اکونامک سروے (2022ء-2003ء) نے ہندوستان کی روزگار کی صورتحال کی اچھی تصویر پیش کرنے کی کوشش کی ہے، جس میں یہ دلیل دی گئی ہے کہ لیبر مارکیٹ نے سپلائی اور ڈیمانڈ دونوں پہلوؤں کے ضمن میں،کووڈ سے پہلے کی سطح سے آگے ترقی کر لی ہے۔ اس سروے کے مطابق بے روزگاری کی شرح جولائی تاستمبر 2019ء میں 8.3 تھی جو کہ 2022ء میں کم ہو کر 7.2 ہوگئی۔ یہ سروے مہاتما گاندھی نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی اسکیم (MGNREGS) کی ماہانہ مانگ میں کمی کو بھی مضبوط زرعی نمو بتاتا ہے اور ساتھ ہی کووڈ-19 بحران سے تیزی سے واپسی کی دلیل کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اس مضمون میں ہم اس اقتصادی سروے کے ان دعوؤں کا تجزیہ، حالیہ روزگار کے اعداد و شمار کی روشنی میں کریں گے۔
سات فیصد سے زیادہ بے روزگاری کی شرح کا نیا معیار:
یہ سچ ہے کہ شہری لیبر مارکیٹ جولائی-ستمبر 2018ء میں بے روزگاری کی شرح کے سیاق میں 9.6 سے جولائی-ستمبر 2022ء میں 7.2 تک گرا، جیسا کہ جدول1 میں دکھایا گیا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم وبائی امراض کے بعد تیزی سے پٹری پر واپس آنے کا جشن منانا شروع کریں، دو باتیں ذہن میں رکھنے کی ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ 2018ء کے بعد سے 7 فیصد سے زیادہ بے روزگاری کی شرح کا نیا معیار تشویشناک ہے اور تقریباً 3-4 فیصد کے تاریخی رجحان سے بہت زیادہ ہے۔ دوسری بات یہ کہ اگر ہم اس زوال کو ایک بڑی کامیابی اور تیزی سے خوش حالی کی طرف بڑھتے قدم کے طور پر قبول کرتے ہیں تو ہمارے ملک میں جہاں لیبر مارکیٹ انتہائی غیر رسمی ہے (مطلب مزدور کم اجرت والی کم پیداواری ملازمت میں مصروف ہیں اور ان کے پاس سماجی تحفظ نہیں ہوتا ہے)، وہاں کم بےروزگاری کی شرح کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی اجرت کی شرح/کمائی پر کسی بھی قسم کا کام کرنے سے مزدور محروم ہیں۔ کووڈ کی وجہ سے ملازمت اور آمدنی سے ہاتھ دوھ بیٹھنے کے بعد جیسے ہی حالات معمول پر آنا شروع ہوئے تو لوگوں کی ایک بڑی اکثریت تیزی سے کوئی بھی کام یا نوکری کرنے پر آمادہ ہو گئی ۔ اس طرح بے روزگاری میں کمی لوگوں کی محض مایوسی کو ظاہر کر تی ہے۔
بے روزگاری کی شرح میں کمی کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مایوس اور حوصلہ شکن لوگوں نے نوکریوں کی تلاش چھوڑ دی ہے اور اس وجہ سے وہ اب لیبر فورس کا حصہ نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ لیبر فورس میں ملازمت سے منسلک اور جو نوکری نہیں کر رہے ہیں، دونوں شامل ہوتے ہیں۔) لہٰذا، لیبر مارکیٹ کی کارکردگی کا ایک بہتر اشارہ Labour Force Participation Rate (LFPR) ہے ۔ نوکری پرموجود اور نوکری کی تلاش میں بیٹھے افراد کا کل آبادی میں تناسب LFPR کہلاتا ہے۔ یہ شرح 2018ء سے بڑھ رہی ہے۔ (دیکھیں جدول-1) کووڈ سے پہلے، جولائی تا ستمبر 2020ء میں یہ شرح 47.2 فیصد تھی جبکہ کووڈ کے بعد اس میں تھوڑا سا ہی اضافہ ہواہے۔ کام کرنے کی عمر کے افراد کو لیبر مارکیٹ میں دھیمی رفتار سے لانا معیشت کی بہتری کی ایک علامت ہے۔ اس لحاظ سے معیشت کو تیزرفتار بنانے کی ضرورت ہے۔
دوسری طرف، اقتصادی سروے سے پتہ چلتا ہے کہ شہری علاقوں میں LFPR ، 2020ء-2021ء میں وبائی مرض سے پہلے کے سال 2019ء-2020ء کے مقابلے میں قدرے کم ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شہری علاقوں میں آہستہ آہستہ بہتری آرہی ہے۔ جہاں دیہی اور شہری دونوں علاقوں میں مردوں کی شرکت کی شرح میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، وہیں دونوں علاقوں میں خواتین لیبر فورس کی شرکت کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ سروے نے خواتین کی شرکت کی بڑھتی ہوئی شرح کا واضح طور پر خیرمقدم کیا ہے۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خواتین کے لیے لیبر مارکیٹ کی حالت بہتر ہوگئی ہے۔ ہندوستان اور اس سے زیادہ دیہی ہندوستان میں خواتین لیبر فورس کی بڑھتی ہوئی شرکت پریشانی کا باعث ہوسکتی ہے۔ تنگ دستی اور بدحالی کے حالات میں، جب آمدنی کی سطح روز مرہ کی ضرورتوں سے نیچے آجاتی ہے، تو عام طور پر کام نہیں کرنے والی آبادی ، گھریلو آمدنی کو پورا کرنے کے لیے کام کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔
لوگوں کی توقعات اورمستقبل میں روزگار کی بگڑتی صورت حال:
ہمارے پاس ملک کی روزگار کی صورتحال پر ایک اور دلیل موجود ہے۔ یہ جنوری، 2023ء کے لیے ریزرو بینک آف انڈیا کے دو ماہی کنزیومر کانفیڈنس سروے (CCS) سے حاصل ہوئی ہے۔اس میں 19 بڑے شہروں میں عمومی معاشی صورتحال، روزگار کا منظرنامہ، قیمتوں کی مجموعی صورتحال، آمدنی اور اخراجات وغیرہ کی معلومات موجود ہیں۔ ہم اپنے مقصد کے لیے، صرف جدول-2 میں روزگار کی صورت حال کے بارے میں صارفین کے تاثرات کی رپورٹ پر بات کرتے ہیں۔ سروے کیے گئے صارفین میں سے نصف کا اب بھی یہ خیال ہے کہ ملک میں روزگار کی صورتحال ابتر ہو چکی ہے، اور تقریباً 30 فیصد (ٹیبل میں رپورٹ نہیں کی گئی) کا خیال ہے کہ ایک اگلے سال کا منظر نامہ مزید خراب ہو گا۔
باقاعدہ تنخواہ دار ملازمتوں(regular employment) میں بے روز گاری:
روزگار کی صورتحال پر کوئی بھی بحث روزگار کے معیار پر بات کیے بغیر ادھوری ہوگی۔ ہندوستان جیسے ترقی پذیر ملک میں، روزگار کا زیادہ تر مسئلہ درحقیقت اس کے معیار کے پہلوؤں سے متعلق ہے۔ اختصار کی خاطر ہم ملازمت کی تین وسیع اقسام میں روزگار کے معیار کا جائزہ لیتے ہیں۔ ذاتی کاروبار (self-employment)، باقاعدہ تنخواہ دار روزگار، اور عارضی روزگار۔ دوسری قسم کو عام طور پر کسی حد تک بہتر روزگار سمجھا جاتا ہے۔ انہیں کم از کم casual workersسے بہتر معاوضہ دیا جاتا ہے، حالانکہ اس زمرے میں، ملازموں کے ایک بڑے طبقے کے پاس کوئی سماجی تحفظ نہیں ہے جیسے تحریری معاہدہ، پراویڈنٹ فنڈ، تنخواہ کی چھٹی وغیرہ۔ اس سے متعلقہ ڈیٹا جدول ۳ میں پیش کیا گیا ہے۔
مندرجہ بالا جدول پر طائرانہ نظر ہمیں یہ بتاتی ہے کہ 2018ء کے بعد سے باقاعدہ تنخواہ دار افراد اور عارضی طور پر ملازمت کرنے والوں کی شرح میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ جب کہ عارضی روزگار میں کمی در اصل غریب اور کم تعلیم یافتہ افراد کی بڑھتی مشکلات کی جانب اشارہ کرتی ہے،حتی کے اس طبقہ کو daily wagesپر بھی کام نہیں ملتا ۔ باقاعدہ تنخواہ دار افرادکی ملازمتوں میں کمی، شہری صنعت اور سروس سیکٹر کی ملازمتیں پیدا کرنے میں ناکامی یا سستی کی عکاسی کرتی ہے۔ شہری علاقوں میں سیلف ایمپلوئمنٹ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ یہ دراصل اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ جو لوگ باقاعدہ اور عارضی روزگار سے محروم ہو رہے ہیں وہ زندگی گزارنے کے لیے کم پیداواری، غیر رسمی اور معمولی سی سیلف ایمپلوئمنٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگرچہ یہاں رپورٹ پیش نہیں کی گئی لیکن شہری علاقوں میں خواتین کی روزگار کی باقاعدہ ملازمت میں بھی کمی آئی ہے۔
حرف آخر:
ہندوستان میں روزگار کی صورتحال اتنی اچھی نہیں ہے جتنی اقتصادی سروے میں بتائی گئی ہے۔ سب سے زیادہ تشویشناک بات 7 فیصد سے زیادہ روزگار کی شرح کا نیا معیار ہے۔ روزگار کے بہتر معیار کی بات تو بالکل دوسری ہے، یہاں ہندوستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں بے روزگاری کی بلند شرح معیشت کی انتہائی سنگین صورتحال اور اس کی بڑھتی ہوئی افرادی قوت کو کسی بھی قسم کے روزگار میں شامل کرنے کی ناکامی کی عکاسی کرتی ہے۔
مضمون نگار: کاشف منصور