اعلیٰ تعلیم میں مسلمانوں کی رسائی – چیلنجز اور لائحہ عمل

اسامہ اکرم

اعلیٰ تعلیم کی اہمیت، فرد اور سماج کے ارتقاء میں اعلیٰ تعلیم کا رول، موجودہ ہندوستان میں کیمپسوں کی صورتحال، اعلیٰ تعلیم میں مسلم طلبہ کی رسائی کا مسئلہ اورمسلم سماج میں بیداری جیسے کئی نکات پر گفتگو کی غرض…

اعلیٰ تعلیم کی اہمیت، فرد اور سماج کے ارتقاء میں اعلیٰ تعلیم کا رول، موجودہ ہندوستان میں کیمپسوں کی صورتحال، اعلیٰ تعلیم میں مسلم طلبہ کی رسائی کا مسئلہ اورمسلم سماج میں بیداری  جیسے کئی نکات پر گفتگو کی غرض سے رفیقِ منزل کے معاون مدیربرادراسامہ اکرم نے جناب رمیس ای۔ کے،کا انٹرویو لیا۔ رمیس ای۔ کے، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے سیاسیات میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ انہوں نے حیدر آباد سینٹرل یونیورسٹی سے ماسٹرس کیا ہے ۔محترم مختلف کیمپسوں میں طلبائی قیادت کا حصہ رہے ہیں اور فی الوقت اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا کے مرکزی سکریٹری ہیں۔(ادارہ)


 سوال : فرد کے ارتقاء اور سماج کی تشکیل میں اعلیٰ تعلیم کی کیا اہمیت ہے؟

جواب : یہ ایک متفقہ بات ہے کہ تعلیم ایک فرد کو ڈیفائن کرنے میں اور  سماج کو بنانے میں مرکزی کرداراداکرتی ہے۔ایک فرد کو ذاتی پہچان دینےمیں،ایک پیشہ وارانہ سماج میں انفرادی طور پر اپنا کریئر بنانےمیں اور سماج میں اپنے کردار کو پہچاننے میں تعلیم کی اہمیت کلیدی ہے۔

جدید معاشرہ علم پر مبنی معاشرہ بن گیا ہے، جسے ‘نالج اکانومی’ کہا جانے لگا ہے۔ ٹیکنالوجیکل ترقی کے اس دور میں سماج کے ہر شعبہ میں تعلیم پر مبنی ترقی ہورہی ہے۔ سروس سیکٹر میں نالج پر مبنی انڈسٹریز قائم ہو چکی ہیں۔  معیشت  کو بھی اب ‘نالج بیسڈاکانومی’ کہا جاتاہے۔جس کے پاس جتنی بہترتعلیم ہوگی، اس کی معیشت بھی اتنی بہترين ہوگی۔

اسلامی معاشرہ، علم پر مبنی معاشرہ ہے۔  اسلامی روایت میں علماءایک اہم کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں ۔نہ صرف تاريخ میں بلکہ جدید دور میں بھی اسلامی سماج علم پر مبنی سماج سمجھا جاتا ہے، جہاں علم کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

انفرادی طور پر بھی  دیکھا جائے توعلم کا حصول صرف ایک فرد کے کرئیر کے حوالے ہی  سے نہیں، بلکہ کمیونٹی کے ساتھ جمہوری تعامل میں، صحت کے مختلف زاویوں اور معیار زندگی غرض زندگی کے سارے پہلووں میں کلیدی  حیثیت رکھتا ہے۔

 سوال : کالج اور یونیورسٹی کیمپسوں کے ماحول کے  طلبہ برادری   اور سماج پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

جواب : یہ بہت اہم سوال ہے۔ تا ریخی حوالے سے دیکھا جائے تو کیمپس سماج میں   بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔  ہندوستان کی مسلم سیا ست کی تاریخ  میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا  کافی اثر رہا ہے۔ وہاں کے مباحث، ڈسکشنس اور سرگرم  ماحول سے سماج کو کئی رہنماء ملے ہیں اور آج بھی مل رہے ہیں۔دوسری طرف بائیں بازو کی سیاست میں جے این یو نے اہم رول ادا کیا ہے۔ ٹیکنالوجی کے میدان میں آئی آئی ٹیزکا بہت اہم کنٹریبیوشن ہوتا ہے۔

قومی اہمیت کے حامل اداروں اور ریاستی  اداروں میں مختلف علاقوں  سے ذہین طلبہ اور بہترین اساتذہ آتے ہیں۔ انہیں ایک دوسرے سے  ملنے  اور تبادلہ خیال کا موقع ملتاہے۔   اس طرح کیمپسس  ایک  طالب علم کو نئے مواقع فراہم کرتے ہیں اور سماج پر بھی مختلف طرح سے اثرانداز ہوتے ہیں۔

جدید زمانے میں سماج میں اپنے خیالات کی تبلیغ اور خود فرد کی  کامیابی کے لیے بھی فیلڈ کے ماہرین اور کام کرنے والوں  کے ساتھ  نیٹ ورک   ہونا بہت ضروری ہے۔ کیمپسس  اس طرح کے مواقع طلبہ کو فراہم کرتے ہیں۔

 سوال : مسلمانوں میں اعلیٰ تعلیم کی صورتحال پر آپ کیا کہنا چاہیں گے؟

جواب : مسلمانوں کی اعلىٰ تعلیم کے حوالےسے کافی گفتگو ہوتی رہی ہے۔ یہ ایک تاريخی حقیقت ہے کہ مسلمان ہندوستان میں دوسری اقوام  کے بالقابل بہت زیادہ پیچھے ہیں۔  سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق  تعلیمی سطح اور معیار دونوں کے حوالے سے مسلمانوں کی صورتحال کافی خراب ہے۔2019ء  میں  روزنامہ انڈین ایکسپریس میں شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق مسلمان تعلیم  کے میدان میں شیڈیول کاسٹ سے بھی پیچھے ہیں۔

اس کے پیچھے تاریخی وجوہات بھی ہیں اور  معاصر بھی۔ کمیونٹی کے اندر ریفارم کا معاملہ  بھی ہے اور گورنمنٹ پالیسیوں کے  کردار کا بھی۔ ان تفصیلات سے صرفِ نظر یہ تو مسلّمہ تاریخی حقیقت ہے  جسے بار بار دہرانا پڑتا ہے کہ اس ملک کے مسلمان اعلیٰ تعلیم میں بھی اور ابتدائی تعلیم میں بھی بہت پیچھے ہیں۔حالیہ دنوں میں اعلیٰ تعلیم کے متعلق   ایک سروے سامنے آیا جو بتاتا ہے کہ آئی آئی ٹیز اور آئی آئی ایم جیسے اداروں میں مسلمان صرف 2 فی صدی ہیں، حالانکہ آبادی کے اعتبار سے اس ملک میں مسلمان 13 فی صدی ہیں۔

سوال : AISHE 2019-20 کے مطابق پچھلے سالوں میں اعلیٰ تعلیم میں مسلمانوں کی شرح بڑھی ہے۔ ساتھ ہی مسلم طالبات کی تعداد میں اضافہ نظر آتا ہے۔  اس ترقی کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟

جواب : دراصل 2016 -2015  اور2019-20کےسروے کا موازنہ کیا جائے تو ہمیں اعلیٰ تعلیم میں مسلمانوں کی شرح میں 4.67 فی صد سے  5.5 فی صد اضافہ نظر آتا ہے۔یعنی اس عرصہ میں  تقریبًا1  فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔یہ ایک خوش آئند تبدیلی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق طا لبات کی تعداد طلبہ کے بالمقابل  بڑھی ہے۔ حالانکہ اس تعداد میں چند  ہزار ہی  کا فرق ہے۔  البتہ کئی نامور قومی اداروں  جیسے آئی آئی ٹی اور آئی آئی ایم میں مسلم طالبات کی تعداد مسلم طلبہ کے مقابلے، بہت کم ہے۔اعلیٰ تعلیم کے ایسے کورسسز  جہاں روزگار کے مواقع کم ہیں، وہاں طالبات کی تعداد زیادہ ہے۔  اہم بات یہ ہے کہ 16-2015 کے مقابلے 20-2019 کے سروے میں مسلمانوں کی اعلیٰ تعلیم میں شرکت میں اضافہ ہوا ہے جس کوہمیں  باقی رکھنے اورمزید  بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

 سوال :مسلم طلبہ و طالبات کی اعلیٰ تعلیم میں کم رسائی کی کیا وجوہات رہی ہیں؟

جواب :اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ جیسے جب انگریزوں نے ہندوستان میں اعلىٰ تعلیمی نظام قائم کیا تب ہی سے کچھ خاص اور نامی گرامی خاندانوں اور کمیونٹیز کو اعلیٰٰ تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا اور انہی کے خاندان کی دوسری یا تیسری نسل ان اداروں میں تعلیم حاصل کر رہی ہوتی ہے۔ کیونکہ انہیں پہلے سے ہی اس حوالے سے معاون  ماحول اورتجربہ ملا ہوا ہوتا ہے ۔ البتہ دوسرے لوگوں کو ان باتوں کا علم ہی نہیں ہوتا ۔ ساتھ ہی ہندوستان میں اعلىٰ تعلیم کے حصول میں معاشی  مضبوطی بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ خصوصاً آئی آئی ٹی، آئی آئی ایم جیسے اداروں میں داخلہ کے لیے بہت مشکل داخلہ  امتحانات میں کامیابی حاصل کرنی پڑتی ہے، جس کے لیے مہنگی کوچنگ لینے  کی استطاعت ہر کسی کے پاس نہیں ہوتی۔

ملک  میں مسلم طلباء کے لئے مخصوص ریزرویشن کا نہ ہونا  بھی اس کی  ایک وجہ ہے۔

سچرکمیٹی کی سفارشات پر حکومت کے عملی اقدامات کا جائزہ لینے کے لیے امیتابھ کُندو کی چیئرمین شپ میں تشکیل دی گئی کمیٹی نے اس بات کی  تصدیق کی کہ مسلمانوں کی ترقی کے لیے جو اقدامات  حکومت کو کرنے چاہیے تھے، وہ نہیں ہوئے۔حکومتوں کا یہ رویہ بھی اس کا سبب ہے۔

 سوال: عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ سوشل سائنسز خصوصاً ریسرچ میں کرئیر کے امکانات بہت کم ہیں،یہ خیال طلبہ کے لیے ایک بڑا رخنہ ثابت ہوتا ہے۔ کیا یہ خیال درست ہے؟

جواب : یہ ایک پیچیدہ سوال ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق  ہندوستان میں سب سے زیادہ طلباء سماجی علوم میں گریجویشن کررہے ہیں۔ کیونکہ یہ Low hanging fruit ہے۔ زیادہ آسانى سے لوگ اس کورس میں داخلہ لیتے ہیں اور فاصلاتی  ذریعہ تعلیم کے ذریعے بھی اس کورس کو کرتے ہیں۔ طلبہ کی کافی تعداد ہونے کی وجہ سے اس فیلڈمیں کریئر بنانے کے مواقع بہت کم ہیں۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی بہ نسبت سماجی علوم کے لئے صنعت اور مارکیٹ میں(روزگار کے ) مواقع کم ہیں۔سماجی علوم میں عموماً تدریسی پیشہ اختیار کیا جاتاہے۔ لیکن اب ایڈوانس سماجی علوم اور اپلائڈ سماجی علوم کے کورسیز بھی دستیاب ہیں۔ ان کورسس کے لئے ٹاٹا انسٹیٹیوٹ آف  سوشل سائنس کا ادرہ  ایک اچھی مثال ہے، جس میں  سماجی علوم کو بھی مارکیٹ اور ٹیکنالوجیکل ایکانامی سے جوڑنے کی کوشش جاری ہے۔

جہاں تک سوال ریسرچ کا ہے ،تحقیق میں کرئیر کےکم  مواقع ہونے کے دعویٰ کی درستگی کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔میرے خیال میں ہندوستان میں نسبتاً ریسرچ  کے لیے الگ الگ مواقع ہیں۔  این جی یو سیکٹر میں ، تدریسی شعبہ میں اور خود تحقیق کے شعبہ میں تو ہے ہی۔ میں سمجھتا ہو کہ سماجی علوم، Humanities اور سائنس و ٹیکنالوجی میں ریسرچ کے مختلف مواقع ہیں۔

 سوال : عام طور پر ہر طالب علم دسویں یا بارہویں کے بعد ہنگامی حالات میں اپنی اعلیٰ تعلیم اور کرئیر کے متعلق فیصلے کرتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ اسکول کی سطح سے ہی ہم طلبہ کوکرئیر پلاننگ  کے لیے تیار کرنے سے قاصر ہیں ،جس سے نوعمری سے ہی کرئیر اور مستقبل کے متعلق فیصلہ سازی کی قوت طلبہ میں پیدا ہو؟

جواب : ہندوستان کے اعلىٰ تعلیمی نظام میں یہ بات بہت عام ہے کہ یہاں دسویں یا  بارہویں جماعت میں ہی طالب علم کو اپنےکرئیر کے متعلق فیصلہ لینا پڑتا ہے۔ کئی طلباء اس اس بات سےانجان ہوتے ہیں کہ ان کی صلاحیتیں کیا ہیں اور اس بنیاد پر انہيں کس شعبہ کو منتخب کرناچاہیے۔ سرپرست حضرات   بھی محدود آپشنس کا علم رکھتے   ہیں اور دستیاب مواقع کے متعلق عدم واقفیت بہت زیادہ ہے۔ بحیثیت کمیونٹی ہمیں  اس بات کو یقینی بنانا  چاہیے کہ نوجوانوں میں موجود صلاحیتوں کی نشوونما بھی ہو اور اسی کی مناسبت سے انہیں کرئیر کے مواقع ملیں۔

کچھ طلباء کو کسی شعبہ میں اپنا کافی وقت لگا دینے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ  ان  کے لیے کوئی اور شعبہ زیادہ موزوں ہے۔ چونکہ انسان وقت کے ساتھ کافی چیزیں سیکھتا ہے اور اس بنیاد پر اس میں کافی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں،اس لئے  طالب علم کے پاس یہ اختیار ہونا چاہئے کہ اگر اس کواس بات کا  احساس ہو جائے کہ یہ شعبہ اس کے لیے  موزوں نہیں ہے تو وہ  باآسانی دوسری فیلڈ میں جاسکے۔ بحیثیت کمیونٹی ہمیں چاہیےکہ طلبہ کوہم  شروع سے ہی مناسب رہنمائى فراہم کریں ۔

 سوال : پچھلے کئی سالوں سے تعلیمی اداروں میں جاری اقلیتوں پر ظلم و تشدد کےطلباء پر  کیا نفسیاتی اثرات مرتب ہوئے ہیں؟

جواب : یہ بہت اہم سوال ہے۔ ہندوستان میں2014 کے بعداقلیتوں کو نشانہ بنائے جانے والے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ جس جگہ مسلمان  تعداد میں کم ہوتے ہیں  وہاں ان  کے خلاف حالات بہت  خراب ہوتے ہیں۔سچر کمیٹی کی جانب سے یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ ‘اداروں میں تکثیریت کو یقینی بنایا جائے’۔لیکن بدقسمتى سے  اسے بھی عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا۔ نتیجتاً 2014 کے بعد ایسے واقعات میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ الگ الگ کیمپس میں اقلیتوں پرحملے ہوئے،جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں نجیب احمد کا واقعہ، حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی میں  روہت ویمولا کا واقعہ اور آئی آئی ٹی مدراس میں فاطمہ لطیف کی خود کشی وغیرہ۔ یاد رہے کہ جتنے واقعات ہمارے سامنے آئے ہیں ان سے کئی  زیادہ واقعات  سامنے نہیں آپاتے ہیں۔ ان حالات کے پیش نظر تنظیموں اور طلبہ کے لیے  ایک طرح کا چیلینج ہے کہ ان جگہوں پر  جاکر وہاں آنے والے لوگوں کے لیے مواقع بنانے کی کو شش کی جائے۔ کیمپسس میں مسلم طلبہ کو اچھا نیٹورک بنے۔  ساتھ ہی ان واقعات کو رپورٹ کیا جائے، اس کی اسٹڈی ہو،  رپورٹس تیارہوں اور حکومتوں کے سامنے رکھی جائیں ،ان پر دباؤبنایا جائے۔ ایسے بہت سارے کام طلبہ تنظیموں کو انجام دینے ہیں۔ اس وقت  یہ حالات محض کیمپسس تک محدود نہیں رہے بلکہ سماج میں اس کا گہرا اثر دکھائی دے رہا ہے۔چہ جائیکہ کیمپس سماج سے الگ نہیں ہے، مگر ہمیں کیمپس کو خاص طور سے ذہن میں رکھتے ہوئے  منصوبہ بندی اور کام کرنا ہوگا۔

 سوال : اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا ملک کی ایک بڑی طلبہ تنظیم ہے۔ اس نے اس سلسلے میں کیا اقدامات کیے ہیں؟ ان میں کس حد تک کامیابی مل رہی ہے اور کیا چیلنجز درپیش ہیں؟

جواب :اعلىٰ تعلیمی میدان میں ایس آئی او مختلف سرگرمياں انجام دیتی ہے۔ نہ صرف اعلىٰ تعلیمی میدان میں بلکہ پرائمری ایجوکیشن میں بھی۔ مثلاً کئی علاقوں میں پرائمری ایجوکیشن کی سہولیات بھی نہیں ہوتی ، وہاں  پہنچ کراعلىٰ تعلیمی سرگرميوں سے پہلے پرائمری درجہ سے کام شروع کرنا ہوتاہے۔ایس آئی او کی جانب سے ‘نارتھ انڈیا موؤمنٹ’  کےنام سے کئی جگہوں پر اسکولس کی بنیاد رکھنے، تعلیمی معیار کو بڑهانے اور اس طرح کے کئی کام یوپی، گجرات، راجستھان اور ہریانہ  جیسی ریاستوں میں ہوئےہیں۔

اعلىٰ تعلیم سے واقفیت اور اس کے حصول کے لیے مختلف مواقع مہیا کرنے کی غرض سے کوچنگ فراہم کرنے کا کام ایس آئی او مختلف جگہوں پر کررہی ہے،جن  سے  کئی طلباء استفادہ کررہے ہیں۔ اعلیٰٰ تعلیم کے بعد کام کرنے کے لیے گائیڈنس اور مواقع بھی فراہم کئے جا رہے ہیں۔طلباء کی نیٹ ورکنگ (جس کا میں نے اوپر ذکر کیا) کا  کام بھی ایس آئی او کررہی ہے۔یہ تمام امور  یس آئی او کی ہمہ جہت سرگرمیوں کا یہ ایک حصہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس طرز پر کام کو آگے بڑھانے کے لیے اور بھی  این جی اوزبننی چاہیے۔خاص طور سے شمالی ہندوستان میں تعلیم پر  خصوصی توجہ دیتےہوئےمختلف این جی اوز بننی چاہیے۔

 سوال : اعلیٰ تعلیم اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مسلم طلبہ و طالبات کی رسائی کے متعلق ملت اسلامیہ کا لائحہ عمل کیاہونا چاہئے؟

جواب :مسلم تنظیموں کا ایک اہم کام یہ بھی ہونا چاہئے کہ وہ  ہندوستان  اور بیرون ممالک میں موجودہ تعلیمی رجحانات، تعلیم کے حصول کے لیےدستیاب سہولیات  وغیرہ جیسی معلومات زمینی سطح پر والدین اور طلبہ کو بڑے پیمانے پر پہنچائے۔

یہ موضوع خاص توجہ کا حامل ہے، اس کے لئے علیحدہ پلیٹ فارم اور ادارے بننے چاہئیں۔ سماج میں لوگوں کو اعلىٰ تعلیم سے آگاہ کرنے کے لیے انہیں مسابقتی امتحانات کی تربیت دینا ضروری ہے۔ کئی تنظیمیں یہ کام بخوبی انجام دے رہی ہیں جیسے شاہین انسٹی ٹیوٹ، ہمدرد کوچنگ وغیرہ۔علی گڑھ اور جامعہ   ملیہ کےکمیونٹی سینٹرڈ ادارے بھی  اس میں شامل ہیں۔اس طرح سے مزید  نئے اداروں کے لیے موقع ہے کہ وہ الگ الگ سطح پر پرائمرى ایجوکیشن اور ہائرایجوکیشن کے شعبہ میں اپنی خدمات انجام دے سکیں۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں