نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے

ایڈمن

شیخ احمدضیاء تلنگانہ آج مرزا سے جب ہم ملے وہ کچھ گنگنارہے تھے اور بڑے خوشگوار موڈ میں دکھائی دکھائی دے رہے تھے۔ہمارے استفسار پر کہنے لگے میاں اکبر الہٰ آبادی بھی بڑی پتے کی باتیںکہہ گئے ہیں ہمیں آج…

شیخ احمدضیاء تلنگانہ

آج مرزا سے جب ہم ملے وہ کچھ گنگنارہے تھے اور بڑے خوشگوار موڈ میں دکھائی دکھائی دے رہے تھے۔ہمارے استفسار پر کہنے لگے میاں اکبر الہٰ آبادی بھی بڑی پتے کی باتیںکہہ گئے ہیں ہمیں آج ان کا ایک شعر یاد آگیا جو ہم صبح سے گنگنارہے ہیں اور مزے لوٹ رہے ہیں۔ ہم نے کہا آخر وہ کونسا شعر ہے جو آپ جیسے ادب بیزار شخص کو اتنا مسحور کررہاہے ۔کہنے لگے میاں اکبر الہٰ آبادی نے برسوں پہلے آج کے معاشرہ کی حالت کو نظر میں رکھتے ہوئے کیا خوب کہا
’’اٹھا کر پھینک دوان کو گلی میں …نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے‘‘

آج ہم اگر اپنے معاشرہ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلے گا کہ ہمارے اسلاف نے گندے انڈوں کو گلی میں نہ پھینک کر بہت بڑی غلطی کی ۔ اگر وہ بروقت فیصلہ کرتے اور اکبرالہ آبادی کی بات مان لیتے تب آج جو ہم معاشرہ دیکھ رہے ہیں وہ اس قماش کا نہیں رہتا۔ آج ہم جس معاشرہ میں زندگی گذاررہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ وہ دن بدن اپنے اقدار کھورہاہے۔معاشرہ کا ہر فرد ایک دوسرے کا دشمن بنا ہوا ہے۔ دوسروںکو ترقی کرتے ہوئے دیکھ کر خوش ہونا ہمارے بس میں نہیں رہا۔ انتہائی قریب ترین رشتہ دار ہو یا دوست، سب سے بدترین دشمن ثابت ہورہاہے۔ معاشرہ میں پھیلی ہوئی یہ برائی،نفسانفسی کا عالم اور خود غرض ذہنیت کیوں پنپ رہی ہے ۔اگر ہم گہرائی سے جائزہ لیں تب پتہ چلے گا کہ ان تمام برائیوں کی جڑ ہے دولت سے رغبت اور کم سے کم وقت میں زیادہ زیادہ دولت بٹورنا۔خواہ اس سے کسی دوسرے کا نقصان عظیم کیوں نہ ہوجائے۔مادیت پرستی حد سے زیادہ بڑھ چکی ہے جو باہمی خلوص کوختم کررہی ہے دولت کی ہوس نے رشتوں کاتقدس ختم کردیا ہےFinancial Statusہی دراصل Social Statusبن گیاہے۔

جوشخص جتنا زیادہ دولت مند ہے وہ اتنا ہی معتبر اورمعزز ماناجاتاہے۔ دانشور غریب کو پاگل سمجھاجارہاہے اور پاگل رئیس کی باتوں کو فلسفہ کا نام دیاجارہاہے۔ دولت کی غیر مساوی تقسیم معاشرہ کو تباہی کے دہانے پر لاچکی ہے۔امیر کا امیر ترین ہوجانا اور غریب کا غربت کی نچلی سطح کو چھولینا معاشرہ کوتباہ وبرباد کررہاہے۔ امیروں کی کندہ ناتراش اولاد فہم وادراک کے خانوں میں رکھی جارہی ہے جبکہ ذہین ترین غریب نوجوان ٹھوکریں کھاتے پھررہے ہیں۔غریب گھرانوں کی حورنمادوشیزائیں تاحیات کنواری بیٹھ رہی ہیں او ررئیس گھرانوں کی بدصورت جاہل اور غیر معیاری لڑکیاں معزز گھرانوں کی بہو بننے کا شرف پارہی ہیں۔

ہرشخص خود سے زیادہ امیر،خود سے زیادہ مشہور اور نامور شخصیت سے رشتہ جوڑنے کی فکر میں ہے اور اپنے سے کمتر کی سمت دیکھنا بھی ناگوار اور معیوب سمجھ رہاہے۔ امیروں کی غلطی کوہنر ٹھہرایا جارہاہے۔امیروںکا اسراف سخاوت امیروں کی مکاری ہوشیاری اور امیروں کی بدچلنی کو تفریح کانام دیاجارہاہے۔رئیس گھرانوں کے جاہل لڑکے کپڑے کم اورموٹر گاڑیاں زیادہ بدل رہے ہیں جبکہ غریب نوجوان کسی اچھی کمپنی کی چپل خریدنے کی سکت سے بھی محروم ہوگئے ہیں۔ علماء ،مشائخین اکابرین و امراء کے بچوں کا نکاح صرف دکھاوے کی خاطر مسجدوں میں انجام پارہاہے اور ڈنر کے مزے اشوکا، بنجارہ،ہلٹن اور اوبرائے جیسی فائیو اسٹاف ہوٹلوں میں لوٹے جارہے ہیں۔ تقریب نکاح میں مختصر تعداد شریک ہوتی ہے اور ڈنر کے لئے شہر کاہرنام نہاد معززین حاضر ہوجاتاہے۔دوسرے دن یہی معزز اصلاح معاشرہ کی ڈائس سے پُراثر اور بہترین لکچر جھاڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ بے عمل عالموں کی تعداد بڑھ گئی ہے جس کی وجہ سے معاشرہ پر کسی کی بات بھی اثر انداز نہیں ہورہی ہے ۔

بڑوں کا ادب اور چھوٹوں سے شفقت کے جذبے کا معاشرہ میں فقدان ہے ۔کوئی کسی کے قابو میں نہیں ہر شخص بے راہ روی کا شکار ہے ۔ حصول تعلیم نمائش ہوگئی ہے لاکھوں روپیئے خرچ کرتے ہوئے امراء اپنے ناقص الذہن بچوں کو فائیواسٹار کالجوں کو بھیج رہے ہیں اور ان کی یہ بگڑی ہوئی اولاد کالجوںکے تعلیمی ماحول کو بگاڑنے کاذمہ لئے ہوئے ہوتی ہے۔

بہترین ملبوسات بہترین سواری ایک ہاتھ میں سیل فون دوسرے ہاتھ میں کسی رئیس کی بگڑی ہوئی لڑکی کا ہاتھ غرض ایک طوفان بدتمیزی ہے جو پورے ماحول کو آلودہ کررہاہے۔ دوسری طرف غریب نادار ذہین ترین طلباء فیس کی کمی،کماکر خاندان کو پالنے کی فکر اوردوسرے تفکرات زمانہ کے باعث تعلیم ادھوری چھوڑرہے ہیں۔ امیروںکو چھینک بھی آجائے تب شہر کے بڑے سے بڑے دواخانے تک رسائی اور غریب چھوٹے موٹے امراض کے لئے دوائی نہ ہونے کی وجہ سے صحت کو ترس رہے ہیں۔ایک ماں اور بیٹی بازار میں جب نکل رہے ہیںماں برقعے میں مکمل پردہ کی پابند دکھائی دے رہی ہے اور جوان بیٹی کسی فلمی ہیروئین کی مانند دعوت نظارہ دیتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔سرپرست خاندان کا لفظ لغت سے غائب ہوگیاہے نوجوانوں کی مختلف مذہبی جماعتوں سے وابستگی ایک رسم لگ رہی ہے یہ نوجوان مذہب کی روح سے کوسوں دور ہورہے ہیں اور دوسری اقوام کے سامنے مذہب کی غلط اور بگڑی ہوئی تصویر پیش کررہے ہیں۔

ایک عورت کی تعلیم ایک خاندان کی تعلیم کانظریہ غلط ثابت ہورہاہے۔ تعلیم عورت معاشرہ پر بوجھ بن رہی ہے ۔ملت کو زیور تعلیم سے سنوارنے کا نظریہ نقصاندہ ثابت ہورہاہے۔تعلیم یافتہ مسلمان قوم کو دوسرے درجہ کی چیز سمجھ رہاہے۔ غریب، غریب کادشمن بن رہاہے ۔ ہرشخص اپنے سے دولت مند کی طرف مائل نظر آرہاہے۔ غریب ترین خاندان کے نوجوان اپنی خوش نصیبی اور ملت کے دردمنداصحاب کی مدد سے اچھی پوزیشن حاصل کرتے ہی غریب اور غریبوں کو فراموش کررہے ہیں اور ملت کے دوسرے افراد کو کمتر و ناکارہ سمجھ رہے ہیں۔ اپنی لڑکی کی شادی کے لئے پاپڑبیلنے والے اور سماج کو کوسنے والے اشخاص اپنے لڑکوںکے لئے آسمان کو چھونے والے معیارات مقرر کررہے ہیں۔ذاتی مفادات کے لئے مذہب کاسہارا لیاجارہاہے۔ حصول مقصد کے فوری بعد مذہب بیزاری کا مظاہرہ ہورہاہے۔ اساتذہ جن کے ذمہ آنے والی نسلوں کو سنوارنے کی ذمہ داری ہے اپنے پیشہ سے انصاف نہیں کررہے ہیں۔ اساتذہ کی بے راہ روی طلباء و طالبات کے کردار کوبھی متاثر کررہی ہے۔ چندباروزگار خواتین غلط مثالیں پیش کررہی ہیں۔جن کی وجہ سے پوری قوم بدنامی کا شکار ہورہی ہے۔

ہم نے مرزا کو روک لینا مناسب سمجھا ورنہ ایسا لگ رہاتھاجیسے مرزا نے یہ طئے کرلیا ہو کہ معاشرہ کا مکمل پوسٹ مارٹم کردیاجائے۔ہم نے مرزا کو سمجھایا کہ معاشرہ کے بگاڑ میں ہم خود بھی حصے دار ہیں۔ معاشرہ کا ہر فرداگر باخلوص ہوجائے تب مکمل معاشرہ خود بخود سدھرجائے گا۔ ہر دور میں نئی نسل Generation Gapکا شکار ہورہی ہے اور اس نسل کو قابو میں رکھنے کے لئے بزرگوں اور سرپرستوں کو بہت ہی محتاط رہنا ہے تاکہ یہ نسل بے راہ روی کا شکار نہ ہوجائے اور ملت کی کشتی منجدھار میں نہ پھنس جائے۔ہر دور میں مصلحین قوم کو ان تمام شکایات کا سامنا کرناپڑا۔ مصلحین کی نیک نیتی نے ان کے مشن کو کامیاب کیا اگر آج ہم ہماری نسل پر قابو پانے میں ناکام ہیں تو یہ صرف اور صرف ہماری کوتاہی اور نااہلی کے باعث ہے اسی لئے شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے فرمایا ؎
آئینِ نوسے ڈرنا طرزِ کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں