لستم پوخ

0

راشد شاذ کا نام اردوداں طبقے کے درمیان محتاجِ تعارف نہیں۔ متعدد اہم موضوعات پرآپ کی تحریریں منظرعام پر آتی رہی ہیں۔ زیر نظر کتاب ’لستم پوخ‘ موصوف کا سفرنامہ ترکی ہے جس میں روحانیوں کے عالمی پایہ تخت استنبول میں گزارے گئے گیارہ ایام کی داستان بیان ہوئی ہے۔ اس سفرنامہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں متعلق موضوعات پر کافی اہم اور دلچسپ معلومات کے ساتھ ساتھ مختلف واقعات کا اچھا تجزیہ بھی ہے، اور بعض ایسے حقائق سامنے آئے ہیں جو قارئین کے لیے اہم بھی ہیں اور حیرت انگیز بھی۔ سرورق کے اندرونی حصہ میں کتاب کاجامع تعارف موجود ہے، موصوف لکھتے ہیں: ’’کہنے کو تو یہ ایک سفرنامہ ہے البتہ ایک طالبِ صادق کے اس سفر میں دین اور تعبیر دین پر جس انداز سے گفتگو کا سلسلہ دراز ہوا ہے اس نے اس داستانِ سفر کو بڑی اہمیت کا حامل بنادیا ہے۔ تصوف پر اب تک جو ناقدانہ تحریریں لکھی گئی ہیں ان کی حیثیت باہر کے مشاہدے کی رہی ہے اور چونکہ اہل تصوف اس بات کے قائل ہیں کہ تصوف سمجھ کر برتنے کی چیز نہیں بلکہ برت کر سمجھنے کی چیز ہے اس لیے باہر سے کی جانے والی تنقید کو وہ کسی خاطر میں نہیں لاتے۔ اس سفرنامے کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہاں متکلم آپ کو اہل سلوک کی ان مجلسوں اور کبار اولیائے وقت کے ان ایوانوں میں لیے چلتا ہے جہاں عام سالکین کے پر جلتے ہیں اور خود متکلم کے لیے بھی یہ سب کچھ اس لیے ممکن ہوسکا ہے کہ اس نے راہ سلوک کی مشقتوں میں اپنی عمر عزیز کا ایک بڑا حصہ صرف کیا ہے، خاص طور پر ایام شباب میں عرب وعجم کے بعض کبار شیوخ کی جوتیاں سیدھی کی ہیں۔ گویا وہ ایک اندر کا آدمی ہے، اس نے رموز تصوف کو برت کر سمجھنے کی کوشش کی ہے۔
مجاہدہ کسے کہتے ہیں؟ مکاشفہ کیا ہے؟ رابطہ شیخ، توصل اور مشاہدہ حق کی حقیقت کیا ہے؟ طریق تصوف کے مختلف سلسلوں کی دینی حیثیت کیا ہے؟ اور ان جیسے دسیوں دقیق اور پریشان کن سوالات پر مبنی اس بیانیہ سے قاری کو بسااوقات ایسا لگتا ہے کہ تلاش کے اس عمل میں وہ خود بھی شریک ہوگیا ہو۔
اسلام کیا ہے اور اسے کیا سے کیا بنادیا گیا ہے اگر کسی کو اس حادثہ فاجعہ پر مطلع ہونا ہوتو اس کے لیے صرف اسی ایک کتاب کا مطالعہ کافی ہوگا۔ ایسا اس لیے کہ اہل صفا کی اس دلچسپ داستان میں تصوف کے ظاہر کے ساتھ ساتھ اس کا باطن بلکہ خبث باطن بھی باہر آگیا ہے۔‘‘
سفرنامے کا مرکزی موضوع تصوف ہے، تاہم مشمولات کا تجزیہ کرتے ہوئے اسے مندرجہ ذیل تین عناوین کے تحت تقسیم کیا جاسکتا ہے:
(۱) ترکی کا کلچر، وہاں پر مغربی کلچر کی یلغار، اور پھر مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی بازیافت میں ترکی کا کردار۔
(۲) مسلمانوں میں رائج تصور مہدی کی حقیقت اور اس کے منفی اثرات۔
(۳) تصوف(یہ اس کتاب کا اصل اور مرکزی موضوع ہے)۔
جدید ترکی کی تاریخ ایک المیہ سے کم نہیں ہے، مصطفی کمال اور اس کے بعد ایک طویل زمانے تک مغرب نواز حکومتوں کی جانب سے جس طرح ترکی عوام کا استحصال کیا گیا، اور ان پر زبردستی ایک اجنبی کلچر تھوپنے کی کوشش کی گئی، اورملک میں اسلام مخالف ماحول پروان چڑھانے کے لیے سرکاری سطح پر جیسے جیسے منصوبے بنائے گئے، یہ ایک انتہائی طویل اور دردناک داستان ہے۔ مصنف نے جابجا اس کا اچھا تجزیہ کیا ہے، اور بہت ہی خوبصورت انداز میں نئی نسل کو جھنجوڑنے کی کوشش کی ہے، اس طور پر کہ نہ توسفرنامے کا حسن متأثر ہوتا ہے اور نہ ہی مصنف کا پیغام ۔ مثال کے طور پر ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’ساحل سمندر کی جانب جہاں دور تک چہل قدمی کے لیے خاص راستے بنائے گئے ہیں۔ جابجا سستانے کے لیے بنچوں کا سہارا بھی موجود ہے۔ اب جو میں ذرا دم لینے کو بیٹھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ سمندر کے دوسری جانب استنبول کے ایشیائی حصے سے ذرا پرے، جہاں سمندر تاحد نظر وا ہوگیا ہے، دور افق پر سورج کی ڈوبتی کرنیں سنہرے طلسم کا تانا بانا بننے میں مصروف ہیں۔ ہرڈوبتا سورج جاتے جاتے اپنے تزک واحتشام کی legacy سے کام چلانا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ زوال کے اس عمل پر سحرانگیزکرنوں سے پردہ ڈال دے تاکہ وقتی طور پر ہی سہی ناظرین کو یہ یقین ہوجائے کہ ابھی چراغ میں بہت سا تیل باقی ہے۔ اپنے زوال سے پہلے عثمانی ترکوں نے بھی تنظیمات کی اصلاحی کرنوں سے قلب ونظر کو مخمور کرنے کی کوشش کی۔ بعد کے دنوں میں جب سقوط خلافت کے بعد مغرب ہمارے لیے حتمی معیار کے طور پر سامنے آیا تو ہمارے مسلسل گرتے گراف کو مغرب زدگی کی کرنوں میں چھپانے کی کوشش کی گئی۔ کہیں یہ سمجھا گیا کہ مشرقی لباس کے بجائے مغربیوں کی سی وضع قطع اختیار کرنا، مئی جون کی سخت گرمی میں سوٹ ٹائی میں بندھے رہنا، فرش پر دسترخوان سجانے کے بجائے ٹیبل کرسی پر چھری کانٹے سے کھانا، ہمارے زوال کا سدباب کرسکتا ہے۔ بلکہ بعض مصلحین اور دانشوروں نے تو ہمیں یہاں تک یقین دلایا کہ کسا کسایا مغربی لباس ہمیں چاق وچوبند رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ حتی کہ داڑھی کا منڈانا بھی ہماری روشن خیالی کا ضامن بن سکتا ہے۔ عہد استعمار کی اس سراب آسا تبلیغ نے اس قدر ہماری قلب ماہیت کردی کہ دیکھتے دیکھتے ہماری وضع قطع اور صورت شکل مسخ ہوکر رہ گئی۔ ہمارے دانشوروں کی زبان سے چبی چبائی فرانسیسی اور انگریزی اصطلاحات کا سلسلہ جاری ہوگیا۔ ہماری عورتوں کے سیاہ خوبصورت بالوں میں مصنوعی بھورے پن اور بے رونق سنہری لکیریں نمایاں ہوگئیں۔ وہ آنکھ جس کے عشوے وغمزے زندگی کو معنویت عطا کرتے اور جن کی گہری جھیل میں شاعر ڈوب جانے کی تمنا کرتا، وہ اجنبی تراش خراش کے ہاتھوں مثلہ ہوگئیں۔ پچھلے ڈیڑھ سو سالوں میں ہم نے اپنے زوال پر پردہ ڈالنے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ آنے والا ہر لمحہ ہمارے زوال کی سنگینی کا شدت سے احساس دلاتا رہا۔
جھٹپٹے کے خاتمے کے ساتھ سنہری کرنوں کا طلسم انگیز تماشا بھی ختم ہوا۔ طلوع شب کی حقیقت کا انکار یقیناًمشکل ہے، اب اس سے نجات کا اس کے علاوہ اور کیا راستہ ہے کہ ہم ایک نئی صبح کے قیام کو حرکت دیں لیکن ہاں کسی ابتدا سے پہلے یہ خیال رہے کہ یہ راستہ صبح کاذب کی طرف نہ لے جاتا ہو۔‘‘(صفحہ:۲۹؍)
قیامت سے قبل مہدی کے ظہور کا تصور مسلم حلقوں میں معروف ہے، ترکی میں اس کو بنیاد بناکر ماضی میں نہ جانے کتنے لوگ مہدی موعود ہونے کا دعوی کرچکے ہیں، اور آج بھی نہ جانے کتنے لوگ اس مہدی موعود کے منتظر ہیں کہ وہ آئے گا، اور مسلم امت کو غلبہ سے سرفراز کرے گا۔ حتی کہ ہارون یحیی جیسے مصنف کی تگ ودود کا بڑا حصہ اسی مہدی موعود کے انتظار اور اس کی آمد کو برحق ثابت کرنے میں صرف ہوتا ہے۔ راشد شاذ مہدی موعود کے اس تصور پر بھی کئی پہلوؤں سے سوال اٹھاتے ہیں، چنانچہ ایک جگہ اس پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’مہدی کا اسطورہ ہو یا آل محمد کی تفصیل کا قصہ، جس نے امت کو صدیوں سے ایک لایعنی انتظار میں مبتلا کررکھا ہے، دراصل تیسری چوتھی صدی ہجری کے سیاسی بحران کا پیدا کردہ ہے۔ طویل گفتگو کا موقع نہیں، آپ سب لوگ اہل علم وتحقیق ہیں۔ اگر اس عہد میں عباسی اور فاطمی خلافتوں کی باہمی رقابت اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے ادب پر آپ کی نگاہ ہو تو آپ اس نکتہ کو بآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ یہ مسائل دین اور اعتقاد سے کہیں زیادہ سیاسی پروپیگنڈے کے رہین منت ہیں۔ مصیبت یہ ہوئی کہ تیسری اور چوتھی صدی میں مناقب اور پروپیگنڈے کی روایتیں آل بویہ، فاطمی خلافت اور عباسی علماء کی کتابوں میں مدون ہوگئیں۔ متبادل خلافتیں تو ختم ہوگئیں لیکن بدقسمتی سے ان کے تیار کردہ مخالفانہ اور معاندانہ لٹریچر اور روایتوں کے مجموعے باقی رہ گئے۔ آنے والوں نے صرف یہ دیکھا کہ کلینی نے یوں لکھا ہے اور شیخ مفید نے یوں تذکرہ کیا ہے، صحاح ستہ کے مصنفین کا موقف یہ ہے یاطوسی اور ابن بابویہ اس خیال کے حامل ہیں۔ گزرتے وقتوں کے ساتھ تاریخ وآثار کے ان متحارب اور بسااوقات گمراہ بیانات کو تقدیسی حیثیت حاصل ہوتی گئی۔پھر اگلوں کے لیے یہ ممکن نہ رہا کہ وہ اس معاندانہ سیاسی پروپیگنڈے سے ماوراء اسلام کے اس پیغام کو متشکل کرپاتے جو اہل ایمان کو کسی لایعنی انتظار میں وقت ضائع کرنے کے بجائے جہدوعمل پر آمادہ کرتا۔ آج جب کوئی ہزار سال گزرنے کے بعد اساطیر کی دھند خاصی دبیز ہوگئی ہے، عام انسانوں کے لیے ان التباسات کو عبور کرنا کچھ آسان نہیں۔ لیکن میں ناامید نہیں ہوں۔ وحی ربانی کا غیرمحرف وثیقہ اپنی تمام تر آب وتاب کے ساتھ آج بھی ہمارے درمیان موجود ہے۔ بس ضرورت اسے ازسر نو کھولنے کی ہے۔ ذرا غور کیجئے جس مہدی کی قیادت میں آخری معرکہ کی صف بندی ہونی ہے اور جس مسیحؑ کی آمد ثانی ہمارے ملی تجدید واحیاء کا سبب بننے والی ہے اس کے ذکر سے، اتنی بڑی اور اہم خبر کے تذکرے سے، قرآن کے صفحات کیوں خالی ہیں؟ اس بات پر مت جائیے کہ فلاں صاحب کشف نے یہ کہا ہے یا فلاں راوی نے یوں نقل کیا ہے بلکہ یہ دیکھئے کہ خدا کی کتاب آپ سے کیا کہتی ہے؟‘‘۔ (صفحہ: ۵۷۔۵۸)
تصوف اس کتاب کا اہم اور بنیادی موضوع ہے۔ اس کتاب میں صوفیاء کے بہت ہی دلچسپ اور حیرت انگیز واقعات بیان ہوئے ہیں، جن کو پڑھنے کے بعد حددرجہ حیرت ہوتی ہے کہ روحانیت سے محروم دنیا آج کس طرح اس قسم کی غیرمعقول حرکتوں پر مجبور ہے۔ مادیت کی آلائشوں میں بری طرح لت پت اور سکون واطمینان سے محروم یہ دنیا روحانیت کی متلاشی ہے۔ جب اس کی واقفیت روحانیت کے حقیقی مصدر ومرجع یعنی خالق کائنات کی ذات سے نہیں ہوپاتی تو وہ اِدھر اُدھر ٹھوکریں کھاتی رہ جاتی ہے، کبھی تصوف کی اندھیری دنیا میں ٹھوکریں کھاتی دکھائی دیتی ہے، کبھی قبروں اور مزاروں پر نظر آتی ہے اور کبھی باباؤں اور پنڈتوں کے یہاں نذرانے پیش کررہی ہوتی ہے۔ مسلم دنیا میں تصوف کا آغاز کب اور کہاں ہوا، اس کی قباحتیں کیا کیا ہیں، اس کے اوراد اور کشف وکرامات کی حقیقت کیا ہے،اس کے سلسلوں کی حقیقت کیا ہے، اور موجودہ دور میں جس طرح تیزی کے ساتھ اس کی نشرواشاعت کی جارہی ہے اس کے اسباب کیا ہیں، اور اس کے پیچھے کارفرماعناصرکون کون سے ہیں،اس جیسے بہت سے سوالوں کے جواب اس سفرنامے میں دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ کتاب کا بیشتر حصہ تصوف اور اس کے سلسلوں سے بحث کرتا ہے، اور بہت ہی اچھے انداز سے تصوف کی گمراہیوں اور تباہ کاریوں کو بے نقاب کرتا ہے۔ کتاب میں جگہ جگہ بعض اہم واقعات کا تجزیہ بھی کیا گیا ہے، جن کے اوپر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے، مثال کے طور پر رومی کی بڑھتی مقبولیت اور صوفی مراکز کے احیاء کا اصل سبب بیان کرتے ہوئے ایک جگہ مصطفی اوغلو کی زبانی بیان ہوا ہے کہ: ’’ایک تو یہی کہ مغرب میں کسی چیز کی مقبولیت ہمارے ہاں بھی مقبولیت کا سبب بن جاتی ہے۔ چونکہ ہمارا سواد اعظم بلکہ اہل علم کی ایک بڑی تعداد مغرب کے فیشن سے متأثر رہتی ہے۔ لہذا ادھر رومی کی امریکہ میں شہرت ہوئی اور ادھر مشرق کے قہوہ خانوں میں اس پر گفتگو چل نکلی۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ مغرب اسلام سے اپنی مخاصمت کو چھپانے کے لیے صوفی اسلام کو پردے کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ جب اسلام کی نفی کا اتنا منظم ادارہ پہلے سے ہی عالم اسلام میں کام کررہا ہے تو پھر اسلام کو خطرہ سمجھنے والے لوگ کیوں نہ اس کا سہارا لیں۔ ایک تیسری اور اہم تر وجہ یہ ہے کہ خود اہل مغرب کا حال یہ ہے کہ ان کے ہاں ثقافتی، روحانی اور فکری سطح پر بڑا خلا پایا جاتا ہے۔ صوفی رقص اور والہانہ نغموں کے دھمال میں انہیں اس محرومی کا مداوا دکھائی دیتا ہے۔لہذا لوگ کشاں کشاں کبھی یوگا اور کبھی مراقبہ اور کبھی رقص وموسیقی کی روحانیت سے لطف اندوز ہونے کے لیے مشرق کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔۔۔۔‘‘(صفحہ: ۱۰۷؍)
سفرنامے کا ستائیسواں باب ’’قطب الاقطاب کی مجلس میں‘‘ چونکادینے والا ہے،قطب الاقطاب کی تقریر بلکہ یہ پورا باب پڑھنے کے لائق ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صوفیاء نے ہردور میں اسلام اور اہل اسلام کو کس قدر نقصان پہنچایا ہے۔ قطب الاقطاب کا یہ کتنا بھیانک بیان ہے کہ ’’سقوط قاہرہ ہو یا سقوط الموت، عباسی بغداد کا زوال ہو یا ملتان کی ولایت کا خاتمہ، ہم نے ہر بحران کے ہر لمحہ میں کام کا نیا میدان ڈھونڈ نکالا ہے۔ ذرا غور کیجئے! کیا کسی کے حاشیہ خیال میں بھی یہ بات آتی تھی کہ امویوں کی باجبروت حکومت کا تختہ الٹا جاسکتا ہے۔ ہم نے اس کام کے لیے ایک طرف تو آل عباس کے علم کو ایستادہ کیا اور دوسری طرف شمالی افریقہ سے آل فاطمہ کے چاہنے والوں کو منظم کرکے قاہرہ میں لا بٹھایا۔ عین عباسی سرپرستی میں آل بویہ کے پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا۔ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ عباسی، فاطمی، اور اموی تینوں متبادل خلافتیں بالآخر ہمارے افکارونظریات اور عزائم کا توسیعہ بن گئیں۔ اور جب سیاسی نظام کو سنبھالنا ہمارے لیے ممکن نہ رہا تو ہم نے روحانی خلافت کے تاروپود تیار کیے۔ دیکھتے دیکھتے درپردہ ایک ایسی غیرمحسوس ہیکل حاکمیت قائم کردی کہ اس کے اثر سے اب دنیا کا کوئی خطہ اور مشرق ومغرب کی کوئی حکومت پوری طرح آزاد نہیں‘‘۔ (صفحہ ۲۱۹؍)
سفرنامہ زبان وبیان اور اسلوب کے اعتبار سے ایک اچھی چیز ہے۔ مختلف موضوعات پر علمی اسلوب اور منطقی دلائل کی بنیاد پر گفتگو کی گئی ہے، جس سے غوروفکر کے نئے نئے گوشے سامنے آتے ہیں،جگہ جگہ سوال وجواب کا بہت ہی دلچسپ انداز اختیار کیا گیا ہے، جس میں مصنف کہیں مفتی کے مقام پررہتا ہے اور کہیں مستفتی کے۔ عام طور سے ایک ایک موضوع پر مختلف پہلوؤں سے اتنے سوالات اور اشکالات سامنے آجاتے ہیں کہ پڑھنے والا خود بخود جواب تلاش کرنے یا جواب تک رسائی حاصل کرنے کی پوزیشن میں آجاتا ہے۔ تاہم بعض جگہوں پر یہی گفتگو منفی رخ اختیار کرجاتی ہے، مثال کے طور پر کتاب کے آخری حصے میں درود شریف کے سلسلے میں مختلف سوالات کھڑے کیے گئے ہیں، باوجود اس کے اٹھائے گئے سوالات اہم ہیں، تاہم اس قسم کے مسائل پر گفتگو کرنے سے پہلے بنیادی طور پر اس بات کو ملحوظ رکھنا لازم ہے کہ اس مسئلہ کی حیثیت کیا ہے، کیا اس کے سلسلے میں کسی شک کی گنجائش موجود ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ نماز کا مسنون طریقہ ایسے تواتر کے ساتھ نسل درنسل منتقل ہوتا آیا ہے کہ جس کی قرآن مجید کے علاوہ شائدکوئی نظیر نہ مل سکے، اور یہ بات بھی یقینی ہے کہ نماز کی صورت گری میں ان روایات کا کوئی دخل نہیں جو ہم تک مختلف آحاد، مشہور یا متواترطرق سے پہنچی ہیں، اور نہ ہی کسی خلیفہ یا امام کے لیے کبھی ممکن تھا کہ وہ طریقہ نماز میں کوئی کمی یا اضافہ کراسکے۔ اب موصوف کا یہ سوال کہ درورشریف میں ’آل‘ سے کیا مراد ہے، تو اس کے اوپر درود شریف سے تعرض کیے بغیر بھی گفتگو کی جاسکتی ہے، اور ضروری نہیں کہ اس کے معنی آل بیت ہی لیے جائیں۔ یہاں مصنف کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے اس کا ایک مفہوم مان لیا، جویقیناًرائج بھی ہے، اور پھر اس کی بنیاد پر مکمل طور سے درود شریف کو شک کے دائرے میں لاکر کھڑا کردیا، حالانکہ یہ کسی بھی صورت صحیح نہیں ہے۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ آپ ’آل‘ کے مفہوم پر گفتگو کرتے اور دیکھتے کہ اس سے مراد کیا آل البیت ہی ہیں یا اس سے مراد کچھ اور بھی لیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک مصنف کے اس سوال کا معاملہ ہے کہ’’ اگر خدا کا مطالبہ مومنین سے محض زبانی درودوسلام کا پڑھنا ہے تو کوئی بتائے کہ خدا کی صلوۃ کا کیا مفہوم ہے‘‘جیسا کہ آیت میں مذکور ہے: ان اللہ وملائکتہ یصلون علی النبی یاایھا الذین آمنو صلوا علیہ وسلموا تسلیما۔ تو اس کا جواب بہت ہی صاف ہے، لازمی نہیں کہ ایک ہی جیسی صلوۃ دونوں کی ہوں، جب انسانوں اور دوسری مخلوقات کی عبادت اور بندگی میں فرق ممکن ہے، توبندے اور رب کی صلوۃ میں فرق کیونکرممکن نہیں۔ اس کے باوجود راشد شاذ کا یہ سفرنامہ بحیثیت مجموعی شائقین کے لیے ایک اچھا تحفہ ہے، ذہن کے بند دریچوں کو کھولنے میں اس سے کافی مدد ملے گی، امید کہ اس سے استفادہ کیا جائے گا۔
2n2

 

تعارف وتبصرہ: ابورملہ، نئی دہلی

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights