جوڑنے سے توڑنے تک

0


ستیش کھنگوال


بات بہت پرانی نہیں ہے۔نوے کی دہائی میں معاشی اصلاحات جاری تھیں اور اسی دور میں ہمارے گھر میں ٹیلیفون لگا تھا۔پاس پڑوس میں لڈو تقسیم کیے گئے تھے۔گلی محلے کا پہلا ٹیلی فون تھا،اس لیے دو تین دن تک پڑوسیوں کا تانتا لگا رہا۔ہماری بیٹھک کے ایک کونے میں براجمان ٹیلیفون کا نظارہ کرنے کے لیے لوگ آتے ۔ جانے کے وقت ٹیلیفون نمبر لے جانا کوئی نہیں بھولتاتھا۔باتوں ہی باتوں میں لوگ یہ بھی کہہ جاتے کہ’’ اگر ہمارا کوئی فون آجائے تو بلا لینا۔‘‘ ان کی اس بات میں حکم، گزارش،محبت،دعا اور ہمدردی سب کچھ ہوتا تھا۔
ٹرن-ٹرن ۔۔۔! اوہ! کتنی شیریں تھی وہ آواز ان دنوں۔سنتے ہی دل خوش ہو اٹھتا تھا۔گھر والوں کے ساتھ ساتھ پڑوسیوں کے کان بھی اس آواز کو سننے کے منتظر رہتے تھے۔کمال کی بات یہ تھی کہ اپنے فون کم آتے تھے اور پڑوسیوں کے زیادہ۔قریبی پڑوسیوں کو تو گھر سے ہی آواز دے کر بلا لیتے تھے۔کسی کسی آشنا کو بلانے کے لیے ایک آدھ کلومیٹر کا سفر کرنا پڑ جاتا تھا۔مگر کوئی حیل -حجت نہیں۔کوئی ناراضگی یا شکایت نہیں۔جس شناسا کے لیے فون آتا تھا اسے بلانے کے لیے دوڑ پڑتے تھے۔سامنے والا بھی احسان مان کر ایسے دوڑا آتا تھا جیسے اگر وقت پر نہیں پہنچا تو ٹرین چھوٹ جائے گی۔ جو فون سننے آتے ، انہیں عام طور پر چائے ناشتہ بھی دیا جاتا۔لیکن نہ کبھی ابا جان کی جبین پر شکن دیکھی نہ کبھی اماں کے چہرے پر جھنجھلاہٹ۔


یہ صرف میرے گھر کی کہانی نہیں ہے۔یہ نوے کی دہائی کے ہر اس گھر کی کہانی ہے،جس میں ٹیلیفون ہوتا تھا۔اس زمانے میں ٹیلیفون انسانی رشتوں کی نئی کہانی لکھ رہا تھا۔اپنے تاروں سے دلوں کے تار جوڑ رہا تھا۔اجنبیت کی دیواریں منہدم کرکے لوگوں کو قریب لا رہا تھا۔حتی کہ بالکل انجان آدمی ،جو خراب ٹیلیفون کو درست کرنے آتا تھا،وہ بھی گھر ہی کے آدمی کی طرح ہوجاتا تھا۔ٹیلیفون پر بات کرنا بہت مہنگا ہوتا تھا،مگر اس نے لوگوں کو آپس میں جوڑ دیا تھا۔مہینوں میں پہنچنے والے خطوط کی جگہ خوشی وغم کی خبروں کو منٹوں پہنچانے میں ٹیلیفون نے اہم کردار ادا کیاتھا۔جب دور بیٹھے ماں باپ اپنے بچوں کی آوازیں سنتے تھے تو انہیں لگتا تھا کہ بچے ان کے سامنے ہی ہیں اور بچوں کو لگتا تھا کہ ماں باپ ان کے سر پر ہاتھ پھیر رہے ہیں۔


رفتہ رفتہ تکنالوجی میں ترقی آئی۔ٹیلیفون کا نیا اوتار ’موبائل‘ آگیا۔نئے زمانے کی یہ چھوٹی سی مشین گھر کے کسی گوشے کی خوبصورتی میں اضافہ کرنے والی نہیں تھی۔ نہ اس سے کوئی تار ہی جڑا تھا۔ایک چھوٹی سی چِپ کے ذریعے کہیں بھی اور کبھی اس کا استعمال باآسانی کیا جا سکتا تھا۔بہت جلد موبائل کو قبول عام حاصل ہوگیا۔بڑی کمپنیوں کے اس میدان میں کودنے اور ان کی باہمی مسابقت سے نہ صرف یہ کہ موبائل کے دام سستے ہوگئے بلکہ بات چیت کرنے اور پیغامات ارسال کرنے کی سہولت بھی سستی ہوگئی۔ٹیلیفون کانام اب ’لینڈ لائن‘ رکھ دیا گیا۔عام لوگوں کی تو کیا بساط،خود تکنالوجی کے ماہرین کو پتہ نہیں چلا کہ’ مواصلاتی انقلاب ‘ کب ’موبائل‘ انقلاب میں بدل گیا۔آج موبائل محض بات چیت کرنے یا پیغامات بھیجنے کی مشین نہیں ہے،بلکہ اطلاعات کی نشر و اشاعت کاسب سے کارآمد ذریعہ ہے۔کسی بھی قسم کی اطلاع،بصری و سماعتی پیغامات،تصویر وغیرہ اس کے ذریعے فوری طور پر نشر ہوتی ہیں۔عوامی بیداری میں بھی موبائل کا اہم کردار ہے۔موبائل کی مدد سے مجرمین تک پکڑے جا رہے ہیں۔نا انصافی، بد عنوانی،انتظامیہ کا ناکارہ پن وغیرہ مسائل کے خلاف عوام نے موبائل کے ذریعے ہی اپنی آواز بلند کی ہے۔لیکن اس روشن پہلو کے ساتھ اس کا ایک تاریک پہلو بھی ہے۔موبائل انسانی رشتوں میں دراڑ پیدا کرنے کا کام کررہا ہے ۔


آج کل سماجی،سیاسی اور مذہبی وغیرہ موضوعات سوشل میڈیا کا موضوع بن گئے ہیں۔سوشل میڈیا کا سب سے بڑا ہتھیار موبائل ہی ہے۔ بھائی ،دوست، رشتہ دار، شناسا،اجنبی سبھی آپس میں بحث و تکرار میں الجھ گئے ہیں۔سب اپنی اپنی رائے اور نظریہ ایک دوسرے پر تھوپنے لگے ہیں۔ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا ہے۔لوگ آناً فاناً میں اطلاعات نشر کرتے ہیں،یہ تحقیق کیے بغیر کہ وہ اطلاعات کتنی صحیح ہیں اور کتنی غلط اور یہ کہ غلط اطلاعات کے کیا اثرات پڑ سکتے ہیں۔گھر میں جتنے لوگ ہیں،اس سے زیادہ موبائل ہیں۔فرد حقیقی رشتوں کو نظر انداز کرکے نیم جعلی رشتوں کو مضبوط کرنے میں لگا ہو ا ہے۔موبائل اس دور کی سب سے ضروری اور کارآمد مشین ہے۔ اگر احتیاط سے اس کا استعمال کیا جائے تو یہ کسی تحفہ سے کم نہیں ہے۔لیکن اگر اسی طرح اس کا استعمال ہوتا رہا تویہ باہمی محبت و ہمدردی کو نگل لے گا۔رشتوں کی مٹھاس ختم کردے گا۔آج جب موبائل کو رشتوں میں دوری پیدا کرتے دیکھتا ہوں تو بچپن کے لینڈ لائن کی یاد آجاتی ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights