حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالی نے اہل ایمان کا باپ قرار دیا ہے اور اپنے خلیل کے درجہ پر فائز فرمایا ہے۔ قرآن مجید ان کی گوناگوں صفات و القاب کا تذکرہ فرماتا ہے۔ تمام ہی انبیاؑ کا لوگوں کو اپنے رب کی طرف بلانے، ہدایت و اصلاح کرنے کا طریقہ انتہائی اعلیٰ تھا اور وہ اللہ کی طرف دعوت پرحکمت، مکالمے، دلائل و شواہد کے ذریعے دیتے تھے۔ ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت میں انسانیت کے لیے اسلوب توحید و دعوت کے بے شمار اسباق موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جس طرح محمد رسول اللہﷺ کے طریقِ زندگی کو ساری دنیا کے لیے اسوہ بناکر پیش کیا اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اسوہ کو بھی اختیار کرنے پر ابھارا ہے: قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ(الممتحنہ:4) تم لوگوں کے لیے ابراہیمؑ اور اس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے۔
عصر حاضر میں سائنس و ٹکنالوجی کی برق رفتار ترقی کے بعد بھی انسان اپنے خالق و مالک کو پہچانے میں کا میاب نہیں ہوا ہے۔ تمام تر مادی ترقی کے باوجود انسان سکون اور اطمینان کی زندگی سے محروم ہے۔ موجودہ غالب مغربی فلسفوں کا رجحان یہ ہے کہ وہ انسانوں کو روحانی بنائے جانے پر زور تو دیتے ہیں لیکن مذہبی بنائے جانے پر اشکالات ظاہر کرتے ہیں ساتھ ہی خدا، تخلیق اور کائنات کی حقیقتوں کے ثبوت میں تجربات تشکیل دینے کی بات کرتے ہیں۔ جبکہ اسلامی تھیالوجی کہتی ہے کہ خدا کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ کائنات اوراس کی وسعت میں موجود نشانیاں اور اس کی منظم کارکردگی خود عقل و خرد رکھنے والوں کو رب العالمین کی ذات کا ضرور احساس دلائے گی۔ ابراہیم علیہ السلام کی legacy یہی رہی کہ حسیات اور مشاہدات میں آنے والی چیزوں پر غوروفکر کرنا اور کائنات کے مخفی رازوں کو جاننے کی رب سے انھوں نےخواہش ظاہر کی۔ جب کہ موجودہ سائنس کا قصہ یہ ہے کہ اس نے کائنات کی موجودات پر غور و فکر، تحقیقات و تجربات کرتے ہوئے ان پر اپنا کنٹرول حاصل کرنا شروع کیا، جیسے جیسے کائنات کی نشانیوں پر انہوں نے اپنا کنٹرول حاصل کیا، بجائے اقرار توحید کے انہوں نے کائناتی قوتوں کو نیچر یا فطرت کا نام دےدیا۔ اور جن جن کائناتی قوتوں اور رازوں سے پردہ ہٹانے میں کنٹرول حاصل کرنے میں کامیابی حاصل نہ ہوئی اس کو خدا کا درجہ دے دیا، یہی وجہ تھی کہ قوم آزری مظاہر فطرت کو خدا سمجھ بیٹھی تھی بنی اسرائیل بھی انہی موشگافیوں میں پڑے تھے اور اپنے رب اور رسولوں کے سلسلے میں بڑی زیادتیاں کرنے لگے تھے۔
واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کو بچپن سے ہی قلب سلیم عطا کیا گیا تھا جب ساری دنیا کفر و شرک، آسمانی موجودات کی پوجا و پرستش میں ڈوبی ہوئی تھی، اس وقت آپ نے توحید کے پرچم کو بلند کیا۔ ابراہیم علیہ السلام نے توحیدِ خالص کو قیاس و گمان کی بنیاد پر نہیں بلکہ ملکوت السمٰوات والارض کو دیکھ کر اپنی عقلِ سلیم کو استعمال کرکے اختیار کیا۔ قرآن مجید حضرت ابراہیم کے بچپن کے واقعات کا ذکر کرتا ہے جو نبوت کے عطا کیے جانے اور وحی کے نزول سے پہلے رونما ہوئے تھے۔ وہ اک شاہی پجاری مشرک باپ کے بیٹے تھے اور معتبر گھرانا تھا۔ عموماً رسولوں کی پیدائش ان ہی گھرانوں میں ہوا کرتی ہے تاکہ مخالفین آسانی سے ان کی آواز کو ختم نہ کرسکیں، آگے چل کر تو یقیناً مخالفت و آزمائش تمام رسولوں کی ہوئی ہیں۔
ابراہیم علیہ السلام کی دعوت توحید کا نقطۂ آغاز اپنے گھر اپنے والد آذر کے مکالمے اور پھر قوم سے ہوتا ہے کہ اے ابا جان! یہ کس کو معبود بنا بیٹھےہو؟ یہ مورتیاں کیسے خدا ہوسکتی ہیں جن کو خود آپ اپنے ہاتھوں سے تراشتے ہیں، کیا یہ تمہاری سنتی ہیں جب تم ان کو پکارتے ہو؟ قَالَ أَفَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ ٱللَّهِ مَا لَا يَنفَعُكُمْ شَيْـًۭٔا وَلَا يَضُرُّكُمْ ( الانبیاء :66) یا تمہیں نفع و نقصان پہنچانے پر قادر ہیں؟ اپنی کسی ضرورت کا اختیار ان کے ہاتھ میں نہیں ہے میں تم کو تمہاری قوم کو بڑی گمراہی میں دیکھ رہا ہوں جو باپ دادا کے تقلید میں بھٹکی ہوئی ہے، پھر ابراہیم علیہ السلام نے تمام معبودان باطلہ سے دشمنی کا اظہار فرمایا سوائے رب العالمین کی ذات کے۔ اک نکتہ یہاں غور کرنے کا یہ ہے کہ والد محترم کی گفتگو مکمل ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے کی جاتی ہے تاکہ والد کی شان میں کوئی بے ادبی و گستاخی سرزد نہ ہونے پائے۔ اسلامی روح یہی ہے کہ کسی بھی کیفیت میں والدین کے ساتھ احترام روا رکھا جائے سوائے حق کے خلاف حکم ہو تو نہ مانا جائے۔ قرآن مجید نے ابراہیمؑ کی اپنے والد کے حق میں دعا کے الفاظ کا ذکر بھی کرتا ہے۔ روایت شکنی اور تقلید کے بتوں کو پاش کرنے پر ابراہیمؑ کی زندگی بڑا اہم سبق دیتی ہے۔
قرآن مجید انتہائی دلنشین و ادبی انداز میں اس واقعہ کا ذکر کرتا ہے فَلَمَّا جَنَّ عَلَيۡهِ الَّيۡلُ رَاٰ كَوۡكَبًا ۚ قَالَ هٰذَا رَبِّىۡ ۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَاۤ اُحِبُّ الۡاٰفِلِيۡنَ؛ فَلَمَّا رَاَالۡقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هٰذَا رَبِّىۡ ۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَـئِنۡ لَّمۡ يَهۡدِنِىۡ رَبِّىۡ لَاَ كُوۡنَنَّ مِنَ الۡقَوۡمِ الضَّآ لِّيۡنَ؛ فَلَمَّا رَاٰ الشَّمۡسَ بَازِغَةً قَالَ هٰذَا رَبِّىۡ هٰذَاۤ اَكۡبَرُۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَتۡ قَالَ يٰقَوۡمِ اِنِّىۡ بَرِىۡٓءٌ مِّمَّا تُشۡرِكُوۡنَ (الانعام: 76-78) جب حضرت ابراہیم نے آسمان پر تارا دیکھا پھر رات نے اس کو ڈھانک لیا، پھر چمکتے چاند کو دیکھا وہ بھی ڈوب گیا، پھر روشن سورج کو دیکھا وہ بھی ڈوب گیا۔ ایسا نہیں ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے اک ہی رات میں فلکی اجسام کو دیکھا ہوگا اور شاید ایسا بھی نہیں ہے کہ اپنی حیات میں پہلی دفعہ یہ مناظر آسمان پر دیکھے ہوں گے، بلکہ حقیقت یہ تھی کہ ان فلکی اجسام کو انہوں نے دلیل بنایا، لوگوں کے عقلوں کو خطاب کیا اور ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی۔ زمین و آسمان کی نشانیوں میں غورو فکر کرنے والوں، عقل و فہم استعمال کرنے والوں کو اللہ تعالی اپنی مشیت سے گمراہی سے نکال کر ہدایت و نور عطا کرتا ہے۔ اک اور مغالطہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم سچ کے متلاشی تھےبلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ تو یکسو ذات تھے یقین میں پختہ تھے اور لوگوں سے محض اک مناظرہ فرما رہے تھے یہ ان کے debate کا انداز تھا۔ ابراہیم علیہ السلام اجرامِ فلکی یعنی ستارے، چاند اور سورج کا لوگوں کو مشاہدہ کرواکر ان کو اس بات پر یقین دلوانا چاہتے تھے اور حجت قائم کرنا چاہتے تھے کہ خداتعالی اک زندہ جاوید ہستی ہے، جس کو زوال نہیں، وہ مدبر الأمر ذات ہے، یہ سورج، چاند، ستاروں کا مقدر تو ڈوبنا ہے یہ الوہیت کا حصہ نہیں بلکہ یہ تمام ایک خالقِ کائنات کی تقدیر کے پابند ہیں۔ اس کے بعد سب معبودانِ باطل سے اعلانِ برأت کرتے ہوئے بڑی جرأت سے ابراہیمؑ پکاراٹھے: إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ — میں نے تو یکسو ہو کر اپنا رخ اس ہستی کی طرف کر لیا ہے جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ (الانعام:79)۔ نتیجہ یہ ہوا کہ قوم ان سے جھگڑنے لگی، ڈرانے دھمکانے لگی اور تکلیف دینے کا منصوبہ بنالیا، اس پر ابراہیمؑ نے سکون کا اظہار فرمایا اور کہا کہ تم اللہ کے بارے میں مجھ سے جھگڑتے ہو، حالانکہ اس نے میری رہنمائی فرمائی اور میں تمہارے من گھڑت معبودان سے کسی قسم کا خوف نہیں کرتا۔ جب انسان خلوص دل کے ساتھ آفاق و انفس کی نشانیوں میں غور و فکر کرکے خدا کی معرفت تک پہنچ جاتا ہے تو اس کا دل و دماغ یکسو ہوجاتا ہے، اطمینان کی کیفیت اس پر طاری ہوجاتی ہے، اس کے برعکس انسان جب غور وفکر کا راستہ چھوڑدیتا ہے، واضح دلائل کو جھٹلاتا ہے تو اندھیروں میں، تقلید میں اندھا بھٹکتا پھرتا ہے، توحید اس کو نہیں ملتی۔ حقیقت یہ ہے کہ توحید جب کسی انسان کے پاس آجاتی ہے تو ڈر نکل جاتا ہے، توحید کے ساتھ خوف چلا جاتا ہے اور زندگی میں امن آجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ نے ایمان کو توحید کو ظلم وشرک کی آمیزش سے پاک رکھا، تبھی حکم ہوا : قُلۡنَا يَٰنَارُ كُونِي بَرۡدٗا وَسَلَٰمًا عَلَىٰٓ إِبۡرَٰهِيمَ (الانبیاء: 69) اے آگ تو ٹھنڈی ہوجا اور ابراہیم کے لیے سلامتی بن جا۔
مزید ابراہیمؑ نے قوم کو مخاطب کیا: ٱلَّذِى خَلَقَنِى فَهُوَ يَهْدِينِ؛ وَٱلَّذِى هُوَ يُطْعِمُنِى وَيَسْقِينِ؛ وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ؛ وَٱلَّذِى يُمِيتُنِى ثُمَّ يُحْيِينِ (الشعراء: 78-81) اللہ نے مجھے پیدا کیا اور وہی میری رہنمائی فرماتا ہے، وہی مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے، اور جب میں بیمار پڑتا ہوں تو مجھے شفا دیتا ہے، اور جو مجھے موت دے گا پھر زندہ کرے گا۔ گویا ابراہیمؑ یہاں اس امر کو واضح کرنا چاہتے تھے کہ تم خود بتوں کو پیدا کرتے ہو وہ کیسے تمہاری رہنماںٔی کریں گے، فَقَالَ أَلَا تَأۡكُلُونَ؛ مَا لَكُمْ لَا تَنطِقُونَ(الصافات: 92-93) یہ نہ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں نہ کچھ بولتے ہیں۔ بلکہ میرا رب ہے جو میرے کھانے پینے کا انتظام فرماتا ہے میری بیماری میں شفاء دیتا ہے، زندگی و موت کا اختیار بھی وہی رکھتا ہے، یہ سارے اختیارات نہ میرے اور تمہارے ہاتھ ہیں نہ ان مورتیوں کے اور نہ ہی دوسرے معبودان جن کی پرستش تم نے کی ہے۔
ابراہیمؑ نے مناظرے کے دوران دو قسم کے ٹسٹ قوم کے سامنے رکھے،
- 1. آنکھوں کو نظر آنے والے خدا نہیں ہوسکتے چاہے وہ دائمی طور پر ہی کیوں نہ نظروں کے سامنے موجود رہیں (مثلاً: مورتیاں اور بت جن کی پوجا ہوتی تھی)۔
- 2. چیزیں جو آنکھوں کو نظر آئے پھر اوجھل ہوجائے وہ بھی خدا نہیں ہوسکتے (مثلاً: سورج، چاند، ستارے وغیرہ)۔
اسی بنیاد پر متقی افراد جو دنیا میں زندگی بسر کرچکے اور قبروں میں مدفون ہیں نظروں سے اوجھل ہوگئے ہیں وہ بھی خدا نہیں ہوسکتے، ساتھ ہی تقلید باپ دادا کی جو اللہ اور اس کی رسول سے مطابقت نہ رکھتی ہو اس کی انتہاء جہنم ہے۔ یہ طریق ابراہیمی اور منہج ابراہیمی ہے کہ کائنات کی نشانیوں پر غور کریں تو توحید اور امن دامن گیر ہوگا۔
دعوت توحید کا نقطۂ انجام دربار نمرود کے مناظرے میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے، جہاں ابراہیمؑ نے بادشاہ سلطنت کی عقل کو اپیل کرنے کی کوشش کی: ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا : قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ ؎ (البقرة :258)میرا پروردگار ایسا ہے کہ وہ جلاتا ہے اور مارتا ہے۔ کہنے لگا میں بھی جلا تا ہوں اور مارتا ہوں۔ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ آفتاب کو ( روز کے روز ) مشرق سے نکالتا ہے تو ( ایک ہی دن ) مغرب سے نکال دے۔ ، یہ سن کر بادشاہ ششدر ہوکر رہ گیا اور کچھ جواب نہ دیا۔
موجودہ سائنس کا بیانیہ ہے کہ کائنات کی پیدائش محض ہنگامی صورت میں ہوئی، مابعد الطبیعاتی قوتیں اس نظام کو پکڑی ہوئی ہیں، جبکہ قرآن کا بیانیہ یہ ہے کہ: وَ هُوَ الَّذی خَلَقَ السَّماواتِ وَ الأَرْضَ بِالْحَقِّ(الانعام:73) اور یہ وہی ذات ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا فرمایا ہے۔ یہ کہ کائنات کا وجود بے مقصد نہیں ہے بلکہ اس میں کچھ قوانین کارفرما ہیں، یہ سب اک نظم کے تحت اسباب لیے چلتے ہیں اور اس کے نتائج برآمد ہوں گے۔ قرآن مزید ارشاد فرماتا ہے: سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ (حم السجدہ:53) عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی اپنی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر کھل جائے کہ حق یہی ہے۔ موجودہ دور میں کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں ہر دن آفاق اور انفس کی واضح نشانیاں انسانیت کو شجر طیبہ کا حصہ بنارہا ہے۔
انسانی عقل کا تقاضہ ہے کہ وہ سوال کرتی ہے غوروفکر کرتی ہے اور حقاںٔق تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہے، لیکن ان ہی باتوں کا جواب جب سائنس خود اپنی عقل سے، تجربات کی مدد سے دینے کی کوشش کی تو وہاں گمراہیاں پیدا ہوئیں لوگ مزید متشکک و ملحد ہوتے چلے گئے، یہی جوابات جب علم وحی کی روشنی میں دیے جائیں گے تو نور توحید انسانوں کے دلوں کو راسخ کرے گی اور وہ قدرت الہی، جباریت، قہاریت کو محسوس کرے گی۔ موجودہ دورعلمی ترقی کا دور ہے، انسان سیاروں تک کمند ڈالنے کی دوڑ میں کامیاب ہوا ہے، رفتار و خلاء پر کنٹرول حاصل کرنے جارہا ہے، ایسے دور میں ابراہیمی وصیت کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے کہ ابراہیمی فکر کے احیاء کی کوشش میں سائنٹفک کمیونٹیز کے ذہنوں سے اپیل کرنے پرحکمت، عقلی و منطقی مناظرے انتہائی کارآمد ثابت ھوں گے۔ اور جب ذہن خطاب ہوجاتے ہیں تو وہ سجدوں میں گرجاتے ہیں۔
(مضمون نگار BITS Pilani-RMIT یونیورسٹی میں شعبہ میکانکل انجینیرنگ میں ریسرچ اسکالر ہیں۔ )