آنکھیں یہ کیا دیکھ رہی ہیں
کوچے کوچے، گلی گلی میں
لاشوں کا انبار لگا ہے!
یہ کیسا بازار لگا ہے!!
مردو عورت، بوڑھوں، بچوں اور جواں کی
خرد و کلاں کی
لاشیں ہر سو بکھری پڑی ہیں،
مظلومی کی تصویریں ہیں
کہیں کہیں تو
زندہ انسانوں کے اوپر
بے دردی سے ٹینک چلے ہیں
اور ہوئے کچھ نذرِ زنداں،
زخمی بھی کچھ تڑپ رہے ہیں
دنیا والو! سچ سچ بولو
چپ چپ کیوں ہو، منہ تو کھولو
سانپ تمھیں کیوں سونگھ گیا ہے؟
دنیا میں مشہور تھا جو ،
کیا مصر کا یہ بازار وہی ہے ؟
۱
جرم نہ پوچھو، کیا تھا ان کا
سب کے سب تھے
صدقِ مجسم، خیر کے پیکر
خواہش تو رکھتے ہی تھے وہ،
حق کے علم برداروں نے پھر
کوشش بھی کی……….
نافذ ہو ’’الخیر‘‘ زمیں پر
اس کے سوا کچھ جرم نہیں تھا!
راہِ حق کے عازم ہیں وہ،
کتنے اچھے مجرم ہیں وہ
کہنے کو فرعون یقیناً،نیل کے گہرے پانی میں
صدیوں پہلے ڈوب چکا ہے !!
لیکن یہ بھی بات ہے سچی
مصر میں اب بھی
کتنے ہی فرعون ہیں زندہ
ناصر، حسنی، سیسی ، سادات
فخر سے خود کو کہتے رہے ہیں
نحن ابناء الفرعون*
جو بھی ہوا ،ہوتا ہی رہا ہے
باطل حق سے لڑتا رہا ہے
اب بھی مگرمایوس نہیں وہ
رب سے نا امید نہیں وہ
ان کو اس کاپختہ یقیں ہے،
قرآں کی یہ آیت اک دن
سچ ثابت ہو جائے گی
جاء الحق و زہق الباطل،ان الباطل کان زہوقا
جب جب حد سے ظلم بڑھا ہے
ظالم کا سر نیچا ہوا ہے
مثل بھی اک مشہور ہے سائر،
جس پر ہے تاریخ بھی شاہد
ہر فرعونے را موسیٰ!
* مصرکے سابق صدر جمال عبدالناصر نے اپنے عوام کویہ نعرہ دیا تھا ،جس کے اصل الفاظ’’ نحن ابناء الفراعنہ‘‘ ہیں۔ضرورت شعری کے تحت یہاں فراعنہ کو واحد استعمال کیا گیا ہے ۔
حسنین سائر،نئی دہلی۲۵