اسکول کی ٹولی ٹرپ پراس چھوٹے سے قصبے سے دور ایک پرفضا مقام پر آئی ہوئی تھی۔ دیکھا جائے تو یہ مقام وادیوں میں بسا ہوا تھا۔ جا بجا درخت، نہر، مختلف جانور اور قدرت کی دیگر کرشمہ سازیاں آنکھوں کو خیرہ کر دیتی تھیں۔ سر ہادی اپنے طلبہ کی رہنمائی کرتے ہوئے اس علاقے سے گزر رہے تھے۔ تبھی احسن بول پڑا۔
“سر۔ !اب نہیں چلا جاتا، کہیں رک جاتے ہیں پلیز۔۔”
سرہادی نے مسکراتے ہوئے کہا، “یہ کیا احسن ،تم اتنی جلدی تھک گئے۔! ابھی تو کچھ اور کلومیٹر چلنا ہے۔”
یہ سننا تھا کہ بچوں کا گروپ پکار اٹھا”نہیں! اب نہیں! پلیز۔۔۔”
سرہادی نے فوراً کہا”اچھا اچھا ٹھیک ہے، رک جاتے ہیں کھانا بھی کھا لیں گے۔”
یہ سننا تھا کہ سب بچے خوش ہو گئے۔
انہوں نے پڑاؤ کے لئے ایک صاف ستھرے سبزہ زار کا انتخاب کیا۔
سب نے کچھ دیر تھکاوٹ دورکی اور دسترخوان لگایا۔
احسن اور تالش میں ایک دوسرے کا ٹفن دیکھتے ہی نوک جھونک شروع ہوگئی۔
“یہ کیا بھائی تالش ، تم اتنے اچھے ماحول میں یہ بھینڈی کھاؤ گے۔!”
تالش نے کہا “کیا تمہیں پتا ہے احسن! انسان کئی سالوں تک ارتقاء کرتا رہا اور اب بھی کر رہا ہے۔ اس نے زمین پر 8.7 ملین نباتات کی انواع کی دریافت کی ہے۔ لیکن وہ ان تمام میں سے صرف کچھ نباتات کو ہی اپنی شکم سیری کے لیے مختص کرتا ہے۔ اس بات سے اس کے ذوق کا اندازہ ہوتا ہے۔ کہیں ٹینڈے اپنے جوہر دکھاتے ہیں تو کہیں آلو اپنی کرم فرمائیاں۔ کہیں لوکی سر چڑھ کے بولتی ہے تو کہیں بھینڈی کا سحر انسانیت پر چھایا ہوا ہے۔”
تالش کی یہ بات سننا تھا کہ سب نے زوردار قہقہہ لگایا۔ سرہادی بھی مسکرانے لگے۔
احسن بھی کہاں چپ رہنے والا تھا! جھٹ بول پڑا۔
“ہاں، بالکل صحیح کہا، لیکن کچھ انسانوں کا ذوق یہیں تک آ کر رک گیا اور اعلی ذوق رکھنے والے انسانوں نے مزید اکسپلور کیا اور گوشت جیسی عظیم غذا کا انتخاب کیا۔” پھر ایک بار قہقہوں کا تبادلہ ہوا۔
اسی اثنا میں احسن کی نگاہ ایک سمت پہنچی۔ اس نے غور سے دیکھا وہاں دو خرگوش جھاڑیوں کے پیچھے کوئی پھل کھا رہے تھے۔ احسن نے اس لمحے کو اپنے کیمرے میں قید کرنا چاہا اور تصویریں اتارنے لگا۔تصویر اتارنا تھا کہ تمام بچے اس کے اطراف غول کی شکل میں تصویریں دیکھنے کے لئے اکٹھے ہو گئے۔ سرہادی نے یہ دیکھتے ہوئے کہا۔
“کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ کیمرے کی پہلی شکل کون سی تھی اور اسے کیا کہا جاتا تھا؟”
سب ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔
تالش نے کچھ یاد کرتے ہوئے کہا”پِن۔۔۔ پِن۔۔۔۔”
“پِن ہول کیمرہ” سر ہادی نے کہا۔
“کیا کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ اس کی ایجاد کس نے کی؟” سر ہادی نے اگلا سوال داغا۔
“ابن الہیثم” احسن نے چھوٹتے ہی کہا۔
“بہت اچھے! مسلم سائنسدان ابوالحسن ابن الہیثم نے کیمرے کی ایجاد کی۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ جب کیمرہ ایجاد ہوا تو یہ موجودہ صورت میں نہیں تھا، بلکہ ایک تاریک بکسں، جس میں روشنی گزرنے کا کوئی راستہ نہیں تھا، اس میں سوئی برابر سوراخ کر کے روشنی اندر داخل ہونے کا راستہ بنایا گیا، یوں سوراخ کی اگلی سائیڈ پر باہر کے منظر کا اُلٹا عکس دِکھائی دینے لگا۔ اِس طرح مسلمان سائنس دان اِبنالہیثم نے ایک لحاظ سے اِبتدائی کیمرہ ایجاد کیا۔ اُنیسویں صدی عیسوی میں اِس کیمرے میں فوٹوگرافک پلیٹوں کا اِضافہ کِیا گیا تاکہ تصویروں کو محفوظ کِیا جا سکے۔”
احسن نے تعجب سے کیمرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔”سر ہم تو کبھی تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ یہ کیمرہ کبھی ایک بکس کا بھی ہوا کرتا تھا!”
“ہاں احسن، اِبنالہیثم نے جن اصولوں کی بِنا پر ابتدائی کیمرہ ایجاد کیا ، اُن ہی کی بِنا پر جدید کیمرے اور ہماری آنکھ بھی کام کرتی ہے، جب کہ زمانہ قدیم میں یہ تصور کیا جاتا تھا کہ آنکھوں کے پردے پر منظر کا سیدھا عکس دکھائی دیتا ہے”۔
وقار نے بہت اشتیاق سے پوچھا” انہوں نے اپنی کیا تھیوری پیش کی سر؟”
انہوں نے سب سے پہلے یہ جانا کہ روشنی آنکھوں سے نکلتی نہیں بلکہ داخل ہوتی ہے اور اس تصور کو بھی غلط ثابت کیا کہ ہماری آنکھیں کسی لیزر کی طرح شعاعیں خارج کرتی ہیں، جس کے باعث ہم دیکھ پاتے ہیں۔ اسی بنیاد پر انہوں نے پہلا پِن ہول کیمرہ ایجاد کیا اور پہلی لیب کو تشکیل دیا۔”
تمام بچے اپنی معلومات میں اضافہ ہوتا دیکھ خوش ہوئے اور ان معلومات کو نوٹ کرنے لگے۔
یہ دیکھ سرہادی کہنے لگے”اب آپ کا ہوم ورک یہ کہ اگلی دفعہ اسکول کو آتے وقت آپ ایک پِن ہول کیمرہ بنا کر لائیں گے۔”
“جی سر” تمام بچوں نے ایک آواز میں کہا اور وہ اگلی منزل کے لیے روانہ ہو گئے۔