نصابی کتب کے ذریعے تاریخ ہند کو مسخ کرنے کی کوشش: ایک مطالعہ

ایڈمن

دلشانہ سمیہ            پچھلے پچاس سالوں میں ہندوستانی تاریخ کے حوالے سے ایک نیا بیانیہ سامنے آیا۔جس میں ہندو شناخت کو نمایاں کیا گیااور دیگر اقلیتوں کوملک میں گھس پیٹھوں کی حیثیت سے پیش کیا گیا۔ہندو قوم پرستوں نے ہمیشہ سے…

دلشانہ سمیہ

            پچھلے پچاس سالوں میں ہندوستانی تاریخ کے حوالے سے ایک نیا بیانیہ سامنے آیا۔جس میں ہندو شناخت کو نمایاں کیا گیااور دیگر اقلیتوں کوملک میں گھس پیٹھوں کی حیثیت سے پیش کیا گیا۔ہندو قوم پرستوں نے ہمیشہ سے ہندوستانی تاریخ کو فرقہ وارانہ رنگ دینی کی کوشش کی ہے اور تاریخ سے چھیڑ چھاڑ کرکے اپنے ناجائز ایجنڈہ کی انجام دہی کے لئے مستقل کوشاں رہے ہیں۔ جہاں آج وہ تعلیمی نصاب پر حملہ آور ہیں وہیں تعلیمی اداروں کو پر قبضہ جمانے اور اہل تر اسکالرس کی عدم بحالی کے ذریعہ پوری تعلیم کو زہر آلود کرنے کا کام کررہے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں سَنگھ پریوار نے ہندوستانی تاریخ کو فرقہ وارانہ نقطۂ نظر سے از سر نو لکھنے کا کام کیاہے۔ جس کے نتیجہ میں مختلف ریاستوں کے نصاب تعلیم میں تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا۔

            تاریخ کے اس فرقہ وارانہ پروپگنڈے کا آغاز غلط بیانی سے کیا گیا کہ آریہ خاندان سے تعلق رکھنے والے لوگ ہی ہندوستان کے اصل باشندے ہیں اورہندوازم کی جڑیں آریہ ویدک مذہب سے جاکر ملتی ہیں۔ تاریخ کی یہ تصویر اس دعوی کے ثبوت کے طور پر پیش کی گئی کہ ہندوستان دنیا کی تمام تہذیبوں کا مرکز ہے۔ مزید یہ کہ آریائی سماج پانچ ہزار سال قبل مسیح سے ہندوستان میں بستاہے۔ حالانکہ صحیح تحقیقات کے مطابق آریائی خاندان پندرہ سوقبل مسیح سے ہندوستان میں مقیم ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تانبے کی دریافت سب سے پہلے ہندوستان میں 3700 قبل مسیح میں ہوئی، پہلا رسم الخط 3500 قبل مسیح میں رائج ہوا اور مہا بھارت کی جنگ 3100 قبل مسیح میں لڑی گئی۔ یہاں تک کہ فرقہ پرست تاریخ نگاروں کا ماننا ہے کہ وادی سندھ کی تہذیب اصلاً سراسوتی تہذیب ہے جہاں آریائی نسل جا کر ملتی ہے۔ چنانچہ وہ آریائی تہذیب کے غلبہ کے علاوہ تمام حقائق کو، یہاں تک دراوڈ تہذیب کی حقیقت کو بھی مٹا دینا چاہتے ہیں۔

            اس فرقہ وارانہ تاریخ کے ذریعہ عہد وسطی کے مسلمانوں کی یہ تصویر پیش کی گئی کہ وہ غیر ملکی، بے رحم اور وحشی حملہ آور تھے جنہوں نے ہندوستان کے سنہرے عہد کو نیست و نابود کردیا۔ انہوں نے یہ الزام عائد کیا کہ مسلمانوں نے ہندوں کا بے رحمی کے ساتھ قتل عام کیا۔ لیکن اس الزام کو ثابت کرنے کیلئے ان کے پاس کوئی تاریخی ثبوت موجود نہیں ہے۔

            راشٹریہ سیوم سیوک (RSS)نے مسلمانوں کی تعمیر کردہ تاریخی عمارتوں کی تاریخ کو بھی مسخ کرنے کی ناکام کوششیں کیں۔ان کے دعوی کے مطابق لال قلعہ اور تاج محل پہلے مندر اور ہندووں کے تعمیر کردہ مذہبی مقامات تھے۔ جنہیں مسلم ظالم و جابر حکمرانوں نے مسمار کردیا اور وہاں اپنی عمارتیں تعمیر کیں۔

             اس مسخ شدہ تاریخ کو اسکولی نصاب میں شامل کیا گیا جو ریاستی اور ملکی دونوں سطحوں پر اسکولوں میں پڑھائی جانے لگی۔راجستھان کی جماعت ششم میں جواہر لعل نہرو اور دیگر کانگریسی لیڈران کو تاریخ کے صفحات سے ہٹا دیا گیا۔ حالانکہ نصاب میں موہن داس کرم چند گاندھی، سبھاش چندر پوس، لالہ لاجپت رائے، بھگت سنگھ اور بال گنگادھر تلک کا ذکر کیا گیا ہے۔ نصاب کے گزشتہ ایڈیشن میں قومی تحریکات‘ کے سبق میں نہرو کا ذکر نمایاں طور پر موجود تھا۔ اور اس سے پہلے بھی نصاب میں ’تاریخ آزاد بھارت‘کا آغاز پنڈت نہرو اور سردار پٹل کا حکومت کی تشکیل میں کردار سے ہوتا رہا۔ راجستھان بورڈ آف سکنڈری ایجوکیشن کے ماتحت اسٹیٹ انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ ٹریننگ (SIRT) نے نصاب کا از سر نو جائزہ لیتے ہوئے نصاب میں تحریفات کیں۔حق پسند ماہر ین تعلیم نے اس اقدام کو ”تحریک آزادی ہند کا ہندوکرن“ سے تعبیر کیاہے۔ جس میں ساورکر کو انقلابی،عظیم محب وطن اور بہترین تنظیم پرست کی حیثیت سے پیش کیا گیا۔ جواہر لعل نہرو کو جماعت دہم کے سوشل سائنس کے نصاب سے خارج کرنے پر ریاستی وزیر تعلیم واسو دیودیونانی نے یہ بیان دیا کہ ”ہر ہیرو کو نصاب میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔“

            تحقیق کے مطابق اس ترمیم شدہ نصاب تعلیم میں م۔ک۔گاندھی کے قتل اور گھوڑسے (رکن آر ایس ایس) کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں ملتا۔ اسی سال حکومت راجستھان نے جماعت دہم کے نصاب تاریخ میں تحریفات کو منظوری دی جس میں سولہویں صدی میں لڑی گئی ہلدی گھاٹی کی جنگ کی غلط تصویر پیش کی گئی۔دعوی یہ مہارانا پرتاب سنگھ نے مغل بادشاہ اکبر کو شکست فاش دے دی تھی، 16 ویں صدی میں جنگ کے ایک سال بعد 18، جون 1576 کو پرتاب سنگھ کے ذریعے ہلدی گھاٹی کے قریب واقع دیہاتوں میں تقسیم کی گئی جاگرکے زمینی ریکارڈ کی برآمدات پر مبنی ہے۔ مگر تاریخی طور پر اصل فاتح مغل تھے جو اگر چہ کہ مہارانا پرتاب سنگھ کو قیدکرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے تھے تاہم انہوں نے مو اریوں کو شدید چوٹیں پہنچائیں۔ساتھ ہی حکومت نے یہ بھی حکم دیا کہ ”عظیم اکبر“ عنوان کے تحت موجود سبق کو حذف کردیا جائے۔

            مہاراشٹر اسٹیٹ بورڈ آف ایجوکیشن اینڈ ہائیر ایجوکیشن کے تحت اسکولوں میں ہسٹری سبجکٹ کوپریشن(HSC) اور اسٹیٹ ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ(SED) کے ارکان نے یہ دعوی کیا کہ 331 سالوں پر محیط پوری مغل تاریخ جماعت ہفتم اور نہم کے لئے غیر متعلق ہے۔ مہاراشٹر میں ترمیم شدہ نصاب تاریخ صرف مراٹھا حکومت اور شیوا کے ارد گرد گردش کرتی ہے۔گزشتہ نصاب تاریخ میں مغل حکمرانوں اور ان کی خدمات کا ذکر کیا گیا تھا لیکن اب اس میں ترمیم کرکے اسے صرف چند سطروں میں سمیٹ دیا گیا۔ ترمیم شدہ ایڈیشن میں شیوا کو عہد وسطی اور ستائیس سالوں پر محیط اورنگ زیب کے خلاف جدوجہد کا مرکزی کردار بناکر پیش کیا گیا۔گجرات میں،جو کہ ہندوتوا کی تجربہ گاہ ہے، نصابی کتب بے بنیاد دعوؤں مثلا یہ کہ جینیاتی انجینئرنگ اور ہوائی جہاز قدیم ہندوستانی تاریخ میں موجود تھے،کے علاوہ بہت زیادہ توہمات پر انحصار کرتی ہیں اور رزمیہ افسانوں کو بنیادی مرجع کا درجہ دیتی ہیں۔

            دلچسپ بات یہ ہے کہ محکمہ تعلیمات نے نصاب تعلیم میں ہوئی ترمیمات کے پس پشت کسی سیاسی ایجنڈہ کی موجودگی کا انکار کیا ہے اور یہ دعوی کیا کہ نصاب تعلیم کا جائزہ خودمختار اداروں نے لیا ہے۔ ملک کے مؤقر اداروں، جیسے نہرو میموریل میوزیم اینڈ لائبریری، نئی دہلی اور انڈین کونسل آف ہسٹاریکل ریسرچ پر نظریاتی قبضہ نے تاریخ کی نصابی کتب لکھنے کے عمل کو متاثر کیا ہے۔ ان کتابوں کو نئے بیانیو ں کے نفوذ، تنقیدی سوچ کا فروغ اور تخلیقیت کے نام پر ازسر نو مرتب کیا جارہا ہے۔

            چالاکی کے ساتھ بیک وقت یہ تمام اقدامات تاریخ ہند کو ہندو مرکوزبنانے کے لئے کئے گئے۔ دوسری خطرناک حقیقیت یہ ہے کہ اس تعلیمی نصاب کے ذریعہ صرف ایسی نسل تیار کی جارہی ہے جو فرقہ وارانہ نظریہ کی غلام ہوگی۔ یقینی طور پر اس تعلیمی نصاب کے ذریعہ صرف فالج زدہ ذہن پروان چڑھیں گے۔ آج پورا ملک تاریخ پر ایک منصوبہ بند حملے کو محسوس کررہا ہے۔ چاہے وہ تاریخی عمارتوں کے ساتھ چھیڑ خانی کا معاملہ ہو یا شہروں کے ناموں کو بدلنے کا۔ یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ ”جب تک شیر کے پاس خود کی تاریخ محفوظ نہیں ہوگی، تاریخ میں ہمیشہ شکاری کو گلوری فائی کیا جائے گا۔“

DILSHANA SUMAYYA PK

Faculty of Usool-ud-deen,

Al Jamia AL Islamiya,

Santhapuram, Kerala,

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں