وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ ہر فکر سے آزاد، دنیا جہان کی معصومیت کو اپنی ڈھال بنا کر، خوشی سے چہکتی حفصہ کے قہقہے غزہ کی گلیوں میں گونج رہے تھے۔ کھیلتے ہوئے وہ تمام “اَنا دَمی فلسطینی” گنگنا رہے تھے کہ حفصہ کی امی نے کھڑکی سے آواز لگائی، “حفصہ! کھانا تیار ہے، جلدی آجاؤ۔” حفصہ کی سنہری آنکھیں چمکیں،وہ جاندار مسکراہٹ لبوں پر بکھیرے لمبے لمبے ڈگ بھرتی ہوئی اپنےگھر کی جانب چل دی۔ “امی آج کھانے میں کیا ہے؟” سنہری آنکھوں میں بلا کا تجسس لیے وہ پوچھ رہی تھی۔ “آج تمہارے پسندیدہ کباب بنے ہیں۔” ابھی جملہ مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ حفصہ نے پلیٹ اپنی جانب کھینچ لی۔ ساتھ ہی کچھ کباب پلیٹ میں لے لیے۔ یہ دیکھ کر امی بول اٹھیں “استغفرااللہ حفصہ! آرام سے لو۔ یہ آخری دفعہ تو نہیں، پہلے تھوڑا لو پھر چاہیے ہو تواور لے لینا۔ یوں کھانا ضائع ہوتا ہے!” امی کی باتیں سنی ان سنی کرتے ہوئے ایک کباب منہ میں رکھتے ہی حفصہ نے بقیہ واپس تھالی میں رکھ دیے۔ امی حفصہ کے چھوٹے بھائی حمزہ کو لے آئیں اور حفصہ کو تھماتے ہوئے کہا،”حفصہ اسے سنبھالو، میں میٹھا لے کرآتی ہوں۔” کہہ کر امی کچن کی جانب چل پڑیں۔ حفصہ نے حمزہ کو گھور کر دیکھا،”حمزووو! میں ہرگز اپنا کباب تمہیں نہیں دونگی، امی سے خود مانگ لینا، ہونہہ!” امی جو حفصہ کا یہ جملہ سن چکی تھیں حمزہ کو لیتے ہوئے کہا، “لڑکی! کوئی چھوٹے بھائی کو ایسے کہتا ہے بھلا! اور ابھی یہ اتنا چھوٹا ہے کہ یہ سب نہیں کھا سکتا۔ تمہارے یہ کباب تمہیں ہی مبارک۔” “لیکن امی جب یہ بڑا۔۔۔”
ابھی جملہ ادھورا ہی تھا کہ کسی نے جھنجھوڑتے ہوئے اسے اٹھایا۔ دھماکے کی زوردار آوازیں اب مسلسل آرہی تھیں۔ ہر کوئی بھاگ رہا تھا۔ ظالموں نے اس دوسری پناہ گاہ کو بھی نہ چھوڑا۔ وہ جو کئی دنوں سے بے خوابی کی سی کیفیت میں تھی اسے چند منٹ کی نیند بھی ڈھنگ سے نصیب نہ ہوئی۔”اے لڑکی! جلدی اٹھو، اپنے بھائی کو لو،ہمیں یہاں سے فوری نکلنا ہے۔” وہ چکراتے سر کے ساتھ حمزہ کو گود میں لیے بھاگ رہی تھی۔ چند منٹ گزرے تھے اسے نیند کی آغوش میں گئے، وہ اس خوبصورت خواب میں مزید رہنا چاہتی تھی۔ان دنوں کے خواب جب زندگی خوبصورت ہوا کرتی تھی، جب زندگی میں زندگی ہوا کرتی تھی۔ جب لذیذ کھانوں سے دسترخوان سجتے تھے۔ جب امی ہر دن کچھ لذیذ بنا کر کھلایا کرتی تھیں۔ امی کو خواب میں دیکھ کر حفصہ کے آنسوں ابل پڑے۔ تین ہفتہ پہلے ہوئی بمباری نے ان دونوں بھائی بہن کو یتیم کردیا تھا۔ ایک محافظ ماں کا سایہِ شفقت چھن چکا تھا اور اب اسے اپنی اور حمزہ کی حفاظت خود کرنی تھی۔ وہ ان پرانے دنوں میں لوٹنا چاہتی تھی اور یادِ ماضی میں کھو جانا چاہتی تھی مگر حقیقت سے منہ موڑنا ممکن نہیں تھا۔ اس قیامت خیز ماحول میں جہاں ہر طرف لاشوں کا انبار تھا، انسانوں کی وہ چیخیں تھیں جس سے سرزمین غزہ لرز لرز اٹھتی تھی، مگر ان چیخوں کو سننے والا کوئی نہ تھا۔ خون میں لت پت اجسام اور بارود کا اٹھتا دھواں اور اسی کے درمیان سسکتی ہوئی حفصہ اپنے چھوٹے بھائی کو گود میں لیے دیوانہ وار بھاگ رہی تھی۔ بوسیدہ کپڑوں میں وہ خوبصورت شہزادی مرجھا گئی تھی۔ زندگی میں اپنوں سے بچھڑنے کی گہری ضرب نے اس کی معصومیت کو نوچ لیا تھا۔ وہ اب اپنی عمر سے کئی گنا بڑی تھی۔ اب وہ اپنے بھائی کی محافظ تھی۔ بھاگتے بھاگتے وہ ایک گاڑی کے سامنے رک گئی۔ جہاں اس جیسے دوسرے لوگ بھی پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ رکے ہوئے تھے۔ “تمام لوگ جلدی سے اس گاڑی میں چڑھ جائیں۔ ہم رفاح کی جانب روانہ ہورہے ہیں۔” وہ حمزہ کو سنبھالتے ہوئے پھولتی سانسوں کے درمیان اس گاڑی میں بیٹھ گئی۔ اس گاڑی کے شیشے ٹوٹے ہوئے تھے۔ کئی جگہوں پر خون کے دھبے تھے اور گاڑی سے اٹھنے والی بو ناقابل برداشت تھی۔ اس نے خالی الذہنی کے ساتھ حمزہ کی طرف دیکھا۔ اس کا وہ معصوم بھائی جو دھماکوں کی آواز سے ڈرا ہوا تھا اور مسلسل کانپ رہا تھا، اس کے بھرے ہوئے گالوں میں خراشیں لگی ہوئی تھیں اور دھویں کی سیاہی نے اس کے رنگ کو چھپا دیا تھا۔ حفصہ نے روتے ہوئے اسے سینے سے لگایا اور آنسوؤں کے درمیان ایک سسکی نکلی، “اممییی!!!” اس کے بغل میں ایک عمر دراز خاتون بھی تھیں۔ انہوں نے شفقت کے ساتھ حفصہ کی پیٹھ سہلائی اور بڑی محبت سے حمزہ کو اپنی آغوش میں لیا اور بوسہ دیا۔ رات بھر سفر کرنے کے بعد صبح اچانک سے گاڑی رکی، ابھی رفاح پہنچنے میں کچھ اور دیر تھی۔ راستے میں پناہ گزینوں کو کھانا تقسیم کیا جارہا تھا۔ حفصہ نے بزرگ خاتون کو حمزہ کا دھیان رکھنے کے لیے کہا اور خود ان کے لیے اور اپنے بھائی کے لیے کھانا لینے چلی گئی۔ تپتی دھوپ میں، بوسیدہ کپڑوں میں جہاں پہلے ہی کئی لوگ کھانے پر جھپٹے تھے وہ کیسے اپنے بھائی کے لیے کھانا لے گی؟ ان پریشان حال لوگوں کو دیکھ کر اور وہ ہنگامی منظر دیکھ کر اسے پریشانی لاحق ہوئی کے اتنے سارے لوگ ہیں، کھانا تو ختم ہوجائے گایہ سوچ کر بھوکا حمزہ نگاہوں میں گھوم گیا اور اس کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔ اسے بے اختیار امی کی یاد آئی اور اپنا دیکھا ہوا خواب یاد آیا جس میں امی اسے لذیذ کباب بنا کر کھلا رہی تھیں۔ وہ انہی سوچوں میں گم تھی کہ اسی وقت ایک مشفق اور مہربان شخص نے اس کے ہاتھ میں کھانے سے بھری پلیٹ تھما دی۔ وہ بے یقینی سے پلیٹ کو دیکھ ہی رہی تھی کہ ایک زوردار دھکے کی وجہ سے پلیٹ ہاتھ سے چھوٹ گئی اور کھانا زمین پر گر گیا۔ حفصہ کے منہ سے چیخ نکلی اور وہ دیوانہ وار اس گرے ہوئے کھانے کو اٹھا رہی تھی کہ کسی طرح ان دونوں کا گزارہ ہوسکے۔ وہ کھانا جو اب کھانے لائق نہ تھا مگر زندہ رہنے کے لیے کافی تھا۔ مسلسل بہتے آنسوؤں کے بیچ وہ ان لذیذ کبابوں کو سوچ رہی تھی جو آج خواب میں امی نے بنائے تھے۔
وہ کھانے کی میز پر بیٹھا ان جنگی حالات کا نظارہ گھر بیٹھے اپنے فون پر کررہا تھا کہ کس طرح اہل غزہ کھانے کے لیے ترس رہے ہیں۔ کیسے یہ بچی راستے پر گرا ہوا کھانا فقط اس لیے اٹھا رہی ہے کہ زندگی اسے کچھ ساعتیں مستعار دے دے اور وہ اپنے بھائی کی سانسیں بحال کرسکے۔ تبھی پہلا لقمہ لیتے ہی وہ کرسی دھکیل کر کھڑا ہوا اور سامنے کھڑی ملازمہ پر پھٹ پڑا، “یہ کیا مریضوں والا کھانا ہے؟ اتنا کم نمک؟ دن بھر مرمر کر کام کرو اور شام میں یہ کچرا کھانے کو ملے گا؟ لے جاؤ اسے۔” ملازمہ کانپتے ہاتھوں کے ساتھ کھانا سمیٹنے لگی۔ کھانے کی میز سے اٹھ کر وہ صوفے پر نیم دراز ہوا اور سویگی سے میکڈونلڈ کے برگرز اور کوک کا آرڈر دیا۔ کچھ ہی لمحوں میں کھانا حاضر تھا۔ کوکاکولا کا سِپ لینے کے ساتھ ہی اس نے کچھ دیر قبل دیکھی ہوئی ویڈیو اپنی اسٹوری پر ڈالی اور ساتھ ہی لکھا۔
“وی اسٹینڈ وتھ فلسطین!”