ماپلا بغاوت کی غلط تعبیرات

0

محمد شاہ ایس

یہ عنوان تھوڑا سا پیچیدہ ہے۔لیکن اس کے باجود میں نے اسے ایک مخصوص تصور تاریخ کی بالادستی کو ختم کرنے کے لیے اختیار کیا ہے۔ اُن طبقات کے افراد میں،جنہیں روز مرہ کے محاورے میں ’مظلوم طبقات‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے، تاریخ میں ان کے مقام اور شناخت کے حوالے سے ایک اضطراب کی کیفیت پائی جاتی ہے۔یہ کیفیت تاریخ کے موجود نہ ہونے کے احساس کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔یہی احساس جس کی موجودگی کا ہم پر اکثر الزام لگتا ہے، مذکورہ بالا اضطراب کا سبب ہے۔یہ اضطراب تاریخ کے ہمارے تصور جس میں ہم تاریخ کو علوم انسانی کا واحد معمار سمجھتے ہیں،کا بھی نتیجہ ہوتا ہے۔اس مقالے میں پوری کوشش رائج تصور تاریخ کو’نظریہ جبر‘(Theory of Determinism) سے تعبیر کرتے ہوئے اسے جڑ سے اکھاڑنے پر صرف کی گئی ہے۔تاریخ سے متعلق کئی نظریاتی مقدمات ہیں جو اس مقالے کی تحریر کا محرک بنیں۔ ان میں سے ایک چارلس ہرشکند (Charles Hirsckind) کا یہ مقدمہ بھی ہے جس کے مطابق ’تاریخ کوئی خلاء نہیں ہے۔‘حالانکہ تاریخ ایک خلا ء ہے جس پر جدید لادینی معروضیت کے نظریات اور معقولیت کے ذریعے قبضہ کرلیا گیا تھا۔میں ان مقدمات کی نام نہاد آفاقیت پر بھی سوال اٹھانا چاہوں گا جس کے ذریعے تاریخ کے بعض دعووں کی توثیق کی جاتی ہے اور بعض دوسرے لمحات اور حالات، جو اکثر تاریخ کے طے شدہ مقدمات کی خلاف ورزی کرتے ہیں، کو مزعومہ قرار دیا جاتا ہے۔اس مقالے میں میری گفتگو مائیکل فوکو(Michel Foucault)کے خیالات پر بھی مرکوز ہوگی جو ایک معروف اسکالر ہیں جنہوں نے نظریہ جبر کے طور پر تاریخ کے امکانات کو دریافت کیا۔اس کے علاوہ ماپلا بغاوت (Mappila Rebellion) پر بھی گفتگو ہوگی۔

            میں دو کہانیاں بیان کرتا ہوں۔ ان کہانیوں سے ممکن ہے آپ پہلے ہی واقف ہوں،لیکن اس کے باوجودیہ اپنے اندر وہ پیغام رکھتی ہیں جس کی بنا پر آپ تاریخ کی تنقیدی سمجھ پیدا کر سکتے ہیں۔اکتوبر 1843میں کارپرت کرشنا پانیکر(Karpratt Krishnappanikar) جو ایک زمیندار تھے،کی ملازمہ جن کا نام چکی(Chakki)تھا اور جن کا تعلق نچلی ذات سے تھا، نے اسلام قبول کرلیا اور اپنا نام عائشہ رکھ لیا۔اس زمانے میں نچلی ذات کی خواتین کو اعلی ذات کے زمین داروں کے سامنے اپنی چھاتی چھپانے کی اجازت نہیں تھی۔ممبورم سید علوی جعفری تانگل کے ذریعے اسلام قبول کرنے کے بعد عائشہ اپنے سینے پر کپڑا ڈالنے لگیں اور اسکارف پہننے لگیں۔اگلے روز کرشنا پانیکرنے عجیب منظر دیکھا کہ چکی (عائشہ) نہ صرف اپنی چھاتی کو چھپائے ہوئے ہے بلکہ وہ اسے اس کے نام سے پکار رہی ہے اور اس کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے کی ہمت کررہی ہے۔ اس تبدیلی سے کرشنا پانیکرطیش میں آگئے اور انہوں نے عائشہ کو سزا دینے کا حکم سنایا۔نیز انہوں نے عائشہ کا بالائی کپڑا پھاڑ کر اس کی توہین بھی کی۔یہ خبر مبورم سید علوی جعفری تانگل تک پہنچی۔ ان کے بعض لوگوں نے غصے میں آکر کرشنا پانیکرسے انتقام لینے کا فیصلہ کیا اور 19اکتوبر 1843کو ان میں سے ایک نے پانیکر کا قتل کردیا۔برطانوی پولس نے قاتلوں کو تلاش کرنا شروع کیا اور 24اکتوبر کو ایک انکاؤنٹر میں ان تمام کو ہلاک کردیا۔بعد میں ماپلا سماج میں ان لوگوں کو شہید کے طور پر یاد کیا گیااور ان کی یاد میں مرثیے لکھے گئے۔

            دوسری کہانی،تھوپیاٹا کوچو کایان مسلیار، ایک نومسلم جن کا تعلق چیروما(Cheruma) ذات سے تھا، اسلامی علوم حاصل کرنے کے شوقین تھے۔فاؤسیٹ(Fawcett)کی روایت کے مطابق ایک دن لکڑی کے چپل پہن لینے کی وجہ سے تھوور ادھیکار(اعلی ذات سے تعلق رکھنے والا ایک زمیندار) نے ان کے ساتھ ناروا اسلوک کیا اورانہیں دھمکی دی کہ چوں کہ ان کا تعلق چیروما ذات سے ہے اس لیے وہ لکڑی کے چپل نہیں پہن سکتے اور اگر آئندہ کبھی انہوں نے اس کی ہمت کی تو انہیں زدکوب کیا جائے گا۔ونٹر بوتھم(Winterbotham)کی روایت کے مطابق زمیندار نے انہیں اس کا راستہ ’ناپاک‘ کرنے کی وجہ سے بھی ٹارچر کیا۔ابتداء میں انہوں نے سوچا کہ زمین دار ٹھیک ہی کہہ رہا ہے،نچلی ذات کا ہونے کی وجہ سے انہیں لکڑی کے چپل پہننے کا حق نہیں ہے۔البتہ بعدمیں مسلیار کو محسوس ہوا کہ یہ توہین دراصل ان کی مسلمان شناخت کی وجہ سے ہوئی ہے۔اس کا ذکر انہوں نے اپنی اہلیہ سے کیا اور اس بات پر سخت ندامت کا اظہار بھی کیا کہ وہ بروقت اس توہین کا جواب نہیں دے سکے۔اس توہین نے آخر کار چوکایان مسلیارکو مجبور کیا کہ وہ اپنے ساتھی ماپلا افراد کو زمیندار کے خلاف منظم کریں،یہ تنظیم ایک متشدد شورش و ہنگامے پر منتج ہوئی۔باغیوں میں سے ایک،جس نے شورش سے پندرہ گھنٹے قبل ہی اسلام قبول کیا تھا، پولس کے ذریعے مارا گیا۔) ان واقعات کو سامراجی(Colonial)،مارکسی(Marxist)اور قوم پرست(Nationalis)تاریخ نگار ’مذہبی جنون‘(Fanaticism)سے تعبیر کرتے ہیں۔

             ایک ایسے تصور تاریخ،جس میں تاریخ کو ایک ایسی تھیوری کے طور پر سمجھا جاتا ہے جو چند مخصوص تصورات یا بیانیوں کی ہی شہادت دیتی ہے، پر از سر نو غورکرنے کی ضرورت ہے۔ یہ مقالہ تاریخ کے اسی تصور پر نظر ثانی کرنے کے لیے ہے جس میں تاریخ کا تسلط تمام علوم پر قائم ہے اور یہی وہ تصورہے جو علم کے دائرے سے خدا، روح اور غیب کو نکال باہر کرنے کا ذمہ دار ہے۔ایم ٹی انصاری نے ولیم لاگن کی ماپلا طبقہ کی تاریخ پر جو تجزیہ کیا ہے،اس کی توجیہ کا ایک ذریعہ ہے۔ایم ٹی انصاری ماپلا طبقہ کی تاریخی اصل کے حوالے سے موجود تجسس آمیز ابہام کی طرف اشارہ کرتے ہیں،اس کے باوجود تاریخ کو تاریخ کے وجود کی علامت کے طور پرلکھنے کی لاگن(Logan) کی کوشش کو سراہتے ہیں۔ماپلا بغاوت کے پس پردہ اسباب،علل اور عوامل کے بارے میں مختلف رائیں پائی جاتی ہیں۔مثال کے طور پر اسٹیفن ڈیل (Stephen Dale) بغاوت کو ’علاحدگی پسند گروہ‘ کی بغاوت کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ان کے مطابق یہ ایک ایسا گروہ ہے جو جہاد کے لیے خود کش عزائم رکھتا ہے۔ڈیل ماپلا طبقہ کی ’علاحدگی پسند‘ ذہنیت کی مختلف مثالیں تراشتے ہیں جسے مذہبی خود کش جہاد کے تصور سے پرجوش بنایا گیا تھا۔ڈیل کی رائے کہ جواب میں پانیکر کہتے ہیں کہ بغاوت کے اسباب و علل پر گفتگو کرتے ہوئے ڈیل بغاوت کے مادی اور سماجی نتائج کو نظر انداز کردیتے ہیں۔جب کہ سامراجی ذہنیت رکھنے والے تاریخ نگار اس پر اپنی استشراقی ذہنیت سے نظر ڈالتے ہیں،اوربغاوت کو ’مذہبی انتہاپسندی‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔مارکسی تاریخ نگار،بشمول پانیکر،گنگادھرن اور تھراکن، اس کی مارکسی توجیہ کرتے ہوئے ماپلا عوام کی اس وقت کی تاریخی-سماجی-معاشی بدحالی کو بغاوت کا اصل سبب قرار دیتے ہیں۔کوئی بھی تاریخ نگار ہو، سب نے ماپلا بغاوت کے سبب کے طور پر مشترکہ طور پر دو ہی چیزیں پیش کی ہیں یا تو ’مذہبی انتہا پسندی‘ یا ’معاشی بدحالی‘۔

            اگرچہ کہ مذکورہ بالا مورخین یا تو طبقاتی ہیئت اور اس سے متعلق سماجی عدم مساوات کی طرف اشارہ کرتے ہیں یا خلافت مومنٹ اور قومی تحریک آزادی کو ماپلا بغاوت کی اصل علت قرار دیتے ہیں،اس ’حقیقت‘ پر ان سب کا اتفاق ہے کہ یہ دراصل ماپلا افراد کی مذہبی انتہا پسندی تھی کہ جو بغاوت پر منتج ہوئی۔یا صاف لفظوں میں کہا جائے تو اصل بات یہ ہوگی کہ تحریک آزادی اور کسانوں کی شورش (Peasant Insurgency) کے برخلاف،جن کی توجیہ کی جا سکتی ہے اور کی گئی ہے،ماپلا افراد کا ’مذہبی جنون‘ ناقابل توجیہ ٹھہرا۔ہرچندکہ ابتدا میں ہندو حضرات خلافت مومنٹ کاایک اہم حصہ تھے (قوم پرستانہ بیانیہ)، یہ بغاوت اچانک ہندو زمین داروں کے خلاف ہوگئی (کسانوں کی شورش کا بیانیہ)اور بالآخر یہ جنوبی مالابارکے ماپلا سماج کی تحریک بن کر رہ گئی(مذہبی کرن)۔حالانکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ مالابار کے علاقہ میں،جو ماپلا تحریک کا مرکز تھا،خلافت مومنٹ کے اثرات انتہائی کم تھے۔ایم ٹی انصاری کی تحقیق در اصل اس سوال کے ارد گرد گھومتی ہے کہ ماپلا بغاوت کے اسباب پر صحیح تجزیہ کس کا ہے؟ مارکسی تجزیہ جس کے مطابق معاشی بدحالی اصل سبب تھا؟قوم پرستانہ تجزیہ جس میں تحریک آزادی کے بیانیے مرکزی اہمیت رکھتے ہیں؟یا سامراجی تجزیہ جس کے مطابق اصل سبب مذہبی انتہا پسندی تھی؟اس کے باجود مذہبی انتہاپسندی(Fanaticism)کی اصطلاح کا استعمال اکثر اسلام کے نام کے ساتھ ہوتا رہا،درآں حالیکہ دوسرے علاقوں،مثلا شمالی مالابار، کے مسلمان اس بغاوت میں پورے طور پر شامل بھی نہیں تھے۔ طبقاتی کشمکش تاریخی طور پرقابل توجیہ تھی(گنگادھرن،پانیکر اور ای ایم ایس کے مطابق)،مذہب بھی اپنے مخصوص معنوں میں کسی حد تک ذمہ دار تھا(پانیکرکے مطابق)اور قومیت سب سے بڑے سبب کے طور پر سامنے آئی۔اس طرح کے ہر تجزیے میں جس کا مقصد ماپلا سماج کے ’ارتکاب کردہ‘ تشدد کانقشہ بڑھا چڑھا کر کھینچنا ہوتا ہے،’مذہبی انتہا پسندی‘ کو مرکزیت حاصل ہوگئی ہے۔ایم ٹی انصاری کی کوشش ہے کہ وہ تاریخی طور پر بتا سکیں کہ اس مذہبی انتہا پسندی کا جھوٹ سامراجی مورخین نے گھڑا ہے۔

MUHAMMED SHAH S

Independent Researcher

Kerala

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Verified by MonsterInsights