دور حاضر میں نوجوانوں کے مسائل اور ان کا حل

ذاکر انعامدار

کسی بھی قوم کی طاقت کا سرچشمہ اس قوم کے نوجوان ہوتے ہیں۔ جب کسی قوم کے نوجوان بلند حوصلہ، باہمت، باصلاحیت اور امنگوں اور ولولوں سے بھر پور ہوں تو سمجھ لیجئے کے وہ قوم بساط عالم پر اپنا لوہا منواتی ہے اور دارا جیسے شاہوں کے سر وں کے تاج ان کی ٹھوکروں میں ہوتے ہیں۔ لیکن مایوس، پژمردہ اور راہ بھٹکے ہوئے جوان جو اپنی خودی کو فراموش کرچکے ہوں، ایسے نوجوان جس قوم میں ہو وہ اپنی تنزلی کی طرف گامزن اور تباہی و بربادی کی الٹی گنتی، گنتی ہے۔

قوتوں، حوصلوں، امنگوں، جوش، عزائم اور ولولہ کا نام نوجوانی ہے۔ دنیا میں آج تک جتنے انقلاب آئے، چاہے وہ سیاسی ہو یا اقتصاد ی، معاشی ہو یا سماجی، سائنسی ہو یا اخلاقی ان سبھی کی پشت پر نوجوانوں کا رول سب سے اہم رہا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہر دور اور ہر زمانے کے انقلابات میں نوجونواں کا کردار جزلاینفک رہا ہے۔

جس انقلاب  یا تحریک کا ہر اول دستہ نوجوان ہوں،  اسے تاریخ کا دھارا موڑنے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔ کیوں کہ نوجوان جب کسی پیغام کو اپنا لیتے ہیں تو پھر اس کے نافذ کرنے میں کسی کو خاطر میں نہیں لاتے اور اس کے ساتھ کسی قسم کا سمجھوتا نہیں کرتے ۔

انسانی تاریخ کا سب سے حیرت انگیز انقلاب جو آج سے چودہ سو سال قبل جزیرہ نما عرب میں برپا ہوا تھا ، جس کے بارے میں تاریخ کے اہم تجزیہ نگار نے کہا تھا کہ “گویا ایک جادو کی چھڑی گھما دی گئی ہو اور آناً فاناً  عرب میں ایک ایسا انقلاب آیا جس نےاس کی کایا پلٹ کر رکھ دی “۔ اس عظیم الشان انقلاب میں رسول عربی ؐ کی دعوت کو قبول کرنے اور چٹان کی طرح اس پر جم جانے والوں میں اکثریت نوجوانوں ہی کی تھی ۔ مصعب بن عمیر ؓ، عمار بن یاسرؓ، عثمان غنی، عمر فاروقؓ، سعد بن ابی وقاص، علی بن ابی طالبؓ، غرض کے سابقون الاولین ہوں یا فتح مکہ کے بعد کے جید صحابہ جنہوں نے اس عظیم الشان انقلاب کی جڑیں مضبوط کی،  ان میں اکثریت نوجوانوں کی رہی ہے ۔

نوجوانی کا یہ دور اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ آخرت میں اس کے بارے میں بطور خاص پوچھا جائے گا:

ترمذی کی حدیث ہے جس میں کہا گیا ہے کہ قیامت کے دن آدمی کے قدم اس وقت تک ہٹ نہیں سکیں گے جب تک وہ پانچ سوالوں کا جواب نہ دیدے ان میں سے ایک سوال یہ بھی ہوگا کہ جوانی کی توانائی کہاں خرچ کی ؟

نوجوان کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں اور کوئی قوم اپنے سرمائے کو ضائع نہیں کر سکتی ۔ آج ہمیں اپنے نوجوانوں کے مسائل کو جاننے اور ان مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔  ذیل میں عہد نوجوانی سے متعلق چند اہم معاملات کو زیر گفتگو لایا گیا ہے۔

تعلیم:

آج کے دور میں تعلیم خوشنما کیرئیر کا زینہ بن کر رہ گئی ہے ۔ تعلیم کا مقصد اچھی نوکری یا اچھے پروفیشن تک محدود ہوگیا ہے ۔ اخلاق سے عاری نصاب تعلیم، جو طالب علم کو ایک اچھامینیجر تو بنا دیتا ہے لیکن ایک اچھا انسان بنانے میں ناکام ہوجاتا ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ  اس فیکٹری سے نکلنے والا پروڈکٹ مادہ پرست اور ہوس کا پجاری بن کر رہ جاتا ہے ۔  ملت کا حال اس  معاملہ میں اور بھی دگر گوں ہے ۔ مسلمانوں کی  تعلیمی صورتحال کا گراف آبادی کے تناسب سے کافی نیچے ہے۔ ابھی چند روز قبل یو پی ایس سی امتحانات کے نتائج کا علان ہوا،ہمارے ملک کی بیوروکریٹس کے تقررات کے لئے منعقد کیے جانے والے اس اہم امتحان میں 685 کامیاب طلبہ میں سے  صرف 25مسلمان ہیں ،جب کہ آبادی کے تناسب سے یہ تعداد95   ہونی چاہیے تھی۔

ہماری روایتی تعلیم کے پانچ اہم مراحل  ہیں:

۱۔ د سویں

۲۔ انٹرمیڈیٹ

۳۔ گریجویشن

۴۔ پوسٹ گریجویشن

۵۔ ریسرچ

دسویں تک تو مسلم طلبہ کی اچھی خاصی تعداد ہوتی ہے لیکن دوسرے اور تیسرے مرحلہ  پر یہ کافی گھٹ جاتی ہے جب کہ پی جی اور ریسرچ میں تو مسلم طلبہ کا تناسب دیگر اقوام کے مقابلے بہت کم رہ جاتا ہے ۔ مسلم طلبہ کی تعلیم کے میدان میں اس حالت زار کا جائزہ لینے کے لیے اور اس کی وجوہات تلاش کرنے کے لیے اکابرین ملت کو چاہیے کہ وہ اس پر ایک ریسرچ کروائیں جو اس مسئلہ پر ملت کی رہنمائی کرسکے اور مسلمانوں میں تعلیم کے تناسب کو بڑھانے کے لیے مفید اور سود مند مشورے دے سکے ۔

صحت:

بیڑی، سگریٹ ،تمباکو ،یہاں تک کہ شراب نوشی ،یہ ایسی عادتیں اور روگ ہیں جو عین نوجوانی کی عمر میں ہی لگتے ہیں ۔ ایک بار کوئی ان کا شکار ہوجائے تو یہ امراض   مرنے کے بعد ہی چھوٹتے ہیں یا اپنے شکار کو مار کر ہی دم لیتے ہیں ۔اس لیے اس دورمیں ان موذی اور جان لیوا امراض سے بچتے رہنے کی نوجوانوں کو بہت ضرورت ہے ۔ نوجوانی کے جوش میں کئی مرتبہ  اچھے اور برے کی تمیز کرنا انسان کے لئے مشکل ہوجاتا ہے اور اسے پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ کب اور کس طرح کسی برائی میں مبتلا ہوچکا ہے ۔

عجب حال تھا عہد شباب میں دل  کا
مجھے  گناہ  بھی  کار  ثواب  لگتا   تھا

 

عام طور پر ان بری عادتوں کی لت دوستوں کی محفلوں میں ہی لگتی ہے اس لیے دوستوں کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کر نا چاہیے۔ ایک اچھا دوست انمول نعمت سے کم نہیں  لیکن برے دوست زندگی بگاڑنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں ۔

سوشل میڈیا:

سوشل میڈیا آج انسان کی ایک اہم ضرورت بن چکا ہے۔ 4Gاور 5G اس حیوان ناطق کے لیے اتنا ہی ضروری ہوچکا ہے جس قدر ضروری غذا اور پانی ہے دن بھر میں آدمی اتنی مرتبہ پانی پیتا  اور کھانا بھی نہیں کھاتا ہوگا جتنی بار وہ سوشل میڈیا کی کھڑکیوں میں جھانک کر آتا ہے۔سوشل میڈیا کا استعمال ایک حد تک اور ایک ضرورت تک تو مناسب ہے لیکن حد سے زیادہ استعمال ایک طرح سے ہمیں اس کا نفسیاتی مریض بنادیتا ہے ۔اس نفسیاتی مرض میں سب سے زیادہ نوجوان ملوث ہیں ۔نیند کے علاوہ فرصت کا کوئی لمحہ شاید ہی ایسا گذرتا ہو جب فرصت ملے اور ہم سوشل میڈیا کی بھول بھلیوں میں نہ بھٹک رہے ہوں۔یہ ایک ایسا جنون ہے جس میں کھو کر ہم اپنے آپ کو فراموش کربیٹھتے ہیں ۔ہماری انگلیاں ہمیں اچھے برے ،جھوٹے سچے غرض ہر قسم کے تجربات سے چند سیکنڈوں میں سیر کروادیتی ہے اور اسی کو ہم حقیقی تصور کرتے ہوئے اپنے گرد و پیش کے حالات جو بالکل فطری ہیں اور امن و سکون پر مبنی ہیں، کو بھو ل کر سوشل میڈیا کے مصنوعی حالات کو ہی حقیقی سمجھنے لگتے ہیں ۔ہمارے نوجوانوں کے جذبات کو کھلونے کی طرح استعمال کرنے کے لیے آئی ٹی سیل تو تیار ہی بیٹھا ہے ۔

روزگار:

جہاں تک کیرئیر کے انتخاب کی بات ہے اس سلسلہ میں تین سوال بہت اہم ہوتے ہیں:

  1. ہم کہاں کھڑے ہیں ؟
  2. ہمیں کہاں جانا ہے ( منزل کا تعین )؟
  3. جانے کے لیے راستہ کون سا ہے ؟

اگر یہ تین سوالوں کا جواب طلبہ کے ذہن میں واضح ہو تو کرئیر کا انتخاب آسان ہوجاتا ہے ۔ہم کہاں کھڑے ہیں؟ یہ اگر کسی کو معلوم نہیں تو کسی سے پوچھ کر بھی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ ہم کس مقام پر کھڑے ہیں ۔راستہ معلوم نہ ہو تو راستہ بھی کسی سے معلوم کیا جاسکتا ہے ۔لیکن اگر منزل کا ہی پتہ نہ ہو، یہی معلوم نا ہو کہ جانا کہاں ہے ؟ تو کوئی بھی آپ کو آپ کی منزل کا راستہ نہیں دکھا سکتا ۔اس لیے کیرئیر کے انتخاب میں سب سے پہلے آپ کو جس منزل تک پہنچنا ہے اس کا انتخاب کرنا ہوگا پھر اس منزل تک پہنچنے کے لیے راستہ اور طریقہ کار طئے کرنا ہوگا تبھی آپ اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔

نوجوان لڑکیوں کے ارتداد کے واقعات:

آج کل مسلم لڑکیوں میں ارتداد کا مسئلہ ایک قابل توجہ مسئلہ بن چکا ہے ۔آئے دن ایسے واقعات سننے میں آتے ہیں کہ فلاں مقام پر فلاں مسلم لڑکی کسی غیر مسلم لڑکے کے ساتھ کورٹ میریج کر رہی ہے ۔آئے دن کے اس طرح کے واقعات ملت کے لیے لمحہ فکر یہ بن چکے ہیں ۔اس کی بنیادی وجہ مخلوط تعلیم اور سونے پر سہاگہ ہماری لڑکیوں کی دین سے اور دینی تعلیم سے دوری ہے ۔ماں باپ اپنی لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے چکر میں ان کی تربیت اور انہیں علم دین سے روشناس کرانا بھو ل جاتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ لڑکیا ں کالج کی آزادانہ زندگی اور فری ماحول میں اپنی عزت اور ناموس کو نیلام کرکے ماں باپ ،خاندا ن اور ملت کا نام خراب کرتی ہیں ۔اس طرف سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔

جنسی بے راہ روی اور نوجوان :

فراق گورکھپوری نے کہا تھا،

رات بھی نیند بھی کہانی بھی
ہائے  کیا چیز  ہے جوانی  بھی

انٹرنیٹ کے استعمال اور اباحیت زدہ مواد نے نوجوان نسل کو بری طرح سے اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے ۔آسانی سے دستیاب فحش مواد اور ہر ہاتھ میں اسمارٹ فون نے نوجوانوں میں جنسی بے راہ روی میں تیزی سے اضافہ کردیا ہے ۔عمر کا یہ ایک ایسا موڑ ہوتا ہے جب انسان آسانی سے بھٹک جاتا ہے۔اسی لیے اللہ کے رسول ؐ نے شادی میں دیر نہ کرنے اور نکاح کو آسان کرنے کی تعلیم دی تھی تاکہ نوجوان عمر کی اس دہلیز پر پھسل کر نہ گر ے ۔موجودہ دور کو دیکھ کر بس یہی بات زبان پر آجاتی ہے کہحیا نہیں ہے  زمانے  کی آنکھ      میں باقی
خدا کرے کہ جوانی رہے تیری بے داغ

بے لگام جذباتیت:

ان سب سے ہٹ کر نوجوانوں کا ایک گروہ بے لگام جذباتیت کا بھی شکار ہے ۔ کسی کی آنکھ پر قومی عصبیت کی پٹی پڑی ہے تو کوئی مسلکی تعصب کا شکار ہے ۔ کوئی بھی چیز ایک حد تک تو ٹھیک ہوسکتی ہے لیکن اگر اس میں غلو ہوجائے تو اس قسم کی غلو پر مبنی عبادت سے بھی روک دیا گیا ہے ۔سوشل میڈیا میں مسلکی عصبیت کا یہ عالم ہے کہ بہت سے گروپ تو محض اس مقصد ہی کے لیے بنائے جاتے ہیں کہ اپنے حزب مخالف کے مسلک سے مناظرہ کیا جائے ( میں تو اسے مناظرہ بھی نہیں کہوں گا کیوں کہ یہ صرف اپنے مخالف مسلک کو نیچا دکھانے کے لیے ہوتے ہیں ) اور ان میں ایسی ایسی مغلظات بکی جاتی ہے کہ اللہ کی پناہ،ایسے لگتا ہے جیسے یہ لوگ دین کے شیدائی نہیں شیطان کے پجاری ہیں ۔اس طرح کی لغو اور بے حاصل گفتگو میں ہمارے نوجوانوں کو وقت اور صلاحیت ضائع کرنے کے بجائے کچھ مثبت اور مفید کام انجام دینے چاہیے

دوسری طرف ہمارے جوشیلے نوجوانوں کا ایک گروہ ایسا بھی ہے جو یہ سمجھتا ہے کے اینٹ کا جواب صرف اور صرف پتھر سے ہی دیا جائے ان کے نزدیک صبر ،حکمت ،سنجیدگی یہ سب بکواس اور بزدلی ہے اور ہر وقت ہر جگہ صرف اور صرف جوش کا مظاہرہ ہی ہونا چاہیے ۔اس گروہ سے تعلق رکھنے والے جب غلو کا شکار ہوجاتے ہیں تو وہ اپنے قائدین کی نیک نیتی پر بھی سوال کھڑے کرنے لگتے ہیں ۔بار بار ان کا یہی مطالبہ ہوتا ہے کہ ہمیں اقدامی پوزیشن میں آنا چاہیے ۔”حکمت سے عاری’جذباتیت”،اور “جوش و ولولہ سے خالی’ حکمت”، دونوں ہی مناسب نہیں ۔ہمیں ہر وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ “کسی گروہ کی دشمنی تمہیں اتنا مشتعل نہ کردے کے تم انصاف سے پھر جاو “

بحیثیت امت وسط ہمیں اپنی ذمہ داری کو فراموش نہیں کرنا چاہیے اور ہماری سب بڑی ذمہ داری انسانوں کو آگ کے گڑھے سے بچانا ہے ناکہ دنیا میں ان پر اپنی برتری ظاہر کرنا ۔

پرے ہے چرخ نیلی فارم سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گرد راہ ہوں وہ کارواں تو ہے

مایوسی اور قنوطیت پسندی:

حالات سے متاثر ہوکر ہمارے نوجوانوں مایوسی اور قنوطیت پسندی کا شکار ہورہے ہیں ۔ان حالات کا ہمیں ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ایسے حالات میں نہ تو جذبات کی رو میں بہہ کر غلط قدم اٹھائیں اور نہ ہی مایوس ہو کر امید کا دامن چھوڑدیں۔

نہ ہو نو مید نومید ی زوال علم و عرفاں ہے
امید مرد مومن ہے ،خد اکے راز دانوں میں

موجودہ مشکل حالات میں ہمیں مایوس ہوکر بیٹھ جانا نہیں ہے بلکہ اپنے آپ کو بلند ترین مقصد کے لیے تیار کرنا ہے ۔اقبال اپنے شاہین صفت نوجوانوں میں جس عقابی روح کو دیکھنے کے متمنی تھے اس عقابی شان کو ہمیں آج اپنے نوجوانوں میں بیدار کرنے کی ضرورت ہے ۔حضرت معاذ بن جبل ؓ کو جب گورنر بنا کر اللہ کے رسول ؐ نے یمن کی طرف روانہ کیا تو یہی نصیحت کی کہ ائے معاذ ؓ جفاکش بنو اللہ کو جفاکش بندے پسند ہے ۔نوجوانوں کو جفاکش اور بہادر ہونا چاہیے ،تن آسانی انہیں بے کار کر کے رکھ دیتی ہے ۔لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی

امت کے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ قصر سلطانی کے گنبد کے بجائے پہاڑوں کی چٹانوں کو اپنا مسکن اور بسیرا بنائے محنتی اور جفاکش نوجوان ہی اس امت کی زبوں حالی کو پھر سے دنیا کی قوموں کا امام بنا سکتے ہیں انہیں اپنے اندر کی عقابی روح کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے ۔تاکہ وہ آسمان کی بلندیوں میں پرواز کرسکیں ۔

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میں

اگست 2022

مزید

حالیہ شمارہ

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں

فلسطینی مزاحمت

شمارہ پڑھیں