ابوسلیم محمد عبدالحی

ایڈمن

بعض افراد اپنی ذات میں ایک کارواں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ اجتماعیت کے ساتھ توچلتے ہیں،لیکن اُس میں گم ہوکر نہیں رہ جاتے، بلکہُ ان کی انفرادیت ہر جگہ نمایاں رہتی ہے۔ اُن کی فکر زندہ اور عزائم بیدار…

بعض افراد اپنی ذات میں ایک کارواں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ اجتماعیت کے ساتھ توچلتے ہیں،لیکن اُس میں گم ہوکر نہیں رہ جاتے، بلکہُ ان کی انفرادیت ہر جگہ نمایاں رہتی ہے۔ اُن کی فکر زندہ اور عزائم بیدار ہوتے ہیں۔ وہ کبھی حالات کا شکوہ نہیں کرتے، بلکہ آہنی عزائم کے ساتھ تن تنہا بڑی بڑی مہمات پر نکل پڑتے ہیں۔ یقیناًمولانا ابوسلیم محمد عبدالحیؒ کا شمار ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے۔ آپ جماعت اسلامی ہند کے دورِ اول کے عظیم رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں۔ جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوری کے رکن بھی رہے۔ آپ ایک اچھے مدیر، ایک اچھے ادیب، اور ایک اچھے منتظم کے ساتھ ساتھ ایک بہترین منصوبہ ساز بھی تھے۔مختلف اردو مجلات کا اجراء، ادارہ الحسنات کا قیام، افرادِ کار کی تیاری،لڑکیوں کی عظیم درسگاہ جامعۃ الصالحات کی تاسیس، اور قرآن مجید کے ہندی ترجمہ کے علاوہ ہندی زبان میں اسلامی لٹریچر کی منتقلی آپ کے چند نمایاں کارنامے ہیں۔
ابتدائی حالات: مولانا ابوسلیم محمد عبدالحیؒ پنجاب کے ایک نومسلم خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے دادا عبدالمستقیم صاحب ایک انتہائی بزرگ، اور عبادت گزار عالم دین تھے۔ آپ کے والد کا نام عبدالمالک تھا، جو شہر رامپور کی ایک تعلیم یافتہ شخصیت تھے، اور اردو، عربی وفارسی کا اچھا علم رکھتے تھے۔ آپ کی ولادت یکم دسمبر ۱۹۱۰ ؁ء کو رامپور میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم دینی مدرسے میں ہوئی، شہر کے ایک عالم دین مولوی عبدالرحمن سے گلستاں اور بوستاں پڑھیں۔ آپ کو پڑھائی سے خاص دلچسپی تھی، شیرکوٹ کے اسکول سے مئی ۱۹۲۳ ؁ء میں مڈل ٹاپ کیا، ہائی اسکول کے لیے رامپور کے اسٹیٹ ہائی اسکول میں داخل کیے گئے، جہاں پہلے ہی سال نویں کلاس میں سارے اسکول کو ٹاپ کیا، جس کے انعام کے طور پر وہاں کے نواب حامد علی خاں کی وظیفہ اسکیم پر آپ اعلی تعلیم کے لیے الہ آباد چلے گئے۔ یہاں سے آپ نے آرٹ کی جگہ سائنس کی لائن اختیار کی، اور الہ آباد کے ایونگ کرسچین کالج میں انٹرمیڈیٹ میں داخلہ لے لیا۔ ۱۹۳۲ ؁ء میں یہاں سے انٹر پاس کیا، اور ۱۹۳۴ ؁ء میں الہ آباد یونیورسٹی سے بی ایس سی کیا۔ بی ایس سی کے بعد آپ کو ڈاکٹری کا شوق تھا، تاہم اس کے مصارف بہت زیادہ تھے، جس کے لیے آپ واپس رامپور آگئے۔ آپ کا تعلیمی دور کافی تنگ حالی کا دور تھا، گھر سے مالی تعاون نہ ملنے کے سبب آپ کو کافی دشواریاں بھی پیش آئیں۔ عبادات کا شوق بچپن سے تھا، تعلیم کے زمانے میں آپ کا روزانہ نماز فجر سے پہلے اٹھنے کا معمول تھا، اٹھتے، قرآن کی تلاوت کرتے اور جماعت کے ساتھ فجر کی نماز ادا کرتے۔ آپ کے تفریحی مشاغل میں خاص چیز شعروشاعری سننا تھا، اس کے لیے آپ مشاعروں میں بھی جایا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ ابتدا ہی سے مطالعہ کتب کے شوقین تھے، کتابیں محض وقت گزاری کے لیے نہیں پڑھتے، جس کتاب کو بھی پڑھتے، اس پر نشانات لگاتے جاتے، ضرورت ہوتی تو اس پر اپنا تبصرہ بھی تحریر کردیتے۔ اسی طرح تحریری صلاحیت بھی بچپن ہی سے آپ کے اندر نمایاں تھی، کم عمری ہی میں مضامین لکھنے شروع کردیئے تھے۔
تشکیک کا دور:۱۹۳۳ ؁ء میں بی ایس سی کی تعلیم کے دوران آپ کی شخصیت میں بڑا تغیر رونما ہوا، دینی عقائد میں تشکیک کا شکار ہوگئے، اور مذہب سے بیزاری پیدا ہونے لگی، خود اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’بچپن اور اوائل شباب کا زمانہ دینی مزاج اور دینی مصروفیات کے تحت بسر ہوا، لیکن جیسے ہی یونیورسٹی میں قدم رکھا، نئے نئے افکار سے واسطہ پڑا، تو ایک بڑا تغیر رونما ہوا۔ جس کا خلاصہ چند الفاظ میں یہ ہے کہ پہلے جن چیزوں پر یقین تھااب تشکیک اور تذبذب میں بدل گیا، یہ وقت زیادہ نہیں گزرا کہ انکار اور لاادریت کا غلبہ ہوگیا۔ مزاجاََ میں کسی چیز کو ماننے کے بعد بیٹھ رہنے کا خوگر نہیں تھا، بلکہ جو کچھ سمجھ میں آیا، اسی کے مطابق عمل کرنا ہمیشہ لازم سمجھا۔ چنانچہ اسلام سے دوری اس حد تک ہوگئی کہ نمازیں، روزے اور دینی عبادات سب یکسر کافور ہوگئیں اور تبھی لوگوں کی شرم سے دیندار بنے رہنے کی کوشش ختم ہوگئی۔‘‘پھر کیا تھا فلم بینی کی لت پڑگئی، اور طرح طرح کی عادات اپنی جگہ بنانے لگیں۔
ملازمت کا دور: ۱۹۳۴ ؁ء میں بی ایس سی کے بعد رامپور واپس آگئے، اور یہاں معاشی تگ ودو میں لگ گئے۔ شادی کئی سال پہلے ۱۹۳۰ ؁ء میں ہی ہوچکی تھی، بی ایس سی کے بعد آپ کی شدید خواہش تھی کہ ڈاکٹری کی جائے لیکن گھریلو مسائل اور وسائل کی قلت نے اس بات کی بالکل اجازت نہیں دی۔ چنانچہ رامپور آنے کے بعد پہلے تو یہاں کچھ ٹیوشن وغیرہ پڑھا کر کام چلاتے رہے، پھر جلد ہی مدرسہ عالیہ رامپور میں انگریزی کے استاذ کی حیثیت سے آپ کا تقرر عمل میں آگیا، تاہم یہ سلسلہ زیادہ عرصہ تک جاری نہیں رہ سکا، اور آپ کو رامپور کی عظیم لائبریری ’’رضا لائبریری‘‘ میں ملازمت مل گئی، جہاں آپ نے معاون کیٹلاگنگ کے طور پرخدمات انجام دیں۔ اسی دوران شہر کے ایگریکلچر ڈپارٹمنٹ میں ملازمت کا موقع مل گیا، وہاں آپ ڈپٹی ڈائرکٹر ایگری کلچر کے پیش کار مقرر ہوئے۔
فکری انقلاب:موصوف عمر کے تقریبا ۱۰؍سال تک تشکیک کے دور سے گزرتے رہے، بی ایس سی کی تکمیل ہوئی، تو مختلف ملازمتیں اختیار کیں۔ جس دوران آپ رامپور میں ملازمت کررہے تھے اسی درمیان ۱۹۴۳ ؁ء میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا، جس نے آپ کے ذہن وفکر میں رفتہ رفتہ انقلاب برپا کردیا۔ ایک مرتبہ ایگری کلچر ڈپارٹمنٹ میں ملازمت کے دوران آپ رامپور سے قریب ’ملک‘ تحصیل کے تحصیلدار جناب امجد علی خاں کے یہاں گئے۔ وہاں گفتگو کے دوران جب آپ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا، تو اس پر امجد علی خاں نے بہت ہی افسوس کا اظہار کیا، اور آپ کو مولانا مودودیؒ کی کتاب ’نیا نظام تعلیم‘ دی، اس کتاب نے ذہن کو کافی متأثر کیا، اس کے بعد امجد علی خاں نے مولانا مودودیؒ کی دوسری کتاب ’’دینیات‘‘ دی، جس نے دل کی دنیا مزید تبدیل کردی۔ رامپور میں ایک دفعہ اپنے دفتر کے پیش کار جناب ضیاء النبی صاحب سے اس بات کا ذکر ہوا، تو پتہ چلا کہ وہ ترجمان القرآن کے مستقل خریدار ہیں، اور مولانا مودودیؒ کی کئی ایک تصانیف ان کے پاس موجود ہیں۔ چنانچہ ان سے لے کر یکے بعد دیگرے اُس وقت دستیاب تمام ہی کتابوں کا مطالعہ کرڈالا۔ مولانا مودودیؒ نے آپ کے دل کی دنیا تبدیل کردی، اب آپ کفروالحاد کے بجائے اسلام اور توحید کی باتیں کرنے لگے، اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ آپ نے یہ دیکھتے ہوئے کہ جس ملازمت میں وہ ہیں، وہاں کھلا سودی لین دین ہوتا ہے، ملازمت سے استعفاء دے دیا۔
مولانا مودودیؒ سے رابطہ اور جماعت سے وابستگی: ملازمت سے علیحدگی اختیار کرلینے کے بعد معاش کا مسئلہ ایک بہت بڑی آزمائش بن گیا تھا، یہ ۱۹۴۶ ؁ء کا واقعہ ہے کہ ایک دن اچانک خیال آیا کہ کیوں نہ ایک رسالہ جاری کیا جائے جس کے ذریعہ فکر مودودیؒ کو آسان اور سادہ زبان میں دوسرے پڑھنے والوں کے لیے منتقل کرنے کا کام کیا جائے۔ چنانچہ رسالہ کا خاکہ تیار کیا، اور مولانامودودیؒ کو ایک خط لکھا کہ میں ایک اہم فیصلے سے متعلق آپ کی رہنمائی کا طالب ہوں، فلاں تاریخ کو پٹھان کوٹ آپ سے ملنے کے لیے آرہا ہوں۔ وہاں مولانا مودودیؒ نے نہ صرف حوصلہ افزائی فرمائی، بلکہ کہا کہ ’’ترجمان القرآن کے خریداروں کے پتوں کی چٹیں اپنے ساتھ لے جاؤ، اور یہ اسکیم جو تم نے سوچی ہے اسے چھپوا کر ان خریداروں کو بھیج دو، ان شاء اللہ رسالہ شروع ہونے سے پہلے تمہارے پاس وسائل مہیا ہوجائیں گے‘‘۔ اس وقت آپ جماعت کے رکن بن چکے تھے، اور رامپور میں جماعت کا قیام بھی عمل میں آگیا تھا، جہاں آپ کو امیر مقامی مقرر کیا گیا تھا۔ آپ کی کوششوں سے رامپور میں جماعت کا حلقہ بہت کم دنوں میں کافی وسیع ہوگیا تھا۔ بعد میں آپ ہی کی تجویز پر رامپور میں جماعت اسلامی ہند کا مرکزی دفتر بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔آپ مرکزی مجلس شوری جماعت اسلامی ہند کے رکن بھی رہے۔
اھم کارنامے: مولانا مودودیؒ سے ملاقات کے بعد مولانا ابوسلیم محمد عبدالحی ؒ کو ایک نیا حوصلہ ملا، اور آپ نے رامپور واپس آتے ہی ایک نئے رسالے کا اجراء کرنے کا فیصلہ کرلیا، اور جنوری ۱۹۴۷ ؁ء میں ماہنامہ الحسنات کا پہلا شمارہ منظرعام پر آگیا، جس کے سرورق پر نیچے یہ عبارت آویزاں تھی کہ ’’مسلمان عورتوں، لڑکیوں، اور لڑکوں کی ذہنی اصلاح کے لیے‘‘، اور سرورق پر شروع میں بسم اللہ کے بعد قرآن مجید کی یہ آیت ’’ان الحسنات یذھبن السیئات‘‘درج تھی، اور اس میں بیشتر مضامین خود آپ کے اپنے تھے۔ کچھ ہی دن بعد آپ نے ایک سہ ماہی ہندی رسالے ’اجالا‘ کا اجراء کیا، تاکہ جس مقصد کو لے کر اٹھے ہیں، اس کو ہندی داں افراد تک بھی پہنچایا جاسکے، تاہم یہ رسالہ زیادہ مدت تک نہیں چل سکا، اور بہت جلد ہی اس کی اشاعت بند کردینی پڑی۔ اس کے ساتھ ہی آپ نے مکتبہ الحسنات کے نام سے ایک اشاعتی ادارے کے قیام کا فیصلہ بھی کیا، اور اس کا آغاز اپریل ۱۹۴۸ ؁ء کو ’’تعلیم بالغان سیٹ‘‘ کے ذریعہ کردیا، اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے چند سالوں کے اندر مولانا عبدالحی اور دوسرے علماء اور مصنفین کی کئی ایک کتابیں اس مکتبے سے منظرعام پر آگئیں۔ مولانا عبدالحی اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ نونہالان قوم کی تربیت اور اسلامی خطوط پر ان کی ذہن سازی کس درجہ اہمیت رکھتی ہے، چنانچہ انہوں نے اس مقصد کے پیش نظر بچوں کے لیے ایک اردو رسالے کا منصوبہ تیار کیا، اور مائل خیرآبادیؒ کے قلمی تعاون سے ستمبر ۱۹۵۳ ؁ء میں ۲۴؍صفحات پر مشتمل پندرہ روزہ ’نور‘کا اجراء عمل میں آگیا۔ مولانا عبدالحی ؒ کا ایک اہم ترین کارنامہ ’’ہندی ترجمہ قرآن‘‘ بھی ہے۔ اس بات کا احساس ذمہ داران تحریک کو ابتدا سے تھا کہ بنیادی اسلامی لٹریچر کو ہندی میں منتقل کرنا ہے، اتفاق سے ۱۹۴۹ ؁ء میں جے پور کانگریس کا سیشن چل رہا تھا، جہاں جماعت کی جانب سے بک اسٹال لگایا گیا تھا۔ اس موقع پر غیر مسلم حضرات کی جانب سے شدت کے ساتھ یہ احساس سامنے آیا کہ قرآن مجید کے ہندی ترجمہ کو وہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ مولانا عبدالحیؒ ابتدا ہی سے یہ مزاج رکھتے تھے کہ جو کام کرنے کے ہیں، ان کو فوری شروع کردیا جائے، اللہ تعالی آگے راہ نکالتا رہے گا، اوریقیناًآسانیاں پیدا کرنا اسی کا کام ہے۔ چنانچہ ۱۹۵۹ ؁ء کے اواخر میں آپ نے مکتبہ الحسنات کے تحت مولانا فاروق خاں صاحب کو سلطانپور سے رامپور بلایا، اور انہیں مولانا امانت اللہ اصلاحی کے تعاون اور نگرانی میں قرآن مجید کے ہندی ترجمے کا کام سونپ دیا، اس طرح یہ عظیم کام بھی تقریبا پانچ سالوں کی سخت محنت اور کوششوں کے نتیجہ میں ۱۹۶۴ ؁ء میں پایہ تکمیل کو پہنچ گیا، اور ۱۹۶۶ ؁ء میں ہندی ترجمہ قرآن زیورطبع سے آراستہ ہوکر منظرعام پر آگیا۔اس کے علاوہ آپ نے ۱۹۶۲ ؁ء سے ہندی زبان میں بچوں کے لیے ’’ہادی‘‘ اور ۱۹۷۳ ؁ء سے اردو زبان میں بچوں کے لیے ’’ہلال‘‘، اور ۱۹۷۴ ؁ء میں خواتین کے لیے اردو زبان میں ’’ماہنامہ بتول‘‘ کے نام سے رسائل کا اجراء کرکے نئی نسل کی ذہن سازی کا عظیم فریضہ انجام دیا۔ ان سب چیزوں کے علاوہ عبدالحی صاحب مرحوم کا ایک اہم کارنامہ افراد کار کی تیاری ہے، آپ نے جس طرح اشاعتی دنیا میں تحریک کا کام آگے بڑھایا، اس کے نتیجے میں آپ کی رہنمائی میں بڑے پیمانے پر تحریری میدان کے افراد تیار ہوئے۔ (یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ مولانا ابوسلیم عبدالحی نے اشاعتی دنیا میں جس قدر تیزی اور وسعت کے ساتھ کام کیا، اس کا مقصود محض تجارت نہیں تھا، بلکہ اُس فکر کی بڑے پیمانے پر اشاعت وترسیل تھی، جو انہوں نے مولانا مودودیؒ سے حاصل کی تھی۔)۱۹۷۲ ؁ء میں آپ نے ایک ایسی تنظیم بنانے کا بھی منصوبہ تیار کیا تھا، جس میں خدا پر یقین رکھنے والے مختلف مذاہب کے نمائندے شریک ہوں، لیکن بوجوہ اس کام کو وہ آگے نہیں بڑھا سکے، تاہم آپ کے تیار کردہ خاکے سے آپ کی ذہانت اور دوراندیشی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آپ کس طرح ملک میں اسلام اور اہل اسلام کے روشن مستقبل کے لیے بے چین رہا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ آپ کی خدمات کا ایک اہم حصہ تعلیم سے متعلق بھی ہے، آپ نے تعلیم بالغان سینٹرس کے قیام کے علاوہ تعلیم بالغان کے لیے ایک سیٹ بھی مرتب کیا، جو کافی مقبول ہوا، اور آج بھی اس سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ البتہ تعلیمی خدمات کے ضمن میں آپ کا سب سے بڑا کارنامہ ۱۹۷۹ ؁ء میں جامعۃ الصالحات رامپور کی تاسیس ہے، جو آج بھی ملک میں مسلم طالبات کی تعلیم وتربیت کا ایک عظیم مرکز ہے۔
قید وبند کی صعوبتیں:مولانا عبدالحی صاحب نے وقت آنے پر متعدد بار قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ فروری ۱۹۵۴ ؁ء میں امیر جماعت مولانا ابواللیث صاحب وغیرہ کی گرفتاری کے ۶؍ماہ بعد ۱۲؍اگست ۱۹۵۴ ؁ء کو امتناعی نظربندی ایکٹ کے تحت مولانا صدرالدین اصلاحی اور مولانا شفیع مونس کے ساتھ آپ کو بھی گرفتار کرلیا گیا، اسی دوران آپ نے سیرت رسولؐ پر ’’حیات طیبہ‘‘ کے نام سے وہ مایہ ناز کتاب تصنیف فرمائی جو آج بھی نوجوانوں کے درمیان کافی مقبول ہے۔ دوسری بار ۱۹۶۵ ؁ء میں ہندوپاک جنگ کے موقع پر ڈی آئی آر کے تحت گرفتار کئے گئے، اور تیسری بار ۱۹۷۱ ؁ء میں بغاوت کے الزام میں گرفتار ہوئے۔ چوتھی اور آخری مرتبہ ۱۹۷۵ ؁ء میں ایمرجنسی کے موقع پر جماعت کے دیگر رفقاء اور ذمہ داران کے ساتھ ساتھ آپ کو بھی گرفتار کیا گیا۔
سفر آخرت: عمر کے آخری دور میں کافی بیمار رہنے لگے تھے، بینائی اور یادداشت بھی کافی حد تک متأثر ہوگئی تھی، ٹانگوں میں درد کے سبب چلنا پھرنا دشوار تھا، اس کے باوجود جب تک قدموں میں سکت رہی مسجد جاکر باجماعت نماز ادا کرتے رہے، آخری کئی ماہ میں بیمار رہنے لگے تھے، بالآخر ہاتف غیبی سے آپ کا بلاوا آگیا، اور جدوجہد اور سخت جدوجہد سے عبارت اسلام کے لیے تن من دھن سے قربان ۷۷؍سالہ زندگی اپنے اختتام کو پہنچی، ۱۶؍جولائی ۱۹۸۷ ؁ء کو آپ اس دارفانی سے کوچ کرگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
(ابن اسد)

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں