!مقدس مہینے میں

0

جتیندر نرموہی

            رفیقن چاچی کی آواز آرہی تھی”نا لائقوں نے کچھ نہ چھوڑا، گھِیسا کی چھوری کو لوٹ لیا“۔ گھِیسا مالی کے گھر کے باہر بھیڑ اکٹھی ہوتی جارہی تھی۔لوگ اس میں شامل ہوتے جارہے تھے۔رفیقن چاچی  پھر چلائیں ”نامرادو! یہاں کیا تماشہ لگ رہا ہے جو میلے کی طرح جٹے جا رہے ہو؟ چلو بھاگویہاں سے!“۔سر پھرے لڑکے سمٹتے اور کھسکتے بنے۔رفیقن اندر گئیں اور اعتماد میں لے کر گلاب سے سب کچھ پوچھ لیا۔گلاب نے کہا”رات کے اندھیرے میں جب میں پھول بیچ کر لوٹ رہی تھی، نیم کے پاس گڑھ کی دیوار کے پاس سے دو لڑکے مجھے بکسے میں بند کرکے لے گئے۔انہوں نے گاڑی میں ڈالا اور مجھے لے گئے۔ کہاں لے گئے یہ مجھے نہیں معلوم۔ انہوں نے میرے ساتھ زبردستی کی اور تڑکاؤ پھاٹک کے پاس واپس چھوڑ دیا“۔ گلاب کی ماں نے کہا”رہبا دو۔۔۔ جو ہویو،سو ہویو۔۔۔راکھویان نے منہ کالا کر، دَھر دِیو“۔ رفیقن چاچی  بولیں ”اری واری!کیسے چھوڑ دیں،منہ کالا تو ان کمینوں کا ہوا جنہوں نے چھوری کے ساتھ جبراً زنا کیا، انہیں خدا بخسے گا نہیں!“

            محلے میں رفیقن چاچی کو بولڈ مانا جاتا تھا۔وہ جو ٹھان لیتی تھیں، پورا کرکے رہتی تھیں۔ان کے دل میں کیا چل رہا ہوتا تھا، یہ یاتو صرف وہ جانتیں یا خدا جانتا۔ان کے تین چھورے متین، مبین،رئیس بھی بڑے قسمت والے تھے، ان کی نیشنل ہائے وے پر مستری کی دکان تھی۔اماں جب وارڈ کونسلر بنی تھیں، اس سے پہلے ہی ابا نے وہ زمین خرید لی تھی۔چاچی کی تین چھوریاں بھی تھیں۔رخسانہ، فیروزہ اور فریدہ۔داماد بھی سب اچھے خاصے خوش حال تھے۔

            گلاب کا باپ گھِیسا بڑا سیدھاآدمی تھا۔اپنے گھر سے سیدھا آتا،سیدھا جاتا۔اس کی بیوی اور چھوریاں شہر کے بڑے بازار میں بیٹھتیں، مالائیں بیچتیں۔گھِیسا کی بہو نے کہا ”چاچی! رہبا دو۔۔۔ لوگ ہم غریبن کا مجاک بنا دے گا“۔چاچی نے کہا”اری واری! غریب کب سے ہوگئی تھاری چھوری؟ چاچی تھارے ساتھ چھیں“۔آنا فانا چاچی نے اپنے چھوروں سے گاڑی منگوائی اور گلاب، اس کے ماں -باپ دونوں کو بٹھا کر تھانہ پہنچ گئیں۔تھانے دار سارا ماجرا دیکھ کر آگے پیچھے ہونے لگا۔رفیقن چاچی بولیں ”تھانے دار جی، نئے نئے آئے ہو شہر میں،رفیقن کو نہیں جانتے، رپورٹ درج کرو“۔تھانے دار بولا”بیٹھیے بہن جی، ابھی درج کرتا ہوں۔“ تھانے دار رپورٹ درج کرنے کے لیے سوچتا اس پہلے ہی چاچی نے شہر کے ایم ایل اے کو فون کرکے تھانے دار کو پکڑا دیا۔

            فون پر تھانے دار کی آواز یس سر یس سر کرتی سنائی دی۔چاچی سب جانتی تھیں کہ معاملے میں دیری کا مطلب لیپا پوتی۔چاچی نے شہر کے میڈیکل افسر کو فون لگا کر پورا معاملہ سمجھا دیا اور کہا کہ رہورٹ جلد سے جلد چاہیے۔میڈیکل افسر بھی رفیقن چاچی سے اچھی طرح واقف تھے۔وہ مستعدی سے میڈیکل رپورٹ تیار کرنے میں لگ گئے۔

            معاملے نے زور پکڑا،تفتیش شروع ہوگئی۔اس معاملے سے جڑے دوسرے فریق نے بھی زور لگایا۔ایک روز رات کو چاچی کے پاس فون آیا۔چاچی نے فون اٹھایا۔ آواز آئی ”السلام علیکم چاچی، مقبول ایڈوکیٹ بول رہا ہوں۔“ چاچی نے کہا ”وعلیکم السلام۔“مقبول ایڈوکیٹ نے کہا”چاچی، کیوں خواہ مخواہ غیر نجی معاملے میں پڑ رہی ہیں، معاملے سے جڑی دوسری پارٹی بڑے رسوخ والی ہے،اور وہ اپنے ہی لوگ ہیں۔“ چاچی نے کہا”مجھے دین اور ایمان سکھانے والے وکیل صاحب،ا ٓپ کون ہوتے ہیں اپنے پرائے کی پہچان کرانے والے، رمضان کے اس مقدس مہینے میں خدا کے بندوں سے زیادہ رسوخ والا کون ہوسکتا ہے!“مقبول وکیل بولے”آپ کو معاملے کو سمجھنا ہوگا، اس کیس سے ہٹ جانا ہوگا۔میں فقیروں کی مسجد کے پاس رہتا ہوں، معاملہ اثردار لوگوں کا ہے۔“چاچی بولیں ”وکیل صاحب! آپ مجھے دھمکی دے رہے ہیں یا التجا کررہے ہیں؟“ مقبول وکیل نے کہا”آپ سمجھنے کی کوشش کریں۔میں آپ کو مشورہ دے رہا ہوں۔ سامنے والے سے میرا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔“

            رفیقن چاچی بڑی سمجھ دار تھیں اور وہ مقبول وکیل کی پہنچ بھی جانتی تھیں۔وہ تھوڑی ڈھیلی سی ہوگئیں، جیسے پانسہ پلٹ گیا ہو،ویسے بات کرتے ہوئے انہوں نے مقبول وکیل کے اشاروں کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا۔مقدمہ کی کمزوریاں انہیں معلوم ہوچکی تھیں۔وہ جان چکی تھیں کہ کیس اچھا بنا ہے، میڈیکل رپورٹ بھی اچھی ہے، سوائے چشم دید گواہ کے۔ حادثے کا کوئی چشم دید گواہ نہیں تھا۔

            رفیقن چاچی کا ذہن کسی ادھیڑ – بُن میں لگ گیا۔انہوں نے اپنے بیٹوں کو بلایا”دیکھو تمہیں خدا رسول کا واسطہ، ان دنوں میں جو کچھ کررہی ہوں،تمہارے خیال میں مَیں صحیح کررہی ہوں یا نہیں؟“تینوں بیٹوں نے ایک ساتھ کہا”امی، خدا جانتا ہے آج تک ہم آپ کے ساتھ رہے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں جو ہماری امی کررہی ہیں وہ صحیح کررہی ہیں اور آگے بھی وہ صحیح کریں گی۔“

            رفیقن چاچی نے کہا”تو پھر سنو!میں گھیسا بھائی کے وکیل بنشی دَھر یادو کے پاس جارہی ہوں، چشم دید گواہ کے طور پر!“ مبین بولا”لیکن امی، آپ تو وہاں تھیں ہی نہیں؟“چاچی نے کہا”یہ تم مجھ پر چھوڑ دو،میں آج تک اپنی زندگی میں ناکام نہیں ہوئی ہوں۔ان شاء اللہ ہمیں کامیابی ملے گی۔“مبین نے پوچھا”امی، کیا یہ بھی آپ دین اور ایمان کے لیے کررہی ہیں؟“ چاچی نے جواب دیا”ہاں بالکل! تم گاڑی نکالو، اب میں چلی“

            رفیقن چاچی بنشی دھر ایڈوکیٹ سے ملنے روانہ ہوگئیں۔سچائی پر چلنے والے مظلوموں کا ساتھ دینا ہی ان کا دین اور ایمان تھا۔

Jitendera Nirmohi

B-422, RK Puram

Kota, Rajasthan

Email:[email protected]

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights