خرمنِ ہستی بجھی تاریکیوں کے باب میں
روشنی پھوٹی ضحیٰ سے اس دل بیتاب میں
موتیوں پر نقش تھے تعبیر کے سارے حروف
بخت کے ساحل پہ ٹوٹا ہار تھا جو خواب میں
سیپیوں نے وا کیا لب چشمِ گریہ دیکھ کر
تشنگی گوہر کی ہے اشکوں کے اس سیلاب میں
عشق کے غوطہ زنوں کا دل تلاطم خیز ہے
حسبی اللہ ہر نفس میں زندگی گرداب میں
ہم سخن سن کر غزل نازل غزل اک ہو گئی
کیا ردھم تھا کیا طرب کیا ساز تھا مضراب میں