سفرنامۂ دہلی

0

چتلی قبر جماعت کا پرانا مرکز ہے، اس کے بارے میں پچھلے شمارے میں لکھا بھی تھا۔ جماعت کا مرکز اوکھلا ابوالفضل انکلیو میں شفٹ ہونے سے پہلے مولانا ابواللیث ندوی، مولانا یوسف ، مولانا سراج الحسن رحمہم اللہ سبھی قائدین وہیں سے پورے ہندوستان کے لیے سفر کیا کرتے تھے، اور وہیں سے اقامت دین کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ اللہ تعالی ان کی تمام کوششوں کو قبول فرمائے۔ ابھی موجودہ مرکز کی جو جگہ ہے، وہ مولانا ابواللیث ندوی صاحب کی دوراندیشی کا نتیجہ ہے۔ مجھے معلوم نہیں ، لیکن گفتگو کرتے ہوئے بہت سے لوگوں سے میں نے سنا ہے۔ آج آپ ابوالفضل انکلیو بہت آسانی سے جاسکتے ہیں، آج وہ ایک بھرپور شہر ہے، لیکن تیس سال قبل وہ جگہ کسی کے رہنے کے قابل نہیں تھی۔ ۱۹۹۰ ؁ء میں دن بھر میں مشکل سے چند گاڑیاں گزرتی نظر آتی تھیں، ایسا وہاں ۱۹۹۰ ؁ء میں مرکز میں رہنے والے انجینئر سلیم صاحب کا کہنا ہے، لیکن ااج رات ۲؍بجے بھی لگاتار گاڑیاں چلتی نظر آتی ہیں۔ صحیح ہے ہم ایک چیز کو ایک نظریے سے دیکھتے ہیں، لیکن ہمارے قائدین اسی چیز کو ایک دوسرے نظریے سے دیکھتے ہیں۔ ایسا مرکز اور ایسی مناسب جگہ آج سوچنا بھی ممکن نہیں ہے۔ ’’اولڈ از گولڈ‘‘ ایک محاورہ ہے، اسی طرح چتلی قبر میں آج مہمان خانہ، مرکزی مکتبہ،دفتر جماعت اسلامی دہلی وہریانہ، دعوت کے چیف ایڈیٹرپرواز رحمانی صاحب اور مولانا فاروق خاں صاحب کی رہائش گاہ ہے۔
میں اپنے ساتھی کے ساتھ بھیڑ کو چیرتے ہوئے مولانا فاروق خاں صاحب سے ملاقات کے لیے چتلی قبر آفس کے اندر داخل ہوئے، وہاں اندر بالکونی میں ایک بزرگ کچھ کتابوں کے ڈھیر کے سامنے بیٹھ کر پڑھنے لکھنے میں مصروف تھا، سر پر ٹوپی، بوسیدہ لباس، دنیا سے کچھ لینا دینا نہیں، صرف آخرت کے لیے محنت کرنے والے ایک درویش کو دیکھنے کا اتفاق ہوا، جب میں نے مولانا فاروق خاں صاحب کو دیکھا تو میرے ذہن میں ۔۔ ناک تک کھاکر پیٹ کو تین حصوں میں تقسیم کرنا چاہئے کہنے والا مقرر مزاحیہ طور پر آیا۔ دراصل ٹھاٹ باٹ سے اور مادی دوڑ دھوپ میں جینے والے مجھ جیسے لوگوں کے لیے مولانا فاروق خاں صاحب ایک مثال ہیں۔ انسان کی آرام وآسائش میں رہنے کی عادت اور مادی دوڑ دھوپ میں رہنے والے کی خواہش موت کے بعد ہی پوری ہوتی ہے۔ انسان جس طرح زبان سے کہتا ہے، اس طرح اپنی زندگی نہیں چلاتا ہے، تو وہ دوہرے رویے کا حامل بن جاتا ہے۔ مولانا فاروق خاں صاحب اپنی زندگی کو ایسے تمام دوہرے رویوں سے آزاد کیے ہوئے ہیں، مولانا مودودی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب ’تحریک اور کارکن‘ میں لکھا ہے کہ ہمارا مقصد ’’انسانی زندگی کے پورے نظام کو اس کے تمام شعبوں، فکرونظر، عقیدہ، خیال، مذہب واخلاق، سیرت وکردار، تعلیم وتربیت، تہذیب وثقافت، تمدن ومعاشرت، معیشت وسیاست، قانون وعدالت، صلح وجنگ، اور بین الاقوامی تعلقات سمیت خدا کی بندگی اور انبیاء علیہم السلام کی ہدایات پر قائم کیا جائے‘‘۔
اگر یہ مقصد پورا کرنے کے لیے ہم تمام لوگوں کو اپنی زندگی کو مثال بنانا ہوگا، اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے ایک پیپر یا ایک پارٹی قائم کرنا بہت آسان ہے۔ لیکن اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے جو ہوم ورک درکار ہے، اسے ہم تمام لوگوں کو کرنا ہے۔ یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں، ہمارے سابق امیر جماعت مرحوم ڈاکٹرعبدالحق انصاری صاحب نے ایک ورکشاپ میں کہا تھا: ہم سوشل انجینئرنگ تو بہت کرتے ہیں، لیکن صرف سوشل انجینئرنگ سے ہماری شہرت اور کچھ مقاصد حاصل ہوجائیں گے، لیکن اس سے جو مودودی علیہ الرحمۃ کی مراد ہے، وہ پوری نہیں ہوگی۔ اگر اس عظیم مقصد کو حاصل کرنا ہے تو ہمیں سوشل انجینئرنگ کے ساتھ ساتھ ہیومن انجینئرنگ کو بھی تیز رفتار کے ساتھ کرنا ہوگا۔ سماج کی ہر فیلڈ میں ماہر افراد کو اس مقصد کے لیے جوڑنا چاہئے۔ حسن البناؒ سے ایک بار کسی نے پوچھا کہ آپ کتابیں نہیں لکھتے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں، میں کتابیں تصنیف نہیں کرتا، میں انسان کو تصنیف (ہیومن انجینئرنگ) کرتا ہوں، زندگی کے ہرشعبے میں جج ، بیوروکریسی، انٹلکچول، میڈیا پرسن، سوشل ورکر، ماہر تعلیم، سائنسداں، ماہر سیاسیات، ، قائد، منیجر، آرگنائزر، یوتھ، اسٹوڈنٹ وغیرہ۔ انہوں نے انسانوں کو تصنیف کیا اور آج اس کا نتیجہ ہم مصر میں دیکھ سکتے ہیں، لیکن مصر اور ہندوستان کا سماجی اور سیاسی سیناریو الگ ہے، مصر ہمارے لیے ماڈل نہیں ہے، لیکن ان کی سوشل انجینئرنگ اور ہیومن انجینئرنگ، اور سوسائٹی میں ان کی نمائندگی سے ہمیں بہت سے سبق حاصل کرنا چاہئیں، اس میں ہم بہت پیچھے ہیں۔ تقریر کرنے والے ہمارا قیمتی سرمایہ ہیں، لیکن صرف وہی ہماری ضرورت نہیں ہیں، وہ صرف ہمارے ترجمان کی حد تک ٹھیک ہیں، لیکن جس طرح تقریر کرنے والے لیڈر شپ میں آتے ہیں، اسی طرح ان تمام شعبوں میں بھی ہمیں اچھے ماہرین کو تیار کرنا چاہئے، یا تیار شدہ افراد کو ہمارے ذہن کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنا چاہئے، لیکن ہمارے پاس بچے ہوئے کچھ صلاحیت مند افراداس سرزمین پر کام کرنے کے بجائے بیرون ملک میں ایم این سیز کی غلامی کرنے چلے جاتے ہیں، اور اپنی زندگی کا ایک بڑا قیمتی حصہ وہیں گزار دیتے ہیں، کیا یہ دوہرا رویہ نہیں ہے؟!!
معاش بہت ضروری ہے، اگر کوئی اپنی ماں، باپ یا گھر والوں کے لیے جاتا ہے، تو ٹھیک ہے، لیکن اللہ تعالی نے بعض کو بہت کچھ پہلے سے دیا ہوا ہے، اور وہ اتنا ہے کہ اگلی نسل تک کے لیے کافی ہے، پھر بھی آرام وآسائش کے پیچھے یہ دوڑتے ہیں،تو اس کے بارے میں اللہ تعالی ضرور پوچھے گا: قُلْ إِن کَانَ آبَاؤُکُمْ وَأَبْنَآؤُکُمْ وَإِخْوَانُکُمْ وَأَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَہَا أَحَبَّ إِلَیْْکُم مِّنَ اللّہِ وَرَسُولِہِ وَجِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہِ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّی یَأْتِیَ اللّہُ بِأَمْرِہِ وَاللّہُ لاَ یَہْدِیْ الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْن۔ (التوبۃ: ۲۴) ترجمہ: ’’کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور بیٹے اور بھائی اور عورتیں اور خاندان کے آدمی اور مال جو تم کماتے ہو اور تجارت جس کے بند ہونے سے ڈرتے ہو اور مکانات جن کو پسند کرتے ہو اللہ اور اُس کے رسول سے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ عزیز ہوں تو ٹھہرے رہو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم (یعنی عذاب) بھیجے اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا‘‘۔
اس دوہرے رویے کے لیے ہمیں اس دنیا میں ہی قیمت چکانی پڑے گی، اللہ تعالی ہمیں اس مصیبت سے محفوظ رکھے، آمین۔
کمیونسٹ فکر اور فاشسٹ نظریہ اور تبلیغی افراد کی قربانی کے سامنے ہم کچھ نہیں ہیں، بغیر شادی کیے، اور شادی کرکے بھی چار ماہ تک وہ اپنی فکر کی اشاعت کے لیے وہ جو قربانی دیتے ہیں، اگر ہم مولانا مودودی علیہ الرحمۃ کی فکر کے لیے یہ قربانی دیتے تو انقلاب کا جو کارواں ہے وہ کافی آگے نکل چکا ہوتا، ہم تحریک کو بھیک دیتے ہیں، ہمیں اپنے مال سے جو محبت ہے اور جو مادی سوچ ہمارے دل میں ہے، ہمیں اسے پہلے نکلا دینا چاہئے۔ ہمیں تحریک کی مالی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار رہنا چاہئے۔ ہم صرف دوسروں کی جیب دیکھتے ہیں، اور اپنی جیب کو بہت محفوظ رکھتے ہیں۔ ہاں، تحریک کو دینے والے بھی ہیں، اور بہت لوگوں نے تو اپنا بہت کچھ وقف کردیا ہے، لیکن یہ سب پرانے لوگوں کی یادیں بن کر رہ گیا ہے، اس پر آپ لوگوں کو اختلاف ہوگا، لیکن مخالفت نہیں ہوگی۔ میں کیوں اس کا ذکر کررہا ہوں؟ جب میں مولانا فاروق خاں صاحب کی زندگی اور تحریک کے پچھلے اور موجودہ قائدین کی قربانی دیکھ کر اور ان کی سادگی دیکھ کر مجھے یہ لکھنا ضروری محسوس ہوا، کسی کو تکلیف پہنچانا میرا مقصد نہیں ہے، اگر کسی کو تکلیف پہنچی ہے تو مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ جب میں ۲۰۰۹۔ ۲۰۱۰ ؁ء میں صدر حلقہ کرناٹک تھا ، اس وقت میں مولانا سراج الحسن صاحب کو دیکھنے گیا تھا، انہوں نے مجھے یہی نصیحت کی تھی، وہ دہلی نمائندگان میں شرکت کے لیے تیار ہورہے تھے، بہت بیمار بھی تھے، میں نے ان سے پوچھا کیا آپ فلائٹ سے جارہے ہیں؟ انہوں نے کہا : ’’بیٹا یہ تو غریبوں کی تحریک ہے، رکشا چلانے والوں، اور قلی والوں کا پیسہ بھی اس میں لگا ہے، اپنی سہولت کے لیے تحریک کا پیسہ مت استعمال کیا کرو۔ میں ٹرین سے جارہا ہوں‘‘۔اسی سادگی کا ہمارے قائدین نے اپنے قول وعمل سے مظاہرہ کیا ہے، لیکن اگر ضرورت پڑے تو بہرحال فلائٹ سے بھی سفر کیا جاسکتا ہے، لیکن آرام وآسائش کا کلچر ہمارے ذہن اور رہن سہن سے نکالنا چاہئے۔
جب میں نے اور میرے ساتھی ابوالاعلی نے مولانا فاروق خاں سے گفتگو کے دوران کسی نصیحت کی گزارش کی، تو انہوں نے ہم سے کہا کہ دیکھو میں جو بات کہہ رہا ہوں، اس کو آپ دونوں ہمیشہ یاد رکھنا:
(۱) کبھی کبریائی کا اظہار نہ کرنا، وہ اللہ کی چادر ہے، اگر کسی نے اس چادر کو کھینچنے کی کوشش کی تو وہ ذلیل ہوجائے گا، اونچائی اور عظمت اللہ سے ملتی ہے اور اسی سے اس کی طلب کرنی چاہئے۔ انسان کو چاہئے کہ وہ غرور اور تکبر کا مظاہرہ کرنے کے بجائے اللہ کی جو نعمتیں اس کو میسر ہیں ان پر اس کا شکر ادا کرے، لیکن کیا کریں انسان تو کبر کا اظہار کرکے شیطان کا پیارا ہوجاتا ہے، اللہ نے تو شیطان اور فرعون کو بھی نہیں بخشا، میرے جیسے عام انسان کا حال کیا ہوگا۔۔ اس لیے ہمیشہ ذہن کو پاک رکھنا ہے، اسی لیے نماز فرض کی گئی ہے۔ کیوں ہمیشہ اللہ کے سامنے سر جھکا کر کھڑے ہونا چاہئے۔ اگر تم نماز قائم کروگے تو جس طرح پانچ وقت غسل کے بعد تمہارے جسم میں کوئی میل نہیں بچتا، اسی طرح نماز سے کبروغرور کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اگر کبروغرور ختم نہیں ہوا، تو یہ انسان کی دنیا وآخرت دونوں کو برباد کردیتا ہے۔
(۲) کبھی خود غرض نہیں ہونا چاہئے۔ خود غرضی انسان کو شیطان کا دوست بنادیتی ہے، ایسے لوگ صرف اپنا پیٹ پال سکتے ہیں، وہ دوسروں کی یا سماج کی مشکلات ومسائل کو نظر انداز کرتے ہیں، ان سے سماج کو ، دین کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا ہے، بلکہ ایسے لوگوں سے نقصان زیادہ پہنچتا ہے۔ اللہ تعالی ایسے لوگوں کو جس طرح شیطان کو جنت سے بھگایا، اسی طرح بھگا کر اپنی رحمت سے باہر کردیتا ہے۔ اسی لیے جو زندگی ملی ہے، اسے اللہ کی راہ پر اور انسانوں کی خدمت میں گزارنا چاہئے۔
ان کی نصیحت سننے کے بعد ایسا لگا کہ ہمیں کچھ بہت بڑی قیمتی چیز حاصل ہوگئی، ہم ان کو الوداع کہتے ہوئے واپس ابوالفضل انکلیو پہنچے۔ رات ساڑھے نو بجے کی ٹرین سے مجھے منگلور لوٹنا تھا۔ اسی موقع سے جماعت اور ایس آئی او کے سبھی ذمہ داران سے ملاقات کا موقع ملا۔ جب میں دہلی میں تھا، مجھے قیم جماعت جناب نصرت علی صاحب سے قریب رہنے کا اچھا موقع ملا تھا، وہ مجھے بہت چاہتے تھے، یہی میرے لیے کافی تھا، اور یہ بہت بڑی بات ہے، کیونکہ میری غیرموجودگی میں وہ اب بھی میرے ساتھیوں سے میرا ذکر کرتے ہیں۔ ان کی سادگی اور ان کی شخصیت کے بارے میں لکھنے کے لیے یہ صفحات کافی نہیں ہوں گے، میں نے ان کو دیکھا کہ جو بات کہنی ہے،اسے بہت ہی حکمت کے ساتھ پیش کرتے تھے، ان کے سامنے گفتگو سے کوئی نہیں جیت سکتا ہے، اسی لیے جب ہم ایس آئی او میں تھے، اس وقت اُن کو دوستوں کے درمیان خاموش ڈکٹیٹر کہتا تھا۔ کیونکہ ان کو کسی بات کا حکم دینے کی ضرورت ہی نہیں پیش آتی تھی، اتنے ذہین اور اتنے فکری طور پر مضبوط شخصیت کے مالک تھے۔ یہ ان کے بارے میں چھپی ہوئی بات نہیں ہے، اس میں کوئی مبالغہ بھی نہیں ہے، نیت اللہ جانتا ہے، میں ان سے ملنے والا ۲۰؍واں آدمی ہوں گا، لیکن ایسا لگتا تھا کہ میں ان سے ملنے والا پہلا آدمی ہوں، ہمارے یہاں عموما ایک ذمہ دار دو سے تین افراد سے ملاقات کرنے کے بعد جھنجلا جاتا ہے، لیکن ہمارے قائدین ایسے نہیں ہیں، قیم جماعت کسی کو چائے پلائے بغیر نہیں چھوڑتے ہیں، میں نے کہا : میں چائے پی کر آیا ہوں، انہوں نے کہا: ار ے بھائی، مرکز کی چائے کی بات ہی اور ہے۔ اگر قیم صاحب منگلور آئے تو یہاں کے بڑے والے گلا س میں ضرور میں انہیں چائے پلاؤں گا، ان شاء اللہ۔
ان سے ملاقات کے بعد میں پھر ریلوے اسٹیشن ایس آئی او کی گاڑی سے گیا، دہلی سفر کے بارے میں بہت سی باتیں لکھنی ہیں، لیکن میں قارئین کے صبر کا مزید امتحان نہیں لینا چاہتا

محمد شوکت علی، کرناٹک

(سابق سکریٹری ایس آئی او آف انڈیا)

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights