سماجی انصاف کے دستوری پروسیس پر شب خوں

0

سعود فیروز

ہندوستان میں رزرویشن کی تاریخ میں ایک دلچسپ ٹوِسٹ یہ ہے کہ وہ فسطائی طاقتیں جن کی تاریخ رزرویشن کی مخالفت کی رہی ہے، وہی اس مرتبہ رزرویشن کے حق میں بڑی ’عالمانہ‘ گفتگوفرما رہی ہیں۔2015میں بہار اسمبلی الیکشن کے موقع پر مرکز میں برسراقتدار پارٹی کی پالیٹیکل مینٹرآر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت جی نے رزرویشن پالیسی کو ختم کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ نومبر2018 میں تلنگانہ اسمبلی انتخاب کے دوران جب چندرشیکھر راؤ نے اقلیتی طبقے کے لیے بارہ فیصد رزرویشن کا اعلان کیا تو امِت شاہ جی نے اس کی پرزور مذمت کی۔اب معلوم ہوتا ہے کہ اپنے انتخابی وعدوں کو ڈیلیور کرنے میں بری طرح ناکام ہونے ، اور نوٹ بندی وجی ایس ٹی کے تلخ انتخابی تجربات سے گزرنے کے بعد آئندہ لوک سبھا انتخابات کے پیش نظرسنگھ پوریوار نے رزرویشن پر اپنے موقف کوeditکرلیا ہے۔


رزرویشن ہندوستان میں سماجی انصاف کا ایک اہم ہتھیار رہاہے۔ ہندوستان میں ذات پات اور اونچ نیچ کا نظام بہت قدیم ہے۔سماج میں اس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔جس وقت ملک برطانوی سامراج کے پنجہ استبداد سے آزاد ہوا اور ترقی کی ایک نئی دوڑ شروع ہوئی ، اس وقت ملک کے باشندوں کی ایک بڑی تعداد کا تعلق ایسی ذاتوں سے تھا جن کو صدیوں سے بنیادی سماجی،معاشی،تعلیمی اور سیاسی حقوق سے بالجبر محروم رکھا گیا تھا۔ترقی کی نئی دوڑ میں ایسی ذاتیں دوڑ کے اسٹارٹنگ پوائنٹ سے بہت پیچھے کہیں کھڑی تھیں۔ریاست کی انتظامیہ اور قوت کے دیگر مراکزمیں تاریخی طور پر پسماندہ ذاتوں کی متناسب شرکت و نمائندگی ایک اہم مسئلہ تھا۔ اس دوڑمیںانصاف کا پہلاتقاضہ یہ تھا کہ تمام شہریوں کوایک ہی نقطہ آغاز پر کھڑا کیا جائے،اور دوسرا یہ کہ مسابقت کا سب کویکساں موقع حاصل ہو۔ اسی تناظر میں معماران آئین ہند نے دلت ،او بی سی اور دیگر قبائل کے لیے مختلف محاذوں پر نشستیں محفوظ کرنے کی اجازت دستور میں عطا کی۔


’اعلی ذات‘ کے غریب افراد کے حق میں بنایا گیا حالیہ قانون کئی پہلوؤں سے غیر دستوری بلکہ دستور مخالف ہے۔دستور ساز اسمبلی کے تفصیلی مباحث اور آئین ہند کی دفعات 15(4)اور 16(4)میںکسی بھی ذات کو رزرویشن کی سہولت فراہم کرنے کی شرطیں صریح لفظوں میں بیان کردی گئی ہیں۔اس سلسلے میں آئین سے جو رہنمائی ملتی ہے وہ یہ ہے؛اول، رزرویشن سماجی اور تعلیمی طور پر پسماندہ ذاتوں کے لیے ہے۔دوم،رزرویشن ریاست کی انتظامیہ اور قوت کے دیگر مراکز میں تاریخی اعتبار سے حاشیہ پر رکھی گئی ذاتوں کی نمائندگی (Representation)کے لیے ہے ۔سوم،رزرویشن اگر دیا جائے گا توکسی ذات کے چند افراد کونہیں بلکہ مکمل ذات کودیا جائے گا۔اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ رزرویشن نہ کوئی غریبی مٹاؤ اسکیم ہے اورنہ ’معاشی پسماندگی ‘کی بنیاد پررزرویشن کا دستور میں کوئی جواز ہے۔خود سپریم کورٹ کی نَو رکنی بنچ، اندرا ساہونی (1992) معاملہ میںمعاشی بہتری کے لئے رزرویشن کے مطالبہ کوغیر دستوری قرار دیتے ہوئے مسترد کرچکی ہے۔ایک طرف دستور کی یہ رہنمائی اور سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے ،دوسری طرف موجودہ حکومت کے ذریعے بنایا گیا یہ تازہ قانون ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ملک کی ’اعلی ذاتوں‘ کی تاریخ سماجی اور تعلیمی اعتبارپسماندگی کی تاریخ رہی ہے؟اگر نہیں،اور یقینا نہیں رہی ہیں،تو پھر ’اعلی ذات‘ کے افراد کے لیے دس فیصد رزرویشن کاقانون کس بنیاد پر بنایا گیا؟پھراس قانون کی قانونی حیثیت کے مشتبہ ہونے کی دوسری اہم وجہ عدالت عظمی کی وہ ہدایت بھی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی شعبہ میں ، کسی بھی صورت میںرزویشن کا مجموعی تناسب پچاس فیصد سے متجاوز نہیں ہونا چاہیے۔ورنہ استحصال کی تلافی اور سماجی انصاف کے قیام کے لیے بنایا گیا ہتھیار الٹا استحصال اور سماجی ناانصافی کا ذریعہ بن جائے گا۔اس وقت مختلف ذاتوں اور قبائل کو جو رزرویشن حاصل ہے اس کا مجموعی تناسب 49.5فیصد ہے۔اب 10فیصدرزرویشن کے نئے قانون کے نافذالعمل ہوجانے کے بعد یہ تناسب 59.5ہوجائے گا۔یہ وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پرتوقع کی جاسکتی ہے کہ قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرتے ہی عدالت اسے منسوخ یا کالعدم قرار دے گی۔


’قانون کی دستوری حیثیت ‘یہ محض ایک تکنیکی بحث ہے۔اس وقت اس قانون کے پس پردہ موجودہ حکومت کی گہری اور شاطرانہ چال کو سمجھنا، تکنیکی بحثوں سے زیادہ ضروری ہے۔ہندوستان میں رزرویشن کی اصل روح سماجی انصاف ہے۔سماجی انصاف کا ایک تعلق غریبی سے بھی ہے۔ وہ طبقات جو تاریخی اعتبار سے استحصال کا شکار رہے ہیں ،وہ آج غریب بھی ہیں۔رزرویشن کی سہولت ایسے ہی طبقات کے لیے ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ جن ذاتوں اور قبائل کو رزرویشن دیا گیا تھا،بیوروکریسی میں ہرسطح پر بدعنوانی کے سبب، دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی،بعض استثناء کے ساتھ، ان ذاتوں اور قبائل کی صورتحال اور ان کی نمائندگی کے تناسب میں کوئی قابل ذکر بہتری نہیں آئی ہے۔اعداد و شمار تو یہ بتاتے ہیں کہ سرکاری ملازمت ہو یا تعلیمی ادارے،’اعلی ذات‘کے افراد over-representedہیں،جب کہ پسماندہ طبقات کو ان کے لیے قانونی طور پر مقرر کردہ نشستیں بھی حاصل نہیں ہیں۔حکومت کے کرنے کا اصل کام یہ تھا کہ بدعنوانی کی جڑوں پر تیشہ چلا کر پہلے سے فراہم کردہ رزرویشن کی سہولت کو حقیقی مستحقین کے لیے قابل حصول بناتی۔


حکومت کے ذریعے لائے گئے موجودہ قانون کا اصل مقصد قوت کے مراکزاور اعلی تعلیمی اداروں سے پسماندہ طبقات کی رہی سہی نمائندگی کا مکمل صفایا ، اور ’اعلی ذات‘ کے ان بچے کچے افراد کا settlement ہے،جو اب تک کسی سبب ان مراکز تک رسائی حاصل نہیں کرسکے ۔نئے قانون میں سالانہ آٹھ لاکھ آمدنی کو غریبی کا پیمانہ بنایا گیا ہے۔جن کی سالانہ آمدنی چند ہزارہوتی ہے ان کے بچوں کا تعلیمی و سماجی پس منظر عام طورپراس معیارکا نہیں ہوتا کہ ان کے بچے ان بچوں کا مقابلہ کرسکیں جن کے سرپرستوں کی آمدنی لاکھوں میں ہے۔اس کالازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ دس فیصد رزرویشن کے قانون سے سو فیصد فائدہ صرف ’اعلی ذات کے بچے کچے دولت مند غریب ‘ ہی اٹھائیں گے۔ ہندوستان کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ غریب ذاتوں سے متعلق تفصیلی تحقیقات اور سروے رپورٹس کی موجودگی کے باوجود(جن میں کس طبقہ کی کون سی ذات غریب ہے اس کی باقاعدہ نشاندہی کردی گئی ہے) اعلی ذات کے غریبوں کی غربت کا اعلان حکومت کو کرنا پڑا۔ایک طرف تو حکومت نے ’اعلی ذات‘ کے افراد کے لیے رزرویشن کا قانون بنایا دوسری طرف یونیورسٹیوں کے لیے 13پوائنٹ روسٹرنظام (13 Point Roster System) نافذکردیا ۔اس نئے نظام کے مطابق یونیورسٹیوں میں پروفیسروںکی تقرری میں پوری یونیورسٹی کوایک یونٹ ماننے کی بجائے (جیسا کہ 200روسٹر نظام میں تھا) اب یونیورسٹی کے ہر شعبہ کو ایک یونٹ مانا جائے گا۔ اس نظام کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اعلی تعلیمی اداروں کے تمام عہدوںپر او بی سی،ایس سی اور ایس ٹی طبقات کی نمائندگی جو پہلے ہی under-represented ہیں،بالکل کم بلکہ ختم ہوجائے گی۔’اعلی ذات‘ کے افراد کے لیے نئے قانون اور نئے روسٹر نظام کو ایک ساتھ رکھ کر دیکھیں تو حکومت کے شاطرانہ عزائم دو دوچار کی طرح واضح ہوجاتے ہیں۔


’اعلی ذات‘ کے لیے رزرویشن کے اس ہنگامے میں سب سے حیران کن اور افسوس ناک بات یہ سامنے آئی کہ سماجی انصاف کی بات کرنے والے بڑے بڑے سوشلسٹ سیاست دانوںنے بھی نہ صرف یہ کہ سماجی نا انصافی پر مبنی اس قانون کی پارلیمنٹ میںمذمت ومخالفت نہیں کی بلکہ اس کی حمایت میں پیش پیش رہے۔یہ اس بات کا صاف اعلان ہے کہ ’سماجی انصاف کی سیاست‘ کا ان کا نعرہ کھوکھلا ہے۔ سماجی انصاف کی ان کی جدو جہد ’پسماندہ طبقات کے خوش حال افراد تک محدودہے۔دوسری طرف ملی حلقوں میں بھی ، بعض استثناء کے ساتھ،اس سنگین مسئلہ پر صمت القبور کا سماں رہا۔ کسی نے مختلف مصلحتوں کے پیش نظر اس سماجی ناانصافی پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔اکثر ملی ایکٹیوسٹ اس خام خیالی کی وجہ سے بے نیازی کے سرور میں مبتلا رہے کہ یہ کوئی ملی ایشو نہیں ہے۔ظاہر ہے کسی بھی مسئلہ پر ملی حلقوں میں سنجیدہ گفتگو صرف دو صورتوں میں ہوتی ہے،یا تو وہ کوئی ملی ایشو ہویا ایشو کو ملی رنگ و آہنگ میں پیش کیا گیا ہو،رہے دیگر قومی مسائل تو ملی حلقوں کو ان کی نہ خبر ہوتی ہے، نہ نظر ،نہ فکر ۔بعض اسلام پسندوںکو ان کی اپنی ’نظریاتی شناخت ‘نے اجازت نہیں دی کہ وہ اس مسئلہ پر لب کشائی کریں اور رزرویشن کی بحث میں الجھیں۔’اعلی ذات‘ کے افراد کے لیے رزرویشن کا قانون بناکرسماجی انصاف کے دستوری پروسیس پر دن دہاڑے جو شب خوں مارا گیا ہے اس پر ہماری خاموشی کس قدر ناعاقبت اندیش ثابت ہوگی،اگر موجودہ حکومت اپنی چالبازیوں میںخدانخواستہ کامیاب ہوگئی،تو اس کا اندازہ مستقبل میں ضرور ہوجائے گا۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights