شمشاد حسین فلاحی
’وہن‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں کمزور ہونا۔ قرآن کریم میں یہ لفظ اسی معنی میں کئی جگہ استعمال ہوا ہے۔ سورۃ العنکبوت آیت 41میں ہے:
’’ مَثَلُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ أَوْلِیَاء کَمَثَلِ الْعَنکَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَیْْتاً وَإِنَّ أَوْہَنَ الْبُیُوتِ لَبَیْْتُ الْعَنکَبُوتِ لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ ‘‘
ترجمہ’’جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا ولی اور کارساز بتاتے ہیں ان کی مثال اس مکڑی کی سی ہے جو گھر بناتی ہے اور بلا شبہ سب سے کمزور گھر مکڑی کا گھر ہوتا ہے۔ کاش کہ یہ لوگ سمجھتے۔‘‘
اسی طرح یہ لفظ سورۃ مریم آیت 4میں بھی کمزوری کے معنی میں ہی استعمال ہوا ہے۔ حضرت زکریا علیہ السلام بڑھاپے کی عمر کو پہنچ گئے مگر ان کو کوئی اولاد نہیں ہوئی تو انھوںنے دعا کی کہ:
’’ قَالَ رَبِّ إِنِّیْ وَہَنَ الْعَظْمُ مِنِّیْ وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَیْْباً وَّلَمْ أَکُنْ بِدُعَآئِکَ رَبِّ شَقِیّاً ‘‘
ترجمہ: ’’اور اس (زکریا) نے کہا کہ اے میرے رب (بڑھاپے کے سبب) میری ہڈیاں کمزوری سے بھربھری ہوچکی ہیں اور میرے سر کے بال سفید ہوچکے ہیں! اور اے میرے رب (مجھے یقین ہے) کہ میں تجھے پکار کر بدبختی (اولاد سے محرومی) میں نہیں رہوں گا۔‘‘
قرآن کریم کے ان دونوں استعمال سے وہن کے لغوی معنی واضح ہیں لیکن حضور پاک ﷺ نے اس لفظ کو مسلم معاشرے کی ذہنی و فکری کمزوری اور ایک خطرناک روحانی بیماری کے طور پر واضح کیا ہے۔ اس بیماری کے اثرات اور نتائج بھی نہایت خطرناک، مہلک اور تباہ کن ہوتے ہیں اور اگر یہ بیماری کسی مومن کو لگ جائے تو اس کی دنیا اور آخرت تباہ ہوجاتی ہے اور اگر وہ کسی گروہ کو اپنی گرفت میں لے لے تو پھر اس کے نتائج اور انجام کار کیا ہوتا ہے حضور پاک ﷺ نے اسے بڑی وضاحت سے بیان فرمایا ہے ملاحظہ فرمائیں:
رسول پاک اپنے احباب کے ساتھ مجلس میں بیٹھے ہوئے ہیں اور مختلف موضوعات پر گفتگو ہورہی ہے۔ حضور پاک ﷺ فرماتے ہیں کہ اس امت پر ایک وقت ایسا آئے گا کہ دوسری قومیں اس پر اس طرح ٹوٹ پڑیں گی جس طرح بھوکے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ صحابہ کرام جو معرکوں پر معرکے سر کرتے جاتے تھے اور اسلام اور مسلمانوں کا عروج اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے، حیرت میں پڑجاتے ہیں۔ ایک آدمی پوچھ لیتا ہے کہ کیا اس وقت ہماری تعداد کم ہوجائے گی؟ رسول پاک ﷺجواب دیتے ہیں نہیں! اس وقت تمہاری تعداد بہت زیادہ ہوگی مگر تم سیلاب کے جھاگ کے مانند ہوجاؤ گے اور اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے دل سے تمہارا خوف نکال دے گا اور تمہارے اپنے دلوں میں ’وہن‘ بھردے گا۔ ایک آدمی پوچھتا ہے کہ یا رسول اللہ یہ ’وہن‘ کیا ہے؟ آپؐ نے جواب میںارشاد فرمایا: حُبُّ الدُّنیَا وَکَرَاہِیَۃُ المَوتِ۔ وہن یہ ہے کہ انسان دنیا سے محبت کرنے لگے اور موت کو ناپسند کرنے لگے۔
حضور پاک ﷺ نے اس حدیث میں، جو ابوداؤد میں حضرت ثوبانؓ کے حوالے سے مذکور ہے، وہن کی وضاحت کرنے سے پہلے اس کے خطرناک اثرات کا ذکر کیا ہے جسے صحابہ کرام ؓکے ذہن و فکر قبول کرنے کے لیے تیار ہی نہیں تھے ۔لیکن جب اس کی وجہ بیان کی تو سب خاموش اور مطمئن ہوگئے کہ دنیا کی محبت میں گرفتار ہوجانے والوں اور موت کو ناپسند کرنے والوں کا تو حشر یہی ہوتا ہے اور ہونا چاہیے۔ اس ’وہن‘ کو ہم اپنی سادہ سی زبان میں ’بزدلی‘ کہہ سکتے ہیں۔ ایک بزدل انسان کے لیے موت کا تصور ہی خوفناک ہوتا ہے اور وہ اس کے خیال ہی سے بھاگ کھڑا ہوتاہے کیونکہ اسے موت سے نفرت اور زندگی سے محبت ہوتی ہے۔ اگر تھوڑا سا اور گہرائی میں جاکر دیکھیں اور سوچیں تو اندازہ ہوسکتا ہے کہ کسی انسان کو موت سے اس قدر نفرت کیوں ہوتی ہے؟ غور کیجیے! سوچئے! صاف ہے کہ موت سے نفرت اس لیے ہوتی ہے کہ ہم جینا چاہتے ہیں اور جینا اس لیے چاہتے ہیں کہ دنیا میں جو سہولیات، آرام اور آسائشیں اور مال و دولت ہم نے جمع کیا ہے اسے برت سکیں اور اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ زندگی کا یہی لالچ ہمیں موت کو ناپسند کراتا ہے۔ بس یہ ’وہن‘ پھر ایک اخلاقی اور روحانی بیماری بن جاتا ہے اور فرد اور گروہ کو سیلاب کے ناکارہ جھاگ کے مانند بنادیتی ہے ۔پھر جب دشمن اور مخالف کو ہماری ان کمزوریوں کا پتہ چل جاتا ہے تو وہ ہماری طاقت کے بھرم سے باہر آجاتا ہے ۔پھر جب وہ حملہ آور ہوتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خواہ مخواہ ان سے ڈرتا رہا یہ تو بڑے بزدل اور کمزورلوگ ہیں۔
وہن ایک کمزوری ہے اور ہم نے اسے بزدلی کے الفاظ میں بیان کیا ہے جو اردو زبان میں حدیث کے الفاظ و واقعے کے مرکزی نقطہ کو بیان کرنے کے لیے قریب تر معلوم ہوتا ہے۔ اب ذرا اس کے برعکس رویہ کو بھی دیکھ لیتے ہیں تاکہ معنی و مفہوم کے ساتھ ساتھ اس ذہنی و فکری اور روحانی بیماری کا علاج بھی معلوم ہوجائے۔ ایک تصویر دیکھئے یہ تصویر سیرت رسول کے البم سے لی گئی ہے اور ’وہن‘ کی برعکس کیفیت اور اس کے علاج کو بیان کرتی ہے۔
صحرائے عرب کی گرمی کاعالم ہے۔ ایک شخص اس صحرا میں ایک پیڑ کے نیچے آرام کرنے کے لیے آتا ہے اور اپنی تلوار درخت کی شاخ پر لٹکا کر ایک پتھر کو اپنے سر کے نیچے بہ طور تکیہ رکھ کر سوجاتا ہے۔ ایک دوسرا آدمی جو اس کا دشمن ہے ادھر سے گزرتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ ایک شخص پیڑ کے نیچے آرام کررہا ہے۔ قریب آتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ تو اس کا ناقابلِ شکست دشمن ہے۔ اسے اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ گہری نیند سو رہا ہے کیونکہ اس کے قریب آجانے کے باوجود اس سونے والے کی نیند نہیں ٹوٹی۔ تو پھر کیا ہے؟ انتظار کس لیے؟ کر دو اس کا کام تمام! نہ رہے بانس نہ بجے بانسری!
درخت سے لٹکی ہوئی تلوار اتار کر ہاتھ میں مضبوطی سے تھام لیتا ہے اور اسی تلوار کے ٹہوکے سے اس شخص کو جگاتا ہے۔ وہ سویا ہوا شخص بڑے اطمینان سے بیدار ہوکر اٹھ بیٹھتا ہے۔ یہ تلوار بردار شخص اس شخص سے پوچھتا ہے بتا آج تجھے مجھ سے کون بچاسکتا ہے؟ وہ شخص بڑے اطمینان سے جواب دیتا ہے ’’اللہ‘‘ پھر کیا ہوا؟ تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گرگئی۔ پتہ ہے یہ ’’اللہ‘‘ کہنے والا کون تھا؟ یہ حضور پاک محمد ﷺ تھے۔ پھر محمد رسول اللہ ﷺ اپنی تلوار زمین سے اٹھاتے ہیں اور اس شخص سے پوچھتے ہیں کہ اب تو بتا تجھے مجھ سے کون بچاسکتا ہے؟ وہ ’آپ‘ کہتا ہوا آپؐ کے قدموں میں گرجاتا ہے۔یہ ہے وہن کا علاج!