بریل

ایڈمن

جب لوئی بریل Louis Braille صرف تین سال کا تھا تو اپنے باپ کی چمڑے کی ورکشاپ میں کام کرتے ہوئے ایک چاقو لگنے سے اس کی بینائی چلی گئی۔ اندھا پن کسی اور شخص کو تو تباہ کر کے…

جب لوئی بریل Louis Braille صرف تین سال کا تھا تو اپنے باپ کی چمڑے کی ورکشاپ میں کام کرتے ہوئے ایک چاقو لگنے سے اس کی بینائی چلی گئی۔ اندھا پن کسی اور شخص کو تو تباہ کر کے رکھ دیتا مگر بریل ہار ماننے والا نہیں تھا۔ وہ ایک پر عزم، ہوشیار اور باصلاحیت لڑکا تھا۔ دس برس کی عمر میں اس نے نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار بلائنڈ چلڈرن پیرس سے وظیفہ حاصل کیا۔ وہ ایک موسیقار بھی تھا۔

سکول میں بریل کو نابیناؤں کے پڑھنے کے لیے ایک نظام کا تجربہ ہوا جو ادارے کے بانی Valentin Hauy نے ایجاد کیا تھا۔ اس نظام کے تحت نابینا طالب علم کا غذ پر ابھرے ہوئے حروف پر انگلیاں پھیر تا لیکن بریل اور دیگر طلباء کو یہ کام بہت محنت طلب معلوم ہوا۔ اس نظام کا دوسر انقصان یہ تھا کہ اس میں نا بینا افراد خود بخود پڑھنا نہیں سیکھ سکتے تھے۔

ساتھ ہی ساتھ ایک اور نظام بھی وجود میں آیا جو مثلاً تاریکی میں پڑھنے کے لیے مفید تھا۔ نائٹ رائٹنگ” نامی یہ نظام ایک فرانسیسی سپاہی کیپٹن چارلس بار بیئر نے ایجاد کیا تھا۔ وہ فوجی افسروں کو تاریکی میں بھی پڑھنے کے قابل بنانا چاہتا تھا۔ یادر ہے کہ ان دنوں باسہولت پورٹیبل لائٹیں بہ آسانی دستیاب نہیں تھیں۔

بریل نے 15 برس کی عمر میں بار بیئر کے نظام سے واقفیت حاصل کی اور اسے بہتر بنانے کے لیے کام شروع کر دیا۔ مزے کی بات ہے کہ وہ یہ تمام تحقیق بصارت سے بالکل محروم ہو جانے بعد انجام دے رہا تھا۔

باربئیر کے وضع کردہ نظام میں بارہ ابھرے ہوئے نقطوں کے سلسلے کو مختلف پوزیشنیں دے کر حروف کی نمائندگی کی گئی تھی۔ لیکن بریل کے کے وضع کردہ نظام میں زیادہ سے زیادہ چھ نقطوں کی ضرورت تھی۔ مثلاً حرف A کے لیے ایک نقطہ، حرف B کے لیے دو نقطے اوپر نیچے حرف C کے لیے پہلو بہ پہلو دو نقطے تھے۔ بریل کے نظام نے نابینا لوگوں کی پڑھنے کی رفتار کو زیادہ کر دیا۔ در حقیقت اب وہ بصارت رکھنے والے شخص کے مقابلے میں نصف رفتار سے لکھ بھی سکتے تھے۔

بریل نے اس نظام پر کام جاری رکھا اور 20 برس کی عمر میں (1829ء) یہ نظام “نیشنل انسٹی ٹیوٹ فار دی بلائنڈ” میں با قاعدہ استعمال ہونے لگا۔ بریل کا نظام “بریل” کہلایا مگر یہ 1852ء میں ٹی بی کے باعث اس کی موت تک وسیع پیمانے پر مقبول نہیں ہو سکا تھا۔

دیگر نظام منظر عام پر آنے کے ساتھ ساتھ بریل کا نظام آہستہ آہستہ معدوم ہوتا گیا۔ 1860 ء کی دہائی میں ایک نیو یارک پوائنٹ سسٹم ایجاد ہوا اور دس برس بعد بوسٹن میں کام کرنے والے ایک نابینا استاد نے بریل کے نظام کی ذرا تبدیل شدہ صورت “امریکی بریل” کے نام سے پیش کی۔ لیکن بریل کے اصل نظام کی سہولت اور فوری شناخت دوبارہ غالب آئی اور یہ دنیا بھر میں اپنا لیا گیا۔

وقت گزرنے پر یہ متعدد ممالک میں استعمال ہونے لگا اور آج ایک قلم (سٹائلس ) اور ہارڈویئر پر مشتمل ایک آلہ موجود ہے جس کے ذریعہ نابینا شخص کا غذ پر حروف نقش کرنے کے ذریعہ لکھ سکتا ہے۔ وہ دائیں سے بائیں کو لکھتا ہے۔

یقیناً بریل میں لکھی ہوئی متعدد دیگر کتا ہیں اور دستاویزات بھی ہیں جنہیں زنک کی پلیٹوں کے ساتھ کاغذ پر دباؤ ڈال کر لکھا جاتا ہے۔ بصارت رکھنے والے عام لوگ بھی شارٹ ہینڈ، میوزیکل زبان اور ریاضی و سائنس کے لیے یہ علامتی حروف استعمال کرتے ہیں۔

پتہ چلا ہے کہ کافی زندگی گزارنے کے بعد نا بینا ہو جانے والے افراد کو پیدائشی نابینا افراد کی نسبت بریل میں مہارت حاصل کرنے میں زیادہ مشکل ہوتی ہے کیونکہ وہ دوسرے حروف کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں۔ اس مسئلے سے نمٹنے کی خاطر ایک انگریز ولیم مون نے ” مون ٹائپ“ ایجاد کیا ہے جو بریل ہی کی طرح کا غذ پر ابھرا ہوتا ہے لیکن اس کی بنیاد رو من حروف کی ترمیم پر ہے۔

اندھوں کے لیے حروف تہجی کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ بریل کا نظام ایجاد ہونے سے قبل اندھے افراد عموماً بھیک مانگ کر یا کوئی ہنر سیکھ کر ہی زندگی گزارتے تھے۔ بریل نے بصارت سےمحروم افراد کو بھی پڑھنے لکھنے اور دنیا کی علمی وادبی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے قابل بنا دیا۔ اب اندھے لوگ ذرا سی کوشش کر کے عام انسانوں جیسی زندگی گزار سکتے ہیں۔

(بحوالہ 100 عظیم ایجادات ازٹام فلپن)

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں