے جو خانۂ کعبہ کے ایک گوشے میں کچھ بلندی پر نصب ہے۔ طواف کا آغاز اسے چوم کر یااس کی طرف ہاتھ اٹھا کر کیا جاتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ طواف کعبہ شروع کرنے سے پہلے اس کو بوسہ دینے کی حکمت کیا ہے جبکہ یہ نفع و ضرر پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ علماء متاخرین میں خصوصاً علامہ سید سلیمان ندوی اور مولانا وحیدالدین خان مرحوم نے کسی قدر اس کا جواب دینے کی کوشش کی ہے مگر ان حضرات کی توجیہ سے دل و دماغ کو تشفی نہیں ہوتی البتہ مولانا امین احسن اصلاحی نے جو تاویل و توجیہ کی ہے وہ بہت اطمینان بخش ہے۔ مولانا اصلاحی حجر اسود کو علامت کے طور پر اللہ کا ہاتھ قرار دیتے ہیں۔ ہاتھ چومنا یا ہاتھ پر ہاتھ رکھنا عہد و پیمان کی توثیق کا ایک طریقہ ہے۔ چنانچہ مولانا اصلاحی فرماتے ہیں “جب وہ(یعنی حاجی) حجر اسود کو بوسہ دیتا ہے یا اس کو ہاتھ لگاتا ہے تو گویا خدا کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر اپنے عہدِ بندگی و اطاعت کی تجدید کرتا ہے۔ “
- وقوف عرفہ
درحقیقت خود کو خدا کی جناب میں لا کھڑا کردینے کے مترادف ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں یہ سنت قائم کی کہ خطبے اور دو پہر کی نمازوں کے بعد مغرب کی طرف رخ کر کے کھڑے ہوئے اور اس وقت تک کھڑے دعا فرماتے رہے، جب تک سورج ڈوب نہیں گیا۔ اس دوران میں بندۂ مومن اپنے گناہوں کو یاد کرتا، استغفار کرتااوردعائیں مانگتاہے۔ اس عظیم اجتماع سے اسلام کی شان و شوکت اور مسلمانوں کے اتحاد و اخوت کا بھی اظہار ہوتا ہے۔
- قیام مزدلفہ
غروب آفتاب کے بعد میدان عرفات سے حاجیوں کی واپسی شروع ہوتی ہے اور مزدلفہ میں رات گزارنے کے لیے ٹھہرتے ہیں۔ عرفات و مزدلفہ کے مابین یہ سفر معنوی طور پر سفر جہاد کی علامت بن جاتا ہے۔ ایک مقام پر رکے، پڑاؤ کیا، پھر اگلی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔ اس دوران میں نمازیں بھی جہاد سے مشابہت ہی کی وجہ سے قصر پڑھی جاتی ہیں۔ مزدلفہ میں قیام کی غرض ذکر کے تسلسل کو قائم رکھنا ہے۔
- قیام منیٰ
منیٰ کے قیام میں زیادہ سے زیادہ ذکرِخدا کو لازم ٹھہرایا۔ (وَاذْكُرُوا اللّٰهَ فِي أَيَّامٍ معدودات -البقرہ -203) لیکن اس اجتماع کے دنیوی پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ چنانچہ اجازت دی گئی کہ لوگ ذکر خدا کے ساتھ تعارفِ باہم کی مجلسیں منعقد کریں تا کہ دنیا کے مختلف ملکوں کے مسلمانوں میں اتحاد و اخوت کا رشتہ مضبوط ہو۔ قیام منیٰ کے اعمال میں رمی، قربانی اور حلق قابل ذکر ہیں۔ ان کو ہم قدرے تفصیل سے بیان کریں گے۔
- رمی جمرات
قیام منی کے دوران میں ایام تشریق یعنی دسویں، گیارہویں اور بارہویں ذی الحجہ کو کنکریاں ماری جاتی ہیں۔ اسی کو اصطلاح حج میں رمی جمار کہتے ہیں۔ رمی کے بارے میں مشہور قول یہ ہے کہ ان مواقع پر شیطان نے حضرت ابراھیم کو بہکانے کی کوشش کی تھی، جوابا انہوں نے اس کو کنکریاں ماریں یعنی رجم کیا مگر اس روایت میں بہت سقم ہے البتہ اس حوالے سے امام فراہی نے نہایت ٹھوس دلائل کی بنیاد پر ایک بالکل مختلف خیال کا اظہار کیا ہے۔ ان کے نزدیک رمی جمار دراصل اصحابِ فیل کی تباہی کی یادگار کے طور پر ہے۔ ان کا کہنا کہ حج کے تمام ہی مناسک عہدِ ابراھیمی سے چلے آرہے تھے جنہیں عربوں نے انہی سے سیکھا تھا۔ کلام جاہلیت میں حج کے جملہ مناسک اجمالاً و تفصیلاً مذکور ہیں مگر حیرت کی بات ہے کہ رمی جمرات کا کہیں تذکرہ تک موجود نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوتا کہ یہ نئی چیز ہے جو واقعۂ فیل کے بعد وجود میں آئی چونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت قاہرہ کی عظیم الشان نشانی تھی اس لئے اسلام نے اسے باقی رکھا اور مراسم حج میں شامل ہوکر اس نے تکبیر و تہلیل کی ایک مخصوص سنت کی حیثیت اختیار کرلی (مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تفسیر نظام القرآن سورہ فیل )
قصہ مختصر کوئی شخص اسے شیطان پر کنکریاں مارنا سمجھے یا ابرہہ کی فوجوں پر جو سنگباری عربوں نے کی تھی اس کی یادگار سمجھے بہرحال یہ کنکریاں مارنا اللہ کے دشمنوں، اللہ کے دین کے دشمنوں اور بیت اللہ کے دشمنوں پر لعنت اور سنگباری کی ایک عظیم یادگار ہے جسے مناسک حج میں اسی لئے محفوظ کردیا گیا تاکہ حج مسلمانوں کی روح جہاد کو بھی زندہ اور تازہ رکھے۔
- حلق
سر منڈانا پرانے زمانے میں غلام بننے کی علامت تھی۔ جب کوئی شخص کسی کا غلام بن جاتا تو اس کا سر مونڈ دیا جاتا تھا۔ حاجی اپنا سر منڈا کر غلامی رب کا نشان سجا لیتاہے۔
- قربانی
قربانی جہاد کا آخر ی پہلو ہے، حج کی قربانی اصلاً جہاد میں جان کے نذرانہ کا Symbol ہے۔ بندۂ مومن قربانی اس جذبے کے ساتھ کرتا ہے کہ جس طرح اس نے خدا کی خوشنودی کے لیے جانور قربان کیا ہے، اسی طرح، اگر اس کے دین کو ضرورت پڑی، تو وہ اپنی جان بھی تردد کئے بغیر پیش کردے گا۔ کہ ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین۔
(مضمون نگار جامعہ ہمدردر، نئی دہلی سے بی۔ یو۔ ایم۔ ایس کے طالب علم ہیں۔ )