دعوتی مجاہدہ

مستجاب خاطر

”دعوت دین فی نفسہٖ ایک آسان کام ہے۔ لیکن ان لوگوں کے لیے آسان ہے جو اپنے رب سے ملاقات کا یقین رکھتے ہیں۔“


دعوت دین کا کام عمل کا متقاضی ہے۔ یوں تو تحریک اسلامی کے دیگر سارے پہلو عمل کا تقاضہ کرتے ہیں لیکن یہ بات زیادہ شدت سے تاکید چاہتی ہے۔

ہندوستان میں دعوت دین کی اہمیت اور اس سے متعلق کئی پہلوؤں پر کافی گفتگو ہوتی رہی ہے۔ یہ بات بجاطور پر کہی جاتی ہے  کہ دعوتی کام اور دعوتی نقطۂ نظر سے  لٹریچر تیارکرنا   اورتیار شدہ  لٹریچر کو ہندوستان کی  مختلف زبانوں میں منتقل کرنا بڑی اہم علمی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں ہندو طرز زندگی سے متعلق ضروری تفصیلات،مختلف مذاہب کے عقائد پر مدلل اور شائستہ تنقید، الحاد اور انارکی کی خرابیاں وغیرہ سے متعلق فلسفیانہ اور متکلمانہ انداز میں تحریر و تقریر کی ضرورت سے متعلق بارہا  تذکرہ کیا گیا۔ لیکن اس جانب عمل کی رغبت یا کم ازکم سنجیدہ کوشش کم ہی نظرآتی ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی اب زبان زد عام ہے کہ ہندوستان میں دعوتی کام کیفیت اور معیار کے اعتبار سے بڑا متاثر ہے۔ دعوتی کام سے متعلق مختلف بحثیں اٹھتی اور دم توڑتی رہیں لیکن کام کی کیفیت میں کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آئی۔ اس صورتحال کو فوری تبدیل کرنا اور اس کے لیے غیر معمولی اقدامات و وسائل صرف کرنا بہت ہی بڑی اور اہم ضرورت ہے۔

رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ  ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے؟

اصل مسئلہ کار دعوت کی مشکلات کا ہے۔ ۱) زبان اور تہذیب کا مختلف ہونا، جس کی وجہ سے دعوتی کام اور غیر مسلموں سے تعلقات بڑے محدود ہوتے چلے جاتے ہیں۔۲) مختلف مذاہب کے ماننے والوں کا فرقہ پرستی اور تنگ ذہنی کا شکار ہونا، جس کی وجہ سے کیمپس اور محلّوں میں گروہ بندیاں پیدا ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے گفتگو تو کجا ملاقات کے مواقع بھی ختم ہو جاتے ہیں۔ ۳) اسلام کے تئیں نفرت اور تصادم کے جذبات میں روز افزوں اضافہ ہونا، جس کی وجہ سے اعتماد کے ساتھ دعوت دینے کے بجائے، معذرت خواہانہ انداز میں دعوت دینے کی کوشش کرنے کا مزاج پیدا ہو جاتا ہے۔ ۴) اور اس پر مستزاد، انسانیت کے بڑے حصہ کا  زبردست غفلت کا شکار ہونا، جس کے بعد وہ زندگی کے اہم مسائل کے حل اور حقیقی فلاح کے تصورات سے یکسر بے نیاز ہوکر صرف اپنی مادّی ضروریات اور خواہشات کی تکمیل میں پڑے رہ جاتے ہیں۔ ایسی ہی مختلف وجوہات کی بنا پر دعوت دین کا کام کرنا  مشکل ہوتا جارہا ہے ۔ لیکن یہ مسائل بھی اسی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں کہ دعوت دین کا کام مؤثر انداز میں نہیں کیا گیا۔ اور یہ مسائل اور بھی سنگین ہوتے چلے جائیں گے اگر گہری وابستگی کے ساتھ دعوت دین کی جانب امت مسلمہ متوجہ نہ ہو۔

دعوت دین فی نفسہٖ ایک آسان کام ہے۔ لیکن ان لوگوں کے لیے آسان ہے جو اپنے رب سے ملاقات کا یقین رکھتے ہیں۔ جو یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ نفع و نقصان پہنچانے والی ذات اللہ کی ہے۔ جو یہ جانتے ہیں کہ ہم اس خدا کے پیغام کے داعی ہیں جس نے موسیٰؑ اور عیسیٰؑ اور محمدﷺ کی حفاظت کی۔ اللہ اپنے نیکو کار داعیوں کا حق خدمت ضائع نہیں کرتا۔ وہ  بڑا غیور ہے اور ہر معاملے اور مسئلے سے واقف ہے۔ مسائل اور مشکلات ہر کام کا بنیادی جزو ہوتی ہیں لیکن ذوق یقین اور آخرت کی سرخروئی کو پیش نظر ر کھے تو ہر پُرخار وادی میں انسان کو جنت کی شبیہ نظر آتی ہے۔ اس لیے دعوت دین کے لیے لازم ہے اور اس کا اولین تقاضا ہے کہ انسان کا گہرا تعلق اللہ رب العزت کی ذات سے ہو۔

دعوت کا دوسرا تقاضا یہ ہے کہ میدان عمل میں تربیت ہو۔ دعوت کی اہمیت وضرورت، طریقہ کار اور مسائل، دعوت دین کے لیے علمی تیاری کی ضرورت جیسے معاملات پر اب زبانی خرچ  کے بجائے عملاً میدان میں اتر کر فرداً فرداً اور اجتماعی حیثیت میں دعوت کے لیے افراد کو تیار کیا جائے۔ اس راہ کی جو مشکلات ہیں انہیں انگیز کرنے اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے لیے عملی تربیت کا انتظام کیا جائے۔ موسیٰؑ کی دعا  رب اشرح لي صدري ويسر لي أمري واحلل عقدة من لساني يفقهوا قولى (پروردگار، میرا سینہ کھول دے، اور میرے کام کو میرے لیے آسان کر دے اور میری زبان کی گرہ سُلجھا دے، تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں)داعیان حق کے لیے بڑی مؤثر ثابت ہوتی ہے۔ اس میں اطمینان قلب اور وسعت قلب کی دعا کی گئی ہے۔ ساتھ ہی اس کام میں آسانی پیدا کرنے کے لیے اور تاثیر پیدا کرنے کے لیے ضروری وسائل وصلاحیتوں کی ضرورت کا تذکرہ   ہے۔ اس کے بعد یہ بات بھی فرمائی گئی کہ جن باتوں کو پیش کیا جارہا ہے اس کا فہم بھی عطا ہو۔ اس دعا کی عصری تفسیر یہ ہے کہ دعوت کے اس کام کی نوعیت اور اس راہ کے مراحل اور حکمتوں سے انسان واقفیت رکھتا ہو اور اس پر مطمئن بھی ہو۔ پھرنئی زبان اور اسلوب میں، مختلف ذرائع اور علمی و عملی طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے دعوت پیش کرے۔

اس موقع سے یہ بات بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ تحریک اسلامی کی جدوجہد کے مختلف محاذ ہیں  اور ہر ایک کی اپنی افادیت ہے۔ ان تمام کاموں کے رہتے دعوت دین کی جانب توجہ کا کمزور ہونا، بڑے خسارے کا باعث ہوتا ہے۔ اسوۂ نبیؐ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جہاں اللہ کے رسول مظلوموں کی دادرسی کرتے ہیں، محتا جوں کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں، وہیں دعوتی کام کی رفتار و معیار میں کوئی فرق یا کوتاہی ہونے نہیں پاتی۔ بلکہ نئے نئے ایجنڈے کو اپنے ہاتھ میں لینے کے ساتھ ساتھ دعوت دین کے کام میں روز افزوں ترقی ہوتی ہے۔اس طرح نئے وسائل اور نئے ایجنڈے بھی ہمارے لیے اس بات کا باعث بننے چاہئیں کہ اس کے ذریعے سے دعوتی کام کا معیار بلند ہو اور ہم انسانیت کے درد کا حقیقی درماں کرنے والی امت بن سکیں۔

 اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی یقیناً اسوۂ حسنہ ہے۔ اس اسوہ میں عزم وشجاعت، حکمت و محنت، محبت و سوز کے ہزاروں پہلو ہیں۔ یہ زندگی مسلم نو جوانوں کے ذہنوں سے مایوسیوں کا خاتمہ کرتی اور انہیں اعلائے کلمۃ اللہ کی جدو جہد کے لیے بہترین محرکات فراہم کرتی ہے اور انسانیت کی حقیقی فلاح کے راستے کھول سکتی ہے۔ کیمپس کے درودیوار، کلاس رومس کے وسائل، ہاسٹلس کے ہجرے، نئی ٹیکنالوجی، سیمنارس اور کانفرنس ہالس چیخ چیخ کر کہتے ہیں ان کا استعمال کرنے والوں کے دلوں کو نور ہدایت سے فیضیاب کرنے والی باتیں بتائی، سجائیں اور سنائی جائیں اور کام کیے جائیں اور کرائے جائیں۔

(مضمون نگار، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبہ معاشیات میں اسسٹنٹ پروفیسر اور ماہنامہ رفیق منزل کے سابق مدیر ہیں)

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں