کیا مسافر تھے جو اس راہ گزر سے گزرے

ایڈمن

عبدالرزاق لطیفی مرحوم عبدالرزاق لطیفی تحریک اسلامی ہند کے ایک مایہ ناز فرزند تھے۔ ایک مثالی کارکن۔۔ ایک بہترین مربی۔۔ اور ایک عظیم قائد۔۔۔ افراد سازی آپ کا سب سے بڑا کارنامہ ہے، آپ نے نوجوانوں کو تحریک اسلامی سے…

عبدالرزاق لطیفی مرحوم

عبدالرزاق لطیفی تحریک اسلامی ہند کے ایک مایہ ناز فرزند تھے۔ ایک مثالی کارکن۔۔ ایک بہترین مربی۔۔ اور ایک عظیم قائد۔۔۔ افراد سازی آپ کا سب سے بڑا کارنامہ ہے، آپ نے نوجوانوں کو تحریک اسلامی سے قریب لانے اورانہیں تحریک کے عظیم ترین اہداف کے لیے تیار کرنے کے لیے زبردست کوششیں کیں۔ عین عہد شباب میں تحریک اسلامی سے وابستگی اختیار کی، اور جب تک بازوؤں میں جان رہی مقصد کے حصول کے لیے سرگرم رہے۔ عائلی ذمہ داریوں کے سلسلہ میں بہت ہی حساس تھے، یہی وجہ ہے کہ آپ کا پورا گھر تحریک اسلامی کے قافلے میں آپ کا ہم سفر بن گیاتھا۔
ابتدائی حالات:عبدالرزاق لطیفی ۲۰؍اگست ۱۹۲۸ ؁ء میں آندھراپردیش کے قصبہ پامرو، ضلع کرشنامیں پیدا ہوئے۔ آپ کا گھرانہ بہت ہی دیندار گھرانہ مانا جاتا تھا۔والد محترم کا نام محمد عبداللطیف تھا، رکن جماعت تھے اور ایک سرکاری مدرسہ میں صدر مدرس تھے۔ آپ کا داخلہ قریب ہی کے ایک اسکول میں ہوا، تاہم انٹرمیڈیٹ سے آگے تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔ عین عہدشباب میں تحریک اسلامی سے وابستہ ہوگئے۔ والد محترم جناب عبداللطیف صاحب اکثر مولانا مودودیؒ علیہ الرحمۃ کی کتابیں گھر پر لے آیا کرتے تھے۔ ان کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعد عبدالرزاق لطیفی تحریک اسلامی کے باقاعدہ رکن ہوگئے، اور تحریک کے عظیم ترین مقاصد کے حصول کی جدوجہد میں اپنے آپ کو لگادیا۔ تعلیمی سلسلہ منقطع ہوا توحصول رزق کے غرض سے علاقے ہی کے ایک سرکاری اسکول میں تدریسی خدمات انجام دینے لگے، تاہم تحریک اسلامی سے تعلق کی بنا پر حکومت کے زیراثر نواب میر عثمان علی خاں آصف نے ۱۹۵۳ ؁ء میں آپ کو ملازمت سے برطرف کردیا۔
مثالی کارکن: آپ تحریک اسلامی کے ایک مثالی کارکن تھے۔ ایک کارکن کا سماج میں کیا کردار ہونا چاہئے، لطیفی صاحب مرحوم اس کی عملی تصویر تھے۔ دعوتِ دین اور خدمت خلق کے کاموں پر خصوصی توجہ دیتے تھے۔انٹرمیڈیٹ کے بعد باقاعدہ تعلیم جاری نہیں رکھ سکے، تاہم جدید وقدیم علوم کا خوب مطالعہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کسی بھی مجلس میں رہتے، اور کسی بھی موضوع پر گفتگو کررہے ہوتے، لوگ ہمیشہ آپ کی جانب متوجہ رہتے۔ آپ ایک زبردست خطیب بھی تھے، آپ کے خطابات بہت ہی شوق کے ساتھ سنے جاتے تھے، تحریک اسلامی کا تعارف ایسے دلچسپ اور مضبوط انداز سے کراتے کہ سننے والا آپ کی باتوں کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوجاتا۔ بالعموم لوگ تحریک اور دعوت کے کاموں میں اس قدر مشغول ہوجاتے ہیں کہ انہیں اپنی عائلی ذمہ داریوں کا یا تو احساس نہیں رہتا، یا پھر اس کے لیے وقت نہیں نکال پاتے، عبدالرزاق لطیفی مرحوم کا معاملہ بہت ہی مثالی تھا۔ آپ نے تحریک اسلامی کے کام کو آگے بڑھانے کے لیے بڑی بڑی قربانیاں پیش کیں، لیکن اپنی عائلی ذمہ داریوں کے سلسلہ میں کبھی غفلت سے کام نہیں لیا، یہی وجہ ہے کہ آپ کا پورا گھر تحریک اسلامی کے قافلے میں آپ کا ہم سفر تھا۔
بہترین مربی: آپ ایک بہترین مربی بھی تھے۔ نوجوانوں سے خصوصی لگاؤ رکھتے تھے، چنانچہ نوجوان بھی آپ سے کافی مانوس رہا کرتے تھے۔ حلقہ آندھراپردیش کی امارت سنبھالنے سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی ہمیشہ باصلاحیت طلبہ ونوجوانوں کی پوری ایک ٹیم آپ کے گرد موجود رہا کرتی تھی۔ نوجوانوں کی صلاحیتوں اور ان کی جدوجہد کو بہت ہی قدر کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے۔ صلاحیتوں کو پہچاننا، ان کی قدر کرنا، اور اُن کو صحیح رخ دینا مرحوم کی بہت ہی نمایاں خوبی تھی۔ اسی خوبی کا نتیجہ تھا کہ آپ نے افراد سازی کا کام بڑے پیمانے پر کیا، اور کم از کم آندھراپردیش کی حد تک تحریک اسلامی کو ایک نیا رخ دینے کی کوشش کی۔
عظیم قائد: آپ ایک عظیم قائد بھی تھے۔ قائد کے لیے ضروری ہے کہ اس کے اندر اعلی ظرفی، وسعت نظری، بلندہمتی اور اعلی حوصلگی پائی جاتیہو۔آپ صحیح معنوں میں ایک قائد تھے، اور قائدانہ اوصاف سے مالامال تھے۔ چنانچہ جب امیرحلقہ ہوئے تو نہ صرف یہ کہ حلقے کی سرگرمیوں کو منضبط کیا،بلکہ اسے ایک رخ دینے کی کوشش کی۔ دعوت دین کے فریضہ کو ہمیشہ نگاہوں کے سامنے رکھا، خدمت خلق کے میدان میں منظم انداز سے کام کا آغاز کیا،اس کے علاوہ ملت کی ضرورتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے بھی مختلف بڑے فیصلے لیے۔ آپ کی سب سے بڑی خوبی آپ کی خوئے دلنوازی تھی، یہ ایک قائد کا بنیادی وصف اور اس کی لازمی ضرورت ہے، جس سے ایک مرتبہ ملاقات ہوجاتی وہ آپ کا گرویدہ ہوکر رہ جاتا۔ آپ کا معمول تھا کہ جہاں بھی رہتے وہاں عوام وخواص سب سے رابطہ میں رہتے۔ نوجوانوں اور بزرگوں سے بھی آپ کے اچھے روابط تھے، اور سیاسی ومذہبی قیادت سے بھی اچھے روابط تھے۔
سفر آخرت: لطیفی صاحب اپنی عمر کے آخری حصے میں کافی علیل رہا کرتے تھے، کینسر کا مرض لاحق ہوگیا تھا۔ تاہم تحریک سے اس قدر والہانہ تعلق تھا کہ اسی حالت میں ۱۹۷۴ ؁ء کے اجتماع ارکان میں شرکت کے لیے دہلی تشریف لے آئے، گرچہ پروگرام میں باقاعدہ شریک نہیں ہوسکے لیکن اپنی قیام گاہ ہی میں لیٹے لیٹے ساری تقریریں سنتے رہے۔ اجتماع کے چند روز بعد آپ اس دارفانی سے کوچ کرگئے، اناللہ وانا الیہ راجعون۔یقیناًآج بھی تحریک اسلامی کو ایسے ہی مثالی کارکنان، بہترین مربی، اور عظیم قائدین کی ضرورت ہے، یقیناًاس کے لیے ہرفرد کو اپنے طور پر تیاری کرنی ہوگی، وماالتوفیق الا باللہ العلی العظیم۔
(ابن اسد)

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں