قسط-2
اگرہم 1950ء سے2023ء تک کے معاشی پالیسیوں اورمعاشی ترقی کے سفر کا جائزہ لیں تویہ مضمون بہت طویل ہوجائے گا اس لئے ہم اس پورے عہد کو تین بڑے خانوں میں تقسیم کرکے اس درمیان اپنائی جانے والی معاشی پالیسیاں اوران کی کامیابی اورناکامی کا مختصر مگر جامع تجزیہ کریں گے تاکہ پچھلے پچھتر سالوں کی معاشی صورتحال پوری طرح ابھر کر سامنے آجائے اورایک عام قاری کوبھارت کی معاشی ترقی اورمسائل کا صحیح اندازہ ہوسکے۔
ہم بھارت کی معاشی ترقی کوتین عہدوں میں بانٹ کر دیکھیں گے جومندرجہ ذیل ہے۔
- 1950ء-1990ء
اس کو پلان عہد کا نام دیا جاسکتاہے۔ جس میں سارازور پبلک سکٹر کے پھیلاؤ پر تھا۔ نجی سکٹر پرکئی طرح کی پابندیاں تھیں۔اولا تو انہیں کمپنی لگانے کے لئے سرکار سے اجازت لینی پڑتی تھی دوسرے کمپنی کے سائز، پیداوار وغیرہ کے معاملے میں سرکار سے سے اجازت لینی ہوتی تھی جس کی وجہ سے اس کولائسنس پرمٹ راج بھی کہاجاتاتھا۔ اس درمیان میں ہائی ٹیکس ریٹ جس میں انکم ٹیکس، ویلتھ ٹیکس اور کارپوریٹ ٹیکس شامل ہیں، بقول نانی پالکی والا کے دنیامیں سب سے زیادہ تھے۔ جس کی وجہ سے باوجود پلان ڈیولپ منٹ اسٹریٹجی کے بھارت کے معاشی ترقی کی رفتار بہت سست تھی جس کاجائزہ ہم نیچے تفصیل سے لیں گے۔
- 1991ء -2014ء
اس دور کو Liberalisation کا دور کہاجاتاہے۔ اس دور میں بھارتی معیشت کے دروازے نجی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لئے کھول دئے گئے اور بھارتی معیشت میں Structural Reform کئے گئے۔ دراصل بھارت 90 کی دہائی میں جس معاشی مشکلات میں پھنس گیا تھا تو IMF اور ورلڈ بنک نے بیل آؤٹ پیکج دینے سے پہلے بھارت کو Liberalisation اورPrivatiasation کے تحت اپنے معیشت دروازے کھولنے پر مجبور کیا اور حالات کے تحت بھارت سرکار کو یہ سخت فیصلے لینے پڑے۔بہر حال اس کا فائدہ یہ ہو اکہ Globolisation بھارت کی معیشت میں کھلاپن لےآیا۔ مسابقت بڑھی، روزگار کے مواقع پیدا ہوئے اور غریبی کی سطح میں رکارڈ کمی آئی۔گویا اس پالیسی کافائدہ بھارت کی معیشت کوملا۔ مگر ا س کی کچھ قیمت بھی چکانی پڑی جس کاجائزہ ہم نیچے لیں گے۔
- 2014ء – 2024ء
یہ جاری عہد، Post Liberalisation کاعہد کہلاتاہے۔
ہم ان تینوں عہدوں کے مسائل، اس درمیان اپنائی گئی پالیسیاں اور اس کے نتیجے میں ہونے والے منفی اور مثبت دونوں اثرات کاجائزہ لیں گے۔
بھارت کی اہم خصوصیت
بھارت نوآزد ملکوں میں ایک خصوصی مقام رکھتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے ہر قسم کی آمریت کے مقابلے میں دستوری عوامی جمہوریت کاراستہ اختیار کیا اور تمام بالغ مردو عورت کوبلالحاظ مذہب، زبان، علاقہ، رنگ، نسل، تہذیب اور امیری وغریبی، اور علم و جہالت کے یکساں رائے دہندگی کاحق دیا۔ بھارت میں مذہب اور نسل کی تفریق ختم کرکے سب کو برابری کاحق عطا کیا گیا او رجو ذاتیں اور برادریاں ہزاروں سال سے انسان ہونے کے باوجود بنیادی حق سے محروم تھیں ان کوبلاکسی امتیاز کے انسان ہونے اور برابر کا شہری ہونے کاحق دیاگیا۔ بھارت میں 80% ہندو آبادی ہے۔تقسیم کے بعد ایک شدید جذباتی ماحول کے باوجود تمام دباؤ کے علی الرغم بھارت کو ہندو راشٹر، بنانے کے بجائے ایک سیکولر ریاست بنایا اورمذہبی، لسانی، نسلی اور تمدنی اقلیتوں کو دستوری تحفظ عطاکیا گیا۔ یہ اور بات ہے کہ بھارت کی پچھتر سالہ تاریخ ان اقدار کی عملی خلاف ورزی کی تاریخ ہے۔ مگر بھارت کی یہی دستوری پوزیشن ہے جس کی جھلک بھارت کی معاشی ترقی کی جدوجہد میں ملتی ہے۔ روس میں جو منصوبہ بندی شروع کی گئی اور جس کی کامیابی کادنیا بھر میں ڈھنڈورا پیٹا گیا وہ منصوبہ بندی ایک آہنی دیوار کے پردے میں لاکھوں لوگوں کے خون اور عقوبت کے ذریعہ لاگو کی گئی اورچند دہائیوں میں اس کی ہو ا ایسی نکلی کہ ساری دنیا پر اس کاراز کھل گیا اور سویت یونین ایک سوپر پاور کے بجائے ایک عام ساملک ہوگیا۔ جس کے پاس نیوکلیئر قوت ہے۔ سویت سامراج بکھر گیا اور تمام وہ ممالک جس پر ایک زمانے میں زار کاقبضہ تھا آزاد ہوگئے اور وہ آج اپنے ہی ایک سابقہ مملکت یوکرین سے برسر جنگ ہے۔
بھارت میں منصوبہ بندی کے مقاصد اور رفتارِ ترقی
بھارت نے جمہوری ڈھانچے میں رہ کر منصوبہ بندی کا راستہ اختیار کیا اور ہرطرح کے چیلنج اور مسائل کا سامنا کرتے ہوئے منصوبہ بندڈھنگ سے آگے بڑھنے کا راستہ اپنایا۔ ابتداءً بھارت کے حکمرانوں کودوطرح کاخطرہ تھا پہلا یہ کہ کوئی ایسا موقع نہ دیا جائے کہ پھر سے باہری سرمایہ اورباہری ٹکنالوجی چور دروازے سے داخل ہوجائے اور وہ بھارت کی آزادی اور خودمختاری کے لئے خطرہ بن جائے۔ دوسرے ملک میں پہلے ہی سے شہری اور دیہاتی آبادی کے درمیان غیر معمولی تفاوت پایا جاتا تھا اور علاقائی تفاوت بھی بہت تھے۔ بعض علاقے اورریاستیں زیادہ خوش حال اورترقی یافتہ تھیں اوربعض علاقے مفلس اور پس ماندہ تھے۔ لہذا یہ پیش نظر رہا کہ ایک طرف شہریوں کے درمیان جوامیر اور غریب کافرق ہے اس کوکم کیاجائے، دوسرے علاقائی تفاوت دور کرکے ملک میں متناسب ترقی کی راہ ہموار کی جائے۔ جب آپ پانچ سالہ منصوبوں کے مقاصد پرنظر ڈالیں گے تویہ باتیں کھل کر سامنے آجائیں گی۔ بھارت میں 1951ء – 2014ء کے درمیان بارہ پانچ سالہ منصوبوں کا نفاذ ہو ا۔وقت کے ساتھ الگ الگ منصوبوں کی ترجیحات بدلتی رہی۔ مگر اگر ان کاخلاصہ بیان کیاجائے تو وہ مقاصد درج ذیل ہیں۔
(i) معاشی ترقی (Economic growth)
(ii) معاشی برابری اورسماجی انصاف (Economic Equilty & social justice)
(iii) مکمل روزگار(Full Employment)
(iv) معاشی خود کفالت (Economic self reliance)
(v) جدید کاری (Modernaization)
بھارت میں منصوبہ بندی کی تاریخ بہت سے اتار چڑھاؤ سے بھری ہوئی ہے۔ 1951ء – 1990ء تک 7پانچ سالہ منصوبے نافذ العمل رہے جس میں تیسرے اورچوتھے منصوبے کے درمیان ان تین سالوں میں بعض اندرونی وجوہات کی وجہ سے پانچ سالہ پلان معطل کردیا گیا۔ جس کو پلان ہولی ڈے کہتے ہیں اور اس کی جگہ پر سالانہ پلان بنایا گیا۔ پلان ہولی ڈے کی بنیادی وجہ1965ء میں بھارت- پاک جنگ اور بیرونی امداد کی تعطلی تھی۔ بھارتی روپیہ کا ڈی ویلوئیشن ایک بار 1949ء میں ہوا جس میں روپے کی بین الاقوامی قمیت میں کمی کی گئی۔ اسی کے ساتھ 1965ء-1966ء اور 1966ء -1967ء میں لگاتار دوسال زبردست سوکھاپڑا جس نے قحط سالی کی کیفیت پیداکردی تھی۔ ان اسباب سے تیسرے اور چوتھے منصوبہ کو فوری طورپر روکنا پڑا۔ پانچویں، چھٹی ساتویں اور آٹھویں پانچ سالہ منصوبہ کے نفاذ میں سیاسی وجوہات سے تاخیر ہوتی رہی۔ اس لئے آٹھویں پانچ سالہ پلان 1997ء میں مکمل ہو ا۔
ویسے تو بھارت کا ابتدائی پانچ سالہ منصوبہ ہیروڈ ڈومر ماڈل پرمبنی تھا جس کے تحت معیشت کی ترقی انوسمنٹ کے اضافہ پرمنحصر کرتی ہے۔بجٹ میں اضافہ کرکے سرمایہ کاری میں اضافہ کیا جاسکتاہے اور اس سرمایہ کاری کے لیے بہتر ٹیکنالوجی کے فروغ سے ترقی کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔ لیکن ہمارے یہاں منصوبہ بندی میں سیاست دانوں کے عمل دخل نے مختلف اثرات مرتب کیے۔ سرمایہ کاری کہاں کرنی ہے؟ کیسے کرنی ہے؟ وہ سیاست دانوں کے ذریعہ طے کی جاتی تھی اورماڈل کااستعمال اس کو جواز فراہم کرنے کے لئے کیاجاتا تھا۔
پہلے پانچ سالہ منصوبہ میں پرائمری سکٹر پرزیادہ توجہ دی گئی۔ خوش قسمتی سے اس دوران مانسون سازگاررہاجس کی وجہ سے زرعی پیداوار میں اضافہ ہوا۔ ا س کے نتیجہ میں یہ بھرم پیداہوگیاکہ زراعت کی فطری طور پرترقی ہوگی اور ہم غذائی اجناس جلد ہی خود کفیل ہوجائیں گے۔لہذا دوسرے پلان کے بعدمہال نوس ماڈل کے ذریعہ زیادہ توجہ بڑی اور بھاری صنعتوں کے فروغ پر دی گئی اور 1956ء میں صنعتی پالیسی اپنائی گئی اس کے تحت سرکاری سکٹر میں بڑی صنعتوں کے فروغ کامنصوبہ بنایا گیا۔ یہ امید کی گئی کہ ان صنعتوں کے فروغ سے جوبچت ہوگی اس سے معیشت کی ہمہ جہت ترقی ممکن ہوپائے گی اور غریبی اور بے روزگاری جیسے دائمی مسائل کوحل کرنے میں مدد ملے گی۔ لہذا دوسرے پانچ سالہ منصوبہ کے تین بنیادی عوامل تھے۔
(i) سرمایہ کاری کی شرح میں اضافہ کیونکہ معاشی ترقی کی رفتار سرمایہ کاری کی شرح میں اضافہ پرمنحصر ہے۔
(ii) بھاری اور کیپیٹل گڈس سکٹر میں تیزی سے پھیلاؤ کے ذریعہ معیشت میں پیداوار ی قوت کو فروغ دینا۔
(iii) پبلک سکٹر کو وسعت دے کر اس کو کمانڈنگ ہائٹ عطاکرنا اور اس کے ذریعہ معیشت کو ترقی دینا۔
شروع میں یہ خیال کیا گیا تھاکہ تیز رفتار معاشی ترقی کے لئے بڑی اور بھاری صنعتوں کا اور انفرا اسٹرکچر کافروغ ضروری ہے۔ان صنعتوں پر بھاری رقم خرچ ہوگی اور ان کاتکمیلی مرحلہ (Gestation period) بھی زیادہ ہوگااور اس پرمنافع کم ہوگا اس لئے نجی سرمایہ کاری کے بجائے عوامی سرمایہ کاری زیادہ صحیح طریقہ ہے۔ اس سے دومقاصد اور پورے ہوں گے ایک علاقائی تفاوت کو دور کرنے میں مدد ملے گی، دوسرے نجی اجارہ داری پرروک لگے گی۔
لیکن اس حکمت عملی سے جومقاصد حاصل کئے جانے تھے وہ حاصل نہیں ہوئے۔ دراصل منصوبہ ساز لوگوں نے ہندوستانی تخمینہ کے ذریعے ایک نتیجہ اخذ کرلیاتھا۔ وہ ان بہت سے داخلی اورخارجی عوامل کواپنے تخمینہ میں شامل کرنا بھول گئے جومعیشت میں عدم استقلال پیداکرتے ہیں۔ لہذا جب منصوبہ بندی کاٹھوس زمینی حقائق سے سامناہوا تو وہ تاش کے پتے کی طرح بکھر گئے اور 12 منصوبوں میں سے کوئی بھی منصوبہ اپنے اہداف کوحاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ جن بھاری اور بڑی صنعتوں کو معیشت کی تیز رفتاری دینے کاذمہ سونپا گیا تھاوہ سفید ہاتھی ثابت ہوئے اورمعیشت میں کچھ جوڑنے کے بجائے اس میں ایک ایسامستقل سراخ ثابت ہوئے جس نے سرمایہ کاری میں اضافہ کے بجائے ایک قرض خور دیو بنادیاجوملک میں حاصل شدہ تمام اندرونی اوربیرونی وسائل کوچٹ کرجاتاتھا۔ دراصل ہمارے سیاست دانوں اورنوکرشاہوں کی ذہنیت انٹرپرینئیرکی نہیں تھی۔ کیونکہ حکومت چلانا اوربزنس کرنا دوالگ چیزیں ہیں۔ مگر اس غلطی کوسدھارنے میں بہت وقت لگا۔ جب تک ملک کی معیشت پرلاکھوں کروڑ کابوجھ آچکاتھاجس نے ملک کی معیشت کواندر سے کھوکھلا کردیا۔ ہم چوتھے پانچویں منصوبہ بندی سے حکمت عملی میں واضح تبدیلی دیکھتے ہیں۔ 1971ء میں وی۔ ایم ڈان ڈیکر اور ان۔ رتھ نے ہندوستان میں غربت پراپنامطالعہ شائع کیا جس سے انکشاف ہو اکہ ہماری 40% آبادی زندہ رہنے کے بنیادی معیار سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ لہذا اس جانب فوری ترجیح دینی چاہئے۔ پانچویں منصوبہ میں منصفانہ تقسیم پرزور دیتے ہوئے یہ بات کہی گئی کہ30%جو اعلیٰ آمدنی والی آبادی ہے اس سے سرمایہ لے کر30% جوغریب آبادی ہے اس میں اس طرح تقسیم کیاجائے کہ وہ اپنے بنیادی ضرور تیں پوری کرسکیں۔
چھٹا پانچ سالہ منصوبہ (1980-1986) میں 15سالہ ضروریات کا لحاظ کرتے ہوئے کچھ اہداف متعین کئے گئے جن میں غریبی کا خاتمہ، گین فل روزگار پیداکرنا اورتکنیکی اور معاشی خود کفالت کاحصول۔ اس پلان میں قومی دیسی روزگار منصوبہ اور غریبی کے خاتمہ کے لئے کچھ اور اقدام کئے گئے۔
ساتواں منصوبہ سابقہ منصوبوں سے مختلف تھا اور اس نے غربت، بے روزگاری اورعلاقائی تفاوت کے خاتمہ پر کافی زور دیا۔
آٹھویں منصوبہ کے مقاصد وسیع تھے جواس طرح ہیں:
- روزگار میں خاطر خواہ اضافہ اور اس صدی کے اختتام تک مکمل روزگار کاحصول
- آبادی پر ترغیب اورترہیب کے ذریعہ روک
- تمام لوگوں کی مکمل خواندگی۔
- صاف پانی، بنیادی صحت کی سہولتیں، ٹیکہ کاری اور سرپر غلاظت ڈھونے کاخاتمہ
- زرعی پیداوار میں اضافہ تاکہ غذائی خود کفالت ممکن ہوسکے اورغذائی اجناس کو برآمد کیاجائے۔
- انرجی، ابلاغ اور آب پاشی جیسے انفراسٹیکچر کافروغ۔
یہ منصوبہ بند کوششیں کس حد تک کامیاب رہیں اور کس حد تک ناکام رہیں اس کاایک مختصر جائزہ ضروری ہے۔ نوآبادیاتی حکومت نے جو معاشی جمود پیدا کردیاتھا اسے منصوبہ بندی نے توڑا اور ملک کوترقی کی راہ پرگامزن کردیا۔ اس کے باوجود کہ کوئی پلان اپنے ٹارگٹ کو پوراکرنے میں کامیاب نہیں ہوا تاہم پہلی منصوبہ بندی سے لے کرآٹھویں منصوبہ بندی تک بھارت نے 4.1%سالانہ کی درسے ترقی درج کی جو منصوبہ بندی کانتیجہ مانا جاسکتاہے۔ اسی طرح انفراسٹیچر جیسے ٹرانسپورٹ اورمواصلات، آب پاشی اور انرجی سکٹر کا فروغ جس کے بغیر معاشی ترقی ممکن نہیں تھی، اس پرتوجہ دی گئی۔
1951ء -1996ء کے درمیان 9300 کیلومیٹر ریلوے ٹریک بنائے گئے اور 1300 کیلومیٹر ریلوے ٹریک الیکٹریفیکشن ہوااور اسٹیم انجن کی جگہ ڈیزل اور برقی انجن بدلے گئے۔ اسی طرح ٹرانسپورٹ کے اور دیگر ذرائع میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔اسی طرح 1956ء-1957ء میں کل 2.26 کروڑ ہیکٹر میں آبپاشی کی سہولت مہیاتھی جو 1996-1997میں بڑھ کر 8.94 کروڑ ہیکٹر ہوگئی۔ دوسرے پانچ سالہ منصوبہ تک بجلی کی پیداوار 3400mw تھی جو 1997ء میں 96100mw بڑھ گئی۔
بھارت نے پلان دیولپمنٹ کے ذریعہ بنیادی اور بھاری صنعت نیز کیپیٹل گوڈس انڈسٹری کے فروغ میں اہم پیش رفت کی اور صنعتی مشین، مشین ٹولس، الکٹریکل انجینئرنگ، ٹرانسپورٹ ایکوپمنٹ، آئرن اور اسٹیل انڈسٹری کے میدان میں خاصی کامیابی حاصل کی اور ساری انڈسٹری سرکاری سکٹرمیں لگائی گئی۔ جس سے ملک کی معاشی ترقی کو ایک مضبوط بنیاد ملی۔
بھارت کے پلان ڈیولپمنٹ کی کامیابی کی کہانی میں زرعی اصلاح اور سبز انقلاب بہت اہم ہے۔بھارت گاؤں اور زرعی ملک ہونے کے باوجود غذائی قلت کاشکار رہا اور بڑھتی آبادی نے اس مسئلہ کو دوچند کردیا۔ لگاتار سوکھااور قحط سالی کے نتیجے بھارت کوامریکہ سے PL480 کے تحت غذائی اجناس درآمد کرنے پڑے تھے۔ تاہم جب زرعی اصلاحات کئے گئے ا ور ساتھ ہی 1966ء کے بعد جن علاقوں میں آبپاشی کابہتر نظام تھاجیسے پنجاب، ہریانہ اور مغربی اترپردیش وہاں اونچے پیداوار والے بیج، کھاد، کیڑے مارنے والی دوائی وغیرہ کی جب شروعات ہوئی تو اس نے زرعی سکٹر میں زبردست انقلاب برپا کردیا اور بھارت کچھ ہی برسوں میں غذائی قلت سے نکل کر غذائی طور پر خود کفیل ملک بن گیا۔
بھارت میں پبلک سکٹر کی ترقی بھی منصوبہ بندی کی مرہون منت ہے۔پلان عہد میں کل سرمایہ کاری کا45% حصہ پبلک سکٹر کے فروغ پر خرچ ہو ااس کے ساتھ مختلف ریاستوں نے بھی اپنے زیر انتظام پبلک سکٹر پرخاطر خواہ رقم خرچ کی۔
بھارت کی فی کس سالانہ آمدنی جوصرف 375 ڈالر تھی وہ 1991 میں 1700 ڈالر ہوگئی۔ اور بھارت 1045 ڈالر جو کم آمدنی والے ملکوں کی آخری حد ہے اس کے نکل کر مڈل انکم ملکوں کے گروپ میں آگیا۔ 1950 -1980 کے درمیان بھارت کا جی ڈی پی گروتھ 3.5% تھا جس کو پروفیسر راج کرشنا ہندو ریٹ آف گروتھ کہتے تھے وہ 1980 -92 کے درمیان بڑھکر5% ہوگیا۔
زراعت پرمنحصر رہنے والی آبادی 1950 میں 67.5% تھی اس میں 1990 میں خفیف کمی آئی اور وہ 64.9% ہوگئی۔ انڈسٹریل سکٹر میں جی ڈی پی گروتھ 11.8% سے24.6% ہوگئی۔ اسی طرح سروس سکٹر میں بھی خاطر خواہ فروغ ہوا۔
منصوبہ بندی کی ناکامیاں
تاہم اس کی ناکامیاں بھی کم نہیں ہیں۔ مختلف ماہرین اقتصادیات نے بھارت کے پانچ سالہ منصوبوں کی متعدد خامیاں گنوائی ہیں اور اس پرتفصیلی تبصرہ کیاہے۔مگرطوالت سے بچتے ہوئے ہم صرف چند نکات کی نشاندہی کریں گے۔ مثلا
(i) ڈی۔ آر۔ گارڈ گل نے اسے ناقص منصوبہ قرار دیتے ہوئے بتایا کہ اگرچہ یہ منصوبہ بندی کادعویٰ کرتی ہے تاہم اس کا فریم ورک لیسزفیئر ایکونامی کاتھا۔ اشوک رُدرا نے ملٹی سیکٹر ماڈل پر سوال اٹھاتے ہوئے یہ کہا کہ قدرتی وسائل کی حد بندیوں پر غور نہیں کیا گیا۔ نیز انسانی وسائل یعنی تعلیم اور صحت پرخاطر خواہ دھیان نہیں دیا گیا اوریہ مان لیا گیا کہ ٹیکنالوجی میں وقت کے ساتھ کوئی تبدیلی نہیں ہوگی نیز یہ کہ اقتصادی منصوبہ بندی سماجی رشتوں کو پوری طرح بدل دے گی جوناقص تصورات تھے۔
(ii) بعض ماہرین نے مالی حکمت عملی پرسوال اٹھائے ہیں اور ان کے خیال میں یہ تصور کہ ‘جوچیز طبعی طور پرممکن ہے وہ مالی طور پر بھی ممکن ہوگی’، غلط فہمی ہے۔ دراصل منصوبہ بندی کاپورا نظریہ بند معیشت کے تحت ترتیب دیا گیا تھا جس میں درآمدات اور برآمدات پرنیز غیر ملکی امداد اور افراطِ زر پر پورا دھیان نہیں دیا۔
(iii) سرمایہ کاری پرضرورت سے زیادہ زور دیا گیا اور یہ مانا گیا کہ یہ سارے مسئلہ کاحل ثابت ہوگی۔ جبکہ اسکِل ڈیولپمنٹ، تکنیک، منیجمنٹ، اوپریشنل ایفی شنسی اور ایڈمنسٹریٹو میشینری بھی ترقی میں مددگار ہوتی ہے، اس پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی۔ اس وجہ سے بقول پردھان۔ ایچ پرشاد، بہت کم ترقی ممکن ہوسکی۔
(iv) اسی طرح صنعتی حکمت عملی بھی ناقص تھی۔ کوئی بھی بھاری انڈسٹری وقت پرپوری نہیں ہوئی۔ اس کی لاگت میں بے تحاشہ اضافہ ہوااور اس سے حاصل شدہ آمدنی توقع سے ہمیشہ کم رہی۔
(v) منصوبہ بند معاشی پالیسی کی سب سے بڑی خامی بے روزگاری کی شرح میں مسلسل اضافہ میں نظر آتی ہے۔ پارلیمنٹ میں پیلو مودی نے ایک بار تقریر کرتے ہوئے مذاقاً یہ سوال کیاتھا کہ “ملک کو بے روزگارکرنے کے لئے کتنے اور منصوبوں کی ضرورت ہے”۔
(vi) سماجی انصاف کی اندیکھی۔ سماجی انصاف کے حصول کے لئے غریبی کاخاتمہ اور آمدنی کی نابرابری کودور کرنا لازمی شرط ہے۔ منصوبہ بند کوششوں میں اس کا فقدان نظر آتاہے۔ بھارت میں پلاننگ کی ناکامیوں پرتبصرہ کرتے ہوئے سکھمے چکرورتی نے بتایا کہ پلاننگ کے ذمہ داران صحیح جانکاری حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ جوخامیاں ان کے سامنے آئیں اس کابروقت تدارک کرنے میں چوک گئے۔ تیسری اور آخری بات یہ کہ پلاننگ کے ذمہ داروں میں وہ حوصلہ نہیں تھا جوان منصوبوں کونافذ کرنے کے لئے ضروری تھا۔ اس وجہ سے بھارت میں پلاننگ کاتجربہ بڑی حد تک ناکام رہا۔
بھارت کا اقتصادی بحران اور اصلاحات کا آغاز
بھارت کی معاشی ترقی کا دوسرا مرحلہ 1991 – 2014تک کاہے جس کو ہم معیشت کے کھلے پن کا دور کہتے ہیں۔ ساتویں منصوبہ بندی کے بعد سے ہی پلان ایکونومی کے سلسلے میں لوگوں کا جوش کم ہونے لگا اور بہت سے لوگ اس کو غیر ضروری ماننے لگے۔ تین دہائیوں کی منصوبہ بند ترقی کی رفتار 3.4% سالانہ تھی وہ توقع سے بہت کم تھی۔ بعد کے پندرہ سالوں میں 5.2% سالانہ ترقی بھی اس دوران مشرقی ایشیاء کے کئی ممالک کی رفتار سے بہت کم تھی جوانہوں نے اس مدت میں حاصل کی تھی اور انہیں ایشین ٹائیگرس کہاجاتاتھا۔پلاننگ بازار کی ناکامیوں کو روکنے کے لئے بنائی گئی تھی جو بالآخر حکومت کی ناکامی ثابت ہوئی۔ جواہر لال نے منصفانہ تقسیم پربہت زور دیاتھا مگر اس کابھی حصول نہیں ہوسکا۔اور45 سالہ منصوبہ بند کوششوں کے بعد بھی ملک میں 35% لوگ غریبی کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔
آٹھویں منصوبہ کے وقت اگرچہ پانچ سالہ منصوبوں کی حکمت عملی پرگہرے سوالات اٹھائے گئے تاہم یہ مانتے ہوئے کہ پلاننگ اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہی ہے مگربھارت کی غریبی کو دیکھتے ہوئے سب کچھ مارکیٹ فورسز کے حوالہ کرنامناسب نہیں سمجھاگیا۔ لہذا سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی سے توجہ ہٹاکر پالیسی منصوبہ بندی کواہمیت دی گئی۔
لگاتار پلان ٹارگیٹ کے حصول میں ناکامی سے معیشت پرقرض کابوجھ بڑھتا چلا گیا۔حکومت نے اندرون ملک اوربیرون ملک جو قرض لئے تھے اس کی ادائیگی مشکل ہونے لگی۔ کل قومی آمدنی کاکم وبیش 52% حصہ قرض اور سود کی قسطوں کی ادائیگی میں جانے لگا جس سے ضروری کاموں کے لئے پیسہ کی کمی ہوگئی۔ گلف کرائیسس اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ سے صورتحال اور بھی خراب ہوگئی۔ بھارت کے مالیاتی پوزیشن اس قدرکمزور ہوگئی کہ قرض کی ادائیگی کاجوتوازن تھا جس کو Balance of Payment کہتے ہیں، وہ بگڑنے کاخطرہ پید اہوگا۔ بھارت کا فورن ریزور گھٹ کر صرف دوہفتوں کارہ گیا۔ اس کی وجہ سے بھارت کی سورن ریٹنگ کم ہوگئی اورسورن ڈی فولٹ کاخطرہ پیدا ہوگیا۔ ایسی صورت میں بھارت کو اپناسونا گروی رکھنا پڑا اور1991ء میں روپے کی بین الاقوامی قیمت گھٹانی پڑی۔ اس وقت آئی ایم ایف نے بیل آوٹ پیکج دیتے وقت یہ شرط لگائی کہ بھارت کو اپنی معیشت کے دروازے کھولنے پڑیں گے اوربیرون سرمایہ کو ملک میں آنے کی اجازت دینی ہوگی۔ پروٹیکشنزم کو خیر باد کرنا پڑے گااور لبرلائزیشن، پرائی وٹائزیشن اورگلوبلائزیشن کو معاشی پالیسی کاحصہ بنانا ہوگا۔ چنانچہ اس پالیسی کے تحت معیشت کو زیادہ سے زیادہ مارکیٹ رخی بنانے کی کوشش کی گئی اور پرائیوٹ اور بیرونی سرمایہ کاری کے لئے راہیں ہموار کی جانے لگیں۔ساتھ ہی فری ٹریڈ، ڈی ریگولیشن، سبسڈیز کاخاتمہ، قیمتوں پرکنٹرول اور راشن کا خاتمہ اور اس میں کمی اور عوامی خدمات کو نجی دائرے میں لانا وغیرہ تھا۔ اس کے علاوہ ڈھانچہ کی تبدیلی یہ کی گئی کہ عوامی سکٹر کے بجائے نجی سکٹر کو بڑھاوا دین، اس کے لئے تمام تر میدانوں میں دروازے کھولنے کااہتمام کیا گیا، ایف ڈی آئی کوہر سکٹر میں بڑھانے پرزور دیا گیا اورعوامی سکٹر کی کمپنیوں کونجی ہاتھوں میں فروخت کرنے کی پالیسی اپنائی گئی۔
بہر حال ان اصلاحات کافائدہ یہ ہو اکہ جی ڈی پی گروتھ میں خاطر خواہ اضافہ ہوا 1992ء – 2003ء کے درمیان جی ڈی پی گروتھ 6% بڑھ گیا اور2003ء -2015ء کے درمیان یہ 8% ہوگیا۔1947ء – 1983ء کےدرمیان 60% آبادی غریب تھی اور اس درمیان ملک کی آبادی دوگنا ہوگئی تھی گویا اسی رفتار سے غربت بھی دوگنی ہوگئی۔ لیکن 1985ء کے بعد غربت میں کمی کے آثار پیداہوئے اور 2004ء -2005ء سے 2011ء – 2012ء کے درمیان 138 ملین لوگ غریبی کی سطح سے اوپر آگئے۔ اس طرح بھارت کی معیشت ان اصلاحات کے نتیجے میں تیزی سے ترقی کی راہ پرگامزن ہوگئی۔
اس درمیان جوبھی سرکاریں آئیں چاہے وہ کانگریس کی زیر قیادت ہو یا بی جے پی کی زیر قیادت، نہ صرف یہ کہ انہوں نے ان اصلاحات کوجاری رکھابلکہ پوری مضبوطی سے آگے بڑھایا۔
ڈاکٹر من موہن سنگھ بھارت کے سب سے قابل ترین اور عالمی شہرت یافتہ ماہر معاشیات تھے۔وہ ملک کے وزیر مالیات اور بعدمیں وزیر اعظم بنے۔ انہوں نے بھارت کو معاشی بحران سے نکال کر تیز رفتار ترقی کی راہ پرگامزن کیا۔ وہ ملک کے وزیر اعظم ہونے کے باوجود سیاسی قیادت ان کے ہاتھ میں نہیں تھی۔یو پی اے حکومت ملی جلی حکومت تھی جس کے بہت سے وزراء پرگنبھیر کرپشن کے الزامات لگے۔ کئی بڑے گھوٹالوں کا پردہ فاش ہو ا۔ حکومت فیصلہ لینے سے ہچکچانے لگی اور پی پی پی ماڈل، جس کابہت چرچا تھاوہ ناکام ہوگیا۔ بینک اور بجلی کے شعبہ میں کافی نقصان ہو ا۔ لیکن تمام خامیوں کے باوجود معیشت کوترقی کے جس راستے پرڈال دیاگیا تھاوہ روز بروز بڑھتی رہی لہذا 2004ء – 2014ء کے عہد کو بھارتی معیشت کا سنہرا دور کہا جاسکتاہے۔ بھارت غریب ملکوں کی صف سے باہر نکل کر مڈل انکم ملکوں کے گروپ میں شامل ہوگیا اور آج دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشت کے ریس میں شامل ہے۔ اس کی بنیاد من موہن سنگھ نے ڈالی تھی۔ چنانچہ ان اصلاحات کا سہرا ان کے سر بندھتاہے۔
(iii) 2014ء سے تاحال وہ دور ہے جسے معاشی زبان میں نیو لبرائزیشن کا عہد کہا جاسکتا ہے اور سیاسی زبان میں مودی عہد کہا جاتا ہے۔ بھارت ایک جغرافیائی تصور ہے جس کو دستوری زبان میں ریاستوں کا وفاق کہاجاتاہے۔ جہاں دستوری طور پرسہ سطحی حکومت ہے۔ مرکزی حکومت، ریاستی حکومت اورلوکل سلف گورنمنٹ جوبدلیاتی اور گرام پنچایت پرمبنی ہے۔ سب کے حدود متعین ہیں اور ہر ایک کا دائرہ کار بھی متعین ہے۔ ہر سطح کی حکومت کوٹیکس، لیوی سس اور فیس چارج کرنے کاحق ہے۔ کچھ کام خالص مرکز کے ذمہ ہے اورکچھ ریاستوں کے ذمہ ہیں اورکچھ وہ کام ہیں جس میں مرکز اور ریاست کی شراکت داری ہوتی ہے۔
– پروفیسر سید ابوذر کمال الدین