امیٹكس: ایك تعارف

افہام آفاقی

ادارہ امیٹکس کا تعارف ملاحظہ فرمائیں



آج کے پر فتن دور میں جہاں عالمی سطح پر مسلمانوں کے وجود کو جہاں بے شمار خطرات کا سامنا ہے وہیں ان کے سامنے بے پناہ مواقع بھی موجود ہیں۔ مجموعی طور پر ان سب خطرات سے نجات کا واحد راستہ پھر سے ایک امت بننے میں پوشیدہ ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے، ” یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں، لہٰذا میری ہی عبادت کرو” (الانبیاء:92)۔ ہمارا سب سے بڑا دشمن کوئی بیرونی یا خارجی نہیں ہے، بلکہ ہماری اپنی ماندہ ذہنی و تخلیقی صلاحیت اور کمزور قوت ارادی ہے۔ اور ہماری سوچی سمجھی بے بسی ہی ہمیں خدا اور اس کی دنیا کا تعارف کرانے میں مانع ہے۔ اہلِ ایمان بحیثیت امت، نوع انسانی کو آج کی سب سے بڑی معصیت، یعنی خود پرستی اور خود فریبی سے بچانے اور انہیں راہ راست کی طرف لوٹانے کے لیے خدا کے پیغام کی صورت میں بہت بڑا سرمایہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ عالمی سطح پر امت مسلمہ کے حقیقی تصور کی بیداری وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ مختلف جماعتیں اور افراد اس سلسلے میں اپنی استعداد و صوابدید کے مطابق کوشاں اور عمل پیرا ہیں۔ ادارہ امیٹکس کا قیام بھی امت مسلمہ میں بیداری کے اسی پس منظر میں ہوا ہے۔ درج ذیل نکات اس ادارے کا تعارف، اس کی سرگیوں اور خدمات کا احاطہ کرتے ہیں۔

ادارہ امیٹکس عصری اسلامی ڈسکورس میں ایک اہم کمی کو پُر کرنے کے لیے کوشاں ہے اور امت مسلمہ کو ایک فکری انقلاب کی طرف دعوت دیتا ہے۔ آج امت مسلمہ جس بےبسی، فرسودگی اور شکست خوردگی سے دوچار ہے، ادارہ امیٹکس اس کو دور کرنا چاہتا ہے۔ یہ ادارہ مسلمانوں کو عالمی سطح پر متحد اور منظم کرکے مسلم تہذیب کے احیاء کی ایک سنجیدہ کوشش کرنا چاہتا ہے۔

امیٹکس سے مراد امت مسلمہ کے اجتماعی امور اور اس کے متعلقات ہیں۔ حضورﷺ کے الفاظ مستعار لیے جائیں تو امیٹکس اپنی ظاہری صورت میں سیاستہ الامتہ کے مترادف ہے۔ Politics (سیاست) کے تناظر میں امیٹکس اسلامی سیاست کے لیے موزوں اصطلاح ہے۔ خود شناسی اور غور و فکر کے اس سفر میں بحیثیتِ مسلمان، امیٹکس تصور اور اس کے نئے اسلوب میں موجودہ نظریہ سیاسی کو چیلنج کرنے کی جانب پہلا قدم ہے۔

امیٹکس انسٹیٹیوٹ کا قیام 2020ء میں اس سوال کو حل کرنے کے لیے عمل آیا کہ کیا مسلمان جدید دور میں سیاسیات اورعالمی سیاسی امور میں علمی اور عملی پیش قدمی کر سکتے ہیں؟ اور کیا آج کے زمانے میں مسلمانوں کو مکمل طور پر خود مختار اور بااختیار بنانے کے لیے سیاست کو از سر نو تصور کرنا ہوگا؟۔ اس انسٹیٹیوٹ کے مؤسسین میں اوامر انجم، ڈاکٹر عثمان بدر اور ڈاکٹر جوزف کِمنسکی کے نام نمایاں ہیں۔ اوامر انجم یقین انسٹیٹیوٹ، ٹیکساس، امریکہ میں ایک معروف محقق ومصنف کی حیثیت سے متعارف ہیں اور 2019ء میں انکا بڑا ہی مقبول مقالہ شائع ہوا ‘Who Wants Caliphate? ‘ اور یہی مقالہ ان کے اِس پروجیکٹ کی شروعات کا کلیدی محرک ثابت ہوا۔ اوامرانجم پیشے کے لحاظ سے یونیورسٹی آف ٹالیڈو میں فلسفہ اور مذہبی تعلیم کے پروفیسر ہیں اور اسلام کے تناظر میں الہیات، اخلاقیات، قانون اور سیاست کےجائزے سے متعلق ان کا کام انتہائی وسیع ہے۔ ڈاکٹر عثمان بدرد عربی زبان اور اسلامک سائنس کے طالب علم ہیں۔ اِنہوں نے اپنی پی-ایچ۔ڈی ‘مغربی سڈنی کا فلسفہ’ کے موضوع پر مکمل کیا ہے۔ آپ ایک ریسرچ اسکالر اور ایک استاد کی حیثیت سے خدمت انجام دے رہے ہیں۔ اور ڈاکٹر جوزف کمنسکی امیٹکس انسٹیٹیوٹ میں ریسرچ ایسوسیٹ کے طور پر خدمت انجام دے رہے ہیں۔ موصوف نے اپنی پی۔ایچ۔ڈی 2014ء میں سیاسیات کے میدان میں مکمل کیا ہے۔ کمنسکی فی الحال سارجیوو یونیورسٹی، بوسنیا میں سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات کے ایسوسیٹ پروفیسر کی حیثیت خدمت انجام دے رہے ہیں۔ موصوف کی تحقیقی دلچسپی مذہب، سیاست، تقابلی سیاسی نظریہ اور دیگر موضوعات میں نظر آتی ہے۔

امیٹکس کیا ہے؟

امیٹکس سے مراد امت مسلمہ کے اجتماعی امور، خصوصاً اس کی سیاست اور اس کے متعلقات ہیں۔ امت ایک قرآنی اصطلاح ہے، جو اللہ کے آخری رسول ﷺ کے پیروکاروں کے لیے استعمال کی گئی ہے۔ امیٹکس اپنی ظاہری صورت میں سیاسۃ الامۃ کے مترادف ہے۔ اس لیے امیٹکس اسلامی سیاست کے لیے موزوں اصطلاح ہے۔ اس بنا پر یہ ہمارے تصورات، عقائد اور عملی طور طریقوں کے لیے ایک جامع اصطلاح ہے۔ امیٹکس کا مقصد سیکولر سیاست کی طرح محض وسائل کا انتظام اور تقسیم نہیں ہے بلکہ دینی بنیادوں پر سیاسی فکر و عمل کی تشکیل، اور اسی بصیرت کی روشنی میں ہی زمین کے انتظام اور انصرام کو آسان بنانا ہے، تاکہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق اور یکجہتی قائم ہو۔ اور تمام بنی آدم خدائی منشا کے مطابق انصاف اور خوشحالی سے رہ سکیں۔ علمی لحاظ سے امیٹکس اسلامی عقائد کے متعدد پہلؤوں کا احاطہ کرتا ہے جن میں فقہ، اخلاقیات اور مسلمانوں کے اجتماعی معاملات شامل ہیں۔ نیز اس میں الاحکام السلطانیه (حکمرانوں سے متعلق شرعی قوانین) اور السیاسۃ الشریعہ (شریعت کی طرز حکمرانی) جیسے قدیم، اور سیاسیات، سماجیات و بشری علوم جیسے جدید موضوعات بھی شامل ہیں۔ امیٹکس ایسی عالمگیریت پر یقین رکھتا ہے جس میں مخصوص شناختوں کو ختم کرنے کے بجائے ایسی تمام مقامی شناختوں کی گنجائش بھی موجود ہے، جن کی شریعت نے اجازت دی ہے۔ ہم دیكھتے ہیں كہ مسلمانوں كا کوئی بھی مسئلہ ہو چاہے وہ خوشی سے تعلق ركھتا ہو یا غم سے، امت مل كر اسے مناتی ہے۔ ایك زاویہ سے مسلمان امت كے طور پر ابھر كر سامنے آ رہے ہیں لیكن اس کو كس طرح واضح کیا جائےاور اسے عالمی سیاسی نظام كے طور پر كس طرح پیش كیا جائے؟ یہ امیٹكس كے سامنے ایك بڑا چیلنج ہے۔ چونكہ امیٹکس کا آغاز امت کے اجتماعی وجود اور عمل کے لیے ایک نظریاتی سوچ فراہم کرنا ہے، جس کے لیے متعدد شعبوں میں منظم تحقیق اور مطالعے کی ضرورت ہے۔ درجِ ذیل نکات امیٹکس انسٹیٹیوٹ کے وژن اور سرگرمیوں کا احاطہ کرتے ہیں:

  • اسلامی سیاست کی درست نظریہ سازی، یعنی السیاسۃ الشریعہ۔ ایسی سیاست جو اسلامی اصولوں کی روح سے ہم آہنگ ہو، اسلامی روایت سے مستفید ہو، اسی طرح ماضی و حال کے علوم سے بھی آگاہ و آراستہ ہو۔ اور جس میں اسلامی تصورات کی غلط توجیحات کا شائبہ نہ ہو۔
  • امیٹکس کا مطلب اسلام کے عوامی وژن کا نفاذ ہے۔
  • نا انصافیوں اور نامساوات کو منظم انداز سے ختم کرتے ہوئے امت میں اتحاد و اتفاق کا ڈسکورس پیش کرنا۔
  • امیٹکس اس اسلامی ڈسکورس کو کسی تسلط اور زبردستی کے بجائے تنوع اور ہم آہنگی کی بنیاد پر آگے بڑھانا چاہتا ہے۔
  • اقتصادی، سماجی، ماحولیاتی و تکنیکی چیلینجز پر ڈسکورس تشکیل دینا، جو ایک متحد اور خوشحال مسلم دنیا کے وژن کے لیے ضروری ہے۔
  • پوری دنیا کے ساتھ امیٹکس تعلقات منظم کرنے کے لیے، اسلام کی دعوت دینے اور عالمی سطح پر مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے ذریعے مختلف تہذیبوں اور ممالک کے بقائے باہمی کی جستجو، ماحولیاتی اور انسانیت کو درپیش دیگر چیلینجز کو حل کرنا۔

امیٹکس کو ایک ایسے تصور کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جو عالمی سطح پر علمی حلقوں اور عام مسلمانوں کو منظم انداز میں ان چیلینجز سے نمٹنے پر آمادہ کر سکیں۔ امیٹکس انسٹیٹیوٹ اسی مقصد کے لیے وجود میں لایا گیا ہے۔

امیٹکس انسٹیٹیوٹ کی سرگرمیاں غیر معمولی ہیں اور انہوں نے اب تک اسلامی سیاست و معیشت کی جانب امت کا ذہن مرکوز کرانے کی کوشش کی ہے۔ اس حوالے سے امیٹکس اب تک متعدد موضوعات پر مقالے شائع کر ایاہے۔ ساتھ ہی بین الاقوامی سطح پر امت سے متلق اہم موضوعات پر کانفرنسوں کا اہتمام کیا  ہےاور موقع بہ موقع آن لائین سیمیناروں کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ امیٹکس انسٹیٹیوٹ مختلف قسم کے فورمز کے ذریعہ فکری تحقیقات اور علمی مجالس انعقادکرتا ہے۔

(مضمون نگار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں جغرافیہ کے طالب علم ہیں)

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں